انٹرویو انٹرویو وِد فرحت کیانی

قیصرانی

لائبریرین
فننش تعلیمی نظام اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر سمجھا جاتا ہے اور اس کا موٹو Less is more ہے۔ یعنی جب سکول ختم ہوا تو پڑھائی بھی ختم۔ ہفتے میں دو تین روز ہلکا پھلکا ہوم ورک ملتا ہے اور بس۔ یہاں چند ایک ہی پرائیوٹ سکول ہیں لیکن وہ بھی زیادہ تر سوئیڈش بولنے والے اور انگریزی بولنے والوں کے لئے مخصوص ہیں
 

تعبیر

محفلین
پہلی دو شخصیات کے بارعب :waiting: ہونے میں تو کوئی کلام نہیں نایاب بھائی۔ لیکن میں تو کوشش کے باوجود رعب دار شخصیت نہیں بن پائی :(
میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں فرحت :) کیوں رعب نہیں پڑتا ؟
اور میں باقاعدگی سے آپ کا انٹرویو پڑھ رہی ہوں لیکن آج والے جوابات نہیں پڑھ پائی :(

تعبیر واقعی اتنی خوش مزاج اور خوش دل ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی الگ تھلگ رہ ہی نہیں سکتا۔
بہت شکریہ فرحت لیکن آجکل تو میں بہت خشک مزاج اور خشک دل ہو گئی ہوں :p:ROFLMAO::p
کیونکہ ہر ایک تو شکایت ہے مجھ سے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واؤ اپنے بہت تفصیل سے اور بہت اچھے جوابات لکھے ہیں۔۔۔ ۔ آپکے ساتھ تو تھوڑا وقت گزارنا چائیے تاکہ ہم جیسے لوگ بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیں آپ سے۔۔۔ ۔ میرا بھی ایک سوال ہے جیسا کہ آپ نے بچوں کی تعلیم اور اسکول کے بارے میں لکھا ہے تو اسی حوالے سے سوال یہ ہے کہ ایک عام ماں جو کہ خود اسی طرح کے سسٹم سے تعلیم لیکر نکلی ہو۔۔۔ وہ اتنے complex and competitive ماحول میں اپنے بچے کی تربیت اس طرح کیسے کرے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی ہو اور practically بھی کامیاب ہو
بہت شکریہ ملائکہ۔چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ سکھا تو شاید میں کچھ بھی نہیں سکتی لیکن آپ سے میں نے کچن اور تاریخ دونوں میدانوں سے متعلق اتنا کچھ سیکھ لینا ہے ۔۔اس کا تو مجھے یقین ہے۔ :)
اچھا آپ کے سوال کا جواب جلدی لکھتی ہوں ان شاءاللہ۔ آج مصروفیت کچھ زیادہ ہے۔

تعلیم کے حوالے سے کچھ سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں ورنہ میں زیادہ سوالات نہیں کرسکتا
فرحت کیانی

1) پاکستان میں جو زیادہ روانی سے اور اچھی انگریزی بولتا ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ ایسا کیوں ؟
2) یہاں پڑھے لکھے ہونے کا کیا معیار ہے ؟
3) کیا آپ ملک میں رائج طریقہ تعلیم و نصاب سے مطمئن ہیں ؟
بہت شکریہ فراز :) ۔ مجھے آپ کے سوالات دیکھ کر خوشی ہوئی۔ تھوڑا سا وقت چاہئیے ہو گا۔ میں کوشش کرتی ہوں جلدی اپنے جواب لکھ سکوں۔

اگر فرحت نے وزیراعظم بننا ہے تو مجھے صدرِ مملکت بنائیں پھر! :p
وہ کیوں بھلا؟ :thinking:
ویسے اگر میرے وزیرِ اعظم بننے کی شرط پر صدر بننا ہے تو 'ایہہ تے فیر نہ کرنے والی گَل ہوئی ناں' :openmouthed:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
زبردست۔۔۔ ۔واقعی میں بہت،بےحد جاندار،حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان جوابات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔۔۔ ۔کاش کوئی حکومتی بندہ یہاں کا رخ کرلے اور ان نظریات کو پڑھ لے۔۔۔ ۔کاش ہماری آئیندہ پرائم منسٹر فرحت کیانی بن سکتی ہوتیں۔۔۔ ۔فرحت ملائکہ کا سوال بہت عمدہ ہے،۔۔۔ اور مجھے آپ کے جواب انتظار رہے گا۔

آپ کے جوابات واقعی بلاتبصرہ ہیں۔:)
:surprise: یہ کیا کہہ رہی ہیں امن۔ میں تو ویسے بھی پرائم ٹائم پر سونے والوں میں سے ہوں۔ :angel2:
پسندیدگی کے لئے بہت شکریہ :)

اچھا فرحت اوپر باباجی کے کچھ سنجیدہ سوالات بھی جوابات کے منتظر ہیں۔۔۔ ۔اور ان کے بعد بلال اعظم کے 100 سوال آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ۔مجھے امید ہے آپ اپنا حوصلہ بلند رکھیں گی۔:lol:
جی امن۔ میں ان شاءاللہ ملائکہ اور فراز دونوں کے لئے جوابات لکھتی ہوں۔ ایک کام نمٹانا ہے پہلے۔
بلال کے ایک سو سوال :confused3:۔ :( ۔ ان سوالوں کی تعداد اگر کم کر دیں پلیز تو ممنون ہوں گی۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فننش تعلیمی نظام اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر سمجھا جاتا ہے اور اس کا موٹو Less is more ہے۔ یعنی جب سکول ختم ہوا تو پڑھائی بھی ختم۔ ہفتے میں دو تین روز ہلکا پھلکا ہوم ورک ملتا ہے اور بس۔ یہاں چند ایک ہی پرائیوٹ سکول ہیں لیکن وہ بھی زیادہ تر سوئیڈش بولنے والے اور انگریزی بولنے والوں کے لئے مخصوص ہیں
جی۔ فننش تعلیمی نظام کی ایک خوبی اس کا پریکٹیکل ہونا ہے۔ اصولاً سکولنگ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سب کچھ وہیں سیکھا جائے۔ گھر کے لئے کام صرف skill practice ہوتی ہے۔
مجھے سویڈن کا تعلیمی نظام کافی دلچسپ اور عملی محسوس ہوتا ہے خصوصاً 2010ء کی اصلاحات کے نفاذ کے بعد اس میں مزید بہتری آ گئی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں فرحت :) کیوں رعب نہیں پڑتا ؟
اور میں باقاعدگی سے آپ کا انٹرویو پڑھ رہی ہوں لیکن آج والے جوابات نہیں پڑھ پائی :(

تعبیر واقعی اتنی خوش مزاج اور خوش دل ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی الگ تھلگ رہ ہی نہیں سکتا۔
بہت شکریہ فرحت لیکن آجکل تو میں بہت خشک مزاج اور خشک دل ہو گئی ہوں :p:ROFLMAO::p
کیونکہ ہر ایک تو شکایت ہے مجھ سے
بس تعبیر یہ ایک طویل کہانی ہے۔ جس میں سرد آہوں کا استعمال کثرت سے ہو گا۔ بس لوگ میرے رعب میں آتے ہی نہیں :(
آپ نے تو خوش کر دیا مجھے صبح صبح کہ آپ بھی یہ دھاگہ پڑھ رہی ہیں :) ۔ اس لئے آپ کے آخری بیان یعنی خشک مزاج اور خشک دل والے بیان کو میں رد کر رہی ہوں۔ ویسے بھی کبھی کبھار مزاج میں تبدیلی آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم واقعی زندہ ہیں۔ اور دوسروں کا ہم شکایتیں ہونے کا مطلب یہ کہ ہماری کیئر کی جا رہی ہے۔ اس لئے آپ کا بیان داخل دفتر کیا جا رہا ہے :jokingly:۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
شکریہ فرحت تفصیلی جوابات کے لیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ پسندیدہ کلام کے لیے بھی کچھ وقت نکال سکیں گی۔

والسلام
بہت شکریہ وارث۔ مجھے آپ کے سوالات دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی تھی کہ لکھتی ہی چلی گئی۔ :)
بالکل۔ ان شاءاللہ کوشش کروں گی کہ پسندیدہ کلام میں باقاعدگی سے پڑھوں بھی اور پوسٹ بھی کروں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک دن کی صدارت میں اتنے کام نہیں ہو سکتے۔
مجھ سے پوچھا ہوتا تو میں کہتا کہ ایک دن کی صدارت ملنے پر میں سب سے پہلا کام یہ کرتا کہ "تاحیات صدر رہنے کے لیے کیا طریقہ استعمال کیا جائے" باقی کام بعد میں ہوتے رہتے۔
دل تو میرا بھی یہی چاہ رہا تھا شمشاد بھائی لیکن جب موجودہ اور ان سے پہلے والے صدر صاحب کے لئے عوام کے دل میں ٹھاٹھیں مارتی محبت کا خیال آیا تو میں نے شکر کیا کہ امن ایمان نے ایک دن ہی کی قید لگائی۔ بال بال بچ گئی میں تو:whew:۔ :openmouthed:
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث۔ مجھے آپ کے سوالات دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی تھی کہ لکھتی ہی چلی گئی۔ :)
بالکل۔ ان شاءاللہ کوشش کروں گی کہ پسندیدہ کلام میں باقاعدگی سے پڑھوں بھی اور پوسٹ بھی کروں۔

واہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے یعنی آپ کا لکھتے چلا جانا، میری خوہ مخواہ نادم ہو رہا تھا کہ آپ کو سوالات سے تکلیف پہنچائی :)
 

عینی شاہ

محفلین
جی اب ہو جائیں کچھ کوئسچنز آپ سے فرحت آپی :rolleyes:
1۔ آپ کی سب سے بہترین کامیابی کون سی ہے جو ابھی تک بھی آپ کے لیئے ایک آنر ہے ؟
2۔آپکو کبھی وہم ہوا؟ اگر ہوا تو اسے کیسے دور کرتی ہیں ؟
3۔کوئی ایسی بات یا چیز جو آپکو بہت جزباتی کر دے ؟پھر کیا کرتی ہیں آپ اگر ایسا ہو تو ؟
4۔ کوئی ایسی تاریخی پرسنالٹی جس سے آپ ملنا چاہتی ہیں اور کیوں ؟
5۔ہمارے ملک میں یا آپ کے آراونڈ کون سی ایسی چیز ہے جیسے آپ دیکھ کر بہت زادا ڈیپریسڈ ہو جاتی ہیں ؟
ابھی کے لیئے اتنے پھر اور سوچتی ہوں :):):)
 
جی اب ہو جائیں کچھ کوئسچنز آپ سے فرحت آپی :rolleyes:
سوالات
1۔ آپ کی سب سے بہترین کامیابی کون سی ہے جو ابھی تک بھی آپ کے لیئے ایک آنر ہے ؟
اعزاز
2۔آپکو کبھی وہم ہوا؟ اگر ہوا تو اسے کیسے دور کرتی ہیں ؟
3۔کوئی ایسی بات یا چیز جو آپکو بہت جزباتی کر دے ؟پھر کیا کرتی ہیں آپ اگر ایسا ہو تو ؟
جذباتی
4۔ کوئی ایسی تاریخی پرسنالٹی جس سے آپ ملنا چاہتی ہیں اور کیوں ؟
شخصیت
5۔ہمارے ملک میں یا آپ کے آراونڈ کون سی ایسی چیز ہے جیسے آپ دیکھ کر بہت زادا ڈیپریسڈ ہو جاتی ہیں ؟
آس پاس۔زیادہ۔مضمعل
ابھی کے لیئے اتنے پھر اور سوچتی ہوں :):):)
 

عاطف بٹ

محفلین
وہ کیوں بھلا؟ :thinking:
ویسے اگر میرے وزیرِ اعظم بننے کی شرط پر صدر بننا ہے تو 'ایہہ تے فیر نہ کرنے والی گَل ہوئی ناں' :openmouthed:
وہ اس لئے کہ میں صدر ہوں گا تو آپ تعلیمی اصلاحات سہولت سے نافذ کرسکتی ہیں اور یہ ڈر نہیں ہوگا کہ صدر آپ کو کرسی سے اتار کر گھر بھیج دے گا! :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرا بھی ایک سوال ہے جیسا کہ آپ نے بچوں کی تعلیم اور اسکول کے بارے میں لکھا ہے تو اسی حوالے سے سوال یہ ہے کہ ایک عام ماں جو کہ خود اسی طرح کے سسٹم سے تعلیم لیکر نکلی ہو۔۔۔ وہ اتنے complex and competitive ماحول میں اپنے بچے کی تربیت اس طرح کیسے کرے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی ہو اور practically بھی کامیاب ہو
پہلے تو تاخیر سے جواب دینے پر بہت معذرت ملائکہ۔
یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے ملائکہ۔ ان دنوں ماؤں کے لئے بچوں کی اچھی تربیت واقعی ایک مسئلہ ہے شاید۔ میرے خیال میں اس میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ والدین کی نظر میں بچے کی مثبت پرورش میں گھر کے ماحول کی کتنی اہمیت ہے۔
بچے کی تعلیم و تربیت میں اسکول اور والدین کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے۔ والدین ہمیشہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو حسب استطاعت بہترین تعلیمی ادارے میں بھیجیں اور پھر اس کے بعد شاید لاشعوری طور پر وہ خود کو بہت سی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا فوکس بھی صرف بچے کے گریڈز پر ہوتا ہے ، اخلاقی تربیت کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہاں ماں نے بچے کو عملی زندگی میں معاشرے کے قائم کردہ معیار کے مطابق تو تیار کر دیا لیکن کردار کی تعمیر میں کچھ کمی رہ جاتی ہے۔
ہماری زندگی کے پہلے پانچ سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ ہم جو عادتیں یا باتیں اس عمر میں سیکھتے ہیں وہ کبھی نہیں بھولتے تو اگر ماں چھوٹی چھوٹی چیزیں بچے کو بتاتی رہے تو بچے کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ماں کی مکمل توجہ اور پورا وقت بہت اہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت اور توجہ کی کمی کا شکار صرف وہی بچے نہیں ہوتے جن کی مائیں جاب کرتی ہیں۔ فُل ٹائم مائیں بھی بچوں کو نظر انداز اس طرح کرنا شروع کر دیتی ہیں جب ٹیلی ویژن اور فون ان کا زیادہ وقت لے جاتے ہیں۔ اور یہی چیز بچوں کی ترجیح بھی بن جاتی ہے۔ اور بچہ چونکہ سیکھنے کی عمر میں ہوتا ہے اور اس عمر میں بچے کا ذہن فوم کے ٹکڑے جیسا ہوتا ہے جو سب کچھ بہت جلدی خود میں جذب کر لیتا ہے تو وہ ٹیلی ویژن اور فون سے بہت کچھ ایسا سیکھ جاتا ہے جو آہستہ آہستہ اس کی شخصیت میں بگاڑ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہاں ماؤں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ان کو ایک کوڈ آف کونڈکٹ سیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس حد تک بچے کو ان چیزوں کا اثر لینے کی اجازت دینی چاہئیے اور اس کے لئے انہیں خود اپنے لئے بھی حد قائم کرنی چاہئیے کہ وہ کیسی چیزیں بچے کے سامنے دیکھیں گی اور کیسی نہیں،بچے کے سامنے کس طرح کی زبان استعمال کریں گی اور دوسروں کے ساتھ کس انداز میں پیش آئیں گی۔ بچہ ٹیلی ویژن پر کیا دیکھ سکے گا اور کیا نہیں ، اس کا کون سا رویہ کس حد تک قابلِ قبول ہو گا اور کس مقام پر اس کی سرزنش کی جائے گی۔ کیونکہ جو norms بچہ گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے وہ اس کے نزدیک گھر، والدین اور معاشرے ہر جگہ پر قابلِ قبول ہوتے ہیں۔
گھر میں بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ڈالنا اور ساتھ ساتھ ہر چیز کو اخلاق ، حقوق العباد اور حقوق اللہ سے جوڑنا بچوں کے ذہن میں ان چیزوں کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو عملی زندگی میں خود کام کرنے کے لئے تیار بھی کرتا ہے۔ ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ بچوں کو وضاحت اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ بچے بہت منطقی انداز میں سوچتے ہیں اور ان کا ذہن بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کوئی بات قبول نہیں کر پاتا۔ نتیجتاً وہ کنفیوژ ہو جاتے ہیں اور یہ کنفیوژن ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔ بچے کو کسی چیز سے منع کرنا ہے یا پابندی لگانی ہے تو اس کی وجہ بھی اس کو معلوم ہونی چاہئیے ورنہ اس کی فطرت میں موجود تجسس اس کو وہ کام کرنے پر مجبور کر دے گا جس کی اس کو ممانعت کی جائے÷
پھر ماں کو گھر سے باہر بھی بچے کی صحبت کا معلوم ہونا چاہئیے اور ایسا صرف بڑے بچوں کے ہی ضروری نہیں۔ یہ ہر عمر کے بچے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ میرے خیال میں ماں باپ دونوں کو بچے کے نصاب اور کتاب کے ساتھ منسلک رہنا چاہئیے۔ بچے کی پڑھائی صرف اسکول اور ٹیوشن کی ذمہ داری نہیں والدین کو بھی اس کو اتنی ہی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ماں خود سے پڑھانے سے قاصر ہے تو وہ بچے کی پڑھتے ہوئی نگرانی تو کر سکتی ہے۔ پھر کوئی بھی نصاب ہو اس کی بنیاد کوئی نہ کوئی اخلاقی ویلیو ہوتی ہے۔ جو بچہ اسکول میں پڑھ رہا ہے اگر اسی سے متعلق چھوٹی چھوٹی مثالیں گھر میں دے دی جائیں تو بچے کے لئے ایبسٹریکٹس کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
سو میرے خیال میں ماں کو بچے کی اچھی پڑھائی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی اس کو عملی مثالوں کے ذریعے اس کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئیے۔ گھر کا ماحول بچے کو معاشرے کے مہذب شہری اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
 

باباجی

محفلین
پہلے تو تاخیر سے جواب دینے پر بہت معذرت ملائکہ۔
یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے ملائکہ۔ ان دنوں ماؤں کے لئے بچوں کی اچھی تربیت واقعی ایک مسئلہ ہے شاید۔ میرے خیال میں اس میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ والدین کی نظر میں بچے کی مثبت پرورش میں گھر کے ماحول کی کتنی اہمیت ہے۔
بچے کی تعلیم و تربیت میں اسکول اور والدین کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے۔ والدین ہمیشہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو حسب استطاعت بہترین تعلیمی ادارے میں بھیجیں اور پھر اس کے بعد شاید لاشعوری طور پر وہ خود کو بہت سی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا فوکس بھی صرف بچے کے گریڈز پر ہوتا ہے ، اخلاقی تربیت کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہاں ماں نے بچے کو عملی زندگی میں معاشرے کے قائم کردہ معیار کے مطابق تو تیار کر دیا لیکن کردار کی تعمیر میں کچھ کمی رہ جاتی ہے۔
ہماری زندگی کے پہلے پانچ سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ ہم جو عادتیں یا باتیں اس عمر میں سیکھتے ہیں وہ کبھی نہیں بھولتے تو اگر ماں چھوٹی چھوٹی چیزیں بچے کو بتاتی رہے تو بچے کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ماں کی مکمل توجہ اور پورا وقت بہت اہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت اور توجہ کی کمی کا شکار صرف وہی بچے نہیں ہوتے جن کی مائیں جاب کرتی ہیں۔ فُل ٹائم مائیں بھی بچوں کو نظر انداز اس طرح کرنا شروع کر دیتی ہیں جب ٹیلی ویژن اور فون ان کا زیادہ وقت لے جاتے ہیں۔ اور یہی چیز بچوں کی ترجیح بھی بن جاتی ہے۔ اور بچہ چونکہ سیکھنے کی عمر میں ہوتا ہے اور اس عمر میں بچے کا ذہن فوم کے ٹکڑے جیسا ہوتا ہے جو سب کچھ بہت جلدی خود میں جذب کر لیتا ہے تو وہ ٹیلی ویژن اور فون سے بہت کچھ ایسا سیکھ جاتا ہے جو آہستہ آہستہ اس کی شخصیت میں بگاڑ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہاں ماؤں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ان کو ایک کوڈ میں کونڈکٹ سیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس حد تک بچے کو ان چیزوں کا اثر لینے کی اجازت دینی چاہئیے اور اس کے لئے انہیں خود اپنے لئے بھی حد قائم کرنی چاہئیے کہ وہ کیسی چیزیں بچے کے سامنے دیکھیں گی اور کیسی نہیں،بچے کے سامنے کس طرح کی زبان استعمال کریں گی اور دوسروں کے ساتھ کس انداز میں پیش آئیں گی۔ بچہ ٹیلی ویژن پر کیا دیکھ سکے گا اور کیا نہیں ، اس کا کون سا رویہ کس حد تک قابلِ قبول ہو گا اور کس مقام پر اس کی سرزنش کی جائے گی۔ کیونکہ جو norms بچہ گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے وہ اس کے نزدیک گھر، والدین اور معاشرے ہر جگہ پر قابلِ قبول ہوتے ہیں۔
گھر میں بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ڈالنا اور ساتھ ساتھ ہر چیز کو اخلاق ، حقوق العباد اور حقوق اللہ سے جوڑنا بچوں کے ذہن میں ان چیزوں کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو عملی زندگی میں خود کام کرنے کے لئے تیار بھی کرتا ہے۔ ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ بچوں کو وضاحت اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ بچے بہت منطقی انداز میں سوچتے ہیں اور ان کا ذہن بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کوئی بات قبول نہیں کر پاتا۔ نتیجتاً وہ کنفیوژ ہو جاتے ہیں اور یہ کنفیوژن ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔ بچے کو کسی چیز سے منع کرنا ہے یا پابندی لگانی ہے تو اس کی وجہ بھی اس کو معلوم ہونی چاہئیے ورنہ اس کی فطرت میں موجود تجسس اس کو وہ کام کرنے پر مجبور کر دے گا جس کی اس کو ممانعت کی جائے÷
پھر ماں کو گھر سے باہر بھی بچے کی صحبت کا معلوم ہونا چاہئیے اور ایسا صرف بڑے بچوں کے ہی ضروری نہیں۔ یہ ہر عمر کے بچے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ میرے خیال میں ماں باپ دونوں کو بچے کے نصاب اور کتاب کے ساتھ منسلک رہنا چاہئیے۔ بچے کی پڑھائی صرف اسکول اور ٹیوشن کی ذمہ داری نہیں والدین کو بھی اس کو اتنی ہی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ماں خود سے پڑھانے سے قاصر ہے تو وہ بچے کی پڑھتے ہوئی نگرانی تو کر سکتی ہے۔ پھر کوئی بھی نصاب ہو اس کی بنیاد کوئی نہ کوئی اخلاقی ویلیو ہوتی ہے۔ جو بچہ اسکول میں پڑھ رہا ہے اگر اسی سے متعلق چھوٹی چھوٹی مثالیں گھر میں دے دی جائیں تو بچے کے لئے ایبسٹریکٹس کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
سو میرے خیال میں ماں کو بچے کی اچھی پڑھائی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی اس کو عملی مثالوں کے ذریعے اس کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئیے۔ گھر کا ماحول بچے کو معاشرے کے مہذب شہری اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بہت اچھے طریقے سے بیان کیا آپ نے
لیکن پھر بھی کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے
تھوڑا اور briefly بیان کریں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تعلیم کے حوالے سے کچھ سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں
تاخیر سے جواب لکھنے کے بہت معذرت ، فراز۔
میں اپنی رائے لکھ رہی ہوں۔

1) پاکستان میں جو زیادہ روانی سے اور اچھی انگریزی بولتا ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ ایسا کیوں ؟

انگریزی کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے۔ ہمارے یہاں اس کو پڑھے لکھے ہونے سے شاید اس لئے بھی جوڑا جاتا ہے کہ ہماری زیادہ تر اعلیٰ تعلیم کا نصاب انگریزی میں ہے اور انگریزی عام بول چال کا حصہ نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی انگریزی بول سکتا ہے تو اس کو پڑھا لکھا سمجھ لیا جاتا ہے۔ لیکن انگریزی بولنا کسی طرح بھی پڑھے لکھے یا معقول ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ وہ لوگ جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور وہ یورپ یا کسی بھی ایسے ملک میں، جہاں انگریزی بولی جاتی ہے، جا کر ٹیکسی چلاتے یا مزدوری کرتے ہیں ، ان کا لہجہ بہت سے انگریزوں سے بھی بہتر ہوتا ہے کیونکہ انگریزی بولنا اور سمجھنا ان کی مجبوری ہے ورنہ وہ وہاں گزارہ نہیں کر پائیں گے۔ عرب ممالک میں رہنے والے روانی سے عربی بول سکتے ہیں اور جرمنی، سپین میں رہنے والے جرمن اور ہسپانوی زبان۔ ایک نئی زبان سیکھنا اور بولنا واقعی بہت بڑی بات ہے لیکن صرف انگریزی ہی کو کامیابی کی کنجی بنا دینے کا رویہ درست نہیں۔
میرے خیال میں اس میں معاشرتی رویوں کا زیادہ ہاتھ ہے۔ جب ہم چیزوں کو سطحی انداز میں دیکھنے کے عادی ہو جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تعلیم اس چیز کی ذمہ دار اس لئے ہے کہ ہم روایتی رٹا نما تعلیم کے عادی ہیں۔ پرکھنے کی صلاحیت جو علم کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے ، ہمیں سکھائی نہیں جاتی۔ اسی لئے ہم ہر چیز کو سطحی انداز میں دیکھتے ہیں اور مرعوب ہو ہو کر تھکتے بھی نہیں ہیں۔ کسی کا رنگ سفید ہے تو اس سے مرعوب چاہے اس کا دل کتنا ہی سیاہ کیوں نہ ہو، کوئی بہت بڑی گاڑی سے اتر رہا ہے تو اس سے متاثر چاہے اس کا کردار کتنا چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی انگریزی بول رہا ہے تو اس سے شدید متاثر چاہے وہ 'چھوٹی سی دنیا کے کردار جانو جرمن' جیسی ہی انگریزی کیوں نہ بول رہا ہے۔

2) یہاں پڑھے لکھے ہونے کا کیا معیار ہے ؟
پاکستانی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق 'ہر وہ فرد جو کوئی تحریر اور لکھ سکتا ہے ، پڑھا لکھا ہے۔'
بین الاقوامی سطح پر پڑھے لکھے ہونے کی مختلف تعریفیں ہیں لیکن بنیادی بات ایک ہی ہے کہ 'ایک پڑھا لکھا انسان وہ ہے جو بول اور لکھ کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہو، دوسروں کی رائے کو پڑھ اور سُن سکتا ہو، چیزوں کو منطقی انداز میں پرکھ سکتا ہو اور اس پرکھ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو'۔ یعنی تعلیم اس کو یہ سب کرنے کا ہُنر سکھاتی ہے۔
پاکستان میں عمومی معاشرتی رویوں کو دیکھیں تو جس نے ذرا اچھے کپڑے پہن لئے اور دو چار لفظ انگریزی کے سیکھ لئے وہ پڑھا لکھا ہے۔
اور اگر بغور جائزہ لیں تو شاید ہمارے یہاں پڑھے لکھے ہونے کا معیار یہی سمجھا جاتا ہے کہ آپ ایک ادارے سے ڈگری یافتہ ہیں۔ وہ ڈگری کہاں سے ملی ، کیسے ملی اور اس میں آپ کی کارکردگی کیسی ہے، عموماً اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

3) کیا آپ ملک میں رائج طریقہ تعلیم و نصاب سے مطمئن ہیں ؟
مجھے پاکستان کے قومی نصاب میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ قومی نصاب وہ آؤٹ لائن ہوتی ہے جو درجہ بدرجہ مختلف تعلیمی مدارج اور مضامین کے لئے ایک بنیاد فراہم کرتی ہے کہ اس تعلیمی درجے میں اس عمر کے بچوں کو کیا کیا سیکھنا چاہئیے، کون کون سے مضامین پڑھنے چاہئیں اور ان میں کیا کیا نظریات اور تھیمز شامل ہونے چاہئیں۔ پاکستانی قومی نصاب جدید بنیادوں پر استوار ہے۔ لیکن:
  • جب اس نصاب کو درسی کتابوں میں لایا جاتا ہے تو اس میں جدید تحقیق اور ضروریات کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔ نتیجتاً درسی کتب میں کمی رہ جاتی ہے جو تعلیمی معیار کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔
  • طریقہ تدریس سے تو خیر میں بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں۔ روایتی طریقہ تدریس کبھی بھی ہمیں قومی نصاب کے مقاصد حاصل کرنے اور کامیاب و مہذب شہری پیدا کرنے میں مدد نہیں دے سکتا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اچھا فرحت اوپر باباجی کے کچھ سنجیدہ سوالات بھی جوابات کے منتظر ہیں۔۔۔ ۔اور ان کے بعد بلال اعظم کے 100 سوال آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ۔مجھے امید ہے آپ اپنا حوصلہ بلند رکھیں گی۔:lol:
امن میں نے جواب دے دیئے لیکن پلیز ایک سو سوالوں والی شرط کچھ نرم کر دیں۔ اور پلیز یہ بھی نہیں بھولئے گا کہ جواب دینے والی کافی غبی واقع ہوئی ہے اس لئے ممکن ہو تو ایسے سوال تبدیل یا ختم کر دیں جو میرا ایسا حال کر دیں :confused3:۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھے طریقے سے بیان کیا آپ نے
لیکن پھر بھی کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے
تھوڑا اور briefly بیان کریں
اتنی طویل تقریر لکھی ہے میں نے فراز پھر بھی :idontknow2:۔
اگر آپ کوئی اشارہ دے سکیں پلیز تو مجھے جواب لکھنے میں آسانی ہو گی۔ :)
 
Top