انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
اک وہ بھی زمانہ تھا کہ میاں بیوی محلے والوں کو یہ بتانے سے شرماتے تھے
یہ تو بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی ہماری اماّں کہتی ہیں کہ ابا جان کبھی ہم میں کسی بہن بھائی کو اپنے بزرگوں کے سامنے گود میں نہ اُٹھاتے تھے شرم اور لحاظ کا یہ عالم کے بزرگوں کے سامنے ساتھ نہ بیٹھتے نہ اپنے بچوں کو گود میں لیتے ۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
سوشل میڈیا، فتنہ الحاد، اور ہماری نئی نسل
سوشل میڈیا کے اس دور میں ایمان کے ڈاکو کس طرح خاموشی سے ہماری آئندہ نسلوں کو الحاد یا Atheism (خدا کے وجود سے انکار) کی طرف دھکیل رہے ہیں، اس کی تفصیل اس تحریر میں پیش کی جائیگی۔بظاہر پڑھائی اور اینٹرٹینمنٹ کے لیے اپنی ناسمجھ اولادوں کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ تک غیر محدود رسائی دینے والے والدین بالخصوص اس تحریر کو پڑھیں۔ممکن ہے کہ خدا نخواستہ آپ کی اولاد اس فتنے کی زد میں آکر ایمان سے ہاتھ دھونے کے قریب ہو اور آپ بالکل لاعلم ہوں۔

ایک مسلمان کے لیے اولاد صرف ایک دنیوی نعمت ہی نہیں بلکہ آخرت کا سرمایہ اور بہترین صدقہ جاریہ ہے۔ بشرطیکہ کہ وہ صاحبِ ایمان ہو۔کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اس وقت ملحدین (خدا کے وجود سے انکاری) کی تعداد سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اور اس کا شکار عام مسلمان گھرانوں کے 15-25 سال کے بچے بچیاں ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں اور علماء کرام دن رات اس کا مشاہدہ کر رہے سو کالڈ روشن خیالی اور ماڈرن ازم کے دلدادہ والدین کے دین اسلام کی تعلیمات کی ابجد سے بھی ناواقف بچے جنہیں اس صورت حال کا قطعی ادراک یا سمجھ نہیں ان کا آسان ٹارگٹ ہیں۔ ان بچوں کو ایسی کسی صورت کے پیش نظر تربیت دینا تو دور کی بات ہے کمپیوٹر اور موبایل فون کے ذریعے دشمنوں کے ماہر کارندوں تک ڈایریکٹ رسائی فراہم کردی گئی ہے۔
سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹویٹر پر ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس ہیں جن کا کام دن رات سائنسی بنیادوں پر خدا کے وجود سے انکار، دین اسلام کے مختلف احکام کا مذاق اڑانا، حضور اقدسﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر اعتراض، اور علماء کی تضحیک ہے۔
ان میں سے اکثر کا تعلق یورپ اور امریکہ میں قائم مختلف این جی اوز سے ہے جن کا مقصد ہی یہ ہے۔
عام طور سے ان کے نام اس انداز کے ہوتے ہیں:
Ex-Muslims Together
Atheist Muslims
Muslims Liberated
Muslim Awakening
Islam Exposed
ان کے کارکنان اور ان کی تعلیمات سے اتفاق رکھنے والے سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں (جو انہی ممالک میں مقیم اور جن میں سے اکثر دین سے مکمل ناآشنا اور مغربی تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں) پاکستان، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کے نوجوانوں راغب کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ بظاہر مسلمانوں کے نام سے اکاؤنٹس رکھتے ہیں مگر فکری طور پر ملحدین ہوتے ہیں
طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ۔۔۔۔
- ابتداء اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف اسلامی احکام کو سائنس اور لاجک کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر ایسے دینی موضوعات پر بات کی جاتی ہے جو سائنس سے بھی ثابت شدہ ہیں.
اس طرح یہ ذہن سازی کی جاتی ہے کہ احکام دین سب کے سب سائنس سے مطابقت رکھتے ہیں اور جس چیز کی تصدیق سائنس کردے وہ یقیناً حق ہے۔ اس کے بعد ایسے موضوعات کو کریدا جاتا ہے جو سائنس سے بالاتر ہیں، مثلاً وجود خدا، وحی کا علم، واقعہ معراج، وغیرہ جنکا تعلق خالصتاً ایمان بالغیب سے ہے، جو یقیناً حق ہیں مگر سائنس کی دسترس سے باہر ہیں۔
مگر چونکہ ذہن سازی یہ کی گئی ہے کہ معیار حق سائنس ہے، چنانچہ ان کلیدی عقائد کو مشکوک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد معاملہ آگے بڑھتا ہے۔ اور بات حضور اقدسﷺ کی ذاتی زندگی پر آتی ہے۔ان معاملات کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے جنکی وضاحت عام ذہنی سطح سے نسبتاً بلند ہو۔ مثلاً غلامی کا فلسفہ، مرد عورت میں مساوات، حضور اقدسﷺ کی شادیاں اور باندیاں، تعدد ازدواج، سیدہ عائشہ صدیقہ کی بوقت نکاح عمر وغیرہ۔

ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لیے یہ معاملات واضح ہیں لیکن کچے ذہن کے مسلمان بچے بچیاں جو دین سے لاعلم اور مغربی طرز زندگی سے مرعوب ہیں ان کے لئے یہ باتیں نہایت پریشان کن اور ناقابل فہم ہیں۔ چونکہ دین اور علمائے دین سے تعلق ہے نہیں اس لئے قابل تشفی جواب کا کوئی راستہ نہیں نتیجتاً وہ گوگل اور انٹرنیٹ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جہاں انہی ملحدین کی مختلف ویب سائٹس ان کے شکوک کو یقین میں بدل دیتی ہیں۔ اس کے بعد ایمان تیزی سے رخصت ہوتا ہے۔ حج اور قربانی سے لے کر نکاح اور وراثت کے احکام تک اسلام کے ہر ہر حکم کو مغرب کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور بالآخر اسے ایک من گھڑت مذہب قرار دیکر خاموشی سے ترک کردیا جاتا ہے (العیاذ باللہ)
- کھلم کھلا اسلام کا مذاق اڑانا، حضورِ اقدسﷺ کی شان میں گستاخی اور خدا کے وجود سے انکار کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔
پھر یہ بچے بچیاں بھی خاموشی سے ایسی تنظیموں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو دین سے متنفر کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ خاموشی سے ہمارے گرد بیٹھے 15-25 سال کے نوجوان Twitter، فیس بک وغیرہ پر کررہے ہیں۔
لیکن ہم بے خبر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اپنی اولاد کو اس سے کیسے بچایا جائے؟

اس سلسلے میں مندرجہ زیل امور کا خیال رکھیں:
- اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے سلامتی ایمان اور استقامت کی دعا کا اہتمام کریں۔
- خود بھی اور اولاد کو بھی وقتاً فوقتاً علماء کرام کی مجالس اور بزرگانِ دین کی صحبت میں لے جاتے رہیں تاکہ وہ ان سے مانوس ہوں اور اپنے معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کریں۔
- اولاد کو خود سے قریب کریں ،پیار دیں، ان کے مسائل کو سنیں، سمجھیں اور حل کریں۔ ان سے اپنے معاملات میں مشورہ کریں، ان کو اپنا رازدار بنائیں۔
۔اگر آپ انہیں دور رکھیں گے تو گمراہ کن گروہ ان کو آسانی سے اپنے قریب کرلیں گے۔
- اپنے دین کو آہستہ آہستہ سیکھیں اور گھر میں اس کا تذکرہ رکھیں۔
- اگر بچے چھوٹے ہیں تو دنیوی تعلیم کے ساتھ ان کی دینی تعلیم و تربیت کی بھی فکر کریں۔
- بغیر ضرورت شدیدہ بچوں کو اسمارٹ فون نہ دیں اور نہ خود رکھیں۔
- اگر دینا پڑے، تو شرائط کے ساتھ دیں، بے وقت استعمال پر پابندی رکھیں، رات کو تمام گھر کے فون اپنے کمرے میں جمع کروائیں، ان کو اس کے صحیح استعمال کا طریقہ بتائیں۔
- بے وجہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے خود بھی بچیں اور اولاد کو بھی بچائیں۔
- بچوں کے سامنے ہر وقت فون استعمال کرنے سے گریز کریں۔
- کسی بھی شک یا وضاحت طلب معاملے میں انٹرنیٹ کی بجائے مستند علماء دین سے رہنمائی حاصل کریں۔

ایمان کو سلامتی کے ساتھ قبر میں لے جانا ایک مسلمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اپنی اولاد کو ایمان کے ان ڈاکوؤں سے بچائیں تاکہ ہماری آئیندہ نسلوں میں دین باقی رہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بے وجہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے خود بھی بچیں اور اولاد کو بھی بچائیں۔
- بچوں کے سامنے ہر وقت فون استعمال کرنے سے گریز کریں۔
- کسی بھی شک یا وضاحت طلب معاملے میں انٹرنیٹ کی بجائے مستند علماء دین سے رہنمائی حاصل کریں۔

ایمان کو سلامتی کے ساتھ قبر میں لے جانا ایک مسلمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اپنی اولاد کو ایمان کے ان ڈاکوؤں سے بچائیں تاکہ ہماری آئیندہ نسلوں میں دین باقی رہے۔
بالکل بہت تندہی سے عمل ضروری ہے کیونکہ خود بچ کر ہی اولاد کو بچایا جاسکتا ہے۔۔بالکل سچ کہا ذرا سا دھیان ہٹ جاتا ہے تو یہ ایمان کے ڈاکو ورغلانے میں تن من دھن سے نبرد آزما ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پر
کچھ گملے رکھوا دیے اور ایک
چھوٹا سا باغ بنا لیا.
گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کر
حیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھلتے گئے
ہیں، نیبو کے پودے میں دو نیبو بھی لٹکے ہوئے ہیں اور
دو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئی.
میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانس
کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، اس گملے
کو گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی.
میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ
رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانس
کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس
پودے کے پاس کر دیتے ہیں.
میں ہنس پڑا اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہے
تو کھاد ڈالو، پانی ڈالو. اسے
کھسکا کر کسی اور پودے
کے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ "
بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ
پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے.
اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھر
لہلہا اٹھے گا. پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں،
لیکن انہیں اگر کسی اور پودے کا ساتھ
مل جائے تو جی اٹھتے ہیں. "
یہ بہت عجیب سی بات تھی. ایک ایک کر کے کئی
فوٹو آنکھوں کے آگے بنتی چلی گئیں.
ماں کی موت کے بعد والد صاحب کیسے ایک
ہی رات میں بوڑھے، بہت بوڑھے ہو گئے تھے.
اگرچہ ماں کے جانے کے بعد سولہ سال
تک وہ رہے، لیکن سوکھتے ہوئے پودے کی طرح.
ماں کے رہتے ہوئے جس
والد صاحب کو میں نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا،
وہ ماں کے جانے کے بعد خاموش سے ہو گئے تھے.
مجھے بیوی کے یقین پر مکمل اعتماد
ہو رہا تھا. لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے
اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے. بچپن میں میں
ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین
مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کے
جار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا.
مچھلی سارا دن گم سم رہی. میں نے اس کے لئے
کھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھر-
ادھر پانی میں گھومتی رہی.
سارا کھانا جار کی تلہٹی میں جا کر بیٹھ
گیا، مچھلی نے کچھ نہیں کھایا.
دو دنوں تک وہ ایسے ہی رہی، اور ایک صبح میں نے
دیکھا کہ وہ پانی کی سطح پر
الٹی پڑی تھی. آج مجھے گھر میں
پالی وہ چھوٹی سی مچھلی یاد آ
رہی تھی.
بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگر
معلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا
ساری مچھلیاں خرید لاتا اور
میری وہ پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر جاتی.
مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں
کسی کو تنہائی پسند نہیں.
آدمی ہو یا پودا، ہر
کسی کو کسی نہ کسی کے ساتھ
کی ضرورت ہوتی ہے.
آپ اپنے ارد گرد جھانكیں، اگر کہیں کوئی
اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسے
مرجھانے سے بچاے. اگر آپ اکیلے ہوں،
تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے، آپ
خود کو بھی مرجھانے سے روكے.
تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے. گملے کے
پودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک
دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن
آدمی کو قریب لانے کے لئے ضرورت
ہوتی ہے رشتوں کو سمجھنے کی، محفوظ کرنے
کی اور سمیٹنے کی.
اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگے
کہ زندگی کا رس سوکھ رہا ہے، زندگی
مرجھا رہا ہے تو اس پر رشتوں کی محبت
کا رس ڈالئے. خوش رہئے اور مسكرائیے .
کوئی یوں ہی کسی اور کی غلطی سے آپ سے دور
ہو گیا ہو تو اسے اپنے قریب لانے
کی کوشش کیجئے اور ہو جایئے هرا-
بھرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ .
 

سیما علی

لائبریرین
اللّٰہ کا شکر تو ہے لیکن۔۔۔۔ ایک تازہ آب بیتی

کافی برس پہلے ایک عالم دین سے ایک بات سنی تھی کہ ہم اللّٰہ کی ذات سے منسوب جب کوئی بات کرتے ہیں تو اس کے آگے "لیکن" لگا کر اپنی پچھلی بات کی نفی کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو کوئی ترغیب دے کہ بھائی رشوت نہ کھایا کرو رزق تو اللّٰہ کریم نے اپنے ذمے لے رکھا ہے اور جواباً دوسرا کہتا ہے کہ ٹھیک ہے کہ اللّٰہ رزق دیتا ہے لیکن دنیا داری میں اس کے بغیر گزارا نہیں۔

خیر سنانی تو آپ کو ایک آب بیتی تھی کہ گزشتہ کل ایک ہائی وے پر بائک پہ سفر کیا اور راستے میں بائیک پنکچر ہو گئ جو ایک پریشانی کا ساماں تھا۔ خیر پاس میں ہی ایک پٹرول پمپ پر ٹائر سروس کی شاپ تھی اس لئے فوراً اس کی طرف بائیک کھینچے لپک پڑا۔ شاپ کی طرف جاتے ہمسفر نے کہا کہ یہ اللّٰہ کا شکر ہے کہ جب بھی کبھی ایسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو شاپ نزدیک ہی ملی ہے جس کی وجہ سے زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

جواباً میں نے مذکورہ واعظ کے مصداق یہ کہا کہ ہاں اللّٰہ کا شکر تو ہے لیکن دراصل یہاں ہر تھوڑے فاصلے پر ٹائر سروس کی چھوٹی بڑی دکانیں موجود ہیں اس لئے بھی ہم اکثر پریشانی سے محفوظ رہے یعنی فوراً کریڈٹ رب کے کرم کی بجائے زمینی نقشے کو دے دیا۔ باراحل فوراً اس بات کا ادراک ہوا کہ مذکورا بات تو انجانے میں بہت غلط کہہ دی۔ دل میں توبہ تائب بھی ہوا اور پنکچر لگوانے کے بعد باقی ماندہ سفر طے کرتے ہوئے دل میں اپنی کہی گئی بات سے رجوع کرتا رہا کہیں اس بات کا خمیازہ ابھی راستے میں ہی بھگتنا نہ پڑ جائے۔

خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا حکم الٰہی سے ہمیں فوراًسبق سکھانا طے تھا یہی ہوا کہ منزل کے قریب لیکن بیابان روڈ پر بائیک پھر پنکچر ہو گئی اور اب کے بارے دائیں بائیں نظر دوڑائی مگر مجال کہ کوئی ٹائر سروس شاپ نظر آئے۔ خیر سکون کا ایک لمبا سانس لیا اور حق باری تعالیٰ کی طرف رجوع کیا کہ مالک غلطی معاف کی جائے۔ یہ محض آپ کا ہی کرم ہوتا ہے کہ آپ پریشانی میں آسانی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ میں تو انسان ٹھہرا نادانی میں کچھ بھی بول دیا۔ دعا قبول ہوئی اور اچانک سے ایک عزیز پاس آکے رکے اور ماجرا دریافت فرمایا اور انکی سواری کی مدد سے منزل پر پہنچے۔

اللّٰہ کریم کی ذات کا شکر ادا کرتے ہوئے مشروط فقرے بولنے سے پرہیز کریں کیونکہ وہی تو ہے جو ناممکن کو ممکن اور ممکن کو ناممکن بنا سکتا ہے۔ سفر کی دعا کا اہتمام بھی ایک لازمی جز ہے۔

از محمد ارسلان طارق
 

جاسمن

لائبریرین
میں جب اپنےگھر سے دفتر کیلئے نکلتا ہوں
تو مین روڈ پر آنے کیلئےمجھے
دو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں
آخری والی گلی کےبائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ہےجسکےباہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر پڑا ہوتاہے
یہ نہ کسی سےبات کرتا ہےنہ چلتا پھرتاہے
بس چارپائی پر بیٹھا
‏کھانستا رہتا ہے اور جب کھانس کھانس کر تھک جاتا ہے
تو پھر کھانسنے لگتاہے

یہ اس گھر کا چوکیدار ہے
لیکن میں جب بھی اسےدیکھتاہوں مجھےحیرت ہوتی ہےکہ اگر اِس گھر میں کوئی چور ڈاکو آگئےتو کیا یہ چوکیدار انہیں روک پائےگا؟
اس روز بھی میں نےگاڑی آخری گلی میں موڑی تو وہی چوکیدار
‏کھانستاہوا نظر آیایہ میری روز کی روٹین ھےچوکیدار کی چارپائی
کےبعد مین روڈ شروع ہوجاتی ہے لہذا میں نےمین روڈ پرگاڑی چڑھائی اور آئینےمیں اپناجائزہ لیا
پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیور کےبعد میری منزل آگئی

میں شہر کےایک بڑےاور متوسط علاقےمیں معروف موٹیویشنل سپیکرکا خطاب سننےآیا تھا
‏احباب زور دےکر مجھےیہاں لائے تھے۔سچی بات ہےکہ خود میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی یہ لیکچر سنوں۔ تھوڑی ہی دیر میں موٹیویشنل سپیکرصاحب بلیک کلر کی ایک چمکتی ہوئی گاڑی میں تشریف لائے۔اس گاڑی کےپچھلے بمپر پر الگ سےایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر’’MS ‘‘لکھا ہواتھا
شائد یہ موٹیویشنل
‏سپیکرکا مخفف تھا۔اور اپنی گفتگو سےحاضرین پر ایک سحر طاری کر دیا۔انہوں نےکہا کہ
ہم لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اسقدر مگن ہوگئےہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنےسامنےچلتے پھرتےلوگوں کو کسقدر اگنور کر رہے ہیں اگرسکون اور خوشی چاہیےتو ہمیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھلانا ہوگا
‏سب کو معاف کرناہوگا
موٹیویشنل سپیکر کی بات سنکر پورےہال میں خاموشی چھا گئی انہوں نےپوچھا’’کیا آپ لوگوں میں سےکوئی ایساھےجس نےکبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘ کچھ دیر سکوت رہا۔پھر موٹیویشنل سپیکر نےآہستہ سےکہا’’آج گھر جائیں اور جنکےباپ زندہ ہیں انہیں گلےسے لگائیں
پیار کریں
‏اوراگر کوئی شکوہ بھی ہے
تو اسےبھلا دیں
پروگرام کےاختتام سےپہلےہی مجھےایک ضروری میٹنگ کی کال آگئی اٹھنا پڑگیا۔ میٹنگ دو گھنٹےجاری رہی اور اس دوران کھانا بھی نہیں کھایا جاسکا واپسی پر شدید بھوک لگی تھی لہذا ایک جگہ رک کر کھانا کھایا بھوک کیوجہ سےکافی زیادہ آرڈر دے دیا تھا
‏لیکن اب کافی سارا کھانا بچ گیا
میں نےوہ سارا پیک کروایا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوگیا آخری گلی میں مڑتےہی چوکیدار پھر میری نظروں کےسامنےتھا میرے ذہن میں اچانک موٹیویشنل سپیکر کےالفاظ گونجنےلگے
’’کیا کوئی ایساھےجس نےکبھی اپنےباپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘
خیال آیا کہ یہ چوکیدار
‏بھی تو کسی کا باپ ہوگا‘ پتا نہیں اسکو کبھی اپنے بیٹےکی جپھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ میں نےکسی خیال کےتحت گاڑی چوکیدار
کےپاس روکی
پیک کروائےگئےکھانےکا شاپر اٹھاکر اسکے پاس آگیا۔سلام دعا کےبعد میں نےشاپر اسکی طرف بڑھاتے ہوئےنہایت احترام سےکہا یہ بالکل تازہ کھاناھے ‘آپ کھا لیجئے
‏اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری اور پھر اس نےانتہائی تیزی سےشاپر جھپٹ لیا۔اسکا انداز بتا رہا تھا کہ شدید بھوک لگی ہے
پھر اسکے بعد میرا معمول بن گیا
میں کبھی کبھارکوئی نہ کوئی بچا کھچا برگر یا شوارما وغیرہ چوکیدار کیلئے لےجاتا
چونکہ اسےبولنےمیں دقت ہوتی تھی لہذا ہماری
‏اکثر دعا سلام اشاروں کنایوں میں
ہوجاتی۔ایکدن میں نےدیکھا کہ اسکےسرہانےکوئی کتاب پڑی ہوئی ھے
وہ ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہاھے۔مجھےبہت اچھا لگا کہ ان پڑھ ہوتےہوئے بھی اسےکتاب پڑھنےکا شوق ہے۔ میں نےگاڑی روکی‘ سلام لیا اور قریب جاکردیکھا تو ہوش اڑ گئے
وہ دیوان غالب پڑھ رہاتھا
‏یہ میرےلئے شدید حیرت کی بات تھی۔البتہ یہ نہیں پتاتھا کہ کیا وہ واقعی کتاب پڑھ رہاتھا یا کسی کی کتاب اسکےسرہانے رکھی تھی۔ میں نےتجسس کےہاتھوں مجبور ہوکر اشاروں سےپوچھ ہی لیا کہ یہ کتاب یہاں کیسےآئی؟

اُس نےمریل سی آواز میں ٹوٹے پھوٹےجملوں میں بتایا
یہ کتاب اُسے بہت پسندھے
‏اور وہ جتنی بار پڑھتاھے اتنی بار نیا لطف ملتاھے میرےہاتھ پاؤ ں پھول گئےغالب کو پڑھنے سمجھنےوالا یہ چوکیدار میری نظروں میں مزید معتبر ہوگیا
میں نےپوچھا کہ کیاآپ تعلیم یافتہ ہیں؟جواب اثبات میں آیا
میری حیرت دوچند ہوگئی۔اس نے بتایا کہ وہ ایم اے پاس ہے اور ریٹائرڈ پروفیسر ھے
‏یہ بات بہت الجھادینےوالی تھی کہ آخر ایک پروفیسر کےساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسےاس عمر میں چوکیدار ی کرنا پڑرہی ہے۔اس راز سےبھی اس نےخود ہی پردہ اٹھا دیا
ایسی حقیقت بیان کی کہ کچھ دیر کیلئےمجھےاپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں
یہ بزرگ جسےمیں چوکیدار سمجھتارہا اس گھر کا مالک تھا
‏تین بیٹےتھے۔ تینوں کی شادیاں کر دیں۔ بیوی فوت ہوگئی تو یہ دیکھتےہی دیکھتےبوڑھا ہوگیا کھانسی اور بیماری کیوجہ
سےبچوں کو تشویش ہوئی کہ کہیں باپ کی بیماری انکےبچوں کو نہ لگ جائے لہذا سب گھر والوں کے باہم مشورے سےطے پایا کہ
’ابا جی‘ کی چارپائی گھر سےباہر لگوا دی جائے تاکہ وہ
‏آرام سکون سےجی بھر کےکھانس سکیں۔ل

یوں اب گھر والےبھی چین کی نیند سوتےتھے اور ابا جی کو بھی اپنے بیٹوں اور اولاد کی جلی کٹی باتیں نہیں سننا پڑتی تھیں۔انہوں نےبتایا کہ وہ اپنی اولاد سےبالکل بھی ناراض نہیں کیونکہ انہوں نےکہیں سنا تھا کہ’اگر سکون اور خوشی چاہیےتو ہمیں چھوٹی
‏چھوٹی باتوں کو بھلانا ہوگا
سبکو معاف کرنا ہوگا‘
یہ جملہ سنکر میں چونک اٹھا یقیناًانہوں نےبھی موٹیویشنل سپیکرکا لیکچر پڑھا یا سناتھا کیونکہ یہ بات میں نےبھی وہیں سنی تھی انہوں نےبتایا کہ
ماشاءاللہ انکےتینوں بیٹےبزنس مین ہیں اور بہت اچھا کماتےہیں
تینوں کےپاس اچھی گاڑیاں ہیں
‏میں نےاس رو ز بہانے بہانےسے انہیں بہت کریدا کہ شائد انکےدل میں اپنے بیٹوں کیلئےکوئی تھوڑی سی بھی نفرت ہو لیکن وہ ہر حال میں اولاد سےراضی نظرآئے
پچھلےدنوں میں انکے گھر کے قریب سےگذرا تو ٹھٹھک کر رک گیا
انکی چارپائی کےپاس ایک گاڑی کھڑی تھی۔میں نےتھوڑا آگےجاکر اپنی گاڑی روکی
‏اور پروفیسر صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ فخر سے مجھے بتانے لگے کہ یہ گاڑی ان کے بیٹے کی ہے ۔ اسی دوران گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔ غالباًہم دونوں کی گفتگو کے دوران ہی ان کا بیٹا گیٹ سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔پروفیسر صاحب نے بیٹے کی جاتی ہوئی گاڑی
‏گاڑی کی طرف دیکھا اور بے اختیار ہاتھ اٹھا کر بولے’’خیرنال جا تے خیر نال آ‘۔ میں نے چونک کر گردن موڑی۔۔۔گاڑی کافی آگے جاچکی تھی لیکن اس کے پچھلے بمپر پر ’MS‘ کے الفاظ صاف نظر آرہے تھے۔۔۔!!
 

زوجہ اظہر

محفلین
ایک وکیل صاحب نے ایک معلم(استاذ)کو اپنا کنواں فروخت کیا
دودن کےبعد وکیل صاحب معلم کے پاس آئے اور کہا
معلم صاحب۔ میں نے آپ کو کنواں بیچا ہے اس کا پانی نہیں۔لہذا اگر آپ پانی لیں گے تو اس کے لئےالگ سے پیسے دینے ہونگے۔
معلم صاحب نے کہا
جی ۔ہاں میں بھی آپ کے پاس آنے والا تھا
کہنا یہ تھاکہ آپ اپنا پانی میرے کنویں سے نکال لیں
نہیں تو کل سے آپ کو کرایہ بھرنا ہوگا
وکیل صاحب نے کہا۔
اجی ۔میں تو مذاق کر رہا تھا
معلم صاحب نے کہا۔ وکیل صاحب آپ کے جیسے ہمارے پاس ہی پڑھ کر وکیل بنتے ہیں
اساتذہ کو سلام
 

سیما علی

لائبریرین
مطمئن آدمی

ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہیں نہایت مطمئن پایا۔
باتوں باتوں میں کچھ ایسے راز کُُھلے کہ اپنی زندگی بیکار نظر آنے لگی ۔

بولے کہ بہت زیادہ امیر آدمی نہیں ہوں مگر ہر وقت گھر میں چھوٹی پانی کی ڈسپوزیبل بوتلیں رکھتا ہوں اور گرمی کے موسم میں جب بھی باہر نکلتا ہوں تو ۲-۳ ٹھنڈی کی ہوئی بوتلیں ساتھ رکھ لیتا ہوں اور منزل تک پہنچتے ہوئے راہ چلتے سائیکل سوار، کسی دھوپ میں کھڑے چوکیدار یا مالی وغیرہ کو پکڑا دیتا ہوں اور ان سے آسمان کو چھونے والی دعائیں لے لیتا ہوں ۔

بازار آتے جاتے ایک دو شوارمے خرید لیتا ہوں اور کسی مناسب شخص کو جو اس کا حقدار لگتا ہو پکڑا دیتا ہوں۔

مسجد کے پیش امام کا جس دوکان میں ادھار چلتا ہے، وہاں اس کا پچھلا کھاتا مہینے میں ایک آدھ دفعہ کلیئر کر آتا ہوں۔

مسجد صاف کرنے والے خادموں کے گھر کا کرایہ تھوڑا سا ہی ہوتا ہے تو وہ ادا کر آتا ہوں یہ سوچتے ہوئے کہ یہ اللہ کے گھر کے خادم ہیں۔

علاقے کے میڈیکل اسٹور والے کو کچھ رقم دے آتا ہوں کہ غریب دیہاڑی داروں سے نفع لینے کی بجائے اس رقم سے لے لیں اور انہیں دوائی مناسب قیمت پر دے دیں ۔

بچے چُھٹی والے دن باہر کا ناشتہ لانے کو بولیں تو آتے ہوئے دو چار حلوہ پُوڑی ایکسٹرا لے آتا ہوں اور راستے میں کسی کو دے آتا ہوں ۔

کسی اسٹور سے کوئی چیز خریدتے وقت کوئی بچہ آ جائے تو اس کی ساری شاپنگ کی پیمنٹ میں کر دیتا ہوں ۔

یہ سب سُن کر حواس جاتے رہے کہ یہ تو آسان اور سستے سے کام ہیں پِھر اپنے چھوٹے بھائی سے اس حوالے سے بات ہوئی جو مدینہ میں ہوتےہیں تو بولے کہ مدینہ شریف میں ایسا ہی ہوتے دیکھتا ہوں روز تو بدن سُن سا ہو گیا کہ ہم روز اپنے حُکمرانوں سے ریاست مدینہ کا تقاضا کرتے ہیں
کیا کبھی اپنے اندر کی ریاست کو بھی مدینہ جیسا بنانے کی کوشش کی ہے؟.

(منقول)
 
ایک واقعہ یاد آیا میرے کسی دوست نے سُنایا تھا کہ ایک ڈاکو تھا اُس کی عادت تھی جب بھی وہ کسی کے گھر میں ڈکیتی کی واردات کرنے جاتا تو ایک دن پہلے اُس گھر کا مہمان بنتا اور رات میں اُس گھر کے سارے افراد کو مار کر سب سامان لوٹ کر لے جاتا تھا ۔
ڈاکو نے پہلے چھان بین کری کے اِس علاقے میں سب سے زیادہ امیر شخص کون ہے پھر یہ اُس کے گھر کے پاس جاکر بولتا ہے کہ میں مسافر ہوں اور مجھے ایک رات کے لئے پناہ چاھئیے ۔
تو اُس شخص نے کہا کہ ٹھیک ہے آج رات رُک جاو کل چلے جانا ۔ ڈاکو ٹہر گیا اتنے میں میزبان ڈاکو کے لئے چائے لے کر آتا ہے اور ڈاکو کے سامنے رکھتا ہے ڈاکو پہلے تو منع کرتا ہے لیکن اُس کے بے حد اِسرار پر ڈاکو چائے پینے کے لئے راضی ہوجاتا ہے۔
ڈاکو جیسے ہی چائے کا پہلا گھونٹ بھرنے لگتا ہے ویسے ہی منہ کو لگا کر واپس رکھ دیتا ہے میزبان پریشان ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا ہوا چائے اچھی نہیں ہے پر مہمان کچھ نہیں بولتا میزبان پریشانی کے عالم میں وہ چائے کا کپ اُٹھا کر جیسے ہی منہ کو لگاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ چائے میں چینی کی جگہ نمک ڈال دیا گیا ہے۔
میزبان اپنی گھروالی کو خوب ڈانٹتا ہے کپ کو دیوار پر پھینک کر مار دیتا ہے ۔ یہ سب ڈاکو دیکھ رہا تھا ڈاکو کہتا ہے اگر تیری چائے میں یہ نمک نہ ڈالتی تو آج تو میرے ہاتھوں سے قتل ہوچکا ہوتا میں نے تیرا نمک کھالیا ہے اور میں جس کے گھر کا ایک بار نمک کھالوں تو اُس بندے کی جان نہیں لیتا۔
کبھی کبھی جو ہمیں بُرا لگ رہا ہوتا ہے وہ ہمارے لئے اچھا ہوتاہے
 

جاسمن

لائبریرین
میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پر
کچھ گملے رکھوا دیے اور ایک
چھوٹا سا باغ بنا لیا.
گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کر
حیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھلتے گئے
ہیں، نیبو کے پودے میں دو نیبو بھی لٹکے ہوئے ہیں اور
دو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئی.
میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانس
کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، اس گملے
کو گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی.
میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ
رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانس
کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس
پودے کے پاس کر دیتے ہیں.
میں ہنس پڑا اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہے
تو کھاد ڈالو، پانی ڈالو. اسے
کھسکا کر کسی اور پودے
کے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ "
بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ
پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے.
اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھر
لہلہا اٹھے گا. پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں،
لیکن انہیں اگر کسی اور پودے کا ساتھ
مل جائے تو جی اٹھتے ہیں. "
یہ بہت عجیب سی بات تھی. ایک ایک کر کے کئی
فوٹو آنکھوں کے آگے بنتی چلی گئیں.
ماں کی موت کے بعد والد صاحب کیسے ایک
ہی رات میں بوڑھے، بہت بوڑھے ہو گئے تھے.
اگرچہ ماں کے جانے کے بعد سولہ سال
تک وہ رہے، لیکن سوکھتے ہوئے پودے کی طرح.
ماں کے رہتے ہوئے جس
والد صاحب کو میں نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا،
وہ ماں کے جانے کے بعد خاموش سے ہو گئے تھے.
مجھے بیوی کے یقین پر مکمل اعتماد
ہو رہا تھا. لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے
اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے. بچپن میں میں
ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین
مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کے
جار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا.
مچھلی سارا دن گم سم رہی. میں نے اس کے لئے
کھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھر-
ادھر پانی میں گھومتی رہی.
سارا کھانا جار کی تلہٹی میں جا کر بیٹھ
گیا، مچھلی نے کچھ نہیں کھایا.
دو دنوں تک وہ ایسے ہی رہی، اور ایک صبح میں نے
دیکھا کہ وہ پانی کی سطح پر
الٹی پڑی تھی. آج مجھے گھر میں
پالی وہ چھوٹی سی مچھلی یاد آ
رہی تھی.
بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگر
معلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا
ساری مچھلیاں خرید لاتا اور
میری وہ پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر جاتی.
مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں
کسی کو تنہائی پسند نہیں.
آدمی ہو یا پودا، ہر
کسی کو کسی نہ کسی کے ساتھ
کی ضرورت ہوتی ہے.
آپ اپنے ارد گرد جھانكیں، اگر کہیں کوئی
اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسے
مرجھانے سے بچاے. اگر آپ اکیلے ہوں،
تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے، آپ
خود کو بھی مرجھانے سے روكے.
تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے. گملے کے
پودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک
دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن
آدمی کو قریب لانے کے لئے ضرورت
ہوتی ہے رشتوں کو سمجھنے کی، محفوظ کرنے
کی اور سمیٹنے کی.
اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگے
کہ زندگی کا رس سوکھ رہا ہے، زندگی
مرجھا رہا ہے تو اس پر رشتوں کی محبت
کا رس ڈالئے. خوش رہئے اور مسكرائیے .
کوئی یوں ہی کسی اور کی غلطی سے آپ سے دور
ہو گیا ہو تو اسے اپنے قریب لانے
کی کوشش کیجئے اور ہو جایئے هرا-
بھرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ .
رات سونے سے پہلے اور صبح جاگتے ہی میرا کچھ ایسا ارادہ بن رہا تھا۔ اللہ عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
آپ کی زندگی کی کوالٹی آپ کے پانچ سب سے اچھے دوستوں کی اوسط کوالٹی پر منحصر ہے.

ہمارے شاندار دوست اقبال لطیف سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا رہتا ہے. ان کی زندگی اپنے اندر کئی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے. ان کی ایک فکر افروز پوسٹ پیش خدمت ہے!

اگر آپ کو پانچ ایماندار افراد کی رفاقت حاصل ہے!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

اگر آپ کو پانچ انتہائی پڑھے لکھے افراد کی رفاقت حاصل ہے!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

اگر آپ کو پانچ تخلیق کاروں کی رفاقت حاصل ہے!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

اگر آپ کو پانچ ایسے افراد کی رفاقت حاصل ہے جو نت نئے اچھوتے خیالات سے متعلق گفتگو کرتے ہیں!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

اگر آپ ایسے پانچ افراد کی رفاقت میں وقت گذارتے ہیں جو مطالعہ کرتے، سیکھتے اور اسکا اظہار خیال کرتے ہیں!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

لیکن اسکے برعکس:

☠اگر آپ پانچ غیر پیداوار افراد کے ساتھ وقت گذاری کرتے ہیں!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

☠اگر آپ ایسے پانچ افراد کے ساتھ وقت گذارتے ہیں جن کا معاشرے میں بہت کم تعمیری حصہ ہے!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

☠اگر آپ پانچ غیبتی لوگوں کے ساتھ وقت گذارتے ہیں!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

☠اگر آپ افسانوں اور داستانوں پر یقین رکھنے والے پانچ افراد کو سنتے ہیں!
تو بہت جلد آپ چھٹے افسانہ ساز بن جائیں گے۔

☠اگر آپ پانچ نودولتیوں کے ساتھ گھومتے ہیں!
تو بہت جلد آپ چھٹے بن جائیں گے۔

☠اگر آپ محض ایک گھمنڈی ، متکبر ، مغرور ، مہلک نرگسیت زدہ شخص کے ساتھ گھومتے ہیں!
تو بہت جلد آپ دوسرے بن جائیں گے ، آپ کو اپنی عاجزی انسانیت اور ہمدردی کو ختم کرنے کے لئے صرف ایک بد اثر کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ سچ #بات ہے ، اچھی یا بری دونوں طرح کی #عادات اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔

آپ کی شخصیت ایسے #پانچ_افراد کی اوسط آئینہ دار ہے، جن کے ساتھ آپ اپنا بیشتر وقت ⏰ گزارتے ہیں۔

ایک نوع کے #پرندے ایک ساتھ اڑان بھرتے ہیں۔ اپنی نوع کے پرندوں کو تلاش کریں اور اونچی اڑان بھریں۔ یاد رکھئیے شاہین مکھیوں کا شکار نہیں کرتے ، زندگی میں گدھ کی بجائے شاہین بنیں۔

#ذاتی_ترقی #کیریئر #بہترین_مشورہ

اقبال لطیف

Iqbal Latif اقبال لطیف
 
میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پر
کچھ گملے رکھوا دیے اور ایک
چھوٹا سا باغ بنا لیا.
گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کر
حیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھلتے گئے
ہیں، نیبو کے پودے میں دو نیبو بھی لٹکے ہوئے ہیں اور
دو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئی.
میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانس
کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، اس گملے
کو گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی.
میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ
رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانس
کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس
پودے کے پاس کر دیتے ہیں.
میں ہنس پڑا اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہے
تو کھاد ڈالو، پانی ڈالو. اسے
کھسکا کر کسی اور پودے
کے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ "
بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ
پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے.
اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھر
لہلہا اٹھے گا. پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں،
لیکن انہیں اگر کسی اور پودے کا ساتھ
مل جائے تو جی اٹھتے ہیں. "
یہ بہت عجیب سی بات تھی. ایک ایک کر کے کئی
فوٹو آنکھوں کے آگے بنتی چلی گئیں.
ماں کی موت کے بعد والد صاحب کیسے ایک
ہی رات میں بوڑھے، بہت بوڑھے ہو گئے تھے.
اگرچہ ماں کے جانے کے بعد سولہ سال
تک وہ رہے، لیکن سوکھتے ہوئے پودے کی طرح.
ماں کے رہتے ہوئے جس
والد صاحب کو میں نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا،
وہ ماں کے جانے کے بعد خاموش سے ہو گئے تھے.
مجھے بیوی کے یقین پر مکمل اعتماد
ہو رہا تھا. لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے
اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے. بچپن میں میں
ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین
مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کے
جار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا.
مچھلی سارا دن گم سم رہی. میں نے اس کے لئے
کھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھر-
ادھر پانی میں گھومتی رہی.
سارا کھانا جار کی تلہٹی میں جا کر بیٹھ
گیا، مچھلی نے کچھ نہیں کھایا.
دو دنوں تک وہ ایسے ہی رہی، اور ایک صبح میں نے
دیکھا کہ وہ پانی کی سطح پر
الٹی پڑی تھی. آج مجھے گھر میں
پالی وہ چھوٹی سی مچھلی یاد آ
رہی تھی.
بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگر
معلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا
ساری مچھلیاں خرید لاتا اور
میری وہ پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر جاتی.
مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں
کسی کو تنہائی پسند نہیں.
آدمی ہو یا پودا، ہر
کسی کو کسی نہ کسی کے ساتھ
کی ضرورت ہوتی ہے.
آپ اپنے ارد گرد جھانكیں، اگر کہیں کوئی
اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسے
مرجھانے سے بچاے. اگر آپ اکیلے ہوں،
تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے، آپ
خود کو بھی مرجھانے سے روكے.
تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے. گملے کے
پودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک
دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن
آدمی کو قریب لانے کے لئے ضرورت
ہوتی ہے رشتوں کو سمجھنے کی، محفوظ کرنے
کی اور سمیٹنے کی.
اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگے
کہ زندگی کا رس سوکھ رہا ہے، زندگی
مرجھا رہا ہے تو اس پر رشتوں کی محبت
کا رس ڈالئے. خوش رہئے اور مسكرائیے .
کوئی یوں ہی کسی اور کی غلطی سے آپ سے دور
ہو گیا ہو تو اسے اپنے قریب لانے
کی کوشش کیجئے اور ہو جایئے هرا-
بھرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ .
سیما بہن میں اتنی لمبی تحریر پڑھتا نہیں ہوں لیکن جب اِس تحریر کو تھوڑا سا پڑھا تو پھر پڑھتا ہی گیا بہت ہی خوبصورت تحریر تھی شئیر کرنے کا شکریہ
 
رسول اللّهﷺ کا ہر امتی یہ تحریر ضرور ضرور پڑھے
اگر آپ اپنے دماغ کو روشن کرنا چاہتے ہیں اور روحانیت کی دنیا میں پرواز کرنا چاہتے ہیں تو ایک ایک لفظ غور سے پڑھیں
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نہ ہی کسی مدرسے میں پڑھے نہ درس نظامی کی تو آپ کو علامہ کیوں کہا جاتا ہے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ واقعی میں نے کوئی عالم فاضل کا کورس نہیں کیا لیکن بات اصل میں کچھ اور ہے فرمانے لگے کہ دنیا کی مجھے یہ عزت دینا اور میرے کلام میں یہ اثر اور میرے قلب و روح کی یہ تازگی یہ سب رسول اللّهﷺ سے والہانہ و محبت کی بدولت ہے اور یہ سب تب ممکن ہوئی جب میں نے رسول اللّهﷺ پہ درود پاک پڑھنا شروع کیا فرمایا کہ درود پاک کا یہ ورد بڑھتا گیا اور میں اس تعداد کو محفوظ کرتا گیا لاکھ دو لاکھ اور ایسے ہی جوں جوں آگے بڑھتا گیا اللہ میرے دماغ کو میرے دل کو میری روح کو روشن کرتا رہا۔ اور جب میں نے رسول اللّهﷺ کی ذات گرامی پہ ایک کروڑ درود پاک مکمل کیا تو اللہ رب العزت نے میرا انگ انگ روشن کر دیا لوگوں کے دلوں میں میری عزت بیٹھ گئی میرے کلام میں ایسا اثر ہوا کہ اللہ اللہ جب کلام لکھنے بیٹھتا الفاظ بارش کی طرح اترتے اس کے بعد علامہ صاحب درود پاک تواتر سے پڑھتے رہے۔
میرے ایک عزیز ہیں جو ایئر فورس میں ملازمت کررے تھے وہاں ان کی ملاقات ہوئی جن سے یہ راز ان کو معلوم ہوا اور انہوں نے خود مجھے بتایا کہ میری زندگی پہلے کی بہت عجیب تھی لیکن جب میں نے مصمم ارادہ کیا اور محبت سے درود پاک کا ورد شروع کیا اور جب پہلی دفعہ ایک لاکھ درود پاک گن کے پورا کیا تو ایک خواب دیکھتا ہوں کہ میں کہیں محو سفر ہوں اور میرے سامنے ایک نہایت غلیظ نالہ ہے اور اس نالے کے اس پار بہت سہانی سرسبز اور جنت جیسی دنیا ہے خیر میں نے جیسے تیسے کر کے بہت مشکل سے وہ نالہ پار کیا اور اس پار پہنچ گیا جب میں نے پیچھے دیکھا تو وہی نالہ جس میں غلاظت تھی وہ نہایت صاف شفاف نہر میں تبدیل ہو چکا ہے حتی کہ اس بہتے پانی کے نیچے رنگ برنگ کے پتھر تک نظر آ رہے ہیں اور جسے دیکھ کے روح خوش ہو جائے اور میرے کپڑے نہایت صاف ستھرے اجلے اور سفید ہو چکے ہیں اور میرا ظاہری حسن بھی بڑھ چکا ہے الحمدللہ مجھے خواب ہی میں بتایا گیا کہ یہ نالہ میں بہتا پانی تمہارے اعمال ہیں جو پہلے غلیظ تھے اور اب درود پاک کی بدولت ان کی صفائی ہو چکی اب یہ سارے نیکیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں یقین جانیں وہ دن اور آج کا دن وہ بندہ کب سے سروس سے ریٹائر ہو چکا ہے آج بھی ان کا درود پاک کا ورد جاری و ساری ہے اور بہت سے جوان لڑکوں کو درود پاک کے ورد کی لذت سے روشناس کرا چکے ہیں اور آج اس بندہ کی روحانی کیفیت ماشااللہ کمال کی ہے اور اس بندہ کے دل و دماغ اور روح اس پاک ورد یعنی رسول اللّهﷺ پہ درود پاک کی بدولت روشن ہیں تو دوستو! آج ہی سے پختہ ارادہ کریں کہ ان شااللہ ان شااللہ میں نے رسول اللّهﷺ کی ذات مقدس پہ ایک کروڑ مرتبہ محبت و شوق سے درود پاک ضرور پڑھنا ہے یقین مانیں جیسے جیسے آپ رسول اللّهﷺ پہ درود پاک پڑھتے جائیں گے آپ پہ بہت سارے انکشافات ہوتے جائیں گے اور دل و دماغ و روح کے ایسے دریچے کھلیں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے۔ روزانہ کی بنیاد پہ درود پاک کا ورد اپنا معمول بنا لیں۔ اللہ ہم سب کو آقا و مولا رسول اللّه محمد ﷺ پہ درود پاک پڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے آمین اس پہ خود بھی عمل کریں اور اپنے گھر والوں کو بھی آگاہ کریں۔

(پلیز آگے سنڈ کرتے جائیں جتنے لوگ درودپاک پڑھیں گے آپ کو بھی ثواب ملتا رھے گا❤️)

درود پاک پڑھنے بے شمار لوگوں میں بہت تبدیلی آئی ۔ درود پاک
بڑی طاقت رکھتا ہے۔برائے کرم آج ہی سےدرود پاک پڑھنا شروع کریں شکریہ
جن سے آپ کو پیار ہے ان کو یہ پیغام پہنچائیں۔ طالب دعا .
 
رسول اللّهﷺ کا ہر امتی یہ تحریر ضرور ضرور پڑھے
اگر آپ اپنے دماغ کو روشن کرنا چاہتے ہیں اور روحانیت کی دنیا میں پرواز کرنا چاہتے ہیں تو ایک ایک لفظ غور سے پڑھیں
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نہ ہی کسی مدرسے میں پڑھے نہ درس نظامی کی تو آپ کو علامہ کیوں کہا جاتا ہے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ واقعی میں نے کوئی عالم فاضل کا کورس نہیں کیا لیکن بات اصل میں کچھ اور ہے فرمانے لگے کہ دنیا کی مجھے یہ عزت دینا اور میرے کلام میں یہ اثر اور میرے قلب و روح کی یہ تازگی یہ سب رسول اللّهﷺ سے والہانہ و محبت کی بدولت ہے اور یہ سب تب ممکن ہوئی جب میں نے رسول اللّهﷺ پہ درود پاک پڑھنا شروع کیا فرمایا کہ درود پاک کا یہ ورد بڑھتا گیا اور میں اس تعداد کو محفوظ کرتا گیا لاکھ دو لاکھ اور ایسے ہی جوں جوں آگے بڑھتا گیا اللہ میرے دماغ کو میرے دل کو میری روح کو روشن کرتا رہا۔ اور جب میں نے رسول اللّهﷺ کی ذات گرامی پہ ایک کروڑ درود پاک مکمل کیا تو اللہ رب العزت نے میرا انگ انگ روشن کر دیا لوگوں کے دلوں میں میری عزت بیٹھ گئی میرے کلام میں ایسا اثر ہوا کہ اللہ اللہ جب کلام لکھنے بیٹھتا الفاظ بارش کی طرح اترتے اس کے بعد علامہ صاحب درود پاک تواتر سے پڑھتے رہے۔
میرے ایک عزیز ہیں جو ایئر فورس میں ملازمت کررے تھے وہاں ان کی ملاقات ہوئی جن سے یہ راز ان کو معلوم ہوا اور انہوں نے خود مجھے بتایا کہ میری زندگی پہلے کی بہت عجیب تھی لیکن جب میں نے مصمم ارادہ کیا اور محبت سے درود پاک کا ورد شروع کیا اور جب پہلی دفعہ ایک لاکھ درود پاک گن کے پورا کیا تو ایک خواب دیکھتا ہوں کہ میں کہیں محو سفر ہوں اور میرے سامنے ایک نہایت غلیظ نالہ ہے اور اس نالے کے اس پار بہت سہانی سرسبز اور جنت جیسی دنیا ہے خیر میں نے جیسے تیسے کر کے بہت مشکل سے وہ نالہ پار کیا اور اس پار پہنچ گیا جب میں نے پیچھے دیکھا تو وہی نالہ جس میں غلاظت تھی وہ نہایت صاف شفاف نہر میں تبدیل ہو چکا ہے حتی کہ اس بہتے پانی کے نیچے رنگ برنگ کے پتھر تک نظر آ رہے ہیں اور جسے دیکھ کے روح خوش ہو جائے اور میرے کپڑے نہایت صاف ستھرے اجلے اور سفید ہو چکے ہیں اور میرا ظاہری حسن بھی بڑھ چکا ہے الحمدللہ مجھے خواب ہی میں بتایا گیا کہ یہ نالہ میں بہتا پانی تمہارے اعمال ہیں جو پہلے غلیظ تھے اور اب درود پاک کی بدولت ان کی صفائی ہو چکی اب یہ سارے نیکیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں یقین جانیں وہ دن اور آج کا دن وہ بندہ کب سے سروس سے ریٹائر ہو چکا ہے آج بھی ان کا درود پاک کا ورد جاری و ساری ہے اور بہت سے جوان لڑکوں کو درود پاک کے ورد کی لذت سے روشناس کرا چکے ہیں اور آج اس بندہ کی روحانی کیفیت ماشااللہ کمال کی ہے اور اس بندہ کے دل و دماغ اور روح اس پاک ورد یعنی رسول اللّهﷺ پہ درود پاک کی بدولت روشن ہیں تو دوستو! آج ہی سے پختہ ارادہ کریں کہ ان شااللہ ان شااللہ میں نے رسول اللّهﷺ کی ذات مقدس پہ ایک کروڑ مرتبہ محبت و شوق سے درود پاک ضرور پڑھنا ہے یقین مانیں جیسے جیسے آپ رسول اللّهﷺ پہ درود پاک پڑھتے جائیں گے آپ پہ بہت سارے انکشافات ہوتے جائیں گے اور دل و دماغ و روح کے ایسے دریچے کھلیں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے۔ روزانہ کی بنیاد پہ درود پاک کا ورد اپنا معمول بنا لیں۔ اللہ ہم سب کو آقا و مولا رسول اللّه محمد ﷺ پہ درود پاک پڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے آمین اس پہ خود بھی عمل کریں اور اپنے گھر والوں کو بھی آگاہ کریں۔

(پلیز آگے سنڈ کرتے جائیں جتنے لوگ درودپاک پڑھیں گے آپ کو بھی ثواب ملتا رھے گا❤️)

درود پاک پڑھنے بے شمار لوگوں میں بہت تبدیلی آئی ۔ درود پاک
بڑی طاقت رکھتا ہے۔برائے کرم آج ہی سےدرود پاک پڑھنا شروع کریں شکریہ
جن سے آپ کو پیار ہے ان کو یہ پیغام پہنچائیں۔ طالب دعا .
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے
پڑھ کو مسرت اور سکون ملا
درود پاک کون سا بہتر رہے گا
روزانہ پڑھنے کے حساب سے
کسی سے سُنا ہے کہ اگر 313 بار کسی بھی چیز کا ورد کیا جائے روزانہ تو اُس کا شمار کثرت سے ذکر کرنے والوں میں ہوگا
انشا اللہ میں بھی نیت کرتا ہوں
آج سے ہی کچھ نہ کچھ تعداد میں درود پاک ضرور پڑھوں گا انشا اللہ
 
عیدالاضحی ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 4 ﮐﮭﺮﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﮐﺎ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻫﻮتا ہے, ﺗﻘﺮﯾﺒﺄ 23 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻗصائی ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻤﺎتے ہیں۔

3 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﭼﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ والے ﮐﻤﺎتے ہیں۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﻫﻮتا ہے.

ﻧﺘﯿﺠﻪ : ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ملتی ہے ﮐﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﺎﺭﻩ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتا ہے.

ﺩیہاﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ملتی ہے۔
اربوں روپے ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻻﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍلے کماتے ہیں۔

ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ لیے مہنگا ﮔﻮﺷﺖ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ملتا ہے ,ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتی ﻫﯿﮟ ,ﭼﻤﮍﮮ ﮐﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﺎﻡ ملتا ہے,ﯾﻪ ﺳﺐ ﭘﯿﺴﻪ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﻫﮯ ﻭﻩ ﺍﭘﻨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺧﺮﭺ ﮐﺮتے ہیں ﺗﻮ نا ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﮐﮭﺮﺏ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﻫﻮتا ہے۔

ﯾﻪ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮔﻮﺷﺖ نہیں ﮐﮭﻼﺗﯽ , ﺑﻠﮑﻪ ﺁﺋﻨﺪﻩ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ,ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮٸی ﻣﻠﮏ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭘﯿﺴﻪ ﻏریبوﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻧﻬﯿﮟ ﻫﻮﻧﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺣﮑﻢ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ۔

ﺍﮐﻨﺎﻣﮑﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﻮﻟﯿﺸﻦ ﺁﻑ ﻭﯾﻠﺘﮫ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﮑﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ﮐﻪ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻋﻘﻞ ﺩﻧﮓ ﺭﻩ ﺟﺎﺗﯽ ﻫﮯ۔

ماشاءالله ماشاءالله ❤ فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ❤
 
Top