انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
” اللھم اننا ننشدک عھدک و وعدک الذی وعدتنا ”
اے اللہ! ھم تجھے تیرا وہ وعدہ اور عھد یاد دلاتے ہیں جو تو نے ھمارے ساتھ بھی کر رکھا ہے” ( کہ تو ھماری مدد و نصرت کرے گا ۔ )


ایک مرتبہ اہل بصرہ حضرت ابراھیم بن ادھم کی خدمت میں حاضر ھوئے اور گویا ھوئے کہ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ ھم عرصہ سے دعائيں کر رہے ہیں مگر زمانہ ھوا کہ ھمارے دعائیں قبول نہیں ھوتی ؟

انھوں نے فرمایا : اے اہل بصرہ ! دس چیزوں کے بارے میں تمھارے دل مردہ ھو چکے ہیں اس لئے تمھاری دعائیں کیسے قبول ھوں ؟

١ ۔ تم نے اپنے اللہ کو پہنچان تو لیا مگر اس کا حق ادا نہیں کیا ۔

٢ ۔ تم نے قرآن کریم تو پڑھا مگر اس پر عمل نہیں کیا ۔

٣ ۔ تم نے شیطان سے دشمنی و عداوت کا دعوی تو کیا مگر اس کی اطاعت و پیروی اور موافقت و مرضی پر چلے۔

٤ ۔ تم یہ تو کہتے ھو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ھو لیکن تم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں پر عمل پیرا نہیں ھوتے ۔

٥ ۔ تم دخول جنت کے دعویدار تو بنتے ھو مگر اس کے لئے عمل نہیں کرتے ھو ۔

٦ ۔ تم نار جہنم سے نجات کے طلب گار تو بنتے ھو مگر تم نے اپنے آپ کو اس میں گرا رکھا ہے ۔

٧ ۔ تم یہ تو کہتے ھو کہ موت حق ہے مگر اس کے لئے تیاری نہیں کرتے ۔

٨ ۔ تم لوگوں کی عیب چینی تو کرتے ھو مگر اپنے عیوب کی اصلاح نہیں کرتے ۔

٩ ۔ تم پر اللہ کی بیشمار نعمتیں سایہ فگن ہیں مگر اس ذات منعم کا شکر ادا نہیں کرتے ھو ۔

١٠ ۔ تم اپنے ہاتھوں سے اپنے فوت شدگان کو دفن تو کرتے رہتے ھو مگر خود عبرت و نصیحت نہیں پاتے “۔
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا رومی ایک دن خریدوفروخت کے سلسلے میں بازار تشریف لے گئے۔ ایک دکان پر جاکر رک گئے۔ دیکھا کہ ایک عورت کچھ سودا سلف خرید رہی ہے۔ سودا خریدنے کے بعد جب عورت نے رقم ادا کرنا چاہی تو دکاندار نے کہا

“عشق میں پیسے کہاں ہوتے ہیں، چھوڑو پیسے اور جاؤ”

اصل میں یہ دونوں عاشق اور معشوق تھے۔ مولانا رومی یہ سن کر غش کھا کر گر پڑے۔ دکاندار سخت گھبرا گیا، اس دوران میں وہ عورت بھی وہاں سے چلی گئی۔ خاصی دیر کے بعد جب مولانا کو ہوش آیا تو دکاندار نے پوچھا۔

مولانا آپ کیوں بے ہوش ہوئے؟

مولانا رومی نے جواب دیا۔

میں اس بات پر بے ہوش ہوا کہ تم میں اور اس عورت میں عشق اتنا قوی اور مضبوط ہے کہ دونوں میں کوئی حساب کتاب ہی نہیں، جبکہ اللہ کیساتھ میرا عشق اتنا کمزور ہے کہ میں تسبیح گن کر کرتا ہوں ۔

اسی مناسبت سے شاعرنے کیا خوب یہ خیال باندھا ہے۔

ذاکر نے اس خیال سے تسبیح ہی توڑ دی
کیا گن کے اس کا نام لے جو بے حساب دے۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک دن مولانا روم اسی کتب خانےمیں شاگردوں کو درس دےرہےتھےاچانک ایک اجنبی شخص اجازت کےبغیر کتب خانےمیں چلا آیا۔ اجنبی نےآتےہی اہل مجلس کو سلام کیا پھر حاضرین کی صفوں سےگزرتا ہوا مولانا روم کےقریب جا بیٹھا۔ مولانا کےشاگردوں کو اجنبی کی یہ بےتکلفانہ اد اسخت ناگوار گزری لیکن استاد کےاحترام میں انہوں نےاجنبی کو کچھ نہ کہا مولانا روم کو اس اجنبی کی یہ حرکت اچھی نہ لگی۔ لیکن انہوں نےبھی خاموشی بہتر سمجھی۔ مولانا روم کا درس جاری تھا لیکن اجنبی کو درس سےکوئی دلچسپی نہ تھی وہ بار بار قیمتی کتابوں کےذخیرےکو دیکھ رہا تھا۔ آخر اس سےضبط نہ ہوا وہ درس کےدوران ہی بول اٹھا۔
مولانا! یہ کیا ہےاجنبی نےکتابوں کی طرف اشارہ کرتےہوئےپوچھا۔

مولانا روم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا آپ کو اجنبی کی جاہلانہ مداخلت سےاذّیت ہوئی لیکن مولانا نےاپنےجذبات پر قابو پا لیا۔ پھر اجنبی سےمخاطب ہو کر فرمایا کہ ذرا صبر کرو اپنا کام مکمل کر لوں پھر تمہارےسوال کاجواب دوں گا۔ اس کےبعد اجنبی نےدوبارہ کوئی سوال نہ کیا اور مسلسل کتب خانےکو دیکھنےلگا۔
درس ختم ہونےکےبعد مولانا اجنبی کی طرف متوجہ ہوئےجس کی ناشائستہ حرکات نےحاضرین مجلس کو اذّیت میں مبتلا کیا تھا۔
”آپ کون ہیں اور یہاں کس لئےتشریف لائےہیں“ مولانا نےاجنبی سےمخاطب ہو کر پوچھا۔
”مولانا! آپ میرےبارےمیںدریافت نہ کریں کہ میں کون ہوں؟“ اجنبی نےبڑی رخی سےکہا۔ بس مجھےمیرےسوال کا جواب چاہئےیہ کیا ہی۔ اجنبی کااشارہ کتابوں کی طرف تھا۔
یہ سن کر مولانا کا لہجہ تلخ ہو گیا اور اجنبی سےفرمایا تمہاری بینائی کمزور ہی۔
ہر گز نہیں۔ اجنبی نےاسی بےنیازی کےساتھ جواب دیا۔ میں تو بہت دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ تمہیں نظر نہیں آتا کہ یہ کیا ہی“ مولانا نےجھنجھلاہٹ کا شکار ہوتےہوئےکہا۔
مجھےتو بہت کچھ نظر آرہا ہےلیکن میںآپ کی زبان سےسننا چاہتا ہوں۔ اجنبی نےایک بار پھر اپنا سوال دھرایا۔
مولانا روم کا لہجہ مزید تلخ ہو گیا اور فرمایا ”یہ وہ ہےجسےتم نہیں جانتی۔“ مولانا کا جواب سن کر اجنبی کھڑا ہو گیا پھر اس نےکتابوں کی طرف اشارہ کیا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتےہوئےبولا۔ ”اچھا یہ وہ ہےجسےمیں نہیں جانتا۔“ ابھی اجنبی کےالفاظ کی گونج ہوا میں باقی تھی کہ یکایک کتب خانےمیں آگ بھڑک اٹھی اور مولانا روم کی نادر و نایاب کتابیں جلنےلگیں۔ یہ سب کچھ اس قدر اچانک اور ناقابل یقین تھا کہ مولانا دم بخود رہ گئےاور حاضرین پر سکتہ طاری ہو گیا۔
اجنبی بےنیازی سےآگےبڑھا۔ مولانا نےپکار کر کہا ”اےشخص! یہ کیا ہی؟“ مولانا نےبھڑکتےہوئےشعلوں کی طرف اشارہ کیا۔
اجنبی مسکرایا۔ مولانا سےمخاطب ہو کر بولا یہ وہ ہےجسےآپ نہیں جانتےاتنا کہہ کر اجنبی واپس جانےلگا۔ مولانا کےہونٹوںسےسرد آہ نکلی۔ ہائےمیری نادر و نایاب کتابیں۔ اےشخص! تیری وجہ سےسب کچھ راکھ ہو گیا۔
اجنبی جاتےجاتےرک گیا پھر مڑ کر مولانا سےمخاطب ہو کر کہا۔ اگریہ سب کچھ میری وجہ سےہوا ہےتو پھر میں تمہیں یہ کتابیں واپس کرتاہوں۔ یہ کہہ کر اس نےہاتھ کااشارہ کیا اور آگ کےبھڑکتےشعلےیکدم بجھ گئےآگ کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس کےبعد اجنبی کچھ کہےبغیر تیزی سےچلا گیا۔
اجنبی کےجانےکےبعد کچھ دیر تک مولانا روم حیرت زدہ کھڑےرہےپھر اپنی کتابوں کی طرف بڑھےآپ کا خیال تھا کہ کچھ کتابیں جل چکی ہوں گی۔ لیکن حاضرین سمیت سب کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ کتابوں کا ایک ایک ورق اور ایک ایک لفظ بالکل صحیح سلامت تھااوریوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا کتب خانےمیں آگ لگی ہی نہیں تھی مولانا نےاجنبی کو تلاش کیا لیکن وہ کہیں بھی نہ ملی۔ وہ جس طرح پراسرار انداز میں آیا تھا اسی طرح واپس چلا گیا۔ اس اجنبی کا نام حضرت شمس تبریز تھا۔ جنہوں نےایک ہی ملاقات میں مولانا روم جیسےنابغہ روزگار عالم کی دنیا ہی بدل ڈالی اور مولانا کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ مولانا اپنی روش ہی بھول گئی۔ کتب خانہ بند کر دیا گیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اب مولاناروم کو صرف ایک کام تھا کہ وہ ہر لمحےحضرت شمس تبریز کی خدمت میں حاضر رہتی۔
اس تبدیلی سےپورا شہرا ویران ہو گیا۔ مولانا کےعقیدت مند اس کا ذمہ دار اس اجنبی شخص کو قرار دینےلگےجس نےان سےان کا عالم چھین لیاتھا۔ اس پر مولانا روم یہی فرماتےکہ ”تم کیاجانو کہ شمس تبریز کون ہیں؟“۔
جب مولاناکےگھر والوں سمیت قونیہ شہر کےتمام لوگ حضرت شمس تبریز کو جادوگر کہہ کر پکارنےلگےتو حضرت شمس تبریز یہ زیادہ برداشت نہ کر سکےپھر ایک رات جب مولانا روم قریب ہی گہری نیند سوئےہوئےتھےحضرت شمس تبریز خاموشی سےگھر سےنکل گئی۔ صبح جب مولانا کو حضرت شمس تبریز کےچلےجانےکا علم ہوا تو آپ بہت پریشان ہوئی۔ بہت تلاش کیا لیکن کہیں بھی آپ کا نام و نشان نہ ملا۔
بعض روایتوں کےمطابق مولانا روم کےانتہاپسند مریدوں نےحسد کی وجہ سےحضرت شمس تبریز کو قتل کر دیا۔ قاتلوں میں مولانا کا ایک بیٹا بھی شامل تھا جوبعد میں ایک موذی بیماری کا شکار ہو کر مر گیا مولانا روم اپنےاس بیٹےسےاس قدر ناراض تھےکہ انہوں نےمرنےوالےبیٹےکےجنازےمیں شرکت تک نہ کی۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک عالِم نے ایک بُڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھ کر فرمایا.. " بڑی بی ! ساری عُمر چرخہ ھی کاتا ھے یا کچھ اپنے اللہ کی بھی پہچان کی..؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " بیٹا مَیں نے تمہاری طرح موٹی موٹی کتابیں تو نہیں پڑھیں مگر سب کچھ اِسی چرخہ میں دیکھ لیا.. "

فرمایا.. " بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ اللہ موجود ھے یا نہیں..؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " ھاں ! ھر گھڑی اور رات دن ' ھر وقت ایک زبردست اللہ موجود ھے.. "

عالِم نے فرمایا.. " مگر اس کی کوئی دلیل بھی ھے تمہارے پاس..؟"

بُڑھیا بولی.. " دلیل ھے یہ میرا چرخہ.. "

عالِم نے پوچھا.. " یہ معمولی سا چرغہ کیسے..؟ "

وہ بولی.. " وہ ایسے کہ جب تک مَیں اس چرخہ کو چلاتی رھتی ھوں یہ برابر چلتا رھتا ھے اور جب مَیں اسے چھوڑ دیتی ھوں تب یہ ٹھہر جاتا ھے..

تو جب اس چھوٹے سے چرخہ کو ھر وقت چلانے والے کی لازماً ضرورت ھے تو اِتنی بڑی کائنات یعنی زمین و آسمان ' چاند ' سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ھو گی..؟

پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاھیے اسی طرح زمین و آسمان کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاھیے.. جب تک وہ چلاتا رھے گا یہ سب چرخے چلتے رھیں گے اور جب وہ چھوڑ دے گا تو یہ ٹھہر جائیں گے..

مگر ھم نے کبھی زمین و آسمان ' چاند سورج کو ٹھہرے ھوئے نہیں دیکھا تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ھر گھڑی موجود ھے.. "

عالم نے سوال کیا.. " اچھا یہ بتاؤ کہ آسمان و زمین کا چرخہ چلانے والا ایک ھے یا دو..؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " ایک ھے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی یہی میرا چرخہ ھے کیوں کہ جب اس چرخہ کو مَیں اپنی مرضی سے ایک طرف کو چلاتی ھوں تو یہ چرخہ میری مرضی سے ایک ھی طرف کو چلتا ھے.. اگر کوئی دوسرا چلانے والا ھوتا تب تو چرخہ کی رفتار تیز یا آھستہ ھو جاتی اور اس چرخہ کی رفتار میں فرق آنے سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ھوتا..

یعنی اگر کوئی دوسرا صریحاً میری مرضی کے خلاف اور میرے چلانے کی مخالف جہت پر چلاتا تو یہ چرخہ چلتے چلتے ٹھہر جاتا مگر ایسا کبھی نہیں ھوا.. اس وجہ سے کہ کوئی دُوسرا چلانا والا ھے ھی نہیں..

اسی طرح آسمان و زمین کا چلانے والا اگر کوئی دُوسرا اللہ ھوتا تو ضرور آسمانی چرخہ کی رفتار تیز ھو کر دن رات کے نظام میں فرق آ جاتا یا چلنے سے ٹھہر جاتا یا ٹوٹ جاتا.. جب ایسا نہیں ھے تو پھر ضرور آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ھی اللہ ھے..!! "

ماخوذ از " سیرت الصالحین ص:٣ .
 

سیما علی

لائبریرین
ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﻮ ﺳُﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ
ﺿﻌﯿﻒ ﺍٓﺩﻣﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﺍ، ﺣﻀﻮﺭ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ
ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﻣﺴﺎﺋﻞ
ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺳﮯﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ
ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ’’ : ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺑﻨﯽ
ﺳُﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﺰﺍﺭ ﺍٓﺩﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﯿﺮ ﻣﯿﮟ
ﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔‘‘ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’ : ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺍﺱ
ﻣﺴﮑﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ؟‘‘
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﺎ’’ : ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ! ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ
ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔‘‘
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ
ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’ :ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮈﮬﺎﻧﮏ ﺩﮮ۔‘‘
ﺳﯿّﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﻣﺮﺗﻀﯽٰ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ
ﻋﻤﺎﻣﮧ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ
ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’: ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﯽ
ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﮮ۔‘‘
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻧﮑﻠﮯ۔
ﭼﻨﺪ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﻣﻼ۔ ﭘﮭﺮ
ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ
ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﭽﮯ ﺭﺳﻮﻝ
ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﮑﯿﻦ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ
ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﯿﺠﺌﮯ۔‘‘
ﺳﯿّﺪۃ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺑﺪﯾﺪﮦ ﮨﻮﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’ :
ﺍﮮ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺍٓﺝ ﮨﻢ ﺳﺐ
ﮐﻮ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻓﺎﻗﮧ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﭽﮯ
ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺳﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﺋﻞ ﮐﻮ
ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭﻧﮕﯽ۔ ﺟﺎﺅ
ﻣﯿﺮﯼ ﯾﮧ ﭼﺎﺩﺭ ﺷﻤﻌﻮﻥ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ
ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻮ ﻓﺎﻃﻤﮧؑ ﺑﻨﺖ
ﻣﺤﻤّﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
ﯾﮧ ﭼﺎﺩﺭ ﺭﮐﮫ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﺟﻨﺲ ﺩﮮ ﺩﻭ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻨﮧ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﯾﮩﻮﺩﯼ
ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ
ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ۔ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﭘﮭﺮ ﭘﮑﺎﺭ ﺍﭨﮭﺎ ’’ ﺍﮮ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ
ﻗﺴﻢ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ
ﺗﻮﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﮔﻮﺍﮦ ﺭﮨﻨﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ
ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﯾﺎ۔‘‘ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﭽﮫ ﻏﻠّﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺩﺭ ﺑﮭﯽ
ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ
ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺳﯿّﺪﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﻧﺎﺝ
ﭘﯿﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﺭﻭﭨﯽ ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯼ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ’’ : ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺠﺌﮯ۔‘‘ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ:
’’ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ
ﭼﮑﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺟﺎﺋﺰ
ﻧﮩﯿﮟ۔‘‘
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻨﮧ ﺭﻭﭨﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ
ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺩﯼ
ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ
ﺩﺳﺖ ﺷﻔﻘﺖ ﭘﮭﯿﺮﺍ، ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ:
’’ ﺑﺎﺭِ ﺍﻟٰﮩﺎ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﮐﻨﯿﺰ ﮨﮯ، ﺍﺱ
ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﻨﺎ۔ ‘‘
ﺳﯿﺪﮦ ﻃﺎﮨﺮﮦ ﺳﯿﺪﮦ ﻓﺎﻃﻤﮧ
ﯾﻌﻨﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥِ ﺟﻨﺖ ﭘﮧ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت داتا گنج بخش نے ”کشف المحجوب“ میں ذکر کیا ہے
کہ بایزید جب سفر حجاز سے واپس تشریف لائے تو ان کے آنے کی منادی کی گئی۔ لوگوں میں مشہور ہوا کہ بایزید تشریف لائے ہیں۔ شہر کے لوگ جمع ہوئے اور آپ کے استقبال کیلئے شہر سے باہر آئے تاکہ اعزاز و اکرام کے ساتھ شہر میں لائیں۔ حضرت بایزید لوگوں کی آمدورفت کو دیکھ کر جب ان کی طرف مشغول ہوگئے تو محسوس فرمایا کہ اب ان کا دل بھی تقرب الٰہی سے دور ہو رہا ہے تو پریشان ہوگئے لوگوں کو اپنے سے دور کرنے کیلئے آپ نے یہ حیلہ کیا کہ جب وسط شہر میں تشریف لائے تو روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر سرعام چبانا شروع کر دیا۔ ماہ رمضان میں آپ کے اس عمل پر عوام میں منافرت پیدا ہوگئی اور لوگ حضرت بایزید کو تنہا چھوڑ کر چل دئیے۔ کیونکہ یہ واقعہ رمضان شریف میں ہوا تھا اس لئے لوگوں نے آپ کے سر عام کھانے کے عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ حضرت بایزید کے ہمراہ ایک مرید تھا۔ آپ نے اس مرید سے فرمایا ”دیکھا تونے شریعت مطہرہ کے ایک مسئلہ پر میں نے عمل کیا تو لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ آپ کا اشارہ مسئلہ شرعی کی طرف تھا کہ مسافر اگر بحالت مسافرت روزہ نہ رکھے تو اس پر گناہ نہیں۔ وہ اس روزے کی قضا دوسرے ایام میں کر سکتا ہے۔
حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حصول ملامت کیلئے ایک برا فعل بہتر تھا۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی دو رکعت نفل لمبے کر کے پڑھے یا اپنے دین کو مضبوطی سے تھام لے توآج کل کی عوام اس کے متعلق ریاکاری یا منافقت کا فتویٰ دے دیتی ہے۔ داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خلاف شریعت عمل کرے اور خود کو ملامتی ظاہر کرے تو یہ سراسر گمراہی‘ آفت اور ہوس کاذب ہے۔ اس وضاحت کے بعد حضرت داتا گنج بخش نے ریاکار ملامتی فرقہ کے متعلق کافی طویل بیان لکھا ہے۔ حضرت بایزید ر،ح اسی طرح اپنے نفس کا علاج کیا کرتے تھے اور اس کیلئے کبھی نفس پر عتاب فرماتے اور کبھی تکبر کے احساس کا تدارک کرتے۔
 

جاسمن

لائبریرین
خلوص کی قیمت _
مجھے یہ واقعہ مسز طارق کے بڑے بیٹے نے خود سنایا ۔ میںنے اس سے پوچھا کہ بھری جوانی میں وہ تصوف کے خارزار میں کیونکر اترا۔ اس نے کہا : اپنی ماں کی وجہ سے ۔ پھر اس نے مجھے اپنی پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا: ہم چار بھائی ہیں۔ والد کا وسیع وعریض کاروبار تھا ۔ ابھی ہم لڑکپن میں تھے کہ ایک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ماں غیر معمولی خاتون تھی ۔ شکل و صورت کے لحاظ سے اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے بھی۔ وہ غیر معمولی رکھ رکھائو کی عورت تھی ۔اولاد کی خاطر اپنی زندگی تج دینے کا اس نے فیصلہ کیا۔ کاروبار کی دنیا سے مکمل انجان ہونے کے باوجود اس نے فیصلے صادر کرنے شروع کیے ۔ جائیداد کافی تھی ۔ کئی جگہ نقصان بھی ہوا لیکن بہرحال ہم چار بھائیوں میں سے تین کسی نہ کسی طرح پڑھ لکھ گئے ۔ عملی زندگی کا آغاز کیا تو تینوں غیر معمولی ثابت ہوئے ۔ میں نے کاروبار سنبھالا تو دیکھتے ہی دیکھتے اسے چار چاند لگ گئے ۔ کئی ممالک تک میں نے اسے پھیلا دیا ۔ مجھ سے چھوٹا بھائی ایک بے مثال شاعر بنا ۔ اس سے چھوٹا بہت بڑا سائنسدان ۔ سب سے چھوٹا بھائی ذہنی طور پر معذور تھا۔ بات تو وہ سمجھ لیتا تھا لیکن اسے چلنے میں دقت ہوتی ۔ اسے صرف بہت قریب کی چیزیں ہی نظر آتی تھیں ۔ اسی طرح وہ اپنے قریب کی آواز ہی سن سکتا تھا ۔ قصہ مختصر یہ کہ اس کی حسیات (senses)سست تھیں ۔ ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ۔ وہ گھر کے سامنے یا چھت پر بیٹھا دھوپ سینکتا رہتا ۔ کبھی کبھار وہ چہل قدمی کرنے چلا جاتا۔ کئی کئی گھنٹوں بعد واپس لوٹتا ۔ وہ سب ذمہ داریوں سے آزاد تھا ۔
یہاں تک پہنچ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے سلسلہ ء کلام وہیں سے جوڑا ''اس روز ‘‘ اس نے کہا '' زندگی میں پہلی بار ماں نے ہم سے کوئی فرمائش کی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کی سالگرہ پر ہم سب اسے کوئی تحفہ دیں ۔پہلی بار اس نے کسی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ ہم تینوں حیرا ن تھے ۔ ہماری خاطر اس نے اپنی زندگی تج دی تھی ۔ یہ صلہ دینے کا وقت تھا۔ ہم سب سالگرہ کی تیاریوں میں لگ گئے۔ آخر سالگرہ کا دن آیا ۔ میں نے 10ارب روپے کا ایک نہایت خوبصورت جہاز ماں کو پیش کیا ۔ اس میں وہ جب جہاں جس علاقے کی سیر کرنا چاہتی ، کر سکتی تھی ۔شاعر بھائی نے ایک طویل نظم ماں کے نام لکھی تھی اور کیا خوب۔ کبھی کسی نے اپنی ماں کی ایسی تعریف نہ لکھی ہوگی ۔ سائنسدان نے ایک ایسی چادر اسے پیش کی، جس کا رنگ پہننے والے کے جذبات کے اعتبار سے بدل جاتا تھا۔ سرخ، نیلے، سفید سمیت وہ کئی رنگ بدل سکتی تھی ۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر خوبصورت لباس نہ دیکھا تھا ۔ ماں نے کہا کہ اب سب تفصیل بتائو کہ کس طرح تم نے یہ تحفہ میرے لیے حاصل کیا۔ میں نے بتایا کہ میں نے اپنے مینیجر کو فون کیا۔ اسے کہا کہ وہ اچھے جہازوں کی تفصیلات مجھے پیش کرے ۔ پھر دس بہترین جہازوں میں سے میں نے یہ منتخب کیا۔ مینیجر کو چیک پر دستخط کر کے دئیے۔ شاعر نے کہا کہ وہ ساری رات سوچتا رہا۔ ایک ایک مصرعہ لکھتا رہا ، مٹاتا رہا ۔ سائنسدان نے کہا کہ ایسی چادر پر وہ کئی سال سے کام کررہا تھا۔ جب ماں نے فرمائش کی تو اس نے وہ چادر سب سے پہلے ماں کو پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔
ماں مسکراتی رہی، اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا ۔ جب یہ محفل تمام ہونے لگی تو دروازہ کھلا اور ذہنی معذور بھائی لنگڑاتا ہوا اندر آیا۔ اس کے کپڑے خاک آلود تھے ۔ اس کے رخسار پر ایک زخم تھا۔ اس سے خون رس رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک گڑیا تھی ۔ا س گڑیا نے جو لباس پہن رکھا تھا، اس پر شیشے جڑے ہوئے تھے ۔ کئی شیشے ٹوٹے ہوئے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارا چھوٹا بھائی کہیں گرا ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آیا ہے ۔ماں دیوانہ وار اس کی طرف لپکی۔ اسے پانی پلایا گیا ۔ اسے نہلایا گیا اور اس کے کپڑے تبدیل کرائے گئے ۔ زخم معمولی تھا، اسے پٹی کی ضرورت نہیں تھی ۔ پھر ذہنی معذور بھائی نے رک رک کر ماں کو اپنی کہانی سنائی : جب اس نے سنا کہ ماں تحفہ مانگ رہی ہے تو وہ گھر سے نکل پڑا۔ آخر اسے ایک زیرِ تعمیر عمارت نظر آئی ۔ اس نے ٹھیکیدار سے کہا کہ وہ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ اتفاق کی بات یہ تھی کہ ٹھیکدار نے اسے پہچان لیا۔ اس نے کہا کہ تم تو مسز طارق کے بیٹے ہو ۔ لڑکے نے کہا کہ وہ اپنی ماں کو کوئی تحفہ دینا چاہتا ہے ۔ وہ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ ٹھیکیدار نے اسے ویسے ہی کچھ رقم دینے کی پیشکش کی، جو اس نے مسترد کر دی ۔ آخر ٹھیکیدار نے اسے ایک برتن دیااور اسے مٹی کے ایک ڈھیر پر کھڑا کر دیا۔ اسے کہا کہ اس میں مٹی ڈالے اور کچھ دور خالی زمین پر پھینکتا رہے۔
سناٹے کے عالم میں ، ہم سب اس کی کہانی سنتے رہے ۔ ہمیں اندازہ تھا کہ کیسی مزدوری اس نے کی ہوگی۔ ساری مٹی وہ راستے میں ہی گرا دیتا ہوگا ۔ اس نے بتایا کہ ٹھیکیدار رورہا تھا۔ اس کی اپنی ماں چند روز قبل ہی فوت ہوئی تھی ۔ ٹھیکیدار نے اسے بہت سے پیسے دئیے۔ایک جگہ اسے چمکدار روشنیوں والے کھلونے نظر آئے۔ وہاں اس نے ساری رقم دکان والے کو دے دی اور فقط ایک گڑیا اٹھا کر چلا آیا۔ اس بیچارے کو پیسوں کا حساب کتاب کہاں آتا تھا۔جب وہ گھر پہنچا تو ماں کو تحفہ دینے کی خواہش میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ sensesسست ہونے کی وجہ سے وہ گر پڑا۔ اسے چوٹ لگ گئی۔
ماں گڑیا کو چومتی رہی اور ہمارے بھائی کو بھی ۔ وہ روتی رہی ۔ اتنا روئی کہ ہمارے باپ کے مرنے پر بھی کیا روئی ہوگی ۔ ہم تینوں بھائی سکتے کے عالم میں چھوٹے کو دیکھتے رہے ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اس نے ہم تینوں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا ۔ ہمارے تحفوں پر ماں نہ تو روئی تھی اور نہ ہی جذبات سے بے قابو ہوئی تھی ۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے دس ارب روپے کے جہاز کی اس سو روپے کی گڑیا کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی ۔ میں نے صرف مینیجر کو فون کیا تھا۔ اس نے اپنا آپ دائو پر لگا دیا تھا ۔ ماں نے ہم تینوں کا بھی شکریہ ادا کیا تھا لیکن ہم ہار چکے تھے ۔
یہ وہ وقت تھا، جب میں سوچنے لگا کہ اگر ایک انسان دس ارب روپے کے جہاز پر سو روپے کی گڑیا کو ترجیح دے رہا تھا تو خدا کے ہاں حساب کتاب کے پیمانے کیا ہوں گے ۔ انسا ن تو بنیادی طور پر مادہ پرست ہے ۔ وہ تو سونے، لوہے ، کوئلے اورتیل کے ذخائر سے محبت کرتا ہے ۔ خدا نے تو یہ چیزیں خود بنائی ہیں ۔ وہ تو ان چیزوں سے محبت نہیں کرتا۔اگر ایک انسان یعنی میری ماں خلوص کو اس قدر اہمیت دے رہی تھی تو خدا کے ہاں اس خلوص کی قیمت کیا ہوگی؟
اس نے فیصلہ کیا کہ ایک سو روپے کی گڑیا لوں اور خدا کو پیش کروں ۔ ایسی گڑیا جو دس ارب روپے کے جہاز پہ بھاری ہو جائے ۔
 

علی وقار

محفلین
خلوص کی قیمت _
مجھے یہ واقعہ مسز طارق کے بڑے بیٹے نے خود سنایا ۔ میںنے اس سے پوچھا کہ بھری جوانی میں وہ تصوف کے خارزار میں کیونکر اترا۔ اس نے کہا : اپنی ماں کی وجہ سے ۔ پھر اس نے مجھے اپنی پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا: ہم چار بھائی ہیں۔ والد کا وسیع وعریض کاروبار تھا ۔ ابھی ہم لڑکپن میں تھے کہ ایک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ماں غیر معمولی خاتون تھی ۔ شکل و صورت کے لحاظ سے اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے بھی۔ وہ غیر معمولی رکھ رکھائو کی عورت تھی ۔اولاد کی خاطر اپنی زندگی تج دینے کا اس نے فیصلہ کیا۔ کاروبار کی دنیا سے مکمل انجان ہونے کے باوجود اس نے فیصلے صادر کرنے شروع کیے ۔ جائیداد کافی تھی ۔ کئی جگہ نقصان بھی ہوا لیکن بہرحال ہم چار بھائیوں میں سے تین کسی نہ کسی طرح پڑھ لکھ گئے ۔ عملی زندگی کا آغاز کیا تو تینوں غیر معمولی ثابت ہوئے ۔ میں نے کاروبار سنبھالا تو دیکھتے ہی دیکھتے اسے چار چاند لگ گئے ۔ کئی ممالک تک میں نے اسے پھیلا دیا ۔ مجھ سے چھوٹا بھائی ایک بے مثال شاعر بنا ۔ اس سے چھوٹا بہت بڑا سائنسدان ۔ سب سے چھوٹا بھائی ذہنی طور پر معذور تھا۔ بات تو وہ سمجھ لیتا تھا لیکن اسے چلنے میں دقت ہوتی ۔ اسے صرف بہت قریب کی چیزیں ہی نظر آتی تھیں ۔ اسی طرح وہ اپنے قریب کی آواز ہی سن سکتا تھا ۔ قصہ مختصر یہ کہ اس کی حسیات (senses)سست تھیں ۔ ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ۔ وہ گھر کے سامنے یا چھت پر بیٹھا دھوپ سینکتا رہتا ۔ کبھی کبھار وہ چہل قدمی کرنے چلا جاتا۔ کئی کئی گھنٹوں بعد واپس لوٹتا ۔ وہ سب ذمہ داریوں سے آزاد تھا ۔
یہاں تک پہنچ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے سلسلہ ء کلام وہیں سے جوڑا ''اس روز ‘‘ اس نے کہا '' زندگی میں پہلی بار ماں نے ہم سے کوئی فرمائش کی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کی سالگرہ پر ہم سب اسے کوئی تحفہ دیں ۔پہلی بار اس نے کسی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ ہم تینوں حیرا ن تھے ۔ ہماری خاطر اس نے اپنی زندگی تج دی تھی ۔ یہ صلہ دینے کا وقت تھا۔ ہم سب سالگرہ کی تیاریوں میں لگ گئے۔ آخر سالگرہ کا دن آیا ۔ میں نے 10ارب روپے کا ایک نہایت خوبصورت جہاز ماں کو پیش کیا ۔ اس میں وہ جب جہاں جس علاقے کی سیر کرنا چاہتی ، کر سکتی تھی ۔شاعر بھائی نے ایک طویل نظم ماں کے نام لکھی تھی اور کیا خوب۔ کبھی کسی نے اپنی ماں کی ایسی تعریف نہ لکھی ہوگی ۔ سائنسدان نے ایک ایسی چادر اسے پیش کی، جس کا رنگ پہننے والے کے جذبات کے اعتبار سے بدل جاتا تھا۔ سرخ، نیلے، سفید سمیت وہ کئی رنگ بدل سکتی تھی ۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر خوبصورت لباس نہ دیکھا تھا ۔ ماں نے کہا کہ اب سب تفصیل بتائو کہ کس طرح تم نے یہ تحفہ میرے لیے حاصل کیا۔ میں نے بتایا کہ میں نے اپنے مینیجر کو فون کیا۔ اسے کہا کہ وہ اچھے جہازوں کی تفصیلات مجھے پیش کرے ۔ پھر دس بہترین جہازوں میں سے میں نے یہ منتخب کیا۔ مینیجر کو چیک پر دستخط کر کے دئیے۔ شاعر نے کہا کہ وہ ساری رات سوچتا رہا۔ ایک ایک مصرعہ لکھتا رہا ، مٹاتا رہا ۔ سائنسدان نے کہا کہ ایسی چادر پر وہ کئی سال سے کام کررہا تھا۔ جب ماں نے فرمائش کی تو اس نے وہ چادر سب سے پہلے ماں کو پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔
ماں مسکراتی رہی، اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا ۔ جب یہ محفل تمام ہونے لگی تو دروازہ کھلا اور ذہنی معذور بھائی لنگڑاتا ہوا اندر آیا۔ اس کے کپڑے خاک آلود تھے ۔ اس کے رخسار پر ایک زخم تھا۔ اس سے خون رس رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک گڑیا تھی ۔ا س گڑیا نے جو لباس پہن رکھا تھا، اس پر شیشے جڑے ہوئے تھے ۔ کئی شیشے ٹوٹے ہوئے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارا چھوٹا بھائی کہیں گرا ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آیا ہے ۔ماں دیوانہ وار اس کی طرف لپکی۔ اسے پانی پلایا گیا ۔ اسے نہلایا گیا اور اس کے کپڑے تبدیل کرائے گئے ۔ زخم معمولی تھا، اسے پٹی کی ضرورت نہیں تھی ۔ پھر ذہنی معذور بھائی نے رک رک کر ماں کو اپنی کہانی سنائی : جب اس نے سنا کہ ماں تحفہ مانگ رہی ہے تو وہ گھر سے نکل پڑا۔ آخر اسے ایک زیرِ تعمیر عمارت نظر آئی ۔ اس نے ٹھیکیدار سے کہا کہ وہ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ اتفاق کی بات یہ تھی کہ ٹھیکدار نے اسے پہچان لیا۔ اس نے کہا کہ تم تو مسز طارق کے بیٹے ہو ۔ لڑکے نے کہا کہ وہ اپنی ماں کو کوئی تحفہ دینا چاہتا ہے ۔ وہ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ ٹھیکیدار نے اسے ویسے ہی کچھ رقم دینے کی پیشکش کی، جو اس نے مسترد کر دی ۔ آخر ٹھیکیدار نے اسے ایک برتن دیااور اسے مٹی کے ایک ڈھیر پر کھڑا کر دیا۔ اسے کہا کہ اس میں مٹی ڈالے اور کچھ دور خالی زمین پر پھینکتا رہے۔
سناٹے کے عالم میں ، ہم سب اس کی کہانی سنتے رہے ۔ ہمیں اندازہ تھا کہ کیسی مزدوری اس نے کی ہوگی۔ ساری مٹی وہ راستے میں ہی گرا دیتا ہوگا ۔ اس نے بتایا کہ ٹھیکیدار رورہا تھا۔ اس کی اپنی ماں چند روز قبل ہی فوت ہوئی تھی ۔ ٹھیکیدار نے اسے بہت سے پیسے دئیے۔ایک جگہ اسے چمکدار روشنیوں والے کھلونے نظر آئے۔ وہاں اس نے ساری رقم دکان والے کو دے دی اور فقط ایک گڑیا اٹھا کر چلا آیا۔ اس بیچارے کو پیسوں کا حساب کتاب کہاں آتا تھا۔جب وہ گھر پہنچا تو ماں کو تحفہ دینے کی خواہش میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ sensesسست ہونے کی وجہ سے وہ گر پڑا۔ اسے چوٹ لگ گئی۔
ماں گڑیا کو چومتی رہی اور ہمارے بھائی کو بھی ۔ وہ روتی رہی ۔ اتنا روئی کہ ہمارے باپ کے مرنے پر بھی کیا روئی ہوگی ۔ ہم تینوں بھائی سکتے کے عالم میں چھوٹے کو دیکھتے رہے ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اس نے ہم تینوں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا ۔ ہمارے تحفوں پر ماں نہ تو روئی تھی اور نہ ہی جذبات سے بے قابو ہوئی تھی ۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے دس ارب روپے کے جہاز کی اس سو روپے کی گڑیا کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی ۔ میں نے صرف مینیجر کو فون کیا تھا۔ اس نے اپنا آپ دائو پر لگا دیا تھا ۔ ماں نے ہم تینوں کا بھی شکریہ ادا کیا تھا لیکن ہم ہار چکے تھے ۔
یہ وہ وقت تھا، جب میں سوچنے لگا کہ اگر ایک انسان دس ارب روپے کے جہاز پر سو روپے کی گڑیا کو ترجیح دے رہا تھا تو خدا کے ہاں حساب کتاب کے پیمانے کیا ہوں گے ۔ انسا ن تو بنیادی طور پر مادہ پرست ہے ۔ وہ تو سونے، لوہے ، کوئلے اورتیل کے ذخائر سے محبت کرتا ہے ۔ خدا نے تو یہ چیزیں خود بنائی ہیں ۔ وہ تو ان چیزوں سے محبت نہیں کرتا۔اگر ایک انسان یعنی میری ماں خلوص کو اس قدر اہمیت دے رہی تھی تو خدا کے ہاں اس خلوص کی قیمت کیا ہوگی؟
اس نے فیصلہ کیا کہ ایک سو روپے کی گڑیا لوں اور خدا کو پیش کروں ۔ ایسی گڑیا جو دس ارب روپے کے جہاز پہ بھاری ہو جائے ۔
انتہائی پُر اثر قصہ۔
 

انتہا

محفلین
پہلی عالمی جنگ کے دوران جب محاذ پر سپاہیوں کا کال پڑنے لگا تو ہر ضلع کی انگریز انتظامیہ نے مقامی بااثر وفاداروں کی ڈیوٹی لگائی کہ اپنے اپنے علاقے سے صحت مند نوجوان بھرتی کے لیے بھیجیں۔ جو چوہدری جتنے زیادہ جوان بھرتی کے لیے پیش کرے گا اسے اسی تناسب سے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

ایک گاؤں کے نمبردار نے بھی جوانوں کو فوج میں بھرتی پر راغب کرنے کے لیے جمع کیا اور کہا کہ میں کل اسسٹنٹ کمشنر صاحب بہادر سے ملا تھا۔ ان کے سامنے میں نے شرط رکھی کہ میرے گھبرو جوان تب تک پیش نہیں ہوں گے جب تک آپ انھیں ڈائریکٹ لفٹین بھرتی نہیں کریں گے۔ صاحب بہادر نے میری حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ بات مان لی ہے۔ یہ خوشخبری سن کر بھرتی مرکز کے باہر نوجوانوں کی قطار لگ گئی۔

مگر جب حتمی لسٹ آئی تو ہر نوجوان کے نام کے آگے سپاہی لکھا ہوا تھا تو نوجوان بپھر گئے۔ انھوں نے نمبردار کا گھیراؤ کر لیا۔ نمبردار نے حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے کہا کہ تم سب اسی وقت میرے ساتھ صاحب بہادر کے دفتر چلو۔ انھوں نے وعدہ خلافی کی ہے۔

صاحب بہادر کے دفتر کے سامنے یہ جلوس دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔ نمبردار اندر گیا۔ گھنٹے بھر ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے باہر آیا اور نوجوانوں سے کہا کہ مبارک ہو، صاحب بہادر نے ہمارا مطالبہ مان لیا۔ شروع شروع میں تم سب کو بطور سپاہی فوجی تربیت دی جائے گی اور اگر تم نے محاز پر اچھی کارکردگی دکھائی تو پھر تم سب کو لفٹین بنا دیا جائے گا۔

مگر میں نے صاحب بہادر سے قسم اٹھوائی ہے کہ جب تک میرے لڑکے لفٹین نہیں بنتے تب تک انھیں صرف تنخواہ پر نہیں ٹرخایا جائے گا بلکہ راشن اور سالانہ چھٹی کے علاوہ نئی چمکتی وردیوں اور جوتوں کے دو دو جوڑے بھی مفت میں دیے جائیں گے اور ان چیزوں کے پیسے تنخواہ سے ہرگز نہیں کاٹے جائیں گے۔ بولو منظور ہے؟

سب نوجوانوں نے بیک آواز کہا منظور ہے۔ انھوں نے نمبردار کو کندھے پر اٹھایا اور ہنسی خوشی گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔
 

سید عمران

محفلین
رنگوں کے اُردو نام جو ہم بُھولتے جا رہے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "آبِ گُم" سے ایک اِقتباس نقل جس میں اُنھوں نے رنگوں کے وہ قدیم نام گِنائے تھے جو ہماری زبان سے تیزی سے مَتروک ہو رہے ہیں۔

یوسفی صاحب نے لکھا تھا۔۔
’’افسوس! ہمیں اِحساس نہیں کہ ہماری ہاں رنگوں کے قدیم اور خوبصورت نام بڑی تیزی سے مَترُوک ہو رہے ہیں۔ کل اِنھیں کون پہچانے گا؟‘‘

”شَنگرَفی، مَلاگیِری، عُنابی، کپاسی، کبُودی، شُتُری، زَمَرُّدی، پیازی، قِرمِزی، کاہی، کاکریزی، اَگرئی، کاسنی، نُقرَئی، قَناوِیزی، موتیا، نِیلوفَری، دھانی، شَربَتی، فالسئی، جامنی، چمپئی، تربوزی، مٹیالا، گیروا، مونگیا، شہتوتی، تُرنجی، انگوری، کِشمشی، فاختئی، پستئی، شَفتالُو، طاؤسی، آبنُوسی، عُودی، عَنبری، حِنائی، بنفشئی، کُسمبری، طُوسی، صُوفیانہ اور سُوقیانہ۔“

”ہم نے اپنے لفظ خزانے پر لات ماری سو ماری، اپنی دھرتی سے پُھوٹنے والی دَھنَک پر بھی خاک ڈال دی۔‘‘

_ ہمارے ایک دوست نے فرمائش کی کہ ان رنگوں کے ناموں کی لُغت بھی پوسٹ کی جائے۔ اب یوسفی صاحب تو حیات ہیں نہیں کہ ان سے رجوع کیا جائے، چنانچہ مَیں نے ہی ایک رات کالی کر کے کِسی طرح ان رنگوں کے ناموں کی فرہنگ تیار کی جو اس اُمید پر پیش کر رہا ہوں کہ شاید ہم ان ناموں کو دوبارہ اپنی لُغت میں شامل کرکے اپنے اس قیمتی ورثے کو کم از کم اپنی نئی نسلوں کے سپرد کر جائیں۔ مَیں نے کچھ ایسے رنگوں کو اس فرہنگ میں شامل نہیں کیا ہے جِنہیں ہم اب بھی پہچانتے ہیں۔

یہاں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہر رنگ کے اپنے شیڈ بھی ہوتے ہیں اس لئے کِسی ایک نام کے ساتھ صرف اس کے ایک ہی شیڈ کو مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔

فَرہَنگ _

Vermilion
شَنْگْرَفی: سُرخ، خوب لال، شنجرفی۔

شَنجرف: گہرے سرخ رنگ کی ایک معدنی شَے جو مصوّری اور نقاشی میں کام آتی ہے اور دوا کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔

Sandalwood colour
مَلاگیِری: جوگیا، گیروا، صَندَل کا رنگ۔
ملاگیر: صَندَل کی قسم کی ایک لکڑی جسے پِیس کر سُرخی مِلا کر اس میں کپڑے (خصوصا ً دوپٹے) رنگتے ہیں جو خوشبودار بھی ہوتے ہیں۔

Sapphire Blue
کَبُودی: نیلا، نیلگوں۔
کبودی، نیلم یا sapphire جیسے گہرے نیلے رنگ کو کہاجاتا ہے۔ اس کی اصل یہ ہے کہ فارسی میں نیلم کو یاقوتِ کبود کہا جاتا ہے۔

Light Brown
شُتُری: شُتر (اونٹ) کے رنگ کا ہلکا بُھورا، بادامی۔

Emerald Green
زُمُرُّدی: زمرد کے رنگ کا، سبز رنگ کا۔

Crimson or Scarlet
قِرمِزی: گہرا سُرخ۔

Grass Green
کاہی: گہرا سبز۔

Dark Purple
کاکریزی: سیاہی مائل اُودا رنگ, گہرا اُودا رنگ۔

Aloe wood
اَگرئی: گہرا کشمشی رنگ، زردی مائل یا بھورا رنگ، اَگر کے رنگ کا۔

Lilac
کاسنی: سرخی مائل نیلا، بنفشی، ہلکا اُودا، سوسنی رنگ۔
قَناویزی: غالباً سرخ رنگ کا۔ قَناویز دراصل سِلک کا ایک قسم کا کپڑا ہوتا تھا جو عموماً سرخ رنگ کا ہوتا تھا۔ اس قسم کا کپڑا اب نہیں بُنا جاتا۔

Colour of Blue Water-lily
نیلوفری: گہرا نیلا۔

Light Green
دھانی: سبز دھان کے رنگ کا، ہلکا سبز۔

Orange or Pale Yellow
شربتی: ہلکا زرد رنگ جو کسی قدر سُرخی مائل ہو۔

Yellow, Golden, Orange
چَمپئی: ہلکی زردی یا سنہرا پَن لٸے ہوئے۔
مِٹیالا: مٹی کے رنگ کا، خاکستری، بُھورا۔

Red Ochre
گیروا: گیرو کے رنگ کا، جوگیا رنگ کا۔

Green
مونگیا: مونگ کے رنگ کا، سیاہی مائل سبز رنگ کا۔

Citron or Orange coloured
تُرَنجی: نارنجی رنگ کا، سرخی مائل زرد۔

of Peach colour
شفتالوی: سیاہی مائل سرخ رنگ کا۔
آبنوسی: کالا، سیاہ۔

of the colour of Ambergris
عَنبَری: سیاہی مائل بھورے یا گہرے سرمئی رنگ کا، عَنبَر کے رنگ کا۔
حِنائی: مہندی کے رنگ کا، زردی مائل سُرخ۔

Violet
بنفشی: بنفشئی، پھیکا نیلا رنگ۔

Safflower
کُسمبری: کُسُمبی یا کُسُمبھی، سرخی مائل گہرا نارنجی رنگ، کُسُمب یاکُسُمبھ سے بنایا گیا رنگ۔

Purple
طُوسی: ایک قسم کا بینگنی رنگ۔

صوفیانہ: سادہ یا ہلکا رنگ۔

سوقیانہ: بازاریوں کا سا، عامیانہ۔
منقول

نقل و ترسیل: سلیم خان
 

سیما علی

لائبریرین
آج ایک شادی پر جانا ھوا،ھال کے ایک کونے پر نظر گئی تو ایک جان پہچان والے شخص پر نظر پڑی.. .جو اکیلا ھی بیٹھا تھا..اس کے ساتھ جاکر میں بھی بیٹھ گیا...بڑی گرمجوشی سے ملا وہ شخص .... اس کا گاڑیوں کے پرزے اور انجن آئل وغیرہ کاکام ہے

حال احوال پوچھنے کے بعد ....وھی عام طور پر کی جانے والی باتیں شروع ھوگئیں....یعنی مہنگائی اور کاروباری مندے کا رونا.

کہنے لگا . ...آج کل کام کوئی نہیں چل رھا...اوپر سے گاھک بھی ایسے ھیں کہ سالوں کو مرنا بھولا ھوا ھے....خدا خوفی تو گویا ھے ھی نہیں، ابھی پرسوں کی بات ھے،ایک بندے نے گاڑی کا آئل تبدیل کروایا .....پچیس سو بل بنا....اس نے پیسے دیئے اور چلا گیا.....بعد میں پتا چلا کہ ایک ہزار کا نوٹ جعلی دے گیا...

اوہ..میرے منہ سے نکلا، پھر ؟؟؟
پھر کیا....بڑی گالیاں نکالی اسے....پتا نہیں کون تھا پہلی بار آیا تھا. وہ تو شکر ھے میں نے آئل ھی جعلی ڈالا اس کی گاڑی میں،،،،ورنہ میں تو مارا جاتا.

اسی دوران “روٹی کھل گئی” کا نعرہ لگا اور پورے ھال میں گویا بھونچال آگیا..وہ مرغی کے قورمے کا ڈھیر پلیٹ میں لئے فاتحانہ انداز لٸے واپس آگیا...میں سمجھا شاید میرے لئے بھی لے آیا کھانا..کہنے لگا، پا جی لے آو تم بھی ....بعد میں تو شادی ھال والے خراب کھانا دینا شروع کر دیتے ھیں.

میں اٹھا اور بریانی لے کر واپس آگیا.

اور اس سے پوچھا،اس جعلی ہزار کے نوٹ کا کیا کِیا تم نے؟؟
کرنا کیا ھے.....لڑکے والوں نے شادی پر بلایا ھے.....دلہے کے والد کو سلامی میں دے دیا وہ نوٹ.....اور میز کے نیچے چھپائی چار بوتلوں سے ایک نکال کر دو گھونٹ میں خالی کر دی...

اور چھ سیکنڈ دورانیے کا لمبا ڈکار لینے کے بعد دونوں ھاتھ جوڑے....عقیدت سے آنکھیں بند کیں اور بولا....
شکر ________الحمداللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
پرچہ اردو-S.S
پبلک سروس کمیشن
(جوابات سوال نامے کے آخر میں دیکھئے)

1. "سیاہ و سفید ہونا" محاورہ ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟
A. محتاج ہونا
B. مختار کل ہونا
C. دست بردار ہونا
D. افسوس کرنا
2۔ "اڑان کھائی بتانا " محاورے کا مفہوم کیا ہے؟
A. کھیتی باری کرنا
B. دھوکہ دینا
C. نفرت کرنا
D. ضد کرنا
3. "مٹھی گرم کرنا" محاورے کا مفہوم کیا ہے؟
A. نوکری کرنا
B. راز فاش کرنا
C. سفر کرنا
Dرشوت دینا ۔
4. "ارباب حجت" کی ترکیب اردو میں کن معنوں میں مستعمل ہے؟
A. محتاج لوگ
B. منطقی لوگ
C. منافق لوگ
Dایشیائی لوگ ۔
5۔ "بنت البحر" کی ترکیب سے کیا مراد ہے؟
A. انگور کی بیٹی۔ شراب
B. جل پری
C. کشتی
D. ہیرا من
6۔ "رخت ہستی" کی ترکیب کا مفہوم کیا ہے؟
A.۔ سمجھ بوجھ۔
B.بیوقوفی و نادانی
C.بے ثباتی
D.برعکس عقل
7۔ "تاج پر مونج کا بخیہ" ضرب المثل سے کیا مراد ہے؟
Aرشتہ جوڑنا ۔
B. بے جوڑ بات
C. بسرام کرنا
D. مدد کرنا
8۔ "آم کے آم کٹھلیوں کے دام" عام ضرب المثل ہے۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟
A. نقصان پر نقصان ہونا
B. دوہرا فائدہ ہونا
C. نہایت بد انتظامی
D. بے سکونی و بے چینی
9۔ "چور کی داڑھی میں تنکا" ضرب المثل سے کیا مراد ہے؟
A. عیب خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے
B. غریب پر سب کا بس چلتا ہے
C. صحبت کا بڑا اثر ہوتا ہے
D. آمدنی کے مطابق خرچ
10۔ "آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا" ضرب المثل سے کیا مرد ہے؟
A. ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں پھنس جانا Bاپنے اہنے شغل میں مگن رہنا ۔
Cفتح مند ہون ۔
Dدھوکہ دینے کی کوشش کرنا ۔

11۔ فیض احمد فیض کا آخری شعری مجموعہ کونسا ہے؟
A. نقش فریادی
Bدست صبا ۔
Cسروادی سینا ۔
D. غبار ایام

12۔ ظفر اقبال کے شعری مجموعہ "عیب و ہنر" کا دیباچہ کس معروف ادیب نے لکھا ہے؟
A. محمد خالد اختر
B. سلیم اختر
C. انتظا حسین
D. احمد ندیم قاسمی
13۔ مستنصر حسین تارر کی تصنیف "قربت مرگ میں محبت" صنف کے اعتبار سے کیا ہے؟
A. شاعری
B. ناول
C. افسانہ
D. رپورتاژ
14۔ "شاعر رومان" کس شاعر کو کہا جاتا ہے؟
Aسجاد حیدر یلدرم ۔
B. اختر شیرانی
C. حفیظ جالندھری
D. حسرت موہانی
15۔ یاس یگانہ چنگیزی کا اصل نام کیا تھا؟
A. مرزا واجد حسین
B. علی کندر
C. مزمل حسین
D. عبد الحئ
16۔ علامہ اقبال نے پیام مشرق کس شاعر کے دیوان کے جواب میں لکھی؟
A. پروفیسر آرنلڈ
B. گوئٹے
C حافظ شیرازی
D. مولانا روم
17۔ اردو شاعری میں "مرثیہ گوئی" کے حوالے سے کس کا نام زیادہ معروف ہے؟
A. مرزا تعشق
B. گوہر علی شیر
Cمرزا دبیر ۔
D. میر انیس
18۔ خوشی محمد ناظر کی مشہور نطم "جوگی" کس ہیت میں ہے؟
Aمثنوی ۔
B. تکیب بند
C. آزاد نظم
D. مخمس
19۔ چوبولا شاعری کی صنف ہے جس میں؟
Aچار مصرعے ہوتے ہی ۔
Bچار شعر ہوتے ہیں ۔
Cچار ارکان ہوتے ہیں ۔
D. ان میں سے کوئ نہیں
20۔ ترقی پسند تحریک کا ترجمان جریدہ کونسا تھا؟
Aسویرا ۔
Bشب خوں ۔
Cمخزن ۔
D. خیالستان
21۔ بے کلی سے کچھ دل کو سرو کار نہ ہو
تیری نرگس بھی ایسی کبھی بیمار نہ ہو
اس شعر میں علم بیان کی کونسی قسم مستعمل ہے؟
A تشبیہ
B استعارہ
C کنایہ
D مجاز مرسل
22۔ زندگی ہے یا کوئ طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اس شعر علم بیان کی کونسی قسم ظاہر کر رہا ہے؟
A تشبیہ
B استعارہ
C کنایہ
D مجاز مرسل
23۔ اگتے تھے دست بلبل و دامان گل بہم
صحن چمن نمونہ یوم الحساب تھا
اس شعر میں کونسی صنعت استعمال ہوئ ہے؟
A مراعات النظیر
B لف و نشر
C حسن تعلیل
D تدبیج
24۔ "منزل شب" سی حرفی" اور "آثار" کے جیسے شعری مجوعوں کے حوالوں سے کس شاعر کا نام زہن میں آتا ہے؟
A جون ایلیا
B مختار صدیقی
C. نسیم امروہوی
D سرفراز شاہد
25۔ "کبیر مہدی" کس مشہور ناول کا کردار ہے؟
A اداس نسلیں
B غلام باغ
C کاغذی گھاٹ
D آنگن
26۔ اردو لغت بورڈ کا موجودہ سربراہ کون ہے؟
A تحسین فراقی
B عقیل عباس جعفری
C عطاء الحق قاسمی
D انوار احمد
27۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم "طلبہ علی گڑھ کالج کے نام" ان کے کس مجموعہ کلام میں شامل ہے؟
A بانگِ درا
B بال جبریل
C ضربِ کلیم
D ارمغانِ حجاز
28۔ "خواب باقی ہیں" کس کی خود نوشت ہے؟
A فرید جاوید
B کلیم الدین احمد
C آل احمد سرور
D وارث علوی
29۔ سر سید احمد خان کی کتاب "جام جم" کا موضوع کیا ہے؟
A. تاریخ
B آپ بیتی
C. تقاریر
D مصاحبے
30۔ مولانا آزاد شاعری میں کس شاعر کے شاگرد تھے؟
A ابرہیم زوق
B. مرزا غالب
C مصطفی خان شیفتہ
D. داغ دہلوی
31۔ "امروز" کس کی مشہور نظم ہے؟
A ن م راشد
B میرا جی
C مجید امجد
D. فیض احمد فیض
32۔ ن م راشد کس قلمی نام سے مضامین لکتھے تھے؟
A راشد وحیدی
B غاصف ملانوی
C ابو العلاء چشتی
D خامہ بگوش
33۔ قصیدہ کی زبان کیسی ہوتی ہے؟
A علائم و رموز کی زبان
B پرشکوہ زبان
C غم و الم کی زبان
D ہجروفراق کی زبان
34۔ رضیہ فصیح احمد کے ناول "صدیوں کی زنجیر" کا موضوع کی ہے؟
A تقسیم ہند
B المیہ مشرقی پاکستان
C جنگ آزادی
D. کارگل جنگ
35۔ "ابوتراب"، "ابوبکر" قوائد کے اعتبار کیا ہیں؟
A. لقب
B عرف
C خطاب
D. کنیت
36۔ مسمط کس زبان کا لفط ہے؟
A عربی
B. فارسی
C انگریزی
D اطالوی
37۔ مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سن سن کر سخنوران کامل
آسان کرنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل و نگویم مشکل
ان اشعار سے کونسی صنف شاعری زہن میں آتی ہے؟
A. قطعہ
B رباعی
C دو بیتی
D قصیدہ
38۔ شعر میں قافیہ کی تکرار کو اصطلاح میں کیا کہا جاتا ہے؟
A.تکیہ
B رسم
C. غنائیت
D ایطا
39۔ مولانا آزاد کی وفات کس سن میں ہوئی؟
A 1912ء
B 1914ء
C 1910ء
D 1915ء
40۔ "کلیات یوسف ظفر" کو کس نے مرتب کیا ہے؟
A. ڈاکٹر محمد صادق
B. حامد علی خان
C. تصدق حسین راجا
D. تحسین فراقی
41۔ "صریر خامہ" کس یونیورسٹی کا تحقیقی مجلہ ہے؟
A الخیر یونیورسٹی بھمبر
B قرطبہ یونورسٹی پشاور
C. پشاور یونیورسٹی
D. سندھ یونیورسٹی
42۔ علامہ اقبال کی مشہور کی نظم "جبریل و ابلیس" کس مجموعہ کلام میں شامل ہے؟
A. بانگِ درا
B. بال جبریل
C ضربِ کلیم
D. ارمغانِ حجاز
43۔۔ "دوسرا آسمان" کس کا پی ٹی وی ڈراما ہے؟
A. یونس جاید
B. امجد اسلام امجد
C انور مقصود
D. مرزا اطہر بیگ
44۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں کونسا ادارہ شائع کرتا ہے؟
A. انجمن ترقی اردو
B. اکادمی ادبیات پاکستان
C سنگ میل مبلیکیشنز
D. ادارہ مطبوعات اردو
45۔ "سبد چین" کس کی تصنیف ہے؟
A. مرزا غالب
B. مولانا حالی
C مومن خان مومن
D. مولانا آزاد
46۔ اس اسم کو کیا کہا جاتا ہے جو خود تو مصدر سے بنا ہو لیکن آگے اس سے کوئ اور اسم نہ بن سکے؟
A. اسم مشتتق
B. اسم جامد
C. اسم ضمیر
D. اسم کیفیت
47۔ غزل کو اردو شاعری کی آبرو کس نے قرار دیا؟
Aکلیم الدین احم ۔
B جوش ملیح آبادی
C. رشید احمد صدیقی
D. عظمت اللہ
48۔ "رجز" کس صنف شاعری کا جزو ہے؟
A. قصیدہ
B مرثیہ
C دوہا
D. سانیٹ
49. ماہیا کتنے مصروں پر مشتمل ہوتا ہے؟
A. 2
B. 3
C. 4
D. 5
50۔ حلقہ ارباب ذوق کے پہلے اجلاس کی صدارت کس نے کی تھی؟
A وزیر آغا
B. میرا جی
C. حفیظ ہوشیار پوری
D. قیوم نظر
51۔ "قلب و نظر کے سلسلے" کس کے شاعر کے کلیات کا عنوان ہے؟
A. قیوم نظر
B. امجد اسلام امجد
C. احمد فراز
Dمحسن نقوی ۔
52۔ جلوہ ہے مجھی سے لب دریائے سخن پر
صد رنگ میری موج ہے میں طبع رواں ہوں
یہ شاعرانہ تعلی کسے زیب دیتا ہے؟
A. ابراہیم ذوق
B. مرزا غالب
C. میر تقی میر
D میر انیس
53۔ انجمن پنجاب کے سیکرٹری کون تھے؟
A. مولانا آزاد
B مولانا حالی
C. پنڈت من پھول
D. ان میں سے کوئ نہیں
54۔ "ہم کہ ٹھہرے اجنبی" فیض احمد فیض کے حوالے سے کتاب کس نے مرتب کی ہے؟
A. آغا ناصر
B ایوب مرزا
C ممتاز حسین
D کشور ناہید
55۔ "لمحوں کی راکھ" کس کا ناول ہے؟
A. مرزا ادیب
B انور سجاد
C جمیلہ ہاشمی
D. رضیہ بٹ
56۔ "اکبر اعظم" کس ڈراما کا کردار ہے؟
A. باپ ک گناہ
B. انار کلی
C. رستم و سہراب
D اندھیرا اجالا
57۔ "دنیا کا سب سے انمول رتن" کس کا شاہکار کارنامہ ہے؟
A. پریم چند
B. سجاد حیدر یلدرم
C. انتظار حسین
D. سعادت حسن منٹو
58۔ انتطار حسین کے مشہور ناول "آگے سمندر ہے" کا آغاز کس شاعر کے شعر سے ہوتا ہے؟
A. ناصر کاظمی
B. فراق گورکھپوری
C احمد مشتاق
D فیٖض احمد فیض
59۔ "نکات الشعراء" کس کا تذکرہ ہے؟
A. میر تقی میر
B. میر درد
Cمیر سوز ۔
D. میر اثر
60۔ میر انیس کس شاعر کے پوتے تھے؟
A. میر خلیق
B میر حسن
C میر درد
D. ان میں سے کوئ نہیں
61۔ پھر جائے نہ چشم صنم آنکھ کے آگے
سیر چمن نرگس شہلا نہ کریں گے
"نرگس شہلا" سے کیا مرا دہے؟
A. مست و مکمور آنکھ
B بیگی پلکیں
C. محبوب کا دیدار
D محبوب کی سختیاں
62۔ علم بیان و بدیع پر مشہور کتاب "فکر بلیغ" کا مصنف کون ہے؟
A. امام بخش صہبائی
B نجم الغنی
C علی محمد شاد
D. وہاب اشرفی
63۔ "چھپا ہے شاعری کا مہر تاباں" اس مصرعے سے بحساب جمل 1327ھ کا سال برآمد ہوتا ہے۔ یہ کس شاعر کی تاریخ وفات ہے؟
A. سر سید احمد خان
B امیر مینائی
C شبلی نعمانی
D. جلال لکھنوی
64۔ فسانہ آزاد کتنی جلدیں پر مشتمل ہے؟
A. 3
B. 5
C. 4
D. 6
65۔ اردو شاعری میں "سینٹو" کا تجربہ کس نے کیا؟
A. ظفر اقبال
B مظہر امام
C. سید جعفر طاہر
D. باقی صدیقی
66۔ اردو کا سٹیفن لی کاک کس کو کہا جاتا ہے؟
A. کرنل محمد خان
B. شفیق الرحمن
C مشتاق احمد یوسفی
D. محمد خالد اختر
67۔ "سہ شنبہ" ہفتہ کا کونسا دن ہوتا ہے؟
A. اتوار
B. بدھ
C منگل
D. جمعرات
68۔ "روح اقبال" کس کی مشہور کتاب ہے؟
A خلیفہ عب الحکیم
B عبد المجید سالک
C یوسف حسین خان
D. حمید شاہد
69۔ نثر کی اس قسم کو کیا کہا جاتا ہے جس میں لکھنے والا مجرد صفات کو مجسم بنا کر پیش کرتا ہے اور انکی ایسی اشکال تیار کرتا ہے کہ وہ زندہ اور ذی روح دکھائ دیتی ہیں؟
A. رومانویت
B تمثیل
C تنافر
D ابتذال
70۔ نیئرنگ خیال کب شائع ہوئی؟
A. 1880ء
B 1870ء
C 1901ء
D. 1910ء
71۔ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
یہ کس کا مشہور شعر ہے؟
A. عادل منصوری
B. ظفر اقبال
C. افتخار عارف
D. اختر الا یمان
72۔ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائ درد بے دوا پایا
اس شعر کو اصطلاح میں کا کہیں گے؟
A. مطلع
B. حسن مطلع
C. مقطع
D حسن مقطع
73۔ سوال نمبر 72 کے حوالے بتائیں کہ اس شعر میں قافیہ کونسا ہے؟
A. پایا، دوا
B. طبیعت، زیست
C. مزا، دوا
D. ان میں سے کوئ نہیں
74۔ سوال نمبر 72 کے حوالے سے بتائیں کہ اس شعر میں ردیف کونسی ہے؟
A. پایا، پائی
B. پایا
C درد، دوا
D. ان میں سے کوئ نہین
75۔ زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی ترا سفر
علامہ اقبال کا یہ شعر کس کے لئے ہے؟
A. اپنے والد شیخ نور محمد
B اپنی والدہ مرحومہ امام بی بی
C. شیخ عطاء محمد
D. اپنے استاد میر حسن
76۔ "خمار گندم" کس کی تصنیف ہے؟
A. فیض احمد فیض
B ابن انشا
C. مشتاق احمد یوسفی
D. کرنل محمد خان
77۔ قرۃ العین حیدر، فارغ بخاری اور محمود ہاشمی کے درمیان کیا قدر مشترک ہے؟
A. آپ بیتی
B کالم نگاری
C. رپورتاژ
D شاعری
78۔ لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
یہ مشہور شعر کس کی تخلیق ہے؟
A. ابراہیم ذوق
B. مرزا غالب
C. مولانا حالی
D. داغ دہلوی
79۔ کونسا جملہ درست ہے؟
A. یہ واقع کب پیش آیا؟
B یہ واقعہ کب پیش آیا؟
C یے واقعہ کب ہیش آیا؟
D. یہ واقع کب ہیش آئے؟
80۔ بغیر القابات و خطابات کے خط لکھنے کی کس شاعر کی عام عادت رہی ہے؟
A. مرزا غالب
B. رجب علی بیگ سرور
C. خوث بے خبر
D. مولوی عبد الحق

"جوابات"
1b,2b,3d,4b,5b,6a,7b,8b,9a,10a 11d,12c,13b,14b,15a,16b,17b,18b, 19a,20a,21b,22a,23,24b,25b,26b,27a,28c,29a,30a 31c,32a,33b,34b,35d,36a,37b,38d,39c,40c 41d,42b,43d,44c,45a,46a,47c,48b,49b,50c 51a,52c,53a,54b,55a,56b,57a,58c,59a,60b 61a,62c,63d,64c,65c,66b,67c,68c,69b,70a 71c,72a,73c,74b,75b,76b,77c,78b,79b,80a
 

سید عمران

محفلین
دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔
ایک بوڑھے نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا: ہمارے پاس اس ملک کے مسائل حل کرنے کیلیئے ایک شاندار منصوبہ ہے۔
اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔
راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا: ان سب کے ساتھ ایک گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟
دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا:
دیکھا رفیقے: آگیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ بخدا اس قوم کے بارے میں کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔
 

سید عمران

محفلین
عید کے دن ایمرجنسی میں ڈیوٹی تھی۔ایک ناکام عاشق خود کو پیٹ میں گولی مار کر آ گیا۔
سیدھا تھیٹر میں لے کر گئے۔ گولی بڑی رگ کو چیر گئی تھی۔ سینئر رجسٹرار سے ریپئر نہ ہو پا رہی تھی۔ میڈم پروفیسر کو بلایا گیا۔ انہوں نے آپریشن مکمل کیا۔
‏اگلے دن راؤنڈ میں میڈم آئیں اور لڑکے سے بولیں:
“بیٹا آپ نے خود کو کیوں گولی ماری؟‘‘
لڑکا بولا:
“ایک لڑکی نے مجھے پیار میں دھوکا دیا۔‘‘
میڈم بولیں:
“بیٹا اگلی دفعہ کوئی لڑکی پیار میں دھوکا دے تو گولی سر میں مارنا تاکہ ہم سب کی عید خراب نہ ہو۔‘‘
ایک ڈاکٹر کی زبانی۔
فاخر رضا
 

فاخر رضا

محفلین
عید کے دن ایمرجنسی میں ڈیوٹی تھی۔ایک ناکام عاشق خود کو پیٹ میں گولی مار کر آ گیا۔
سیدھا تھیٹر میں لے کر گئے۔ گولی بڑی رگ کو چیر گئی تھی۔ سینئر رجسٹرار سے ریپئر نہ ہو پا رہی تھی۔ میڈم پروفیسر کو بلایا گیا۔ انہوں نے آپریشن مکمل کیا۔
‏اگلے دن راؤنڈ میں میڈم آئیں اور لڑکے سے بولیں:
“بیٹا آپ نے خود کو کیوں گولی ماری؟‘‘
لڑکا بولا:
“ایک لڑکی نے مجھے پیار میں دھوکا دیا۔‘‘
میڈم بولیں:
“بیٹا اگلی دفعہ کوئی لڑکی پیار میں دھوکا دے تو گولی سر میں مارنا تاکہ ہم سب کی عید خراب نہ ہو۔‘‘
ایک ڈاکٹر کی زبانی۔
فاخر رضا
ڈاکٹر، وہ بھی ایمرجنسی والے اور عید یا چاند رات
ممکن ہی نہیں کہ سکون سے رات گزرے
 

سید عمران

محفلین
انتباہ:
۱) یہ تحریر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر پڑھیں۔۔۔
۲) اس تحریر کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔
۳) تحریر پڑھتے ہوئے طبیعت زیادہ خراب ہو تو قریبی معالج سے رجوع کریں!!!

اک وہ بھی زمانہ تھا کہ میاں بیوی محلے والوں کو یہ بتانے سے شرماتے تھے کہ وہ ایک چارپائی پر سوتے ہیں اور اب ....
ایک بار ایک باپ اپنے بیٹے سے ملنے شہر جاتا ہے۔ وہاں اس کے بیٹے کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی بھی رہتی ہے۔ تینوں ڈنر کی ٹیبل پر بیٹھ جاتے ہیں:
پاپا : - بیٹا تمہارے ساتھ یہ لڑکی کون ہے؟
بیٹا : - پاپا، یہ لڑکی میری روم پارٹنر ہے، اور میرے ساتھ ہی رہتی ہے۔
بیٹا : - مجھے پتہ ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہوں گے ......... ہم دونوں کے درمیان کوئی ایسا ریلیشن نہیں ہے پاپا۔ ہم دونوں کے کمرے بھی مختلف ہیں، اور ہم لوگ الگ الگ ہی سوتے ہیں۔ ہم لوگ صرف اچھے دوست ہیں۔
پاپا : - اچھا بیٹا ... !!
دوسرے دن اس کے پاپا واپس چلے جاتے ہیں۔
ایک ہفتے بعد
لڑکی : - سنو، گزشتہ سنڈے تمہارے پاپا نے جس پلیٹ میں ڈنر کیا تھا، وہ پلیٹ غائب ہے۔ مجھے تو شک ہے کہ پلیٹ تمہارے پاپا نے ہی چوری کی ہوگی ...... !!
آدمی : - شٹ اپ ... !! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟
لڑکی : - آپ ایک بار اپنے پاپا سے پوچھ تو لو، پوچھنے میں کیا حرج ہے؟؟
آدمی : - او کے ...... !!
آدمی اپنے پاپا کو ای میل لکھ کر بھیجتا ہے:
ڈئیر پاپا!!
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ نے پلیٹ چوری ......
میں یہ بھی نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ نے پلیٹ چوری نہیں کی ......
اگر آپ غلطی سے پلیٹ لے گئے ہوں تو پلیز آپ اسے واپس کر دیں، کیونکہ وہ اس لڑکی کی پلیٹ ہے۔

اس کے پاپا اسے ایک گھنٹے کے بعد جواب بھیجتے ہیں:
ڈئیر بیٹا!
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تمہاری روم پارٹنر تمہارے ساتھ سوتی ہے ......
میں یہ بھی نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں سوتی ......
اگر اس پورے ہفتے میں وہ لڑکی ایک بار بھی اپنے کمرے میں اپنے بیڈ پر سو جاتی تو تکیے کے نیچے ہی اسے پلیٹ مل جاتی جو میں نے چھپائی تھی۔
 
Top