انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
صرف مسکرائیے

ایک نوجوان نے کراچی کی ایک کمپنی سے سیلزمینی کی جاب چھوڑی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں کینیڈا چلا گیا۔۔۔۔وہاں اس نے ایک بڑے ڈیپارٹمینل اسٹور میں سیلزمین کی پوسٹ پر ملازمت کیلئے اپلائی کیا۔۔۔۔اس اسٹور کا شمار دنیا کے چند بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا جہاں سے آپ سوئی سے جہاز تک سب کچھ خرید سکتے ہیں۔۔۔

اسٹور کے مالک نے انٹروویو کے دوران پوچھا
"آپکے ڈاکومنٹس کے مطابق آپ کا تعلق کسی ایشیائی ملک پاکستان سے ہے۔۔۔پہلے بھی کہیں سیلزمینی کی جاب کی "

"جی میں آٹھ سال کراچی پاکستان کی ایک کمپنی میں جاب کر چکا ہوں"

مالک کو یہ لڑکا پسند آیا
"دیکھو۔۔۔میں آپ کو جاب دے رہاہوں۔۔۔آپ نے اپنی کارگردگی سے میرے فیصلے کو درست ثابت کرنا ہے۔۔۔کل سے آ جاؤ۔۔۔۔گڈلک"

اگلے دن وہ پاکستانی لڑکا اپنی جاب پر پہنچا۔۔۔پہلا دن تھا۔۔۔طویل اور تھکا دینے والا دن۔۔۔بہرحال شام کے چھ بج گئے۔۔۔

مالک نے اسے اپنے دفتر میں بلایا
" ہاں بھئی۔۔اپ نے آج دن میں کتنی سیل ڈیل کیں؟"
"ایک" اس نے جواب دیا
"صرف ایک" مالک مایوسی سے بولا "دیکھو۔۔۔میرے سیلزمین دن میں کم سے کم 20 سے 30 ڈیلز کرتے ہیں۔۔۔آپ کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ مشکل ہو جائیگی"
"بہتر سر"

مالک نے پھر پوچھا "اچھا۔۔۔یہ بتاؤ تمہاری یہ ڈیل کتنے ڈالر کی تھی؟"

"سر نو لاکھ پچاس ہزار سات سو نو ڈالر کی" وہ بولا

"کیا۔۔۔نو لاکھ ڈالر۔۔۔۔نو لاکھ ڈالر کی ایک ڈیل" مالک حیرت سے کھڑا ہو گیا تھا
"نو لاکھ نہیں۔۔۔۔سر۔۔۔نو لاکھ پچاس ہزار سات سو نو ڈالر"

"او خدا کے بندے! کیا بیچا" ملک چیخ ہی پڑا تھا

"سر! ایک آدمی آیا ۔پہلے میں نے اسے مچھلی پکڑنے والی چھوٹی، پھر درمیانی اور پھر سب سے بڑی رسی ROD بیچی۔۔۔پھر میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مچھلی کہاں پکڑنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ کہنے لگا کہ سمندر کے خاموش پانیوں میں۔۔۔تو میں نے اسے کہا کہ تب تو اسے ایک کشتی کی ضرورت ہو گی۔۔۔۔میں اسے کشتی والے پورشن میں لے گیا۔۔۔اس نے ایک بڑی کشتی خریدی۔۔۔پھر میں نے اس سے کہا کہ اس کی گاڑی یہ کشتی ساحل تک نہیں لے جا سکے گی۔۔۔۔میں اسے آٹوموبائل والے پورشن میں لے گیا۔۔۔۔جہاں اس نے ایک 4*4 بلیزر گاڑی خریدی۔۔۔۔پھر میں اسے کہا کہ "آپ کسی ہوٹل کے خشک کمرے میں ٹھہرینگے یا رونق بھرے جگمگاتے جاگتے ساحل پر" اسے میرا آئیڈیا پسند آیا۔۔۔اور ساحل پر رات گزارنے کیلئے ایک 6*6 کا خیمہ ، خیمہ ڈیپارٹمنٹ سے خریدا۔۔۔کھانے پینے کی چیزوں، میوزک سسٹم ، کچھ دیگر ضروری سامان کے علاوہ دو کارٹن بیئر کے خریدے۔۔۔"

مالک گویا پاگل ہونے کو تھا۔۔۔"یعنی۔۔۔ایک ہی گاہک کو تم نے یہ سب کچھ بیچا۔۔۔ایک ہی گاہک جو صرف مچھلی پکڑنے والی چھوٹی Rod خریدنے آیا تھا"

"جی نہیں۔۔۔۔وہ بوریت اور یکسانیت کی وجہ سے سر میں ہونے والے درد کو دور کرنے کیلیے گولی خریدنے آیا تھا۔۔۔میں نے اسے بتایا کہ گولی کی بجائے وہ مچھلی پکڑنے جیسی دلچسپ ایکٹویٹی کیوں شروع نہیں کر دیتا۔۔۔۔۔بس پھر اس نے ایک ڈالر کی دو گولیوں کی ڈیل کی بجائے ساڑھے نو لاکھ۔۔۔۔۔ "

مالک *"او بھائی۔۔۔۔تو کہاں سے آیا ہے۔۔۔"*
*بولا سر میں بحریہ ٹاؤن کراچی کا ڈیلر ہوں*
 

سید عمران

محفلین
انسانی عادتوں کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی ہے اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتا چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔

یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ”ڈسیژن میکنگ“ (فیصلہ سازی) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتا چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ”ری چارجنگ“ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں۔

ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی لائین لگا دیتے ہیں چناں چہ ہم اگر بہتر فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد فیصلے بند کر دینے چاہئیں اور آدھا گھنٹہ قیلولہ کرنا چاہیے‘ نیند کے یہ30 منٹ ہمارے دماغ کی بیٹریاں چارج کر دیں گے اور ہم اچھے فیصلوں کے قابل ہو جائیں گے‘ یہ ریسرچ شروع میں امریکی صدر‘ کابینہ کے ارکان‘ سلامتی کے بڑے اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ای اوز کے ساتھ شیئر کی گئی۔

یہ اپنے فیصلوں کی روٹین تبدیل کرتے رہے‘ ماہرین نتائج نوٹ کرتے رہے اور یہ تھیوری سچ ثابت ہوتی چلی گئی‘ ماہرین نے اس کے بعد ”ورکنگ آوورز“ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا‘آفس کے پہلے تین گھنٹے فیصلوں کے لیے بہترین قرار دے دیے گئے‘ دوسرے تین گھنٹے فیصلوں پر عمل کے لیے وقف کر دیے گئے اور آخری گھنٹے فائل ورک‘ کلوزنگ اوراکاؤنٹس وغیرہ کے لیے مختص کر دیئے گئے‘ سی آئی اے نے بھی اس تھیوری کو اپنے سسٹم کا حصہ بنا لیا۔

مجھے جنرل احمد شجاع پاشا نے ایک بار بتایا تھا‘ امریکی ہم سے جب بھی کوئی حساس میٹنگ کرتے تھے تو یہ رات کے دوسرے پہر کا تعین کرتے تھے‘ میں نے محسوس کیا یہ میٹنگ سے پہلے ہمارے تھکنے کا انتظار کرتے ہیں چناں چہ ہم ملاقات سے پہلے نیند پوری کر کے ان کے پاس جاتے تھے۔میں نے برسوں پہلے ایک فقیر سے پوچھا تھا ”تم لوگ مانگنے کے لیے صبح کیوں آتے ہو اور شام کے وقت کیوں غائب ہو جاتے ہو“ فقیر نے جواب دیا تھا ”لوگ بارہ بجے تک سخی ہوتے ہیں اور شام کو کنجوس ہو جاتے ہیں‘ ہمیں صبح زیادہ بھیک ملتی ہے“ ۔

مجھے اس وقت اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن میں نے جب دو بجے کی ریسرچ پڑھی تو مجھے فقیر کی بات سمجھ آ گئی‘ آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا آج سے پچاس سال پہلے لوگ زیادہ خوش ہوتے تھے‘ یہ شامیں خاندان کے ساتھ گزارتے تھے‘ سپورٹس بھی کرتے تھے اور فلمیں بھی دیکھتے تھے‘کیوں؟ کیوں کہ پوری دنیا میں اس وقت قیلولہ کیا جاتا تھا‘ لوگ دوپہر کو سستاتے تھے مگر انسان نے جب موسم کو کنٹرول کر لیا‘ یہ سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہو گیا تو اس نے قیلولہ بند کر دیا چناں چہ لوگوں میں خوشی کا مادہ بھی کم ہو گیا اور ان کی قوت فیصلہ کی ہیت بھی بدل گئی۔

ریسرچ نے ثابت کیا ہم اگر صبح سات بجے اٹھتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد ہلکی نیند کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اگر دو سے تین بجے کے دوران تھوڑا سا سستا لیں‘ ہم اگر نیند لے لیں تو ہم فریش ہو جاتے ہیں اور ہم پہلے سے زیادہ کام کر سکتے ہیں‘ پوری دنیا میں فجر کے وقت کو تخلیقی لحاظ سے شان دارسمجھا جاتا ہے‘ کیوں؟ ہم نے کبھی غور کیا‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ہم بھرپور نیند لے چکے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے دماغ کی تمام بیٹریاں چارج ہو چکی ہوتی ہیں اور دوسرا فجر کے وقت فضا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور آکسیجن ہمارے دماغ کے لیے اکسیر کاد رجہ رکھتی ہے۔

یہ ذہن کی مرغن غذا ہے چناں چہ ماہرین کا دعویٰ ہے آپ اگر بڑے فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کام صبح بارہ بجے سے پہلے نمٹا لیں اور آپ کوشش کریں آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ یہ فیصلہ غلط ہو گا اور آپ کو اس کا نقصان ہو گا
 

سید عمران

محفلین
ایک روز انڈیا کے ایک شہر سے میرے پاس ٹیلی فون آیا- ایک مسلم خاتون ٹیلی فون پر بول رہی تهیں- انهوں نے کہا کہ میری بہن اور ان کے شوہر کے درمیان شادی کے بعد اختلافات پیدا هو گئے جو حل نہ هو سکے- اب آخری طور پر یہ طے کیا گیا ہے کہ دونوں کے درمیان طلاق کرادی جائے- آج شام کو طلاق نامے پر دستخط هونے والے ہیں- آپ دعا کیجئے کہ طلاق کے بعد میری بہن کی زندگی خوشگوار رہے-

میں نے کہا کہ آپ اپنی بہن سے کہیئے کہ وه مجهہ سے بات کریں- اس کے بعد ان کی بہن سے ٹیلی فون پر بات هوئی- میں نے پوچها کہ آپ کے اور آپ کے شوہر کے درمیان کیا اختلافات ہیں- انهوں نے کچهہ باتیں بتائیں- میں نے کہا کہ آپ جو کچهہ بتا رہی ہیں، وه کوئی اہم بات نہیں- وه اختلافات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کی بڑهی هوئی حساسیت کا مسئلہ ہے- بعض چیزوں کے بارے میں آپ غیر ضروری طور پر حساس هو گئی ہیں- آپ اپنی حساسیت پر کنٹرول کیجئے- آپ یہ ذہن ختم کر دیجئے کہ .......... " میں ہی کیوں ان کی بات مانوں، ان کو بهی میری بات ماننا چاہئے " -

میں نے کچهہ واقعات بتاتے هوئے ان سے کہا کہ زندگی دو طرفہ (bilateral) بنیاد پر نہیں چلتی، بلکہ زندگی ہمیشہ یک طرفہ(unilateral) بنیاد پر چلتی ہے- آپ اس معاملے میں کوئی استثناء نہیں ہیں- اسی اصول کو قرآن میں قوامیت (النساء : 34) سے تعبیر کیا ہے- یعنی جس طرح ہر کمپنی میں اور اجتماعی ادارے میں ایک ناظم یا باس (boss) هوتا ہے اسی طرح گهر کے اندر بهی ایک فرد کو ناظم، یا باس کا درجہ دیا جانا چاہئے- یہ ایک فطری اصول ہے- اس کا تعلق صنفی برابری یا صنفی نابرابری سے نہیں- اگر ایسا نہ کیا جائے تو گهر کے اندر نظم قائم نہ هو سکے گا- اور نظم کے بغیر کسی ادارے میں ترقی ممکن نہیں-

مزکوره خاتون نے میری بات مان لی اور باہم مل کر رہنے کا فیصلہ کیا- انهوں نے طلاق کے مطالبے کو واپس لیتے هوئے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ ......... میں آپ کو اپنا باس مانتی هوں اور کسی شرط کے بغیر آپ کے ساتھ رہنے کے لئے تیار هوں- اس کا نتیجہ مثبت شکل میں نکلا- اب دونوں اپنے گهر میں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں-
منقول۔
 

سید عمران

محفلین
اپنی اولاد کو نوالہ سونے کا کھلاؤ ، لیکن اس پر نگاہ شیر کی رکھو

بچوں کو اعتماد گھر سے ملتا ہے، کم نمبر آنے پر ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ سے پرہیز کریں، زیادہ محنت کی تلقین کریں، بچے کے کزنز سے اپنے بچے کا کبھی موازنہ نہ کریں، اور خاص طور پر پڑوسیوں کے بچوں سے تو بالکل بھی نہیں، کیونکہ مچھلی کی خاصیت درخت پر چڑھنا نہیں، پانی میں تیرنا ہے، اسی طرح ہر بچے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔

اپنے بچے کو Copy Cat مت بنائیے، اسے منفرد بنائیے ، منفرد بننا سکھائیں ، جو وہ ہے، جس میں اس کی قابلیت ہے، اسے اس شعبے، اس کام میں منفرد بننا سکھائیں، بچے کو یہ مت سکھائیں کہ...

How to be a best doctor...
How to be a best engineer...
How to be a best writer...
How to be a best business tycoon...

اسے یہ سکھائیں کہ...
How to be the best of whatever you are...

اگر وہ آسمان میں اُڑنا چاہے تو اس کے پَر بن جائیے۔
اگر وہ پانی میں تیرنا چاہتا ہے، تو اسے تیرنے دیں۔
اسے کبھی یہ طعنہ مت دیں، کہ اسلم صاحب کا بیٹا ہوائی جہاز اڑاتا ہے، اور تُو گھر میں مکھیاں اڑاتا رہ بس...
اسے یہ مت کہیں کہ خالدہ آنٹی کی بیٹی نے میڈیکل میں 96 فیصد نمبر لیئے ہیں، اور تم 60 فیصد لے کر بیٹھی رہو آرٹس میں۔

اور اگر بچے گھر میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں، اسکا مطلب یہ ہے کہ انہیں جسمانی سر گرمی کی ضرورت ہے ، انہیں گراونڈ یا پارک میں لے کر جائیں۔

گلاس یا کپ ٹوٹنے پر برائے کرم یہ بتانا نہ شروع کردیں کہ یہ بہت مہنگا آیا تھا۔ یاد رکھیے” کپ ٹوٹنے سے دل ٹوٹنا زیادہ بُری بات ہے...!!“

بچوں میں سٹیج کا خوف دور کرنے کے لیے گھر پر ایک روسٹرم کا انتظام کریں۔ اپنے اور عزیز و اقارب کے بچوں کے درمیان ہفتہ وار تقریریں مقابلے کروائیں۔ اگر بچے تقریر کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو بلند خوانی loud reading کروا لیں۔

خوب حوصلہ افزائی کریں۔ تالیاں بجائیں ، چھوٹے موٹے انعام دیں ، اس سر گرمی سے بچے بہت جلد اپنے آپ کو پُراعتماد محسوس کریں گے، ایک بات یاد رہے کہ اگر بچہ دورانِ تقریر بھول جائے تو مذاق نہ اُڑایا جائے۔

اجنبی لوگوں اور اجنبی جگہوں کا خوف ‏Xenophobia ختم یا کم کرنے کے لیے ریسٹورنٹ یا شاپنگ مال میں چھوٹی ادائیگی بچوں سے کروائیں۔ بچوں کو اے ٹی ایم کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے بارے میں ضروری معلومات دیں اور مناسب عمر پر استعمال کا طریقہ بتائیں۔

یاد رکھیے بچوں کو Financial literacy سے دور نہ رکھیں۔
بچوں کو مہمانوں سے ضرور متعارف کروائیں۔ لیکن بچوں کو نظمیں سنانے پر مجبور نہ کریں اور خود سنانا چاہیں تو سنانے دیں۔ انہیں ٹوکیں مت۔

اپنی اولاد کے دوست بنیں۔ والدین اور اولاد کے درمیان communication gap کی وجہ سے کتنی ہی اولادوں نے خود کو تباہ کرلیا ہے۔ اور والدین نے اس بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیئے، الٹا اولاد کو مؤرد الزام ٹھہرا دیا کہ اولاد ہی نافرمان تھی۔

یاد رکھیئے...!!
فرمانبرداری ایک الگ شے کا نام ہے۔ اور اولاد سے دوستانہ رویّہ اور اولاد سے روز مرہ کی گفتگو اور اولاد کے مسائل کے بارے میں دریافت کرنا، یہ سب الگ چیزیں ہیں۔

اسلیئے خدارا ...!!
اپنی اولاد کے دوست بنیں۔ اگر پہلے سے دوست ہیں اور آپ کے اور آپ کی اولاد کے درمیان کوئی communication gap نہیں، تو ﷲ آپ کی کوششیں اولاد کے حق میں مزید بہتر فرمائے ، لیکن اگر 2 ، 2 ہفتے اولاد سے کوئی out of sylabus بات نہیں کرتے آپ، تو یہ لمحۂ فکریہ ہے...!!

نوٹ:
خدارا ان معاملات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کیجیئے گا۔
ہو سکتا ہے کہ آپ اولاد کی پرورش میں پرفیکٹ ہوں، مگر یہ باتیں کسی دوسرے سے تو شیئر کرہی سکتے ہیں، جو اولاد کے معاملے میں کوتاہی کر جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر نہ سہی، انجانے میں ہی کوتاہیاں ہو جاتی ہیں...!!

نوٹ 2:
اس تحریر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ، کہ اولاد کو مخمل کی زندگی مہیا کردیں۔ اسے زندگی کی سختیاں اور تلخیاں سہنے کیلیئے کسی کسی موقع پر تنہا پرواز کرنا بھی سکھائیں ، مختصر اگر ایک لائن میں کہا جائے، تو ٹیپو سلطان کا مشہور جملہ بہت مناسب ہوگا کہ...
"اپنی اولاد کو نوالہ سونے کا کھلاؤ ، لیکن اس پر نگاہ شیر کی رکھو
 

سید عمران

محفلین
ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺫﺑﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ، ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺣﻼﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺋﯽ....؟ “

ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩے دﯾﺎ ، ﺍﯾﺴﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ
.
ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﺣﻼﻝ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔

ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﻧﺎﺻﺮﻑ ﺣﺮﺍﻡ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺫﺑﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺣﻼﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ..... ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺏ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ دﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ۔

ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎلٰیٰ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ.

مچھلی ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﻥ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻌﮧ ”ﺍﯾﭙﯽ ﮔﻠﻮﭨﺲ“ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮﮦ "ﺍﯾﭙﯽ ﮔﻠﻮﭨﺲ" ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ کر باقی گوشت کو خون سے پاک کر کے ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺧﺎﻟﺺ ﺍﻭﺭ ﺣﻼﻝ کر دیتا ﮨﮯ.

ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ.

ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ”ﺍﯾﭙﯽ ﮔﻠﻮﭨﺲ“ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

اسلام میں حلال کرنے کا مقصد جانور کے جسم سے خون کا مکمل اخراج اور گوشت کو خون سے پاک کرنا ھے.

ﯾﮩﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺣﻼﻝ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﭙﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﮭﯽ ﺁﺷﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﮑﺎ ﺑﮑﺎ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ .... ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯽ ﻭﺭﯾﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺗﮏ ﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﺣﻼﻝ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﯿﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﯾﻌﻨﯽ ”ﺟﮭﭩﮑﮯ“ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﮨﻼﮎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﻓﻮﺭﺍً ﺩﮬﮍﮐﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﺧﺮﺍﺝ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ۔

ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﻨﮕﯿﻦ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺮﺍﺛﯿﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮑﭩﺮﯾﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﻓﺰﺍﺋﺶ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﺧﺮﺍﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ. ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
 

سید عمران

محفلین
ایک سیکرٹ ایجینسی میں ایک قاتل کی آسامی خالی ہوئ۔خفیہ ای میل پر بڑی تعداد میں درخواستیں آئیں ۔ایجینٹوں نے بہت تحقیق کے بعد صرف دو مرد اور ایک عورت کا انتخاب کیا۔تینوں کے بہت سے امتحان لئے گئے اور انہیں یہ بات ذہن نشین کرائ گئ کہ انہیں جذبات سے یکسر عاری ہوکر کسی روبوٹ کی طرح احکام پر عمل کرنا ہوگا۔کسی سوال کی کوئ گنجائش نہی نکلے گی
آخری امتحان کے لئے انہیں اپنے اپنے شریک حیات کے ساتھ طلب کیا ۔جنہیں الگ کمرے میں بھیج دیا گیا ۔
ممتحن نے پہلے مرد امیدوار کو بڑے بور کا پستول تھما کر کہا "جاؤ اور اپنی بیوی کو گولی ماردو"
"یہ کیسا احماقانہ مذاق ہے۔میں اپنی بیوی کو گولی نہی مار سکتا"امیدوار نے غصے سے کہا۔
"اعتراض کی کوئ گنجائش نہی تھی۔ تم مسترد کئے جاتے ہو۔جاؤ چلے جاؤ "ممتحن نے سرد اور حتمی لہجے میں کہا۔
دوسرے امیدوار کو بھی پستول تھما کر بند کمرے میں بھیجا۔ وہ پستول لے کر کمرے میں گیا۔ پانچ منٹ کمرے میں خاموشی رہی۔پھر دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نم دیدہ سے باہر آے۔ مرد امیدوار نے کہا "میں نے اپنا دل بہت مضبوط کیا مگر میں اپنی بیوی کو گولی نہی مار سکتا۔ وہ پستول واپس کرکے بیوی کے ساتھ چلا گیا۔اب خاتون امیدوار کی باری تھی۔وہ پستول لے کر اندر گئ۔ دروازہ بند ہوتے ہی فائر کی آوازیں آئیں ٹھاہ ٹھاہ پھر خوب دھما چوکڑی اور چیخ و پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئں۔چند منٹ بعد سناٹا چھا گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ عورت بکھرے بالوں اور ذخمی چہرے کے ساتھ باہر آئ اور آتے ہی غصے سےچیخی۔"پستول میں ساری گولیاں نقلی تھیں ۔میں نے کرسی مار مار کر بہت مشکل سے اسے ٹھکانے لگایا ہے"
 

سید عمران

محفلین
مظلوم شوھر.....

اقوام متحدہ ایک سروے
کے مطابق شوہروں کو بھی دنیا کے بعض ممالک میں تشدد کا سامنا ہے...
شوہروں کی ٹھکائی کرنے میں
اول مصری خواتین آئی ہیں...
دوسرے نمبر پر بھارت اور برطانیہ کی خواتین ہیں...
ویسے مصری خواتین کے جس قسم کے ہاتھ ہوتے ہیں..
ایک چپیڑ بھی کافی ایریا کور کر لیتی ہے....
یعنی اگر چپیڑ کا نشانہ گال ہو تو ماتھا اور گردن بونس میں لال ہو جاتی ہیں....
اور بھارتی و برطانوی خواتین ٹن ہونے کے بعد
دیکھتی بھی نہیں ہوں گی کہ بچارے شوہر کو لگ کدھر رہی ہیں...
شوہر بچارہ دیکھنے سے قاصر صرف محسوس کرتا ہو گا...
بھارتی و برطانوی شوہروں کو پٹنے کے بعد پوچھا جائے
کہ مار کیوں پڑی..
تو کچھ کو مار اس لیے پڑی ہوتی ہے کہ بیوی کو ،
بوائے فرینڈ سے ملنے سے منع کیا تھا...
اور کچھ کو اس لیے پڑی کہ بیوی نے ،
ان کو گرل فرینڈ سے کیا تھا...
ایک دوسرے کو منع نہ کرنے البتہ خوشگوار زندگی گزارتے ہیں..
پاکستانی خواتین کا نام اس لسٹ میں نہ ہونا اکثریتی پاکستانی مرد حضرات کے لیے باعث حیرت نہیں ہے....
اور جن کے لیے باعث حیرت ہے
ان سے مجھے دلی ہمدردی ہے...
پاکستانی خواتین کا طریقہ واردات مختلف ہے...
تشدد کی بھی اقسام ہیں....
غالبا یہ جسمانی تشدد کا سروے تھا..
اگر ذہنی تشدد کا ہوتا تو پاکستانی خواتین ٹاپ کو بھی ٹاپ کرتیں...
پاکستانی خواتین کے تشدد اور سیاستدانوں کی کرپشن میں واحد مشترک بات ان کا ثابت نہ کر سکنا ہے....
مثال کے طور پر اگر آپکو بیگم صاحبہ کی کال آئے.
اور کہا جائے کہ ایمرجنسی ہے گھر پہنچیں ..
آپ دوستوں کی محفل چھوڑ کر،
موٹر سائیکل بھگا کر کم از کم دو ایکسیڈنٹ سے بچ کر
گھر پہنچیں تو کچھ یوں کہا جائے....
اچھا ہوا آپ آ گئے..
آدھا کلو دہی اور ایک گٹھی پودینہ لا دیں بریانی بنانی ہے....
آپ پوچھیں..
یہ ایمرجنسی تھی...?
تو آگے سے جواب ملتا ہے
کہ سات بجے گیس چلی جائے گی...
آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے..
یہ کم ایمرجنسی ہے...؟؟
ایسے موقع پر شوہر بچارہ گو نواز گو تو کہہ سکتا مگر
گو بیوی گو نہیں..
پاکستانی خواتین کے تشدد کی ایک قسم میں
جب کسی فنکشن پر جانے کے لیے، بیگم صاحبہ
الماری سے کم از کم بیس نئے سوٹ برآمد کر کے،
آپ سے کہیں اس میں سے پہننے والا تو کوئی نہیں...
اب شوہر بچارے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ
اگر پہننے والے نہ تھے تو لیے کیوں تھے.. ..
مگر تشدد یہاں ختم نہیں ہوتا...
بازار پہنچ کر فنکشن کے لیے سوٹ لینے کی بجائے ،
لان کی سیل سے دس جوڑے لے کر کہتی ہیں ،
بس چلیں ، فنکشن پر ان میں سے ہی پہن لوں گی....
ہمارے سامنے ایک. جوڑا رہتے ہیں...
عمر لگ بھگ پچاس سال ہو گی...
ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھی کہ انکل نے ،
آنٹی کو ایک نہایت آسان بات کوئی لگ بھگ دس آسان ترین طریقوں سے سمجھانے کی" آدھا گھنٹہ " کوشش کی ...
آدھے گھنٹے بعد آنٹی بولیں...
جاؤ میرا سر نہ کھاؤ...
آپ تو فارغ ہیں ....
چھوٹے موٹے تشدد میں،
میسج کی بیل کیوں آف ہے؟
آفس جلدی کیوں جا رہے.. آج آفس سے لیٹ کیوں ہیں...?
ماریہ بتا رہی تھی آج آپ آفس ٹائم میں کسی ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے،?
یہ سرفراز نام سے سیو، نمبر کس کا ہے؟
پہلے تو نہ تھا..?
شوہر بچارے کہتے ہیں کل ہی ٹرانسفر ہو کر آیا ہے ..
کچھ تو یقین کر لیتی ہیں ،
بعض اخیر خواتین ، مردانہ آواز کنفرم کرنے کے لیے،
نمبر سیو کر کے اپنے موبائل سے فون بھی کر دیتی ہیں...
پھر آگے آپکی قسمت کال سرفراز اٹھاتا ہے
یا اس کی بیوی...
تشدد کی سب سے بھیانک قسم وہ ہے
جس میں خواتین نہایت خود کش ، کھانا بنا کر،
آپ سے بہت لاڈ سے پوچھتیں ہیں..
اچھا بنا؟
ظاہر ہے..
ناں کی گنجائش نہیں نکلتی ،
کہ اگلے ٹائم کی بھی گھر سے ہی کھانی ہے..
میرا خیال ہے کہ ،
پاکستانی خواتین کے تشدد پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے..
جس کے کم از کم پانچ ہزار صفحات ہوں گے اور
آخری صفحے پر "حصّہ اوّل" لکھا ہو گا...

باباشادی شدہ المعروف دکھی سرکار....
 

سید عمران

محفلین
پاکستانیوں کے چند جدید عقائد:

1۔ برقی آلات بند کر کے دوبارہ چلانے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

2۔ ٹی وی ریموٹ کےختم شدہ سیل کو پرتشدد کاروائی کے بعد راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔

3۔ گندے جوتے کا دایاں پاؤں پینٹ کی پچھلی بائیں طرف اور بایاں پاؤں پینٹ کی پچھلی دائیں طرف رگڑنے سے چمک اٹھتا ہے۔

4۔ معدے کی ننانوے فیصد بیماریوں کا علاج چھلکا اسپغول میں پنہاں ہے۔

5۔کنٹرول، آلٹ ، ڈلیٹ کے بٹن یک مشت دبانے سے کمپیوٹر کے تمام مسائل کا حل نکل آتا ہے۔

6۔ نئی گاڑی کے سائلنسر پر کالا کپڑا لگانے سے یا چپل لٹکانے سے گاڑی چوری اور حادثہ پروف ہو جاتی ہے۔ نئی بلڈنگ پہ یہ سہولت کالی دیگچی رکھنے سے ملتی ہے..

7۔ گیس والی اسپرائیٹ میں نمک ملا کر زیادہ گیس بنا کر پینے سے پیٹ کی گیس ختم ہو جاتی ہے۔

8۔ امتحانی پرچہ جات کے آغاز میں 786 یا ماں کی دعا جنت کی ہوا لکھنے سے غیبی ذرائع سے امداد ملنے لگتی ہے۔

9۔ موٹر سائیکل کا پیٹرول ختم ہونے پر اسے بیچ سڑک پر قیلولہ کروائیں تو ٹینکی کا رابطہ براہ راست سعودی عرب کے کنوؤں سے جڑ جاتا ہے۔

10-حرام کے پیسے سے بنے بنگلے پر ھذامن فضل ربی لکھنے سے مکان بابرکت بن جاتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
میاں بیوی دونوں ایک ہی فیلڈ میں کام کر رہے تھے۔ بیوی پائلٹ تھی اور خاوند کنٹرول ٹاور انسٹرکٹر۔

پائلٹ بیوی: ہیلو کنٹرول ٹاور! یہ فلائٹ 358 ہے۔ یہاں کچھ پرابلم ہے۔
کنٹرول ٹاور سے شوہر: آپ کی آواز ٹھیک سے نہیں آ رہی ہے۔ کیا آپ دوباہ اپنی پرابلم بتا سکتی ہیں؟
بیوی: کچھ نہیں، جانے دو، تمہیں میری آواز آتی ہی کب ہے؟
شوہر: براہ مہربانی، اپنی پرابلم بتائیے۔
بیوی: اب تو رہنے ہی دو۔
شوہر: پلیز بتائیں۔
بیوی: کچھ نہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔ تم رہنے دو۔
شوہر: ارے بولیے کیا پرابلم ہے؟
بیوی: تمہیں میرے پرابلم سے کیا مطلب؟
شوہر: بے وقوف عورت! اس فلائٹ میں دو سو پسنجر بھی ہیں۔ پرابلم بتا۔
بیوی: تمہیں کبھی میری پرواہ نہیں رہی۔ ابھی بھی دو سو مسافروں کی پرواہ ہے۔ بس مجھے نہیں کرنی بات
 

سید عمران

محفلین
قرآنی اعجاز:عربی سے ترجمہ:
سورة الکہف میں مذکوراصحاب کہف کاکتا اپنے دونوں بازؤں کوپھیلائے کیوں بیٹھارها ؟
المانیہ جرمن کاایک فزیشن ڈاکٹر کابیان ہےکہ: میں کسی سفرمیں ایک بار ایئرپورٹ پر تھاکہ اچانک ایک نوجوان نےقرآن کامترجم نسخہ مجھے گفٹ کیا۔میں نے اسکا دل رکھنے کیلیے تھینکس کرتےہوئے لےلیا کہ اسکےسامنےسے اوجھل ہونےکےبعد اسکو کوڑےدان میں پھینک دوگا ۔ تھوڑی دیرکے بعد وہ میری نظروں سے غائب ہوگیا میری بھی فلائٹ کاوقت ہوچلااورمیں جہاز میں بیٹھ گیا سفرطویل تھااکتاہٹ کی وجہ ادھرادھر پلٹی لی تو جیب میں کچھ وزن سامحسوس ہوا،نکالاتووہی قرآن کا نسخہ تھاجسے میں کوڑےدان کی نذرکرنےوالاتھاپر بھول گیا، خیر دل میں خیال آیادیکھوں توسہی کیاہے اسمیں؟
میں نے کھولاتو میرےسامنے سور ة الکہف کھلی اورمیں دھیرے دھیرے ورق گردانی کرنےلگا اچانک میں دوایسی آیتوں سےگزراجنہوں نےمجھے ٹھہرنےاور غور کرنے پر مجبور کردیاوہ دونوں آیتیں یہ تھیں:(" آپ دیکھیں گےکہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غارسے دائیں جانب کوجھک جاتاہے، اوربوقت غروب ان کےبائیں جانب کتراجاتاہے اوروہ اس غارکی کشادہ جگہ میں ہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰")۔دوسری آیت یہ ہے: ( اورآپ خیال کرتےکہ وہ بیدارہیں حالانکہ وہ سوئےہوتےتھے خودہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایاکرتےتھے،ان کاکتابھی چوکھٹ پراہنے ہاتھ پھیلائےہوئےتھا۰۰۰۰۰۰) (سورہ الکہف:۱۸_۱۷)
ڈاکٹرکہتاہے:ان کاسونااورکروٹیں لینا سمجھ میں آتاہے کہ یہ اس لیے ضروری ہےتاکہ انکے جسم اگرایک ہی کروٹ رہیں گے توخراب ہونے اورجسم کومٹی کے کھاجانے کاخطرہ ہے،ڈاکٹرکواس سے بھی کوئی حیرت نہیں جس میں ہے کہ:(آپ دیکھیں گےکہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غارسے دائیں جانب کوجھک جاتاہے، اوربوقت غروب ان کےبائیں جانب کتراجاتاہے اوروہ اس غارکی کشادہ جگہ میں ہیں ۰۰۰۰۰)
کیونکہ سورج غارمیں روزانہ داخل ہوتاہےمگرڈائیریکٹ ان کے جسم پہ روشنی نہیں پڑتی۔ ڈاکٹرکاکہناہے کہ:علم طب میں یہ بات بدیہی ہے تاکہ جسم پر بستر کے نشانات نہ پڑیں
ضروری ہےکہ کمرہ ہوادارہو،سورج کی روشنی اس میں آتی جاتی رہے لیکن سیدھی جسم پر نہ پڑے۔
پھر ڈاکٹر دوسری آیت کےبارےمیں غوروفکرکے بعد کہتاہےکہ: کروٹ لینابھی ضروی اس لیےہےکہ ایک ہی کروٹ پڑے رہنےسےجسم پرزخم نہ پڑجائیں اورپھر اس میں بدبوپھیل جائےاورزمین اپنی خوراک بنالے۔
ڈاکٹرکہتاہے: اب تک مجھے جس چیزنے سب سےزیادہ حیرت زدہ کیاہے وہ ان سب کاکتاہے جسکے بارےمیں آیاہےکہ اس نےکروٹ نہیں لی بلکہ ویسےہی اپنے دونو بازوپھیلائےایک ہی حالت میں تقریبا۳۰۹ برس بیٹھارہااوراسکے جسم کوکچھ نہیں ہوا نہ زخم لگےنہ ہی اس میں بدبو پیداہوئی۔اس آیت کریمہ نے اسے تحقیق کرنےپرمجبورکردیااوروہ اسپرریسرچ کرنے لگا، اسکی حیرت کی اسوقت انتہا نہ رہی جب تحقیق سےاس نے یہ پایاکہ: کتے کےجسم میں چمڑےکےنیچےایک غدودہوتاہےجوایسے قسم کا کوئی مادہ نکالتاہے جس سے کتااگرزندہ ہےتواسکاچمڑہ خراب نہیں ہوتابھلےوہ کتنےبرس تک کیوں نہ بیٹھارہے۔اسی وجہ سے ان سب کاکتا ان سب کیطرح کرٹ نہیں لےرہا تھا۔
اس معجزاتی آیت کر یمہ نےاس المانی ڈاکٹرکو اسلام لانے پرمجبورکردیااوروہ مسلمان ہوگیا۔ الحمدللہ۔
قارئین کرام!!اورہمیں اس المانی ڈاکٹرکے اسلام قبول کرنے نے حیران کردیاکہ ہم میں کتنےلوگ ہیں جو قرآن کو اسطرح پڑھتےہیں جسطرح اس ڈاکٹر نےپڑھا سمجھاتحقیق وتدبرکیاغوروفکرکیااور ایک بہترین نتیجہ پر پہونچا، ہم نے سورہ الکہف سیکڑوں بارپڑھاہوگابلکہ ہرجمعہ کوپڑھتےہیں لیکن کیاہم نے کبھی اسطرح غورکیا کہ ان سب کے کروٹ لینے کاسبب کیاتھااور کتاایک حال میں بیٹھارہا اسنے کروٹ نہیں لی توکیوں ؟؟ اس کا سبب کیاتھا؟
اسی لیے اللہ نے ہمیں تدبر اورغوروفکرکرنے کاحکم دیاہے۔اللہ تعالی ہمیں عمل کرنےکی توفیق بخشے آمین۔
مترجم: سیدمعراج ربانی محمداسماعیل ۔
مکتب توعیة الجاليات بوسط حائل ۔
 

سید عمران

محفلین
*ایسی ہونی چاہیے دسمبر کی شاعری*
*تم کون ہو.....*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لیے تُم کون ہو۔
تم آس ہو
تم پاس ہو
میرے لیے کچھ خاص ہو
کیسے بتاؤں میں تمہیں
۔۔۔
تم سردیوں کی دھوپ ہو
تم چائے ہو یا سُوپ ہو
۔۔۔
میرے لیے گیزر ہو تم
کوئلہ ہو تم، ہیٹر ہو تم
۔۔۔
تم لکڑیوں کا ٹال ہو
تم نرم گرم سی شال ہو
۔۔۔
کیسے بتاؤں میں تمہیں
لیدر کی اک جیکٹ تمہی
پِستے کا اک پیکٹ تمہی
۔۔۔
تم برینڈ بھی، لنڈا بھی تم
اُبلا ہوا انڈا بھی تم
۔۔۔
انڈے کی زردی ہو تمہی
زردی کی وردی ہو تمہی
۔۔۔
گاجر کا حلوہ تم ہی ہو
میووں کا جلوہ تم ہی ہو
۔۔۔
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لیے
کاجُو بھی تم، چلغوزے تم
مفلر، سویٹر، موزے تم
۔۔۔
جرسی ، جرابیں ہائی نیک
لوشن، کریموں کی مہک
۔۔۔
اک گرم سا کن ٹوپ ہو
پاجامہ ہو، تم کوٹ ہو
۔۔۔
کمبل رضائی ہو تمہی
قہوہ،ملائی ہو تمہی،
۔۔۔
تم ریوڑی تم مونگ پھلی
سردی میں لگتی ہو بھلی
۔۔۔
خاموش سی ، چُپ چاپ بھی
تم منہ سے نکلی بھاپ بھی
۔۔۔
تم چائے کا تھرماس ہو
میرے لیے تم خاص ہو
۔۔۔
کیسے بتاؤں میں تمہیں
میرے لیے تم کون ہو۔
 

سید عمران

محفلین
انگریزی کا ایک مقبول مقولہ ہے کہ 'پریکٹس میکس دی مین پرفیکٹ'. یعنی کسی کام کا بار بار کرنا یا دہرانا آپ کو اس کام کا ماہر بنا دیتا ہے.
.
اسی طرح کنگ فو کی فیلڈ میں ایک چینی کہاوت ہے کہ 'مجھے ان ایک لاکھ داؤ سے خطرہ نہیں ہے جو تم نے ایک بار پریکٹس کئے ہیں. مجھے تو اس ایک داؤ سے خوف ہے جو تم نے ایک لاکھ بار پریکٹس کئے ہیں'
.
ایک اور مشہور مقولہ یہ بھی ہے کہ 'ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر وہ عادات ہمیں بناتی ہیں' - گویا پہلے ہم کسی کام کو بار بار کر کے اس کی عادت ڈال لیتے ہیں مگر پھر وہی عادت ہماری مستقل صفت بن کر ہماری شخصیت کا تعارف بن جاتی ہے.

اسی طرح عربی کا ایک محاورہ ہے
"إذا تكرر تقرر" یعنی کسی کام کو بار بار کرنے سے اس میں ایک غیر معمولی مہارت حاصل ہوجاتی ہے اور پختگی آ جاتی ہے ۔
.
یہ تمام اور اس جیسے اور بہت سے اقوال و کہاوتیں دراصل ایک ہی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں اور وہ یہ کہ کسی بھی کام کی بار بار پریکٹس آپ کو اس خاص کام کا ماہر بنادیتی ہے. اب سوال صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں آج تک کیا پریکٹس کرتے رہے ہیں؟
.
اگر آپ شکایت پریکٹس کرتے آئے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں آپ اس میں ایسے ایکسپرٹ ہوجائیں گے کہ جلد ہی لوگوں سے، معاشرے سے، رشتوں سے اور خدا سے آپ کو طرح طرح کی شکایات ہونے لگیں گی
.
اگر آپ تنقید پریکٹس کرتے آئے ہیں تو یقین جانیئے کہ جلد ہی آپ تنقید کے اتنے بڑے ماہر بن جائیں گے کہ مثبت سے مثبت ترین بات میں بھی تنقیدی پہلو ڈونڈھ نکالیں گے
.
اگر آپ سکون پریکٹس کرتے آئے ہیں تو بہت جلد آپ سخت سے سخت حالات میں بھی سکون کا پیغام بنے نظر آئیں گے.
.
سوال بہرحال یہی ہے کہ آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں؟
 

سید عمران

محفلین
A person started to walk on a rope tied between two tall towers. He was slowly walking balancing a long stick in his hands. He has his son sitting on his shoulders.
Every one from the ground were watching him in bated breath and were very tensed. When he slowly reached the second tower every one clapped, whistled and welcomed him. They shook hands and toll selfies.
He asked the crowd “do you all think I can walk back on the same rope now from this side to that side?”Crowed shouted in one voice “Yes,Yes,you can”Do you trust me he asked. They said yes, yes, we are ready to bet on you.
He said okay, can any one of you sit on my shoulder;I will take you to the other side safely
There was stunned silence. Every one bacame quite.
Belief is different. Trust is different. For Trust you need total surrender.
This is what we lack towards Allah in today’s world.

We believe in Allah. But do we trust Him.?


Very beautiful message worth to ponder over again and again​
 

سید عمران

محفلین
یورپ میں فیملی کا کوئی تصور نہیں ہے
یوں کہہ لیں کے بہن بھائی ماں باپ دادا دادی کی کوئی تمیز نہیں ہے
جنسی ضرورت کے لئے شادی کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ جانوروں کی طرح وہاں رشتے گڈ مڈ ہیں ...
وہاں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے کوئی شوہر نہیں ہے جو کہے بیگم تم گھر رہو میں ہر چیز تمہیں گھر لا کے دونگا.
وہاں کوئی بیٹا نہیں ہے جو کہے ماں تم گھر سے نہ نکلو مجھے حکم دو.
وہاں کوئی بیٹی نہیں ہے جو کہے ماں تم تھک گئی ہو آرام کرو میں کام کر دونگی
وہاں عورت گھر کے کام خود کرتی ہے...
اور روزی کمانے کے لئے دفتروں میں دھکے بھی خود کھاتی ہے.
کل تک آزادی کے نعرے لگانے والی آج سکون کی ایک سانس کو ترس رہی ہے.
کوئی مرد انہیں نہیں اپناتا
نہ ان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے.
وہ صرف استعمال کی جاتی ہیں بس...
مسلمان عورتو !
تم کسی ملکہ سے کم نہیں ہو باپ کے سایہ میں لاڈوں سے پلی ہو.
بھائی تمہارا محافظ ہے
شوہر تمہارا زندگی بھر کا ساتھی ہے.
تم کیا سمجھتی ہو گھر میں بیٹھ کر ہانڈی روٹی کر کے تم ملازمہ ہو؟
نہیں نہیں یہ بھول ہے تمہاری یہ ہانڈی روٹی کا سامان جو تمہارا شوہر لے کر آتا ہے یہ گرمیوں کی دھوپ اور گرم لوُ وجود پگھلنے والے سورج سے لڑ کر لاتا ہے.
تمہیں تو مغربی عورتوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے.
لیکن تم کو آزادی نسواں کے سنہرے خواب دکھا کر تمہارے وقار کو ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے .
اس سازش کو نہیں سمجھو گی تو تم بھی متاعِ کوچہ و بازار بن جاؤ گی.
یورپی کلچر کی محبت کو دل سے نکال دیں ورنہ صرف پچھتاوا ہاتھ میں رہ جائے گا.
 

سید عمران

محفلین
*کیا ہم دین کا اہتمام کرتےہیں؟*
اہتمام کہتے ہیں کسی چیز کیلئے وقت نکال کر، اسکے لوازمات کا لحاظ رکھتے ہوئے، پہلے سے اسکی تیاری کرنا

جیسے دفتر جانے کا اہتمام ہوتا ہے، ایک روز قبل کپڑے استری، جوتے پالش، وقت پر پہنچنے کی فکر اور حتی الامکان چھٹی نا کرنے کی کوشش

جیسے دعوت میں جانے کا اہتمام ہوتا ہے، نہانا دھونا، صاف کپڑے، وقت پر پہنچنا، وغیرہ

*حاصل یہ کہ اہتمام کسی چیز کی اہمیت کی علامت ہے*

*حق تعالیٰ کے دین سے متعلق تمام وعدہ بھی اہتمام کرنے والوں کیلئے ہیں*

*لیکن کیا ہم اہتمام کرتے ہیں؟*

وقت مل گیا تو جماعت سے نماز پڑھ لی، ورنہ غائب

*کوئی اور کام نہ ہوا اور وقت مل گیا تو کسی نیک مجلس یا بیان میں چلے گئے، ورنہ غائب*

وقت مل گیا تو تلاوت کرلی، ورنہ غائب

وقت مل گیا تو ذکر کرلیا ورنہ غائب

*وقت مل گیا تو کسی اللہ والے کے پاس چلے گئے ورنہ مہینوں غائب*

*وقت مل گیا تو بیوی بچوں کو کسی نیک مجلس میں لے گئے ورنہ غائب*

کیا ہم دین کا ویسا ہی اہتمام کرتے ہیں جیسا دنیاوی تعلقات کا؟

جب بندے خدا سے تعلق کو اہمیت نہ دیں، اہتمام نہ کریں، بے نیازی دکھائیں تو پھر خدا تو سب سے بے نیاز ہے

ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے

کیا ہم اہتمام کرتے ہیں؟

*مصروفیت کوئی چیز نہیں، بات صرف ترجیحات کی ہے*

کیا دین ہماری ترجیح ہے؟

مصروفیتِ کارِ جہاں، اُف میری توبہ
فرصت نہ نکالو گے تو فرصت نہ ملے گی
 

سید عمران

محفلین
*مسلمانوں کو اب مساجد میں کچھ تبدیلیاں کرنی چاہئیں*

مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہی نہ بنائیں بلکہ اسلامی کمیونٹی سنٹر کی طرز پر

* وہاں غريبوں کے کھانے کا انتظام ہو۔

* ڈپریشن میں الجھے لوگوں کی کائونسلنگ ہو۔

* ان کے خاندانی جھگڑوں کو سلجھانے کا انتظام ہو۔

* مدد مانگنے والوں کی مناسب تحقیق کے بعداجتماعی و انفرادی طور پر مدد کی جا سکے۔

* اپنے گھروں کے فالتو سامان کو نادار افراد کیلئے عطیہ کرنے کی غرض سے مساجد کا ایک حصہ مخصوص ہو۔

* آپس میں رشتے ناطے کرنے کیلئے ضروری واقفیت کا موقع ملے۔

* نکاح کا بندوبست سادگی کیساتھ مساجد میں کیےجانے کو ترجیح دی جائے۔

* قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے اجتماعی کوششوں کا آغاز مساجد سے ہو۔

کیونکہ...
صدقات و خیرات کرنے میں ہم مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں۔

* بڑی جامعہ مساجدسے ملحق مدارس میں دینی تعلیم کیساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام ہو جسےمسجدانتظامیہ کی مالی،اخلاقی مکمل سپورٹ ہو۔

* ہماری مساجد میں ایک شاندار لائبریری ہو، جہاں پر مکمل اسلامی و عصری کتابیں مطالعہ کے لئے دستیاب ہوں۔

بہت ہو چکا مساجد کے در و دیوارکے رنگ و روغن پر، بیت الخلاء کے سنگ مرمرپر، قمقموں فانوس و جھومر پر، ایئرکنڈیشن اور کولروں پراور نفیس قالینوں پر خرچ

مناسب حد تک وہ بھی کرتے رہیں مگراب وقت آگیا ہے کہ ترجیحات بدل کر کچھ ضروری جگہوں پربھی اپنا مال خرچ کیا کریں۔

مگر کیسے۔۔۔؟

قوم میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ھے ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھدار لوگ کارخیر کیلئے استعمال کریں۔

اپنے ٹرسٹوں کے ذریعہ شاندار اسپتال اور اسکول و کالج کھولے جائیں جہاں بلا تفریق مذہب و ملت ہر کسی کو انتہائی رعایتی قیمت میں بہترین علاج اور اعلی تعلیم کے حصول کا موقع ملے۔

خدارا اپنے اندر عوامی فلاح وبہبود کی سوچ والےلوگ پیدا کریں۔

ان میں سے کوئی بھی تجویز نئی نہیں ھے تمام کاموں کی نظیر 1439 سال پہلے دور نبوی کے مدینہ منورہ میں ملتی ہے.

جیسے ہی ہم نے ان شاندار روایات کو چھوڑا ہم بربادی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور چلے ہی جا رہے ہیں۔

خدارا اب رک جائیں، رک جائیں، سوچیں غور و فکر کریں اور اپنی ترجیحات بدل لیں۔۔۔!
ان الله لا يغير ما بقوم حتي يغيرو ما بأنفسهم.

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 

سید عمران

محفلین
ان کے لیے بطور خاص جن کی زندگی ہی ایک چیلنج ہے۔(آخری فقرات لازم پڑھئیے )
جاپانیوں کو تازہ مچھلیاں بہت پسند ہیں ، لیکن جاپان کے قریب کے پانیوں میں کئی دہائیوں سے بہت ساری مچھلی نہیں پکڑی جاتی لہذا ، جاپانی آبادی کو مچھلی کھلانے کے لئے ، ماہی گیری کشتیاں بڑی ہوتی گئیں اور پہلے سے کہیں زیادہ دور جانے لگیں -
ماہی گیر جتنا دور گئے ، مچھلیوں کو پکڑ کر واپس لانے میں اتنا ہی زیادہ وقت لگنے لگا۔ اس طرح ساحل تک باسی مچھلی پہونچنے لگی - مچھلی تازہ نہیں تھی اور جاپانیوں کو ذائقہ پسند نہیں تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ، فشینگ کمپنیوں نے اپنی کشتیوں پر فریزر لگائے۔ وہ مچھلی کو پکڑ کر سمندر میں منجمد کر دیتے۔ فریزرز کی وجہ سے کشتیوں کو مزید دور جانے اور زیادہ دیر تک سمندر میں رہنے کا موقع ملا ۔
تاہم ، جاپانیوں کو منجمد مچھلی کا ذائقہ بھی پسند نہ آیا ۔ منجمد مچھلی کم قیمت لاتی تھی۔ تو ، ماہی گیری کرنے والی کمپنیوں نے فش ٹینک لگائے۔ وہ مچھلی کو پکڑ لیتے اور ٹینکوں میں بھر کر لے آتے - تھوڑے وقت کے بعد ، مچھلیاں سست ہو جاتیں ۔ وہ زندہ رہتیں لیکن مدہوش ہو جاتیں-
بدقسمتی سے ، جاپانیوں کو اب بھی اس مچھلی کا ذائقہ پسند نہ آیا چونکہ مچھلی کئی دن تک حرکت نہیں کرتی تھی ، اس لئے تازہ مچھلی ذائقہ کھو جاتا - ماہی گیری کی صنعت کو ایک آنے والے بحران کا سامنا کرنا پڑا! لیکن اب اس بحران پر قابو پا لیا گیا ہے اور وہ اس ملک میں ایک اہم ترین تجارت بن کر ابھرا ہے۔ جاپانی فشینگ کمپنیوں نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا؟ وہ جاپان میں تازہ چکھنے والی مچھلی کیسے حاصل کرتے ہیں؟
مچھلی کے ذائقے کو تازہ رکھنے کے لئے جاپانی ماہی گیری کی کمپنیوں نے اس مچھلی کو ٹینکوں میں ڈال دیا۔ لیکن اب وہ ہر ٹینک میں ایک چھوٹی سی شارک کو شامل کرتے ہیں۔ شارک کچھ مچھلی کھا جاتی ہے ، لیکن زیادہ تر مچھلی انتہائی رواں دواں متحرک حالت میں آتی ہے۔ مچھلی کو شارک سے خطرہ رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ متحرک رہتی ہیں اور صحت مند حالت میں مارکیٹ تک پہونچتی ہیں ۔ وہ اچھی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں - خطرے کا سامنا انھیں تازہ دم رکھتا ہے!
انسان بھی مختلف نہیں ہیں۔

ایل رون ہبارڈ نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں مشاہدہ کیا:

"انسان صرف ایک مشکل ماحول کی موجودگی میں ، عجیب طور پر کافی پنپتا ہے۔

"جارج برنارڈ شاہ نے کہا:

"اطمینان موت ہے!"

اگر آپ مستقل طور پر چیلنجوں کو فتح کر رہے ہیں تو ، آپ خوش ہیں۔ آپ کے چیلنجز آپ کو متحرک رکھتے ہیں۔ وہ آپ کو زندہ رکھیں گے!

اپنے ٹینک میں شارک رکھیں اور دیکھیں کہ آپ واقعی کہاں جا سکتے ہیں!

: اگر آپ صحت مند ، کم عمر اور متحرک نظر آتے ہیں تو ، یقینی طور پر آپ کے ٹینک میں شارک موجود ہے۔ شارک کو اپنی زندگی میں موجود رکھئیے-
منقول
دوسرے الفاظ میں جیسا علامہ نے فرمایا!
تندئ باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہیے تجھے اونچا اڑانے کے لیئے
⭕آپ کو جن مشکلات کا سامنا ہے آپ میں ان کو حل کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے
⭐اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ہیں۔⭐
 

سید عمران

محفلین
اخلاقیات کے ایک استاد نے طلباء سے پوچھا !

اگر تمہارے پاس 86،400 روپے ہوں اور کوئی لٹیرا ان میں سے 10 روپےچھین کر بھاگ جائے تو تم کیا کرو گے؟

کیا تم اُس کے پیچھے بھاگ کر اپنی لوٹی ہوئی 10 روپےکی رقم واپس حاصل کرنے کی کوشش کرو گے؟؟

یا پھر اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،390 روپےکو حفاظت سے لیکر اپنے راستے پر چلتے رہو گے؟

کلاس روم میں موجود اکثریت نے کہا کہ ہم 10 روپے کی حقیر رقم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے باقی کے پیسوں کو حفاظت سے لیکر اپنے راستے پر چلتے رہیں گے۔

استاد نے کہا : تمھا را بیان اور مشاہدہ درست نہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لوگ اُن 10 روپے کو واپس لینے کے چکر میں ڈاکو کا پیچھا کرتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،390 روپے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

طلباء نے حیرت سے استاد کو دیکھتے ہوئے کہا: سر، یہ ناممکن ہے، ایسا کون کرتا ہے؟

استاد نے کہا!

یہ 86،400 اصل میں ہمارے ایک دن کے سیکنڈز ہیں۔

کسی 10 سیکنڈز کی بات کو لیکر، یا کسی 10 سینکنڈز کی ناراضگی اور غصے کو بنیاد بنا کر ہم باقی کا سارا دن سوچنے، جلنے اور کُڑھنے میں گزار کر اپنا باقی کا سارا دن برباد کرتے ہیں یہ والے 10 سیکنڈز ہمارے باقی بچے ہوئے 86،390 سیکنڈز کو بھی کھا کر برباد کر دیتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں روزانہ وقت اور دنیا میں رہنے کی مہلت عطا کرتے ہیں جن پر اللہ کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندان، بیوی بچوں، دوستوں اور بہت لوگوں کا حق ہے۔

باتوں کو نظر انداز کرنا سیکھیئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا کوئی وقتی اشتعال، ناراضگی آپ سے آپ کے

سارے دن کی طاقت چھین کر لے جائے۔

معاف کریں
بھول جاٸیں
اور
آگے بڑھیں....!!!
اور چھوٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کیجیے۔
 

سید عمران

محفلین
زمانہِ طالبعلمی میں ایک مرتبہ اردو کے پیپر میں لفظ ”شدہ“ سے چار لاحقے لکھنے کو کہا گیا۔
میں نے جواب میں لکھا
*”شادی شدہ، گمشدہ، ختم شدہ، تباہ شدہ“*

اگلے روز استادِ محترم نے پیپرز چیک کر کے واپس دیٸے تو مجھے لاحقوں والے سوال میں چار میں سے آٹھ نمبر ملے تھے۔
میں نے استاد صاحب سے فالتو نمبروں کے متعلق پوچھا تو ھنس کر کہنے لگے..
”پتر! چار نمبر صحیح جواب کے ھیں اور چار صحیح ترتیب کے“۔
 
Top