انٹر نیٹ سے چنیدہ

جاسمن

لائبریرین
وائس آف امریکا کے لیے سدرہ ڈار نے جون ایلیا کی بھتیجی یعنی رئیس امروہوی کی بیٹی شاہانہ رئیس کا انٹرویو کیا ہے۔
وہ روزے، سحری افطار اور عید کی تیاریوں کو لے کر اپنا زمانہ یاد کر رہی تھیں۔ ان کی گلوری میں مہکی ہوئی باتیں، خالص اردو پہ کرخنداری اور بیگماتی لہجے کا ہلکا سا چھڑکاو، رکھ رکھاو، پہناوا، ہار، بدن بولی اور بے ساختگی دل لے گئی۔
لپٹا ہوا ٹشو پھیر کر سلیقے سے پان صاف کرنے کا انداز مجھے بچپن اور لڑکپن کے محلے میں لے گیا۔
دوستوں کی چست اور ذہین امائیں، نانیاں اور دادیاں یاد آگئیں۔ ان گھرانوں میں ادب آداب اور زبان و بیان کی ایک پوری تہذیب پان دان کے آس پاس گھومتی تھی۔
بزرگوں کا اپنے سے چھوٹوں کو پان پیش کرنا، دونوں ہاتھ آگے کرکے پان لینا اور تکریم سے چرن چھونا، سلام علیکم یا آداب کہنا، ہائے ہائے۔
خاصدان میں پان رکھنا، اس پر گنبد نما ڈھکن رکھنا، پھر تکریم سے مہمان کو پیش کرنا کیسی دیرینہ روایت تھی۔
رضا لکھنوی کہتے ہیں، گنگا جمنی خاصدان سے ورق لگی گلوری اٹھاکر صحیح لب و لہجہ اور انداز سے آداب عرض کہنے کے لئے تین نسلوں کا رچاو چاہئے۔ ویسے یہ جملہ کہنے کے لئے بھی کتنا چاو اور رچاو چاہئے۔
اس چاو اور رچاو کے ساتھ تاشقند کی دو شیزائیں انگور کا عرق نچوڑتی ہیں یا پھر مولانا آزاد 'غبارِ خاطر میں جاسمین چائے بناتے ہیں۔
جاسمین والا یہی رچاو مستعار لے کر شوکت تھانوی ’بارِ خاطر‘ میں گلوری بناتے ہیں۔
پان سے آپ کو کتنے ہی اختلافات ہوں، شوکت تھانوی کو پان بناتا دیکھیں گے تو عقیدہ بدل لیں گے۔
منہاج ہمارا لنگوٹیا یار ہے اور اصلا بنارس سے ہے۔ بنارسی لوگ ساڑھی، موسیقی، گالم گفتار اور پان کے بغیر ادھورے ہیں۔
شہنائی والے استاد بسم اللہ خان کو ی دیکھ لیں۔ دنیا گھومتے تھے مگر ان کی روح کو شانتی بنارس میں ہی ملتی تھی۔
گنگا سے آنند لیتے تھے، جامع مسجد میں نماز پڑھتے تھے، شہنائی اور پان دان لے کر بالاجی مندر میں بیٹھ جاتے تھے۔ کلے میں گلوری دبائی اور ریاض شروع۔
تو منہاج سے ایک رشتہ ہمیشہ سے پان کا ہے۔ ہمارے بیچ بازار کا پان عیاشی ہے اور گھر کا پان ضیافت ہے۔ پان اماں کے ہاتھ کا ہو تو تبرک ہے۔
ہمیشہ سے یہ روایت ہے کہ وہ مہمان خانے میں بٹھاکر سیدھا بالائی منزل پہ جاتا ہے۔ واپس آتا تو اماں کے ہاتھ کا بنا پان دو انگلیوں میں ہوتا۔ وہ کھلا کے اگلی کہانی شروع کر دیتا۔دماغ روشن اور خون رواں ہوجاتا۔
مہاراج کرشن جی تاریخ قبل از مسیح کی ہستی ہیں۔ وشنو کے آٹھویں اوتار تھے۔ پان کھاتے تھے اور بانسری بجاتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ بانسری بجاکر ہی اپنی گوپیوں کو بلاتے تھے۔
کوئی ملاقات کے لئے ان کی جناب میں آتا تو کہتے، بھابی جی نے پان سپاری تو ساتھ بھیجی ہی ہوگی؟
راجپوتوں کے سالار ہتھیلی پر بِیڑا یعنی پان رکھ کر پیچھے کھڑے کمانڈروں سے پوچھتے تھے کہ ہاں بھئی کون اترے گا میدان میں؟ جو کمانڈر آگے بڑھ کر ہتھیلی سے بِیڑا اٹھالیتا وہ دراصل معرکہ اپنے سر لے لیتا۔
اسی رسم سے ذمہ داری اٹھانے کے لئے ’بیڑا اٹھانے‘ کا محاورہ چلا جسے اب ہم نے بحری بیڑا بنادیا ہے۔ چونکہ ہم کام کے بگڑنے کو بیڑا غرق کہتے ہیں، اس لئے ہمیں لگتا ہے کہ کام سنوارنے کو بیڑا اٹھانا کہتے ہوں گے۔
اب یہاں ایک بات کہنی ضروری ہوگئی ہے۔
مین پوری، ماوا، گٹکا اور پان پراگ جیسے زہر کو لوگ پان سمجھ بیٹھے ہیں۔ پھر غیر معیاری اور سستے پان کا تجربہ کرکے وہ پان کو گلے کا کینسر بھی قرار دے دیتے ہیں۔
بھائی پان میں عرق چھڑکیں، بیٹری کا پانی چھڑکنے کو کس نے کہا ہے۔ پان نے گلے کو ذرا بھی کچھ کہنا ہوتا تو مہدی حسن خاں اور استاد بہاوالدین جیسے قوال فن کار عین گائیکی کے دوران پان نہ چبارہے ہوتے۔ شام چوراسی اور پٹیالہ گھرانے میں کسی کی موت پان کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
رہی یہاں وہاں پڑی پچکاریاں، تو اس میں پان کا ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔ سارا قصور ہماری تربیت کا ہے۔
خیر!
ہندوستان کی تہذیب میں پان دان کبھی جہیز کا حصہ بھی ہوتا تھا۔
ویسے کتنے لوگ رہ گئے ہوں گے جو اب بھی پان دان بساتے ہوں گے۔ جنہیں کتھا پکانا اور چھاننا آتا ہوگا۔ پان پلٹنے کا سلیقہ آتا ہوگا۔ چونے کی ترکیب جانتے ہوں گے۔ سروتے سے ڈلی اور میوہ کاٹتے ہوں گے۔
پرانے ڈھولک گیت کے یہ بول بھی اب کتنوں کو سمجھ آتے ہوں گے، سروتا کہاں بھول آئے پیارے نندوئیا۔
اب ڈھولکیوں میں وہ تھاپ رہی اور نہ سروتے میں وہ کاٹ رہی۔ پان دان رخصت ہوا تو اس کے گرد گھومتی ہوئی تہذیب بھی ساتھ ہی رخصت ہوگئی۔ وضع داری، لہجہ اور زبان بھی رخصت ہوگئے۔
اب تو عیدی ملنے پر بچے ہاتھ اٹھاکر سلام علیکم بھی نہیں کہتے۔ آداب بھی نہیں کہتے۔
بشکریہ۔ فرنود عالم
 
Top