انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
زندگی کے 25 سال میری ماں مجھے وہ سب کچھ نہیں سکھا سکی۔ جو چند سالوں میں میری ساس نے سکھایا۔
یقین نہیں آیا نا۔۔۔۔۔۔۔؟
چلیں۔ میں آپکو بتاتی ہوں۔
آج صفائی ٹھیک سے نہیں ہوئی۔ سالن صحیح نہیں بنا روٹی پر روپ نہیں ہے۔
یہ برتن کیسے دھوئے تم نے تم بالکل اول جلول ہو۔۔۔۔؟
تمہاری پسند تو بالکل اچھی نہیں۔ کتنے تیز رنگ پسند کرتی ہو۔
تمہارے میکے والوں نے لاڈ پیار کر کے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔
کرتی ہی کیا ہیں سارا دن، سارا دن تو سوتی ہیں، کام تو ہم نے کیا ہے اپنے زمانے میں۔۔۔۔
نہ شکل ہے، نہ اولاد ہے، نہ پیسہ ہے،تمہیں غرور کس بات کا ہے۔
بڑوں کو جواب دیتی ہیں بھئی بڑی تیز مزاج ہیں۔
بھئی تم میاں کے کپڑے دھوؤ، استری کرو، کھانا پکاؤ، کیا میاں کے پیچھے پڑی رہتی ہو کہ کہاں جا رہے ہو۔۔۔ کہاں سے آ رہے ہو۔
تمہیں ماسی رکھنی ہے تو میکے سے پیسے لے آؤ۔

یہ وہ سارے جملے ہیں جو سارا سارا دن کام میں جتے ہوئے میرے کانوں میں ڈالے جاتے تھے۔
لیں جی ارم بی بی کی ساری ڈگریاں، ساری قابلیت، تربیت، سگھڑاپا، سب گیا چولہے میں۔
بس

"پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے"

شادی سے پہلے ذرا دل دکھنے پر گھنٹوں رونے والی نے دل پر پتھر رکھ لیا۔
میری مری ہوئی ماں کی تربیت پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ ہر بات دل میں قبر بنا کر دفنانی شروع کر دی۔
جس باپ نے ساری زندگی سر اٹھا کر جینا سکھایا۔ اس کا سر میری وجہ سے جھکے۔ یہ میں مر کر بھی ہونے نہیں دونگی۔ سو کبھی باپ کو خبر نہیں ہونے دی کہ ان کی لاڈلی پر کیسے کیسے تیر آزمائے جاتے ہیں۔
ان سب کے باوجود میں نے اپنی ساس سے بہت کچھ سیکھا۔
میں نے سیکھا کہ ہر وقت کی تنقید انسان کو کیسے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ سو میں نے کسی پر بھی تنقید کرنا چھوڑ دی۔
میں نے سیکھا کہ مجھے ڈی گریڈ کرنے کے لئے وہ میری ہر بات کو رد کرتی ہیں تو میں اپنی ہی نظروں میں کسطرح گر جاتی ہوں۔ سو میں نے دوسرے کی باتوں کو اہمیت دینا سیکھا۔
جب آپ کے گھر والوں پر بہانے بہانے سے دنیا کے سب سے گھٹیا خاندان ہونے کا الزام لگتا ہے۔
"اک آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے، نہ پوچھ
فیض،کہتے ہیں کہ میرے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے۔"
پر اپنے دل پر قابو رکھنا مجھے میری ساس کی وجہ سے آیا۔
میں نے سیکھا کہ آپ کی شخصیت میں دن رات کیڑے نکالے جائیں تو آپ کی شخصیت عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ سو میں نے دوسروں کی تعریف کرنا سیکھ لی۔ مگر اس میں منافقت شامل نہ ہو۔
میں نے سیکھا کہ دوسروں کی زندگی میں پریشانی اور تکلیف کی بجائے آسانی دینے میں جو خوشی ملتی ہے وہ انمول ہے۔
میں نے سیکھا کہ دوسرے کے متعلق سچ کو اس کے منہ پر دے مارنے سے اچھا ہے کہ انسان خاموش رہ کر تھوڑا سا برداشت کر لے۔
میں نے سیکھا کہ اپنے اوپر کی گئی زیادتی کے خلاف بولو تو آپ کو تیز مزاج، بد اخلاق، شوہر کی نافرمان اور جہنمی کہا جاتا ہے، تو میں کوشش کرنے لگی کہ میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ کروں۔
میں نے یہ بھی جانا کہ جب کسی کے جملے آپ کی روح تک کو چھلنی کر دیں تو،
دل دکھانے والی باتوں پر دکھے دل اور نم آنکھوں کے ساتھ
....اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(البقرہ : 153)، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
کا ورد آپ کو کتنا سکون عطا کرتا ہے۔
میں نے سیکھا کہ ہر انسان کو دوسرے کے ساتھ کمپیئر کرنا غلط ہے۔ ہر انسان میں اللہ نے کوئی نہ کوئی ایسی قابلیت رکھی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
میں نے سیکھا کہ دل دکھانا سب سے بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ دلوں میں میرا رب بستا ہے۔
میری ماں نے میری جسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔مگر میری ساس میری روحانی پرورش میں معاون ثابت ہوئیں۔
اگر ساس کا درجہ ہائی کورٹ کا ہوتا ہے تو نند کا درجہ سپریم کورٹ کا ہوتا ہے۔ اکثر سسرالوں میں نند کا راج ہوتا ہے اور وہ ساس اور باقی گھر والوں کا انگزائٹی لیول اتنا بڑھا کر رکھتی ہے کہ گھر پر پھر بے برکتیوں کا راج رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ کل تک جو زبر تھا وہ زیر ہے اور جو زیر تھا وہ زبر ہے۔ آج پورے گھر پر میرا کنٹرول ہے۔ اللہ نے مجھے اتنا دیا کہ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتی، سب سے بڑی دولت جو میرے رب نے مجھے دی ہے وہ ہے دل کا سکون۔ میری ساس بوڑھی اور کمزور ہیں۔ لیکن آج میں ان کے ساتھ وہ سب نہیں کرونگی جو انہوں نے میرے ساتھ کیا۔
کیونکہ میرے اللہ نے مجھے بہت بہترین بات سکھائی ہے۔

وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(الشوریٰ : ۴۳)
مفہوم۔ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا۔ بے شک یہ عظمت کے کاموں میں سے ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تجھے معلوم کیا، قوت ہے کیا اللہ اکبر کی
ذرا آواز دنیا میں لگا اللّہ اکبر کی

کہیں خولہ کہیں زینب، کہیں مسکان کی صورت
صدائے صنفِ آہن ہے، صدا اللہ اکبر کی

لٹیروں میں گھری عورت، خدا کو یاد کرتی ہے
تو اس عورت پہ جچتی ہے، ادا اللہ اکبر کی

سلام اے خواہرِ محترمہ، اے پیغامِ کرناٹک
تری جرات سے گونجی ہے، نوا اللّہ اکبر کی

نبی کو ہند سے شاید جو خوشبو کی ہوا آئی
وہ اس بنتِ نبی پر تھی، عطا اللہ اکبر کی

بنارس ، دکن و دہلی سے اے مردِ مجاہد اٹھ
ذرا تاثیر دشمن کو بتا اللہ اکبر کی

محمد کی محبت میں، یہی عنصر نمایاں ہے
مسلمانوں میں ہوتی ہے، وفا اللہ اکبر کی

وفا مدراسی✒️❤️

#Allahuakbar
#Muskaan
#muslimah
 

سیما علی

لائبریرین
سلام اے خواہرِ محترمہ، اے پیغامِ کرناٹک
تری جرات سے گونجی ہے، نوا اللّہ اکبر کی
سلامت رہیں ایسی بیٹیاں جنکے نعرے سے دشمن کی صفیں منتشر ہوں اور طاقتِ اللہ اکبر آشکار ہو !!!!مالک سے دعا ہے کے مسکان بیٹی پر اللہ کی امان کا سایہ ہو !!!آمین
 
امیر خسرو کا خوبصورت واقعہ🌹

حضرت امیر خسرو حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام لدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔

ایک بار حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام لدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے خسرو ہر جمعرات کے دن حضرت بو علی شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں محفل ہوتی ہے آپ اس محفل میں شرکت کیا کیجئے پیرومرشد کا حکم تھا حضرت امیر خسرو نے جانا شروع کر دیا ایک جمعرات کی محفل میں حضرت بو علی قلندر نے فرمایا اے خسرو ہم نے کبھِی اللہ کے نبی کی کچہری میں تمہارے شیخ محبوبِ الٰہی کو نہیں دیکھا یہ بات سن کر حضرت امیر خسرو بہت پریشان ہوگئے۔

آپکو اپنے شیخ سے بے حد محبت تھی اور جیسا کہ ہر مرید کو اپنے شیخ پر بے حد مان ہوتا ہے امیر خسرو کو بھی تھا آپ کافی پریشان رہنے لگے ایک دن حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا اے خسرو پریشان دکھتے ہو عرض کی ۔نہیں سیّدی ایسی کوئی بات نہیں مگر شیخ نے مرید کے بے چین دل کا حال جان لیا تھا پھر پوچھنے پر سارا ماجرا بتا دیا تو اس پر حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کے اگلی بار جب حضرت بو علی قلندر ایسا کچھ فرمائیں تو ان سے عرض کرنا کہ آپ مجھَے اللہ کے نبی علیہ سلام کی کچہری میں پہنچا دیں اپنے شیخ کو میں خود ہی تلاش کر لو٘ں گا حضرت امیر خسرو بہت خوش ہو گئے۔

کچھ دن بعد پھر حضرت بوعلی قلندر نے ایسا ہی فرمایا تو آپ نے کہا حضرت آپ مجھَے اللہ کے نبی علیہ سلام کی محفل میں پہنچا دیں اپنے شیخ کو میں خود ہی تلاش کر لوں گا توحضرت بو علی قلندر مسکرائے اور آپکے سینے پر ہاتھ رکھا تو جب آنکھِ بند کی تو دل کی آنکھ کھل گئی اور امیر خسرو بارگاہِ محبوبیت یعنی بارگاہِ رسالت میں پہنچ گئے ۔اور پہںچ کر ہر ولی اللہ کا چہرہ دیکھنے لگے مگر حضرت محبوبِ الٰہی نظر نہ آئے اتنے میں اللہ کے حبیب علیہ سلام نے فرمایا اے خسرو کس کو تلاش کرتے ہو عرض کی حضرت اپنے شیخ کو تلاش کرتا ہوں ۔قربان جائیں آقاعلیہ سلام نے فرمایا اس سے اوپر والی محفل میں جاؤ تو آپ اس سے اوپر والی محفل میں چلے گئے وہاں بھی آقا علیہ سلام موجود تھے حضرت امیر خسرو پھر ہر اللہ کے ولی کا چہرہ دیکھنے لگے مگر آپ کو آپ کے شیخ نظر نہ آئےپھر اللہ کے حبیب نے فرمایا خسرو کسے تلاش کرتے ہو عرض کی حضرت اپنے شیخ کو تلاش کرتا ہوں فرمایا اس سے اوپر والی محفل میں جاو ۔اسطرح کرتے کرتے امیر خسرو ساتویں محفل جوکہ آخری کچہری ہے تک پہنچ گئے اور ہر ولی کا چہرا دیکھنے لگے ہر منزل کے ساتھ ساتھ انکے دل کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی۔وہاں بھی آقا علیہ سلام موجود تھے اور آپکے بلکل قریب ایک بزرگ تھے اور انکے بلکل پیچھے ایک اور بزرگ تھے آقاعلیہ سلام نے ان سے فرمایا۔کہ کبھِی پیچھے بھِی دیکھ لیا کیجیئے تو جیسے ہی انہوں نے پیچھے دیکھا تو وہ حضرت محبوبِ الٰہی تھے اور انکے بلکل آگے جو بزرگ تھے جب انہوں نے پیچھے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ولیوں کے سردار حضور غوثِ پاک تھَے جب حضرت امیر خسرو نے اتنے دنوں کی پریشانی کے بعد اپنے شیخ کا یہ مقام دیکھا تو ولیوں کے درمیان میں سے اپنے شیخ تک پہنچنے کی کو شیش کی توساتھ ہی حضرت بو علی قلندر نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور آپ ساتھ ہی پھر اس دنیائے فانی میں آگئے لیکن آپ وجد میں تھے۔جھومتےجھومتے اپنے شیخ کے آستانے تک آئَے اور یہ کلام لکھا نمی دانم کہ آخر چوں منم دیدار ۔۔۔!!

کلام :امیر خسرو رح
مترجم : نثار علی
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم

نہیں معلوم کیسا تھا مکاں کل شب جہاں میں تھا
کہ ہر سو رقص بسمل تھا وہاں کل شب جہاں میں تھا

پری پیکر نگارِ سرو قد لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بودشب جائے کہ من بودم

حسیں پیکر جسامت سرو سا قد پھول سے رخسار
سراپا حسن تھا دل پر عیاں کل شب جہاں میں تھا

رقیباں گوش بر آواز او ور ناز من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم

اسی کی بات پر سب کان دھرتے میں ترستا تھا
بہت مشکل تھا کچھ کہتی زباں کل شب جہاں میں تھا

خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم

اجاگر لامکاں میں خود خدا تھا صاحب محفل
نبی تھے شمعِ بزمِ لامکاں کل شب جہاں میں تھا
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ازدواجی شِکوہ اور جوابِ شِکوہ
(رُوحِ اقبال رح سے معذرت کے ساتھ)

صرف وہ لُطف اندوز ہوں گے جو علّامہ محمّد اقبال رح کا شِکوہ اور جوابِ شِکوہ پڑھ چُکے ہیں اور شادی شُدہ بھی ہیں۔۔

شوہر کا شِکوہ 😇 😉

کیوں زیاں کار بنوں، سُود فراموش رہوں
زن مُریدی ہی کروں مَیں اور مدہوش رہوں
طعنے بیگم کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا مَیں کوئی بُزدل ہوں کہ خاموش رہوں

جرّأت آموز مری تابِ سُخن ہے مجھ کو
شِکوہ اک زوجہ سے! خاکم بدہن ہے مجھ کو

تجھ کو معلُوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا؟
سَر پٹختے ہوئے پِھرتا تھا کبھی ابّا ترا

کس قدر خوش تھا مَیں جس دن تیرا ڈولا نکلا
تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا

تُو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں مَیں
ٹیپُو روتا ہے تو فِیڈر بھی بناتا ہوں مَیں
گُڈّی جاگے ہے تو جُھولا بھی جُھلاتا ہوں مَیں
پپُّو اُٹھ بیٹھے جو راتوں کو، کِھلاتا ہوں مَیں

پھر بھی مجھ سے یہ گِلہ ہے کہ وفادار نہیں
مَیں وفادار نہیں، تُو بھی تو دِلدار نہیں

ہے بجا حلقۂ ازواج میں مشہُور ہوں مَیں
تیرا بَیرا، تیرا دھوبی، تیرا مزدُور ہوں مَیں
زن مُریدی کا شرف پا کے بھی رنجُور ہوں مَیں
قصّہء درد سُناتا ہوں کہ مجبُور ہوں مَیں

میری مخدُومہ! میرے غم کی حکایت سُن لے
ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سُن لے

زچّہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تُو نے
ہر نئے سال نیا گُل ہے کِھلایا تُو نے

رشتہ داروں نے تیرے، جان میری کھائی ہے
فوج کی فوج میرے گھر میں جو دَر آئی ہے
کوئی مامُوں، کوئی خالُو، کوئی بھائی ہے
بات کہنے کی نہیں، تُو بھی تو ہرجائی ہے

کیسے غُربت میں، مَیں پالوں تیرے غمخواروں کو
اِن ممُولوں کو سمبھالوں، یا چِڑی ماروں کو؟

مَیں وہ شوہر ہوں کہ خود آگ جلائی جس نے
لا کے بستر پہ تجھے چائے پلائی کس نے؟
تُو ہی کہہ دے تیرا حُسن نِکھارا کس نے؟
اِس بلیک آؤٹ سے مُکھڑے کو سنوارا کس نے؟

کون تیرے لیئے درزی سے غرارا لایا؟
واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا؟

پھر بھی مجھ سے گِلا کہ کماتا کم ہوں
لے کے شاپنگ کے لیئے تجھ کو، مَیں جاتا کم ہوں
نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ہوں
اور پلازا میں تجھے فلم دِکھاتا کم ہوں

کاش نوٹوُں سے حکومت میری جیبیں بھر دے
مُشکلیں شوہرِ مظلُوم کی آسان کر دے

محفلِ شعر و سُخن میں تو چمک جاتا ہوں مَیں
تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ہوں مَیں
تُو جو بلغم بھی کھنگارے تو ٹَھٹک جاتا ہوں مَیں
گُھور کر دیکھے تو پیچھے کو سَرک جاتا ہوں مَیں

پھر بھی مجھ سے یہ گِلہ ہے کہ وفادار نہیں
تُو ہے بیکار، تیرے پاس کوئی کار نہیں

بیوی کا جوابِ شِکوہ 😜 😁

تیری بیوی بھی صنم! تجھ پہ نظر رکھتی ہے
چاہے مَیکے ہی میں ہو، تیری خبر رکھتی ہے
اُس کی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

شعر تھا فِتنہ گر و سرکش و چالاک ترا
دل، جگر چِیر گیا نالہء بیباک ترا

آئی آواز، ٹھہر! تیرا پتا کرتی ہوں
تُو ہے اَپ سَیٹ، مَیں ابھی تیری دوا کرتی ہوں
مَیں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں
ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں

اور تُو ہے کہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پِھرتا
اپنے یاروں میں بڑا اب ہے اکڑتا پِھرتا

مَیں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا
نہ کوئی قوم ہے تیری، نہ ہے شجرہ تیرا

بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے
یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے

اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟
نہ کوئی بس، نہ کوئی کار کرائی کس نے؟
آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے؟
مُنہ دِکھائی کی رقم میری چُرائی کس نے؟

کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سُنانے والے
مولوی سے میرا حقِ مہر چُھڑانے والے

صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟
رات کے پِچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا؟
کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا؟
چل بتا دے مجھے، اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا

ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی مَیں ہوں
آج جُوتے سے مزا تجھ کو چکھاتی مَیں ہوں

اپنی تنخواہ فقط ماں کو تھمائی تُو نے
آج تک مجھ کو کبھی سَیر کرائی تُو نے؟
کوئی ساڑھی، کوئی پشواز دلائی تُو نے؟
ایک بھی رسمِ وفا مجھ سے نِبھائی تُو نے؟

لُطف مرنے میں ہے باقی، نہ مزا جینے میں
کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سِینے میں

بُھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی
ماں بھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی
مَیں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی
میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی

میرے مَیکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے
رنگ ترے چہرے کا اُسی وقت بدل جاتا ہے

سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے
کتنا سادہ ہے، کہتا ہے کہ شرماتا ہے

تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟
میری عزّت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں!

ہڈّی پسلی مَیں تری توڑ کے گھر جاؤں گی
ارے گنجے! ترا سَر پھوڑ کے گھر جاؤں گی
سَرّیا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی
سارے بچّوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی

یاد رکھنا! مَیں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں
آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
*_ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔_*
*_چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔_* *_شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہی۔۔۔۔ں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہی۔۔۔۔ں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔_*
*_شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہی۔ں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہی۔۔۔۔ں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔_* *_ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔_*
*_ کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔_* *_ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہی۔۔۔۔ں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہی۔۔۔۔ں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہی۔ں، تو آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہی۔۔۔۔ں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہی۔۔۔۔ں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہی۔۔۔۔ں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔ں۔_*
*_میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہی۔۔۔۔ں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہی۔ں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔_*
 
دنیا کا پہلا مطبوعہ قرآن 1537ء میں اٹلی کے شہر وینس کے ایک پرنٹنگ پریس میں چھاپا گیا۔ دوسرا قرآن 1694ء ہیمبرگ جرمنی اور تیسرا قرآن روس میں چھاپا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم دنیا میں کسی قسم کا پرنٹنگ پریس لگانا یا کوئی مطبوعہ کتاب رکھنا حرام اور سخت جرم تھا ۔
سلطان بایزید دوم نامی ایک خلیفہ نے 1485 میں علماء کی مدد سے پرنٹنگ پریس اور اسکی مصنوعات کو حرام قرار دے کر مسلم دنیا میں بین کردیا۔ اسکے بعد 1515ء میں سلطان سلیم نامی ایک بادشاہ نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کے یہ فرمان جاری کیا سلطنت عثمانیہ میں کسی شہری کے پاس کوئی مطبوعہ کتاب پکڑی گئی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں 2 کروڑ سے زائد مطبوعہ کتابیں بیچی جاچکی تھیں۔

اس سے پہلے 1492ء میں سلطنت عثمانیہ کی ہم عصر ریاست اندولوسیہ (اندلس، اسپین) کے چند یہودیوں نے عثمانی سلطان کو ایک عرضی دی کہ ان کے پاس اپنا پرنٹنگ پریس ہے اور وہ انہیں اس سے استفادہ کرنے کی اجازت دیں۔ سلطان نے اس شرط پر اجازت دی کہ تم کسی مسلمان کو کوئی کتاب فروخت نہیں کروگے۔
سواس طرح اسپین کے یہودیوں اور عیسائیوں نے پرائیوٹ پریس سے لاکھوں کتابیں چھاپیں اور اس سے مسلمانوں کے علاوہ تمام قومیں مستفید ہوئیں۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ اور نئے نئے امریکہ میں علوم و فنون انگڑائی لے کر بیدار ہورہے تھے اور مسلم دنیا جمود کا بستر اوڑھ کر سونے کی تیاری کررہی تھی۔ اسی کتابی انقلاب سے ہزاروں عظیم سائنسدان، ڈاکٹر۔ماہر طعبیات، ریاضی دان، ماہر فلکیات پیدا ہوئے۔
حالانکہ ساتویں صدی سے تیریویں صدی تک سارا یورپ جہالت کی نیند سورہا تھا اور علوم و فنون کا خزانہ مسلمانوں کے پاس تھا۔ پہلی صلیبی جنگ جو کہ گیارہویں صدی میں لڑی گئی جس میں عیسائیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا اور بہت سارے مال غنیمت کے ساتھ کاغذ بھی انکے ہاتھ لگا۔ اسی کاغذ سے بعد میں انہوں ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔
سترہویں صدی تک مسلمانوں پر یہ جمود پوری طرح برقرار رہا ۔۔ بالآخر 1720 میں ایک نومسلم ابراہیم المقاتر (جوکچھ ماہ قبل ہی عیسائی سے مسلمان ہوا تھا) اس وقت کے مفتی اعظم کے پاس عرضی لے کرگیا کہ 300 سال ہوگئے یورپ میں پرنٹنگ پریس کو خدا کے لیئے اب تو جاگ جاؤ اور مسلم دنیا میں بھی اسکی اجازت دے دو، پھر اس نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی کئی سو صفحات کی کتاب گرینڈ مفتی کودی جو پرنٹنگ پریس کے بارے میں تھی، کتاب کو پڑھ کے مفتی صاحب قائل ہوگئے لیکن انہوں نے تین کڑی شرائط کے ساتھ اسکی اجازت دی،،،
1۔ کوئی عربی کی کتاب طبع نہیں ہوگی
2۔ کوئی اسلامی کتاب طبع نہیں ہوگی
3۔ ہر چھپنے والی کتاب حکومت سے منظور شدہ ہوگی
اس طرح سلطنت عثمانیہ مین لولا لنگڑا پرنٹنگ پریس آیا۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

یورپ علوم و فنون میں ہم سے 300 سال آگے نکل چکا تھا اور اب یہ فاصلہ بڑھ کر 500 سال تک پہنچ چکا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
✍ *سلطان الزہد*
_سلطان شمس الدین التمش_
دور حکومت (1211ء تا 1236ء)
شمس الدين التمش سلطنت دہلي كا تيسرا حكمران اور خاندان غلاماں كا تيسرا بادشاه۔ قطب الدین ایبک کا غلام تھا۔ ہونہار دیکھ کر بادشاہ نے اپنا داماد بنا لیا۔ 1211ء میں قطب الدین ایبک کے نااہل بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار کر خود حکمران بن گیا۔ اس وقت وہ بہار کا صوبیدار تھا۔ تخت نشین ہوتے ہی اُسے ان صوبیداروں کی سرکوبی کرنی پڑی جو خود مختار بن بیٹھے تھے۔ پنجاب اور غزنی میں تاج الدین ، سندھ میں ناصر الدین قباچہ اور بنگال میں خلجیوں نے سر اٹھایا۔ اس نے سب کو مطیع کیا۔ 1226ء سے 1234ء تک کے درمیانی مدت میں راجپوتوں سے جنگ کرکے رنتھمبور ، منڈو، گوالیار ، اور اُجین فتح کیے 1221ء میں منگول سردار چنگیز خان خوارزم شاہی سلطنت کے بادشاہ جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ تک آ پہنچا ، لیکن دریا سے پہلے تمام علاقے کو تباہ برباد کرکے واپس چلا گیا اور ہندوستان اس خوف ناک آفت سے بچ گیا۔
التمش نے قطب مینار اور قوت اسلام مسجد کو، جنہیں قطب الدین ایبک نا تمام چھوڑ کر مرگیا تھا، مکمل کرایا۔ التمش نے رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔
ان کی وجہ شہرت نیک دلی اور رحمدل بادشاہ کی تھی ، التمش نہایت صحیح الاعتقاد، راسخ العقیدہ اور صالح شخص تھا۔ وہ راتوں کو جاگتے اور عبادت کرتے تمام عمر ان کو کسی نے سوتے نہیں دیکھا۔ وہ اگر تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے تو جلدی بستر سے اٹھ جاتے۔ اور عالم تخیّر میں کھڑے رہتے۔ پھر اٹھ کر وضو کرتے اور مصّلے پر جا بیٹھتے۔ اپنے ملازموں میں سے رات کے وقت کسی کو نہ جگاتے۔ کہتے کہ آرام کے ساتھ سونے والوں کو اپنے آرام کے لیے کیوں زحمت دی جائے۔ وہ خود ہی تمام کام سر انجام دے لیتے۔ وہ رات کو گدڑی پہن لیتے۔ تا کہ ان کو کوئی پہچان نہ سکے۔ ہاتھ میں سونے کے سکوں کا ایک تھیلہ اور توشہ دان ہوتا۔ وہ مسلمانوں کے گھروں پر جاتے۔ ان کے حالات معلوم کرتے اور ان کی مدد کرتے۔ واپسی میں ویرانوں اور خانقاہوں سے ہوتے ہوئے بازاروں میں گشت کرتے اور وہاں کے رہنے والوں کو آسائش پہنچاتے اور پھر ان سے طرح طرح کی معذرت کر کے چپ چاپ چلے جاتے اور ان سے کہہ جاتے کہ اس مدد کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔
دن کو التمش کے دربار میں عام اجازت تھی کہ جو مسلمان رات کو فاقہ کرتے ہیں وہ اس کے پاس آئیں اور امداد پائیں۔ پھر جب غریب و حاجت مند لوگ ان کے پاس آتے۔ ان کی ہر طرح سے دل جوئی کرتے اور ایک ایک کو قسمیں دے دے کر کہتے کہ دیکھنا فاقہ نہ کرنا۔ تمہیں جب کسی شے کی ضرورت پڑے۔ مجھ سے آکر بیان کرو۔سلطان نے اپنے دور میں اپنے محل کے باہر زنجیر عدل لگا رکھی تھی ۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے زنجیر عدل کا رواج بھی سلطان التمش نے ہی شروع کروایا تھا۔ سلطان نے غریبوں اور حاجت مندوں میں یہ اعلان کروا رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص تم سے بے انصافی کرے اور تم پر ظلم و ستم ڈھائے یہاں آکر زنجیر عدل ہلاؤ تمہاری فریاد سنی جائے گی۔ اور تمہارا انصاف کیا جائے گا۔پھر لوگوں سے رہ رہ کر کہتے۔ کہ اگر تم مجھ سے آ کر اپنی شکا یت نہ کہو گے۔ تو کل قیامت کے دن تمہاری فریاد کا بوجھ مجھ سے نہ اٹھایا جا سکے گا۔
خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمہ کے خلیفہ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ رحمہ کے مرشد حضرت خواجہ بختیار کاکی علیہ رحمہ کا جنازہ بھی سلطان نے ہی پڑھایا تھا۔ جس میں حضرت نے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ وہ پڑھائے جس کی تہجد کی نماز بھی کبھی نہ چھوٹی ہو۔ اور نہ کبھی کسی نماز کی تکبیر اولی قضا ہوئی ہو۔ تو جب کوئی آگے نہ بڑھا تو سلطان نے آگے بڑھ کر حضرت کا جنازہ پڑھایا ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
(منقول)
فیس بک نے جن خواتین کو گھر بیٹھے شاعرہ بنا دیا ہے ان کی پوسٹ پڑھنے لائق ہوتی ہے ایک محترمہ نے شعر لکھا
"کاش میں آسمان بن جاؤں
اور تم پرندے بن کر میری طرف اڑتے ہوئے فوراً چلے آؤ"
نیچے واہ واہ کی لائن لگ گئی. ایک صاحب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا
"بانو قدسیہ کے بعد آپ ہی عظیم شاعرہ ہیں"۔
ایک اور فین کا تبصرہ تھا "سویٹ آپی! آپ کے اشعار بھی آپ ہی کی طرح خوبصورت ہیں اور اِن میں کہیں کہیں میر تقی میر کا رنگ جھلکتا ہے".
خاتون نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سب نقادوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ ہولناک خوشخبری سنائی کہ اب وہ ہر ہفتے ایک غزل لکھا کریں گی۔ آج کل نہ صرف وہ باقاعدگی سے غزلیں لکھ رہی ہیں بلکہ گزشتہ دنوں موصوفہ نے اپنے متوالوں سے ایک سوال بھی پوچھا کہ شاعری کی کتاب چھپوانے کے لیے کون سا پبلشر بہتر رہے گا؟ جواب میں ڈیڑھ دو سو پروانوں نے مختلف پرنٹنگ پریس کے نام لکھ بھیجے
یہ جو بھی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہیں اس میں اُردو کی ایسی ایسی شاندار غلطیاں کرتی ہیں کہ فوراً ہی ان کی لیاقت ظاہر ہو جاتی ہے۔ ایک بی بی نے لکھا "یہ شعر آج بھی میری ڈائری میں لکھا ہوا ہے کہ
"بیچھڑا کچھ اس ادہ سے کے رُتھ ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شحر کو ویرآن کر گیا"
نیچے کسی دل جلے نے لکھ دیا، اچھا ہی ہوا کہ بچھڑ گیا ورنہ اس نے آپکی اردو پڑھ کے خودکشی کر لینی تھی۔ فوراً آپی کے ایک ہمدرد نے غصے سے لکھا "سوئیٹ آپی حکم کریں تو اس گستاخ کو مزا چکھا دوں؟" آپی نے متانت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً لکھا "نہیں پیارے بھائی! ایسے ان پڑھ اور جاہلوں کے منہ لگنا مناسب نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
TITBITS 😂🤣😁😜
--------+--+-----------+----
بنک سے نکلتے ایک خاتون کو یاد آیا کار کی چابی بنک میں بھول آئی ہوں۔
واپس جا کر سب سے پوچھا مگر بینک میں چابی نہیں تھی۔
دوبارہ پرس چھان مارا۔
چابی ندارد۔
'اف!
چابی گاڑی میں رہ گئی تھی!
بھاگم بھاگ پارکنگ میں پہنچی، گاڑی غائب!
پولیس کو فون کر کے گاڑی کا نمبر بتایا اور اعتراف کیا کہ چابی گاڑی میں رہ گئی تھی اور گاڑی چوری ہو گئی ہے۔
پھر تھوڑے اوسان بحال ہوئے تو دھڑکتے دل کے ساتھ میاں کو زندگی کی مشکل ترین کال کی اور اٹکتے اٹکتے بتایا
گاڑی چوری ہو گئی ہے۔
ادھر سے میاں جی گرجے !!!
میں تمہیں بنک ڈراپ کر کے آیا تھا تم گاڑی لے کر نہیں گئی تھیں۔
خدا کا شکر ادا کیا اور میاں سے کہا کہ آ کر مجھے لے جائیں۔
میاں جی بولے :
لے تو جاؤں، پہلے پولیس کو تو یقین دلا لوں کہ تمہاری کار میں نے چوری نہیں کی"،
مرغا بنایا ہوا ہے
،،،،،،،،،،،،،
ایسی مصیبت سے بچنا ہے تو میوہ جات، شہد، کھجور، دیسی گھی اور زیتون کا تیل صرف خود نہ کھائیں بلکہ اپنے علاؤہ اپنی بیگمات کو بھی کھلائیں۔
آج ہی آرڈر کریں اور شاد رھیں، آباد رہیں۔😄😜😇😅😅
 

جاسمن

لائبریرین
"" "" "" جنات کا سائنسی تجزیہ"" "" ""
ایک سائنسدان کے قلم سے۔۔۔۔
بہت دلچسپ۔۔۔ضرور پڑھیں

‏جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ،
وہ آگ سے پیدا کیے گئے ،
ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں
اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔

یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔
کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟

اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟

لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔
جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟
اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔
پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں ‏جو (electromagnetic spectrum)
بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔
جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔
میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔

اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔

اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔

اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔

‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔
اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-vision جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔

کائینات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔
جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف % 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔
انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ‏ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔

ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔
سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے
ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔
دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،
الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔
امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔
جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔
درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے
جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔

‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہے.........
اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔

‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔
پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔
اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں

اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔

البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے
مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہے
اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔
اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔
ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے
اور یہی وہ فریکوئینسی ہے
جس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔
اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہے
جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔‏
اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن
دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔

سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔
اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔
پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ،
صرف 2 سال‏بعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں
اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔

جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔
ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے‏جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔

لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔

اگر آپ پہلی ڈائیمینش‏....
میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔

اگر آپ دوسری ڈائیمینشن....
میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔

تیسری ڈائیمینشن .....
میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔‏اگر آپ کسی طرح سے
چوتھی ڈائیمینشن....
میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔

پانچویں ڈائیمینشن.....
میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔

چھٹی ڈائیمینشن .....
میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔

ساتویں ڈائیمینشن....
آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا۔

آٹھویں ڈائیمینشن....
آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔

نویں ڈائیمینشن....
ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو ۔

اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔۔۔
اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔

اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔۔۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ
حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔
اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔

بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں....
اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہے
جس کی‏ بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔
ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ
جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ،

یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔
یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔

یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ،
یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ،
یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ،
یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔

ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ،
لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر‏پر میرے دل کو چھوا ......
وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔

الحمد للہ رب العالمین ۔

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا...
 

سیما علی

لائبریرین
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا...
بےشک سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا مالک ہے - بہت مہربان رحمت والا - روز جزا کا مالک -بلاشبہ تمام تعریفات و تسبیحات اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس کی ہم حمد بیان کرتے ہیں!!
 

زیک

مسافر
"" "" "" جنات کا سائنسی تجزیہ"" "" ""
ایک سائنسدان کے قلم سے۔۔۔۔
بہت دلچسپ۔۔۔ضرور پڑھیں

‏جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ،
وہ آگ سے پیدا کیے گئے ،
ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں
اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔

یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔
کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟

اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟

لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔
جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟
اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔
پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں ‏جو (electromagnetic spectrum)
بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔
جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔
میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔

اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔

اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔

اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔

‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔
اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-vision جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔

کائینات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔
جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف % 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔
انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ‏ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔

ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔
سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے
ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔
دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،
الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔
امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔
جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔
درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے
جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔

‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہے.........
اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔

‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔
پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔
اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں

اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔

البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے
مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہے
اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔
اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔
ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے
اور یہی وہ فریکوئینسی ہے
جس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔
اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہے
جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔‏
اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن
دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔

سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔
اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔
پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ،
صرف 2 سال‏بعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں
اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔

جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔
ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے‏جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔

لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔

اگر آپ پہلی ڈائیمینش‏....
میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔

اگر آپ دوسری ڈائیمینشن....
میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔

تیسری ڈائیمینشن .....
میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔‏اگر آپ کسی طرح سے
چوتھی ڈائیمینشن....
میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔

پانچویں ڈائیمینشن.....
میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔

چھٹی ڈائیمینشن .....
میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔

ساتویں ڈائیمینشن....
آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا۔

آٹھویں ڈائیمینشن....
آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔

نویں ڈائیمینشن....
ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو ۔

اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔۔۔
اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔

اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔۔۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ
حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔
اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔

بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں....
اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہے
جس کی‏ بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔
ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ
جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ،

یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔
یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔

یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ،
یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ،
یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ،
یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔

ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ،
لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر‏پر میرے دل کو چھوا ......
وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔

الحمد للہ رب العالمین ۔

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا...
اتنی لمبی کہانی لکھی لیکن بیچارہ مصنف سائنس کا ایک کانسیپٹ بھی سمجھ نہ پایا۔
 

سیما علی

لائبریرین
چلو آج رشتوں میں قدر کی بات کرتے ہیں۔ جیسے کوئی اپنا ہمیں کبھی ہماری لاپروائی پہ کہہ دیتا ہے
"جب میں نہیں ہوں گا تب تمہیں قدر ہوگی میری"
یہ جملہ لگ بھگ ہر انسان نے کسی اپنے سے زندگی میں ایک بار تو ضرور سنا ہوگا۔ کسی ماں نے بیٹے کو کہا ہوگا،کسی بہن نے بھائی کو یا پھر کسی بیوی نے شوہر کو کہا ہوگا۔ دو پیار کرنے والے بھی اکثر یہی بات کرتے ہیں ایک دوسرے سے۔ پر سوال یہ ہے کہ یہ قدر ہوتی کیا ہے۔ اور اگر کوئی یہ بات کرتا بھی ہے تو کس بنیاد پہ کرتا ہے؟ اگر مجھ سے کوئی یہ سوال پوچھے تو میں کہوں گی
"قدر ایک ایسی پرچھائی ہے جو ساتھ چھوڑ کر جانے والے اپنے کسی پیارے کو ایک نشانی کی صورت دے کے جاتے ہیں" یہ کوئی خوشگوار نشانی نہیں ہوتی۔ اس میں ایک درد چھپا ہوتا ہے ۔ یہ درد بڑا جانا پہچانا ہوتا ہے ، شائد یہ وہی درد ہے جو جانے انجانے میں ہم نے ہی اسے دیا تھا۔ کبھی وہ آکے پاس بیٹھے اور کہے " دل کر تا ہے بہت سی باتیں کرنے کو"، اور کروٹ بدل کے ہم نے اسے یہ کہہ دیا ہو کہ "آج نہیں پھر کبھی"۔ اور بہت دیر وہ بے آس ہو کے ہماری پیٹھ کو دیکھتا رہا ہو۔ پھر جب وہ نہ ہو صرف پرچھائی رہ جائے تو وہ درد ہمارے دل میں اٹھتا ہے، یا ایسا کبھی کہ لمبے انتظار میں اسکی نم آنکھیں دیکھ کے بھی اندیکھی کر دی ہوں اور تب وہ نہ ہو ہماری نم آنکھوں میں جھانک کے کہنے والا 'روتے کیوں ہو ، ابھی تو پاس ہوں تمہارے'
قدر کی بات کہنے والے کو بھرم ہماری محبت پہ نہیں اپنے خلوص پہ ہوتا ہے ۔ اور ایسے لوگوں کا خلوص پکے رنگ کا ہوتا ہے ، انھیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ نہ بھی رہیں تب بھی اس کے نشاں ہمیشہ رہیں گے۔ لیکن وہ نشان پل پل ہمیں تکلیف دیتے ہیں۔ ہم اسکی چھوڑی ہوئی پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ پر ہاتھ کچھ نہیں آتا اور جب ہم ہار جاتے ہیں اور سر جھکائے اپنی ہر کوتاہی کا اعتراف کرتے ہیں تب دور کوئی بیٹھا مسکرا کے کہتا ہے ۔
" کہا تھا نہ، جب میں نہیں ہوں گی تب تمہیں قدر ہو گی میری"
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بار سابق بھارتی الیکشن کمشنر شری ٹی این سیشان، اتر پردیش کے دورے پر روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔

راستے میں، وہ ایک باغ کے قریب رک گئے۔ باغ کے درختوں پر پرندوں کے بیشمار گھونسلے تھے۔ ان کی اہلیہ نے خواہش ظاہر کی کہ باغ کے کسی درخت سے کوئ گھونسلا لیتے چلیں، تاکہ میں انہیں گھر میں سجاؤں.

سیشان جی نے اپنے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں سے کوئ گھونسلہ اٹھا کر لانے کو کہا۔

پولیس والوں نے ایک لڑکے سے جو قریب ہی ایک گائے چرا رہا تھا، دس روپے دیتے ہوئے کوئ ایک گھونسلہ درخت پر سے لانے کے کو کہا ، لیکن وہ لڑکا گھونسلہ لانے کے لئے تیار نہیں یوا۔

ٹی این سیشان نے پولیس والوں سے اس لڑکے کو دس کے بجائے پچاس روپے دینے کو کہا، پھر بھی لڑکا تیار نہیں ہوا۔

لڑکے نے سیشان سے کہا: "جناب! گھونسلے میں پرندوں کے بچے ہیں، جب پرندے شام کو کھانا لیکر لوٹیں گے تو ، انھیں اپنے بچوں کو نہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا.

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ مجھے اس کام کے لیے کتنا معاوضہ دیتے ہیں. میں کسی گھونسلے کو توڑ کر نہیں لا سکتا۔"

اس واقعے کا ٹی این سیشان کو زندگی بھر افسوس رہا کہ ایک چرواہا بچہ ایسی سوچ کا حامل بھی ہو سکتا ہے اور اپنے اندر بڑی حساسیت رکھتا ہے جبکہ میں اتنا تعلیم یافتہ اور آئی اے ایس ہونے کے بعد بھی اس بچے جیسی سوچ اور احساس اپنے اندر پیدا نہیں کرسکا.

وہ ہمیشہ ہی رنجیدہ رہے کہ ان میں وہ حساس فطرت کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ تعلیم کس نے حاصل کی؟ میں نے یا اس بچے نے؟
انہیں شدت سے احساس رہا کہ اس چھوٹے لڑکے کے سامنے ان کا مؤقف اور آئی اے ایس ہونا بالکل ھیچ ہے۔
گویا ان کا قد اس بچے کے سامنے سرسوں کے دانے کی مانند گھٹ گیا ہے۔
تعلیم ، سماجی مقام اور معاشرتی حیثیت، انسانیت کا معیار نہیں ہے۔ محض بہت سی معلومات جمع کرنے کو علم نہیں کہا جاسکتا! زندگی تبھی خوشگوار ہے جب آپ کی تعلیم: انسانیت کے تئیں حکمت، شفقت اور ذہانت کا پتہ دیتی ہو !!

( مراٹھی سے اردو ترجمہ )
 

سید عمران

محفلین
راوی کہتا ہے ہمارے محلے میں ابو الحسن نبالی نامی ایک بزرگ فوت ہوگئے، عمر رسیدہ تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
خیر ساتھ والی مسجد میں ان کی نماز جنازہ اور پھر تدفین کے بعد تابوت واپس لایا گیا۔
رات کا وقت تھا مسجد بند ہونے کے باعث تابوت کو مسجد کے دروازے کے سامنے رکھا گیا تاکہ صبح خادم اٹھا کر اسے اپنی جگہ رکھے گا۔
رات کوئی ساڑھے تین بجے کا ٹائم ہوگا کہ ایک شخص مسجد آیا۔
مسجد کا دروازہ بند تھا، وہ شخص کچھ دیر انتظار کرتا رہا۔ سردیوں کے دن تھے، اسے سردی لگ گئی۔
اس نے تابوت کھولا اور اندر سوگیا۔ آدھا گھنٹہ بعد خادم آگیا۔
خادم نے ایک نمازی کی مدد سے تابوت کو محراب کے ساتھ بنی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔
نیند کی غنودگی کی وجہ سے انہیں تابوت کے وزن کا بھی اندازہ نہ ہوا۔

مؤذن نے اذان دی۔ لوگ نماز کے لیے پہنچے۔ جماعت کھڑی ہوگئی۔
پچاس کے قریب نمازی جماعت میں شامل تھے۔ میں پہلی صف میں کھڑا تھا اور دوسری رکعت تھی کہ سامنے تابوت پہ میری نظر پڑی۔
عجب خوفناک منظر دیکھا کہ تابوت ہل رہا ہے۔ میرے جسم میں سنسنی خیز ایک لہر دوڑ اٹھی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
تابوت بدستور ہل رہا تھا۔
شاید میت کا ہیولا کھڑا ہو۔
اتنے میں وہ شخص اٹھا اس نے تابوت سے سر باہر نکال کر پوچھا "تم لوگوں نے نماز پڑھ لی ‘؟

اللہ معاف کرے،
لوگوں کی دوڑیں لگ چکی تھیں۔ میں تو الٹے پیر ہزار کی سپیڈ سے گھر کی طرف دوڑا۔

گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میں ننگے پیر ہی گھر پہنچا ہوں۔
امام صاحب تو پہلے ہی بے ہوش ہو کر زمین پہ گر پڑے تھے۔
کچھ لوگ دوڑتے ہوئے دیواروں سے ٹکرانے کی وجہ سے گرے ہوئے تھے۔
کچھ میری طرح ننگے پیر باہر بھاگ رہے تھے،
کچھ وضو خانوں کے پاس پھسل کر گر چکے تھے،
سب اندھا دھند بھاگ رہے تھے،

جو شخص تابوت میں تھا وہ پیچھے سے دوڑ رہا تھا۔
اور پوچھ رہا تھا اؤئے مینو وی تے دسو ہویا کی اے..
😂😂
 

سیما علی

لائبریرین
ایک پاگل شخص عمارت کی چھت پر چڑھ گیا اور چیخنے لگا "مَیں کُدّن لگا جے."

لوگ اکٹھے ہو گئے. پولیس والے آ گئے. ایمبولینس بھی پہنچ گئی. پولیس والا سپیکر میں زور سے بولا "نیچے آ جا.. گر جاؤ گے."

"مَیں یہاں کوئی آم لینے نہیں آیا.. کودنے کے لیے آیا ہوں.. پچھے پچھے ہٹ جاؤ.. مَیں کُدّن لگا جے." وہ پاگل بولا.

"مگر تُم کیوں کودنے لگے ہو؟" پولیس والے نے کہا.

"مجھے بادشاہ بنا دو ورنہ مَیں کُدّن لگا جے." پاگل نے دھمکی لگائی.

"ٹھیک ہے بادشاہ سلامت. نیچے تشریف لے آئیں.. رعایا استقبال کی منتظر ہے." پولیس والا کسی بھی طرح اُسے نیچے اتارنا چاہتا تھا. اُس نے مجمع کی جانب خفیف سا اشارہ کیا.

لوگ شور مچانے لگے "ساڈا بادشاہ زندہ باد.. ساڈا بادشاہ زندہ باد.."

"مَیں نیچے نہیں آ سکتا.. مَیں کُدّن لگا جے.." پاگل پھر اَڑ گیا.

"مگر کیوں.. اب تو آپ بادشاہ سلامت بھی بن گئے ہیں!" پولیس والے نے پریشان ہو کر ادب سے کہا.

"جو قوم پاگلوں کو بادشاہ بنا لے، مَیں اُن میں نہیں رہ سکتا.... مَیں کُدّن لگا جے."😝😝😝😅😅
 

سیما علی

لائبریرین
آج کل کی بیویاں

آج کل کی بیویاں خاوند کو اس طرح بلاتی ہیں جیسے بچے کو - اتنا بے تکلفانہ انداز!!!. . . .
انجان بندہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ مخاطب شخص شوھر ہے یا کچھ اور
ایک خاتون بولیں میں اس "فہد" سے بہت تنگ ہوں. پریشان کر رکھا ہے اس نے- اتنا گند ڈالتا ہے کہ کمرے کا حشر بگاڑ دیتا ہے-
ہم ہمدردی سے بولے" بس جی آج کل کی اولاد ہے ہی نالائق" -
خاتون بگڑ کر بولیں "ہائے دماغ ٹھیک ہے۔۔۔ فہد، اولاد نہیں میری اولاد کا پاپا ہے "-
آپ ہی بتاؤ اس میں ہمارا کیاقصور ہم کو جو لگا,سو کہہ دیا-

آج کل میاں ،بیوی انتہائی محبت کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت بھی ایسے کرتے ہیں کہ اچھا خاصا بندہ دھوکا کھا جائے ۔
معلوم ہی نہیں ہوتا کہ لاڈ بچوں سے ہو رہا کہ آپس میں-
مائی بےبی،
مائی مونا،
مائی سوئٹو،
شونو مونو!!!
. . . . . . . . . . . . . . . . .

ایک دفعہ شادی کی دعوت کے دوران ایک فیملی کی طرف میری پشت تھی،
ان میں سے ایک صاحب بار بار کہ رھے تھے۔۔۔
"بےبی تم کھانا کھاؤ مجھے پریشان نہ کرو "
میں نے ازراہ ہمدری کہا بھائی آپ کھانا کھالیں۔۔۔
" بےبی "کو میں پکڑ لیتا ہوں،
😂😂
بس اچانک ایک مکا پڑا۔۔۔۔
اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی.....🤣🤣🤣🤣
 
Top