سیما علی
لائبریرین
😍* پرانے دور میں لکھنؤ کے الیکشن اور تہذیب* 😍
,
لکھنؤ میں پہلی بار میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ اپنے وقت میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور محفل کا فخر "دلربا جان'" چوک سے امیدوار بنیں۔
اس کے خلاف کوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں ایک مشہور حکیم صاحب تھے - حکیم شمس الدین۔ چوک میں ان کی ڈسپنسری تھی۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور حکیم تھے۔ وہ بڑے باعزت و نیک نام تھے ۔ دوستوں نے انہیں زبردستی الیکشن میں "دلربا جان" کے مقابلے میں کھڑا کیا۔
" دلربا جان" کی تشہیر نے زور پکڑا۔ روزانہ سر شام چوک میں محفلیں سجنے لگیں۔ جدن بائی جیسی اپنے زمانے کی مشہور رقاصاؤں کے پروگرام ہونے لگے اور محفلوں میں بےتحاشہ بھیڑ جمع ہونے لگی ۔ اس وقت حکیم صاحب کے ساتھ چند دوست ہی ہوا کرتے تھے جنہوں نے انہیں الیکشن میں جھونک دیا تھا۔
اب حکیم صاحب کو غصہ آیا کہ تم لوگوں نے مجھے مار دیا ، میری شکست یقینی ہے۔ دوستوں نے ہمت نہیں ہاری' اور نعرہ دیا:
"ہے ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو
"دل دیجئے دلربا کو " ووٹ شمش الدین کو"
جواب میں "دلربا جان" نے یہ نعرہ دیا:
"ہے ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو"
"دلربا کو ووٹ دیجئے" نبض شمس الدین کو"
خوش قسمتی سے حکیم صاحب کا نعرہ کامیاب ہوا اور وہ الیکشن جیت گئے۔
لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق، "دلربا جان" نے حکیم صاحب کو گھر پر جاکر مبارکباد دیتے ہوئے کہا:
میں الیکشن ہار گئی، آپ جیت گئے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ' مگر آپ کی جیت سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔!
🤣🤣🤣🤣 🤣
یہ تھا الیکشن لڑنے کا جذبہ۔ آج ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟
,
لکھنؤ میں پہلی بار میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ اپنے وقت میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور محفل کا فخر "دلربا جان'" چوک سے امیدوار بنیں۔
اس کے خلاف کوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں ایک مشہور حکیم صاحب تھے - حکیم شمس الدین۔ چوک میں ان کی ڈسپنسری تھی۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور حکیم تھے۔ وہ بڑے باعزت و نیک نام تھے ۔ دوستوں نے انہیں زبردستی الیکشن میں "دلربا جان" کے مقابلے میں کھڑا کیا۔
" دلربا جان" کی تشہیر نے زور پکڑا۔ روزانہ سر شام چوک میں محفلیں سجنے لگیں۔ جدن بائی جیسی اپنے زمانے کی مشہور رقاصاؤں کے پروگرام ہونے لگے اور محفلوں میں بےتحاشہ بھیڑ جمع ہونے لگی ۔ اس وقت حکیم صاحب کے ساتھ چند دوست ہی ہوا کرتے تھے جنہوں نے انہیں الیکشن میں جھونک دیا تھا۔
اب حکیم صاحب کو غصہ آیا کہ تم لوگوں نے مجھے مار دیا ، میری شکست یقینی ہے۔ دوستوں نے ہمت نہیں ہاری' اور نعرہ دیا:
"ہے ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو
"دل دیجئے دلربا کو " ووٹ شمش الدین کو"
جواب میں "دلربا جان" نے یہ نعرہ دیا:
"ہے ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو"
"دلربا کو ووٹ دیجئے" نبض شمس الدین کو"
خوش قسمتی سے حکیم صاحب کا نعرہ کامیاب ہوا اور وہ الیکشن جیت گئے۔
لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق، "دلربا جان" نے حکیم صاحب کو گھر پر جاکر مبارکباد دیتے ہوئے کہا:
میں الیکشن ہار گئی، آپ جیت گئے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ' مگر آپ کی جیت سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔!
🤣🤣🤣🤣 🤣
یہ تھا الیکشن لڑنے کا جذبہ۔ آج ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟