جب تم اپنے گھر سے باہر نکلو گے تو تمہیں دو قسم کی عورتوں سے سابقہ پڑے گا:
پہلی قسم :
ایسی عورت جو عزیز مصر کی بیوی والے مرض میں مبتلا ہوگی ۔ بن سنور کر ، خوشبوؤں میں نہا کر ، بے پردگی سے نکلے گی۔ اور زبان حال سے کہ رہی ہوگی:
هيت لك
ہاں (میری طرف برے ارادے کے ساتھ)آجا۔
دوسری قسم :
ایسی عورت جو با پردہ و با حجاب ہوگی ، لیکن حالات نے اسے حاجات و ضروریات کی انجام دہی کے لیے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہوگا ۔ اس کی زبان حال گویا ہوگی:
وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَۖ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِ۔مُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِىْ حَتّ۔۔ٰى يُصْدِرَ الرِّعَآءُ ۖ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْ۔رٌ
جب حضرت موسی (مصر سے نکل کر )مدین آئے وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو پانی پلاتے ہوئے پایا، اور ان سے پرے دو عورتوں کو پایا جو اپنے جانور روکے ہوئے کھڑی تھیں، کہا تمہارا کیا حال ہے، بولیں جب تک چرواہے نہیں ہٹ جاتے ہم (ان جانوروں کو پانی) نہیں پلاتیں، اور ہمارا باپ بوڑھا بڑی عمر کا ہے۔
لہذا پہلی قسم کی عورت کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام والا طرز عمل اختیار کرنا ، نگاہوں میں سرمۂ حیا لگا کر جھکائے رکھنا اور کہنا: معاذ الله۔
اور دوسری قسم کی عورت کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانا یعنی بہت ہی ادب کے ساتھ خدمت پیش کرکے اپنی راہ اپنا لینا۔
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓى اِلَى الظِّلِّ
پس موسیٰ نے (حضرت شعیب کی باحجاب بیٹیوں)کے مویشیوں کو پانی پلا دیا، پھر (ان سے دور ہٹ کر)سائے کی طرف آگئے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت نے آپ کو حاکم مصر بنا دیا۔اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خودداری و باوقار خدمت کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے سرو سامانی کے عالم میں ٹھکانہ اور نیک صالح بیوی عطا فرمائی ۔
عورت کے لباس باپ کی تربیت ، بھائی کی غیرت ، شوہر کی عزت نفس ، ماں کی نگہداشت ، اور ان سب سے قبل اس کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو بیان کر دیتے ہیں ۔
اسی وجہ سے لوگوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے کہا تھا:
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّا
ہارون کی بہن تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔
حضرت مریم کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی ، باپ اور ماں کو بھی ذکر کیا ، کہ ان کی صلاح و دینداری میں لڑکی کی صلاح و عفت ہے۔
ایک خاتون کہتی ہیں :
جب میں کسی لڑکی کو فیشن و نمائش میں اور بے حیا و تنگ لباس دیکھتی ہوں تو اس کے والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی وعید ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے :
وَقِفُوْهُ۔مْ ۖ اِنَّ۔هُ۔مْ مَّسْئُ۔وْلُوْن
ان( مجرموں) کو (ہمارے حضور)کھڑا کرو، (ہمیں )ان سے (ان کے جرائم کے بارے میں )دریافت کرنا ہے۔
تو میں اور زیادہ با حیا بن جاتی ہوں تا کہ میرے والدین سے مجھ سے متعلق سوال نہ ہو !!!
فحاشی و عریانی جنت میں بھی حلال نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دونوں جہانوں میں حرام رکھا ہے ۔ لباس اور ستر پوشی بہت بڑی نعمت ہے ۔
اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْ۔هَا وَلَا تَعْرٰى
(11
بے شک تو اس (جنت)میں بھوکا اور ننگا نہیں ہوگا۔