جاسمن
لائبریرین
*جمعہ کا دن اور مُلّا نصرالدین*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*
ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی، خیابانِ امیرخسرو سے محترمہ خدیجہ خاتون نے اپنے خط کا آغاز نہایت دلچسپ اور دل خوش کُن فقرے سے کیا ہے۔ فرماتی ہیں:’’آپ جمعہ کے مقدس دن علم کے موتی بکھیرتے ہیں، سیدھے جنت میں جائیں گے‘‘۔
دائیں بائیں مُڑے بغیر سیدھے جنت میں جانے کی خوش خبری سن کر جی خوش ہوا، مگرخوش عقیدہ خاتون کا یہ خوش گوار جملہ پڑھ کر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ یہ لطیفہ پچھلے دنوں ہمارے تُرک بھائی اور ’پاکستانی بہنوئی‘ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے سنایا تھا۔ پروفیسر خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ ہیں، پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ پاکستان سے محبت کے سبب زندہ دلوں کے شہر لاہور کی دامادی بھی اختیار فرما لی ہے۔ اُردو، پنجابی اور ہندکو روانی سے بول لیتے ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام اوردائرہ علم و ادب پاکستان کے تعاون سے، اسلام آباد میں ’ادبِ اطفال‘ پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر خلیل طوقار فاصلاتی رابطے پر استنبول سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ ناسازیِ طبع، بالخصوص گلے کی خرابی کے باعث، آپ نے صرف ابتدائی کلمات کہے۔ آپ کا مقالہ اکادمی ادبیات پاکستان کے صدرنشین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے بہ نفسِ نفیس پڑھ کر سنایا۔ ’’ترکی میں ادبِ اطفال‘‘ موضوع ہو اور ملانصرالدین کا ذکر نہ آئے،کیسے ممکن ہے؟ ڈاکٹر طوقار نے ملا جی کا ایسا لطیفہ سنایا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ چوں کہ لطیفہ صرف سنا ہے،چناں چہ ڈاکٹر صاحب کی تحریر لفظ بہ لفظ نقل کرنے سے معذرت۔ ہمارے قارئین برادر خلیل طوقار کی زبان کے چٹخارے تونہ لے سکیں گے، مگر اُن کا سنایا ہوا لطیفہ اپنے الفاظ میںسناتے وقت، ہم نے بھی نمک مرچ لگانے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے:
ملا نصرالدین صاحب کے پاس ایک لڑکا آیا اور ان سے پوچھا:
’’ملا صاحب! میرے والدکی آج جمعہ کے مبارک دن وفات ہوئی ہے۔ اگلے جہان میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے پوچھا: ’’کیا آپ کے والد صاحب نماز روزے کے پابند تھے؟‘‘
لڑکے نے کہا: ’’نہیں۔ وہ نمازپڑھتے تھے، نہ روزے رکھتے تھے، مگر خوش قسمتی سے جمعہ کے دن فوت ہوئے ہیں‘‘۔
ملا نے دریافت کیا: ’’عیاشی تو نہیں کرتے تھے؟‘‘
لڑکے نے بتایا: ’’عام طور پر تو نہیں۔ مگر جس روز رشوت کی رقم زیادہ مل جاتی، اُس روز جوا بھی کھیل لیتے، عیاشی بھی کرلیتے۔ اس کے باوجود انھیں جمعہ کے مقدس دن وفات پانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘‘۔
ملا : ’’کچھ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے؟‘‘
لڑکا: ’’جی نہیں، فقیروں کو بُری طرح پھٹکارکر بھگا دیتے تھے کہ شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ مگرفوت جمعہ کے دن ہوئے‘‘۔
ملا: ’’عزیزوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے اُن کا سلوک کیسا تھا؟‘‘
یہ سوال سن کر لڑکا جھلا گیا۔ کہنے لگا: ’’جی، وہ تو پورے محلے میں لڑاکا اور جھگڑالو مشہور تھے۔ سب ان کو دیکھتے ہی اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے۔ مگر ملا صاحب! میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب جمعہ کے متبرک دن فوت ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اگلی دُنیا میں کیسا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے دلاسا دیا: ’’بیٹا! جمعے کے دن تو اُنھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر جیسے ہی ہفتے کا دن آئے گا سارا حساب کتاب بے باق کردیا جائے گا!‘‘
لطیفہ تو خیر لطیفہ ہی ہوتا ہے۔ مگر اس علامتی قصے میں اُن لوگوں کے لیے گہرا سبق ہے، جو آج کے دن سماجی ذرائع ابلاغ پر صرف ’’جمعہ مبارک‘‘ کے پیغامات کی بھرمار کرکے سارا ثواب سمیٹ لینے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔
محترمہ خدیجہ خاتون نے آگے چل کر اپنے خط میں لکھا ہے: ’’آپ اپنے کالموں میں اکثر لکھتے ہیں کہ یہ پنجاب کا روزمرہ ہے، یہ کراچی کا، اور یہ لکھنؤ یا دہلی کا۔ روزمرہ کا مطلب تو ہر روز یا بلاناغہ ہوتا ہے۔پنجاب یا کراچی کے روزمرہ سے کیا مراد ہے؟‘‘
بی بی! بلاشبہ روزمرہ کا لغوی مطلب روزانہ، ہر روز یا آئے دن ہوتا ہے۔ یہ ترکیب فارسی اور عربی کا مرکب ہے۔ ’روز‘ (فارسی) کا مطلب دن اور ’مرہ‘(عربی) کا مطلب ہے بار، جیسے ایک بار، دو بار، تین بار۔ یہ مرکب خود اہلِ فارس نے بنایا ہے۔ اس کا ایک مطلب ’وجہِ معاش‘ بھی ہے۔ مثلاً ’’آہن گری اُن کا روزمرہ تھا‘‘۔ مگر جہاں کوئی لفظ ’اصطلاح‘ کے طور پر استعمال کیا جائے، وہاں اُس لفظ کے صرف مخصوص معنی لیے جاتے ہیں۔ ’روزمرہ‘ ایک اصطلاح بھی ہے۔اصطلاحاً اُس اندازِ بیان، اُس اُسلوب یا بول چال کے اُس طریقے کو ’روزمرہ‘ کہتے ہیں جو کوئی بھی زبان بولنے والے اپنی روزانہ گفتگو میں اختیار کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر امتحان دینے کو انگر یزی میں ‘To take examination’کہا جاتا ہے۔ یہ اُن کے روزمرہ کے مطابق ہے۔ اگر ہم امتحان دینے کو ‘To give examination’کہیں گے تو یہ انگریزی روزمرہ کے خلاف ہوگا۔ تمام زبانوں کی طرح اردو میں بھی کچھ الفاظ ادا کرنے کے لیے ایک خاص اُسلوب ہے۔ جیسے آپ نے خود لفظ ’بلاناغہ‘ لکھا ہے۔ اگر ہم اسے ’بے ناغہ‘ لکھیں تو مفہوم تو ادا ہوجائے گا، مگر یہ ’روزمرہ‘ کے خلاف سمجھا جائے گا۔ ’’تم روز روز آجاتے ہو‘‘ کی جگہ اگر ’’تم دن دن آجاتے ہو‘‘ کہا جائے تو یہ بھی روزمرہ بول چال کے مطابق نہیں ہوگا۔ اسی جملے کو یوں کہنا البتہ روزمرہ کے موافق ہوگا کہ ’’تم ہر دن آجاتے ہو‘‘۔ اب دیکھیے کھانا، پینا، مارنا وغیرہ ایسے مخصوص افعال ہیں جن کا مفہوم ہر شخص سمجھتا ہے۔ مگر اردو زبان میں ’’قسم کھانا، غصہ پینا اور شیخی مارنا‘‘ بولا جاتا ہے، جب کہ ان افعال میں عملاً کھانے، پینے اور مارنے کی گنجائش نکلتی ہی نہیں۔ ہاں شیخی مارنے والے کو مار کھاتے ضرور دیکھا ہے۔
ہمارے ہاں روزمرہ کے خلاف بولنا اور لکھنا بھی اب عام ہوگیا ہے۔ مثلاً یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم درختوں کی شاخوں سے پھل علیحدہ کرنے کو ’پھل توڑنا‘ کہتے ہیں۔ یہاں ’توڑنا‘ کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہتھوڑا لے کرپھلوں کی ایسی تیسی کردی جائے۔ لیکن ’پھول توڑنا‘ اردو زبان جاننے والوں کی طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے لیے ’پھول چننا‘ اردو کا روزمرہ ہے۔ اکثر باغچوں اور باغیچوں کی روش پر ’’پھول توڑنا منع ہے‘‘ کا حکمِ امتناع لگا ہوتا ہے۔ دسترخوان پر بھی ’کھانا چنا‘ جاتا ہے، مگراب خود ہماری خاتونِ خانہ کے ’خوان‘ سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ’میز پرکھانا لگا دیا‘ جیسے ’چندیا پر چپت لگا دیا‘۔ اہلِ پنجاب میں ’چپیڑ لگانا‘ روزمرہ ہے۔ روز لگاتے ہوں گے۔ نڈر لوگ ہیں۔
روزمرہ کے مطابق ’دھوکا دیا‘ جاتا ہے، ’حلف لیا‘ جاتا ہے، ’موقع پایا‘ جاتا ہے، ’عزت کھوئی‘ جاتی ہے،’لباس پہنا‘ جاتا ہے، ’ٹوپی اوڑھی‘ جاتی ہے، ’پردہ کیا‘جاتا ہے، ’نقاب ڈالا‘ جاتا ہے، اور سر پر’ دوپٹہ لیا‘ جاتا ہے۔لیکن ’دوپٹہ اوڑھ لینے‘ میں بھی کوئی حرج نہیں۔ تاہم آج کل کی خواتین کچھ حرج محسوس کرنے لگی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سیاسی کارکنان بھی روپٹہ گلے ہی میں لٹکائے پھرتے ہیں۔
اگر آپ یوں کہیں کہ ’’ساجد اور ماجد کی تنخواہ برابر ہی ہوگی یا انتیس تیس کا فرق ہوگا‘‘، تو یہ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ روزمرہ یوں ہے کہ دونوں کی تنخواہوں میں بس ’انیس بیس کا فرق‘ ہوگا۔ آپ ہم سے لاکھ کہیں کہ ’’اب زیادہ پانچ سات مت کرو، فوراً آٹھ دو دس ہوجاؤ‘‘ ہم پھر بھی ڈھٹائی سے دانت نکالے یہیں کھڑے رہیں گے (’دانت نکالنا‘ بھی نوٹ فرمائیے) لیکن اگر آپ ہمیں سچ مچ دفعان کرنا چاہیں تو روزمرہ کی رُو سے فقط اعداد بدل دیجیے:
’’بس اب زیادہ تین پانچ نہ کرو، فوراً نو دو گیارہ ہوجاؤ!‘‘
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*
ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی، خیابانِ امیرخسرو سے محترمہ خدیجہ خاتون نے اپنے خط کا آغاز نہایت دلچسپ اور دل خوش کُن فقرے سے کیا ہے۔ فرماتی ہیں:’’آپ جمعہ کے مقدس دن علم کے موتی بکھیرتے ہیں، سیدھے جنت میں جائیں گے‘‘۔
دائیں بائیں مُڑے بغیر سیدھے جنت میں جانے کی خوش خبری سن کر جی خوش ہوا، مگرخوش عقیدہ خاتون کا یہ خوش گوار جملہ پڑھ کر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ یہ لطیفہ پچھلے دنوں ہمارے تُرک بھائی اور ’پاکستانی بہنوئی‘ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے سنایا تھا۔ پروفیسر خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ ہیں، پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ پاکستان سے محبت کے سبب زندہ دلوں کے شہر لاہور کی دامادی بھی اختیار فرما لی ہے۔ اُردو، پنجابی اور ہندکو روانی سے بول لیتے ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام اوردائرہ علم و ادب پاکستان کے تعاون سے، اسلام آباد میں ’ادبِ اطفال‘ پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر خلیل طوقار فاصلاتی رابطے پر استنبول سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ ناسازیِ طبع، بالخصوص گلے کی خرابی کے باعث، آپ نے صرف ابتدائی کلمات کہے۔ آپ کا مقالہ اکادمی ادبیات پاکستان کے صدرنشین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے بہ نفسِ نفیس پڑھ کر سنایا۔ ’’ترکی میں ادبِ اطفال‘‘ موضوع ہو اور ملانصرالدین کا ذکر نہ آئے،کیسے ممکن ہے؟ ڈاکٹر طوقار نے ملا جی کا ایسا لطیفہ سنایا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ چوں کہ لطیفہ صرف سنا ہے،چناں چہ ڈاکٹر صاحب کی تحریر لفظ بہ لفظ نقل کرنے سے معذرت۔ ہمارے قارئین برادر خلیل طوقار کی زبان کے چٹخارے تونہ لے سکیں گے، مگر اُن کا سنایا ہوا لطیفہ اپنے الفاظ میںسناتے وقت، ہم نے بھی نمک مرچ لگانے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے:
ملا نصرالدین صاحب کے پاس ایک لڑکا آیا اور ان سے پوچھا:
’’ملا صاحب! میرے والدکی آج جمعہ کے مبارک دن وفات ہوئی ہے۔ اگلے جہان میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے پوچھا: ’’کیا آپ کے والد صاحب نماز روزے کے پابند تھے؟‘‘
لڑکے نے کہا: ’’نہیں۔ وہ نمازپڑھتے تھے، نہ روزے رکھتے تھے، مگر خوش قسمتی سے جمعہ کے دن فوت ہوئے ہیں‘‘۔
ملا نے دریافت کیا: ’’عیاشی تو نہیں کرتے تھے؟‘‘
لڑکے نے بتایا: ’’عام طور پر تو نہیں۔ مگر جس روز رشوت کی رقم زیادہ مل جاتی، اُس روز جوا بھی کھیل لیتے، عیاشی بھی کرلیتے۔ اس کے باوجود انھیں جمعہ کے مقدس دن وفات پانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘‘۔
ملا : ’’کچھ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے؟‘‘
لڑکا: ’’جی نہیں، فقیروں کو بُری طرح پھٹکارکر بھگا دیتے تھے کہ شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ مگرفوت جمعہ کے دن ہوئے‘‘۔
ملا: ’’عزیزوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے اُن کا سلوک کیسا تھا؟‘‘
یہ سوال سن کر لڑکا جھلا گیا۔ کہنے لگا: ’’جی، وہ تو پورے محلے میں لڑاکا اور جھگڑالو مشہور تھے۔ سب ان کو دیکھتے ہی اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے۔ مگر ملا صاحب! میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب جمعہ کے متبرک دن فوت ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اگلی دُنیا میں کیسا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے دلاسا دیا: ’’بیٹا! جمعے کے دن تو اُنھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر جیسے ہی ہفتے کا دن آئے گا سارا حساب کتاب بے باق کردیا جائے گا!‘‘
لطیفہ تو خیر لطیفہ ہی ہوتا ہے۔ مگر اس علامتی قصے میں اُن لوگوں کے لیے گہرا سبق ہے، جو آج کے دن سماجی ذرائع ابلاغ پر صرف ’’جمعہ مبارک‘‘ کے پیغامات کی بھرمار کرکے سارا ثواب سمیٹ لینے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔
محترمہ خدیجہ خاتون نے آگے چل کر اپنے خط میں لکھا ہے: ’’آپ اپنے کالموں میں اکثر لکھتے ہیں کہ یہ پنجاب کا روزمرہ ہے، یہ کراچی کا، اور یہ لکھنؤ یا دہلی کا۔ روزمرہ کا مطلب تو ہر روز یا بلاناغہ ہوتا ہے۔پنجاب یا کراچی کے روزمرہ سے کیا مراد ہے؟‘‘
بی بی! بلاشبہ روزمرہ کا لغوی مطلب روزانہ، ہر روز یا آئے دن ہوتا ہے۔ یہ ترکیب فارسی اور عربی کا مرکب ہے۔ ’روز‘ (فارسی) کا مطلب دن اور ’مرہ‘(عربی) کا مطلب ہے بار، جیسے ایک بار، دو بار، تین بار۔ یہ مرکب خود اہلِ فارس نے بنایا ہے۔ اس کا ایک مطلب ’وجہِ معاش‘ بھی ہے۔ مثلاً ’’آہن گری اُن کا روزمرہ تھا‘‘۔ مگر جہاں کوئی لفظ ’اصطلاح‘ کے طور پر استعمال کیا جائے، وہاں اُس لفظ کے صرف مخصوص معنی لیے جاتے ہیں۔ ’روزمرہ‘ ایک اصطلاح بھی ہے۔اصطلاحاً اُس اندازِ بیان، اُس اُسلوب یا بول چال کے اُس طریقے کو ’روزمرہ‘ کہتے ہیں جو کوئی بھی زبان بولنے والے اپنی روزانہ گفتگو میں اختیار کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر امتحان دینے کو انگر یزی میں ‘To take examination’کہا جاتا ہے۔ یہ اُن کے روزمرہ کے مطابق ہے۔ اگر ہم امتحان دینے کو ‘To give examination’کہیں گے تو یہ انگریزی روزمرہ کے خلاف ہوگا۔ تمام زبانوں کی طرح اردو میں بھی کچھ الفاظ ادا کرنے کے لیے ایک خاص اُسلوب ہے۔ جیسے آپ نے خود لفظ ’بلاناغہ‘ لکھا ہے۔ اگر ہم اسے ’بے ناغہ‘ لکھیں تو مفہوم تو ادا ہوجائے گا، مگر یہ ’روزمرہ‘ کے خلاف سمجھا جائے گا۔ ’’تم روز روز آجاتے ہو‘‘ کی جگہ اگر ’’تم دن دن آجاتے ہو‘‘ کہا جائے تو یہ بھی روزمرہ بول چال کے مطابق نہیں ہوگا۔ اسی جملے کو یوں کہنا البتہ روزمرہ کے موافق ہوگا کہ ’’تم ہر دن آجاتے ہو‘‘۔ اب دیکھیے کھانا، پینا، مارنا وغیرہ ایسے مخصوص افعال ہیں جن کا مفہوم ہر شخص سمجھتا ہے۔ مگر اردو زبان میں ’’قسم کھانا، غصہ پینا اور شیخی مارنا‘‘ بولا جاتا ہے، جب کہ ان افعال میں عملاً کھانے، پینے اور مارنے کی گنجائش نکلتی ہی نہیں۔ ہاں شیخی مارنے والے کو مار کھاتے ضرور دیکھا ہے۔
ہمارے ہاں روزمرہ کے خلاف بولنا اور لکھنا بھی اب عام ہوگیا ہے۔ مثلاً یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم درختوں کی شاخوں سے پھل علیحدہ کرنے کو ’پھل توڑنا‘ کہتے ہیں۔ یہاں ’توڑنا‘ کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہتھوڑا لے کرپھلوں کی ایسی تیسی کردی جائے۔ لیکن ’پھول توڑنا‘ اردو زبان جاننے والوں کی طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے لیے ’پھول چننا‘ اردو کا روزمرہ ہے۔ اکثر باغچوں اور باغیچوں کی روش پر ’’پھول توڑنا منع ہے‘‘ کا حکمِ امتناع لگا ہوتا ہے۔ دسترخوان پر بھی ’کھانا چنا‘ جاتا ہے، مگراب خود ہماری خاتونِ خانہ کے ’خوان‘ سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ’میز پرکھانا لگا دیا‘ جیسے ’چندیا پر چپت لگا دیا‘۔ اہلِ پنجاب میں ’چپیڑ لگانا‘ روزمرہ ہے۔ روز لگاتے ہوں گے۔ نڈر لوگ ہیں۔
روزمرہ کے مطابق ’دھوکا دیا‘ جاتا ہے، ’حلف لیا‘ جاتا ہے، ’موقع پایا‘ جاتا ہے، ’عزت کھوئی‘ جاتی ہے،’لباس پہنا‘ جاتا ہے، ’ٹوپی اوڑھی‘ جاتی ہے، ’پردہ کیا‘جاتا ہے، ’نقاب ڈالا‘ جاتا ہے، اور سر پر’ دوپٹہ لیا‘ جاتا ہے۔لیکن ’دوپٹہ اوڑھ لینے‘ میں بھی کوئی حرج نہیں۔ تاہم آج کل کی خواتین کچھ حرج محسوس کرنے لگی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سیاسی کارکنان بھی روپٹہ گلے ہی میں لٹکائے پھرتے ہیں۔
اگر آپ یوں کہیں کہ ’’ساجد اور ماجد کی تنخواہ برابر ہی ہوگی یا انتیس تیس کا فرق ہوگا‘‘، تو یہ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ روزمرہ یوں ہے کہ دونوں کی تنخواہوں میں بس ’انیس بیس کا فرق‘ ہوگا۔ آپ ہم سے لاکھ کہیں کہ ’’اب زیادہ پانچ سات مت کرو، فوراً آٹھ دو دس ہوجاؤ‘‘ ہم پھر بھی ڈھٹائی سے دانت نکالے یہیں کھڑے رہیں گے (’دانت نکالنا‘ بھی نوٹ فرمائیے) لیکن اگر آپ ہمیں سچ مچ دفعان کرنا چاہیں تو روزمرہ کی رُو سے فقط اعداد بدل دیجیے:
’’بس اب زیادہ تین پانچ نہ کرو، فوراً نو دو گیارہ ہوجاؤ!‘‘