حبیب بینک ٹریننگ ڈویژن کراچی کے ہر دلعزیز استاد
حسین احمد خان پانی پتی
ہمارے اُستاد (اعجاز علی خان)
فروری کا مہینہ تھا، کراچی میں کڑاکے کی سردی نہیں پڑتی موسم معتدل رہتا ہے۔ ہمارے بینک کی ٹریننگ کا آغاز ہونا تھا۔ کمال کے اساتذہ تھے وہ سارے کے سارے ۔ جن کا حرف و لفظ سے ناطہ بھی تھا اور بینکنگ کے بحر بیکراں سے چن کے موتی بھی لاتے۔ ہم تو طفل مکتب تھے اور ان کی عمر اس دشت کی سیاحی میں بسر ہوئی تھی۔ سو ہمارے لیے بینکنگ عجائبات کی دنیا تھی۔ لیکن آفرین ہے استاد محترم حسین احمد خان پر کہ ان کا انداز دلنوازی، بات کرنے اور سمجھانے کا سٹائیل ایسا سادہ لیکن محبتوں کی دنیا سمیٹے ہوتا، کہ ہم ان کے طرز سخن کے یوں اسیر ہوئے کہ آج بھی وہ مدھر لہجہ ، وہ رس بھری آواز سماعتوں میں رس گھولتی ہے۔
جب ہم اپنی عملی زندگی میں کیریئر کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں تو اس میں زیادہ فوکس ہمارے skills پر ہوتا ہے. ۔ 1980 کی دہائی کے آخری سالوں میں حبیب بینک ٹریننگ ڈویژن کراچی میں ہمارے career کی ٹریننگ کا دورانیہ چھ مہینے کا تھا. کلاس کے اوقات کار صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک، سارے اساتذہ(Directing Staff) اپنے شعبے کے ایکسپرٹ تھے لیکن سب سے ہر دل عزیز, استاد محترم، جناب حسین احمد خان تھے, پانی پتی کا اضافی نام، متحدہ ہندوستان میں ان کے علاقے کی شناخت کے طور پر اب ان کے نام کا جزو لا ینفک تھا۔ وہ ٹریننگ ڈویژن کے روح رواں تھے. ان کی یاد آج بھی خیال کے چمنستان میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند خوش کن اور جانفزا احساسات سے دوچار کرتی ہے۔
دبلا پتلا، چھریرا بدن، کشادہ پیشانی، دمکتا شاداب چہرہ، مختصر مونچھیں, کا لی روشن آنکھیں، ہلکی سانولی رنگت، متوسط العمر بلکہ ڈھلتی جوانی، پاجامے اور شیروانی میں ملبوس، رفتار میں سرعت و تمکنت، پان کے مسلسل استعمال سے سرخ لال ہونٹ، چہرے پر وجاہت کی روشنی، خوش مزاج خوش گفتار ، طبیعت میں سادگی لیکن باتوں میں وارفتگی اور اپنائیث، عادات و اطوار میں لکھنؤی تہزیب کی جھلکیاں۔۔ یہ تھے ہمارے حسین احمد خان پانی پتی۔
ان کے پڑھانے کا انداز اس قدر دلکش، دلربا اور دل پذیر تھا کہ ہم ان کی باتوں کی سحر انگیزی میں کھو جاتے۔ ان کی گفتگو میں تجربے اور مشاہدے کا حسین امتزاج تھا۔ بینک کے مختلف شعبوں میں میں کام کرنے کے عملی انداز کو اس سلیقے اور ترتیب سے بیان کرتے کہ ہم اپنے آپ کو تخیلاتی طور پر برانچ میں وہ کام عملی طور پر کرتا محسوس کرتے۔ جیسے اکاؤنٹ اوپننگ، remittances، clearing, Bills department ، interbranch (Pak Account)reconciliation۔ وہ جدھر چاہتے، ہم اسی مضمون اور عنوان پر اپنی توجہ مرکوز کر لیتے، لگتا اک علم کا دریا ہے اور مسلسل بہے جا رہا ہے۔ اس وقت case study کا رواج نہیں تھا لیکن ان کی گفتگو , کسی واقعے کےتذکرے یا event سے اس قدر متعلقہ ہوتی کہ یہی تذکرہ کیس سٹڈی سے بڑھ کر ہوتا اور اس کی جزئیات ذہن میں نقش ہو جاتیں۔۔جب لیکچر دے رہے ہوتے تو برانچوں کی مثالیں دیتے، اکثر نیو چالی برانچ کراچی، سرکلر روڈ فیصل آباد، رام دین برانچ جہلم اور مختلف بینکرز کا ذکر کر کے اپنی بات کو مؤثر اور جاندار بناتے۔ بینکاری کے اصول سمجھاتے غرض ہر چیز اور ہر پوائنٹ دماغ کے نگار خانے میں محفوظ ہو جاتا۔ وہ theory کو فنکارانہ انداز سے پریکٹس میں تبدیل کرتے۔ ہر عنوان کو مثال سے relate کرتے ایسے لگتا کہ وہ انگلی پکڑ کر عملی راہوں پر ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ہم نو واردوں کے ذہن و خیال کے حاشیوں میں بینکنگ کے عملی شوق اور دلچسپی کی جوت جگائی۔ شاید ان کا مشن تھا ~
روشنی جس کی کسی اور کے کام آ جائے
اک دیا ایسا بھی رستے میں جلائے رکھنا
ان کی کلاس کے بعد جب ہم برانچ میں جاتے تو کام کی سمت سے پہلے ہی آگاہ ہوتے اور عملی کام کو بڑی مستعدی اور تکنیکی مہارت سے مکمل کر لیتے۔ قدرت نے ان کو باوقار اظہار کے قرینے اور سخن آرائی کے ہنر کی نعمت ودیعت کر رکھی تھی کہ ان کی نرم گفتاری اور بردباری کے انداز دلربائی سے ہمارے concept واضح ہوتے. ہماری الجھنوں کو سلجھاتے، ہمارے سوالات کے تسلی بخش جوابات یوں دیتے کہ گنجلک اور پیچیدہ scenarios پل بھر میں clear ہو جاتے. ان کی کلاس میں ہماری ارتکاز فکر (concentration) اپنے عروج پر ہوتی کہ ان کی باتیں شیریں دھرنے کی طرح براہ راست دماغ پر اثر انداز ہوتیں۔ ہم بے تابی اور بے قراری سے ان کی کلاس کا انتظار کرتے۔ ہفتے میں چار دن ان کی کلاس ہوتی۔ راستے یا راہداری میں ان سے سامنا ہوتا تو ہم احترام میں سر جھکا کر کھڑے ہو جاتے اور ان کے ہونٹوں پر اک ملائم سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ وہ ٹریننگ میں نکہت باد بہاری کا ایک خوشگوار جھونکا تھے۔ آج بھی بینک کی ٹریننگ کے زمانہ ماضی کی گمشدہ یادوں سے چاہت کے پھول چننا چاہیں تو سب سے پہلے جس شخص کی پرچھائیں اور عکس, خیال کی سکرین پر جھلملائے گا وہ حسین احمد خان پانی پتی ہوں گے۔ خدا ان کی روح کو اپنی رحمتوں اور برکتوں کے سائبان تلے ابدی سکون سے مالامال رکھے۔
اس شہر میں کتنے چہرے تھے، کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا، وہ شخص زبانی یاد ہوا
۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔