انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
“میں نے گیارہ ستارے اور ایک سورج اور چاند کو دیکھا جو مجھے سجدہ کررہے ہیں”
لڑکے یوسف نے والد سے کہا۔
“یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا”۔ والد نے باونڈری بنانی سکھا دی۔

بہترین اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے اپنی زندگی میں کچھ باؤنڈریز ضرور بنانی چاہئے ۔ہم میں سے ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے اور اکثر ہم اپنے اعمال میں خوشامد،منافقت اور بناوٹ کے دم چھلے دوسروں کی خوشی کے لئے ٹانک لیتے ہیں،حالاں کہ کوئی بھی کام جو دل کی رضا مندی کے بغیر دوسروں کی نظروں میں نمبر بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے وہ سرا سر خسارے کا سودا ہے۔۔جب ہم اپنی باونڈری وال بناتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ہم کر سکتے ہیں یا نہیں ۔مثلا اکثر لڑکیاں شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنی دھاک بٹھانے یا عزت بنوانے کے چکر میں سسرال میں ہر کام کو کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور" نہیں "کہنا گناہ سمجھتی ہیں ،دھیرے دھیرے جب روئیے پیاز کی پرتوں کی طرح ان پر کھلتے ہیں اور زیادہ کام کرنے سے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ شوہر کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہونے لگتے ہیں تو اس وقت پھر لڑکیاں بہت دکھی ہوتی ہیں اور اکثر لڑکیاں تو زمہ داریوں کے بوجھ سے بدک کر دوسروں کی تکلیف کے موقع پر بھی مدد کرنے سے کتراتی ہیں۔۔
یہی حال اکثر اداروں میں نئے آ نے والے ملازمین کا بھی ہوتا ہے۔شروع میں وہ باؤنڈریز بناتے نہیں اور بعد میں کوئی بنانے دیتا نہیں اور یوں ورکنگ پلیس ایک خوش گوار ماحول فراہم کرنے کی بجائے درد سر بن جاتی ہے۔۔

ہم لوگوں کو اپنے اپنے بوجھ خود اٹھانے ہوں گے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے مناسب الفاظ میں انکار کیا جاسکتا ہے ۔لیکن محض مروت میں آ کر اپنی زندگی کی خوشیوں اور آ سائشات کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہیے ۔۔ قرآن کریم میں بھی اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ
ترجمہ
کوئی انسان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ❤️


اے پیارے والدین ،اساتذہ اور بزرگو ! میری آ پ سب سے ہاتھ باندھ کر ایک درخواست ہے کہ اپنی اولاد کو ،اپنے سے چھوٹوں کو باؤنڈریز بنانا سکھائیں ،انہیں یہ بتائیں کہ' ہر کام آ پ کے کرنے کا نہیں ہوتا 'اور ہر بات کے جواب میں "جی ہاں" بھی نہیں کہا جاتاہے۔جس طرح شروع میں حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں اپنے خواب کو بتانے سے منع فرما کر انہیں باونڈری بنانا سکھایا اسی طرح آ پ بھی اپنے بچوں کی تربیت میں باونڈری وال بناناضرور سکھائیں لیکن حکمت کے ساتھ ،بے شک اسی میں کامیابی ہے ۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
امریکا میں ایک حجام تھا‘
انوکھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے گاہکوں سے پیسے بالکل نہ لیتا
اور کہتا کہ میں اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ خدمت خلق کر رہا ہوں‘

ایک شخص نے بال کٹوائے شیو بنوائی اور جب اجرت پوچھی تو حسب معمول حجام نے کہا کہ بھائی میرے لئے دعا کر دینا۔
اس شخص کی پھولوں اور گفٹ کی دکان تھی۔
اگلے دن جب صبح حجام دکان پر پہنچا تو وہاں پر پھول گفٹ اور وش کارڈ آویزاں تھے۔
اس نے خوش دلی سے وہ لے لئے۔

پھر ایک شخص جس کی کتابوں کی دکان تھی اس نے حجام سے بال کٹوائے اور اگلے دن اپنی خوشی سے چند عمدہ کتابیں پیک کر کے بھجوا دیں۔

اسی طرح ایک شخص کی گارمنٹس کی دکان تھی اس نے چند شرٹس اور ٹائی بھجوا دی۔

پھر ایک دن ایک پاکستانی وہاں چلا گیا۔
پاکستانی نے بال کٹوائے شیو بنوائی‘ غسل کیا اور اجرت پوچھی
تو حسب معمول حجام نے نہ لی۔
اب اگلی صبح جب حجام اپنی دکان پر پہنچا تو اس نے بھلا کیا دیکھا؟

ایک سچے پاکستانی بن کر سوچئے
اور اندازہ لگائیے‘
🙏
جی ہاں!
اگلی صبح
وہاں 50 کے قریب پاکستانی اس انتظار میں بیٹھے تھے
کہ کب یہ دکان کھلے
.
اور
وہ سب مفت میں بال و شیو بنوائیں۔🙏🙉🙈🙈🙈
 
امریکا میں ایک حجام تھا‘
انوکھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے گاہکوں سے پیسے بالکل نہ لیتا
اور کہتا کہ میں اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ خدمت خلق کر رہا ہوں‘

ایک شخص نے بال کٹوائے شیو بنوائی اور جب اجرت پوچھی تو حسب معمول حجام نے کہا کہ بھائی میرے لئے دعا کر دینا۔
اس شخص کی پھولوں اور گفٹ کی دکان تھی۔
اگلے دن جب صبح حجام دکان پر پہنچا تو وہاں پر پھول گفٹ اور وش کارڈ آویزاں تھے۔
اس نے خوش دلی سے وہ لے لئے۔

پھر ایک شخص جس کی کتابوں کی دکان تھی اس نے حجام سے بال کٹوائے اور اگلے دن اپنی خوشی سے چند عمدہ کتابیں پیک کر کے بھجوا دیں۔

اسی طرح ایک شخص کی گارمنٹس کی دکان تھی اس نے چند شرٹس اور ٹائی بھجوا دی۔

پھر ایک دن ایک پاکستانی وہاں چلا گیا۔
پاکستانی نے بال کٹوائے شیو بنوائی‘ غسل کیا اور اجرت پوچھی
تو حسب معمول حجام نے نہ لی۔
اب اگلی صبح جب حجام اپنی دکان پر پہنچا تو اس نے بھلا کیا دیکھا؟

ایک سچے پاکستانی بن کر سوچئے
اور اندازہ لگائیے‘
🙏
جی ہاں!
اگلی صبح
وہاں 50 کے قریب پاکستانی اس انتظار میں بیٹھے تھے
کہ کب یہ دکان کھلے
.
اور
وہ سب مفت میں بال و شیو بنوائیں۔🙏🙉🙈🙈🙈
ہئی شاواشے۔
تو کل دوپہر بیگم نے یہ لطیفہ آپ سے لے کر مجھے سنایا تھا ۔ میں سمجھا وہ اپنے پاس سے سنا رہی ہے۔ ہا ہا ہا ہا جزاک اللہ خیرا
 

سیما علی

لائبریرین
حکیم اجمل خان

1911ءمیں حکیم اجمل خان یورپ گئے۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یورپی ممالک میں طبی ترقیوں کا مطالعہ کر کے اس کی روشنی میں ہندوستان میں طب یونانی کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔ لندن پہنچ کر وہ چیئرنگ کراس ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر سٹینلے بائڈ، لندن کے چیئرنگ کراس ہسپتال کے سینئر سرجن تھے۔ تشخیص مرض اور فن سرجری دونوں میں ان کا اپنا مقام تھا۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری وہاں ہاﺅس سرجن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حکیم اجمل خاں کا ڈاکٹر بائڈ سے تعارف کرایا۔ ڈاکٹر بائڈ کی دعوت پر حکیم صاحب ان کی کلینیکل سرجری کی کلاس میں بھی گئے۔ یہ کلاس طلباءکی عملی تعلیم کے لئے تھی اور ہفتہ میں دو بار ہسپتال کے کسی نہ کسی وارڈ میں ہوا کرتی تھی۔ جب حکیم صاحب کلاس میں پہنچے تو ڈاکٹر بائڈ ایک مریض کے مرض کے بارے میں طلباءکو سمجھا رہے تھے۔ ان کی رائے میں مرض کی وجہ پتہ پرورم تھا۔ انہوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ وہ بھی مریض کا معائنہ کریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ معائنے کے بعد حکیم صاحب نے کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصے پر پرانا زخم ہے، جس کے باعث داد کی تکلیف، یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بائڈ نے ان سے کہا کہ کل اس مریض کا آپریشن ہو گا، آپ ضرور آیئے۔ پھر ہنس کر بولے: یہ طب یونانی اور انگریزی طب کا امتحان ہے۔ دوسرے روز مریض کا پیٹ چاک کرنے پر حکیم صاحب کی تشخیص صحیح نکلی۔ ڈاکٹر بائڈ نے نہایت خوش دلی سے حکیم صاحب کو ان کی صحیح تشخیص پر نہ صرف مبارک باد دی، بلکہ انہیں اور ڈاکٹر مختار انصاری کو اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا۔ وہاں ڈاکٹر بائڈ نے اپنی بیوی سے، جو خود بھی سینئر سرجن تھیں، حکیم اجمل خاں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں ڈاکٹر انصاری کے ہم وطن، جنہوں نے تشخیص کے مقابلے میں مجھے شکست دی ہے!

پیرس میں وہ ایک ڈاکٹر سے ملے۔ تعارف ہونے پر اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ جس طب میں تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ صرف نبض ہو وہ کیا طب ہو سکتی ہے۔ پھر زور دے کر کہا کہ اگر آپ کو اپنی تشخیص پر اتنا ہی اعتماد ہے، تو ذرا میرے ایک مریض کو دیکھئے، چنانچہ دوسرے روز ایک مریضہ حکیم صاحب کے ہوٹل میں لائی گئی۔ اسے ایک سال سے یہ شکایت تھی کہ اس کی ٹانگیں سکڑ گئی تھیں اور پیٹ میں درد ہوا کرتا تھا۔ ایکسرے اور دوسرے ذرائع تشخیص مرض کا پتہ لگانے میں ناکام ہو چکے تھے۔کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مرض کیا ہے۔ تشخیص مرض کے لئے حکیم صاحب نے اس خاتون سے بہت سے سوال کئے، تو معلوم ہوا کہ و ہ ٹینس بہت کھیلا کرتی تھی اور اسے گھڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ حکیم صاحب نے سوچ بچار کے بعد اسے ایک پڑیا میں دوائی دی اور کہا کہ وہ اسے 1/4 رتی روزانہ مکھن میں ملا کر کھائے۔ فرانسیسی خاتون اس ذرا سی پڑیا اور دوائی کی مقدار پر بے حد حیران ہوئی، لیکن پندرہ روز بعد وہ اپنے پاﺅں پر چل کر اُن کے پاس آئی، حالانکہ آٹھ مہینے سے وہ اس قابل نہیں تھی۔

حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا۔ میرے ذہن میں یہ آیا کہ کیونکہ مریضہ ٹینس کھیلتی اور گھڑ سواری کرتی تھی، اس لئے ممکن ہے کہ اس کی کسی آنت میں کسی جھٹکے کی وجہ سے گرہ پڑ گئی ہو۔ ایسے مریض میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اس لئے مَیں نے اسے ایسی دوائی دی جو آنتوں میں کھجلی پیدا کرے۔ وہ دوا بہترین ثابت ہوئی۔ آنت کی گرہ کھل گئی اور متعلقہ اعضا اپنا کام کرنے لگے۔ اس علاج سے وہ فرانسیسی ڈاکٹر اتنا متاثر ہوا کہ حکیم صاحب سے گھنٹوں طب یونانی کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ اس نے ان کے اعزاز میں ایک ڈنر بھی دیا، جس میں پیرس کے بڑے بڑے ڈاکٹر شریک ہوئے۔ یہ تھے حکیم اجمل خاں۔ طب یونانی میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ آج بھی پاکستان میں ہر جگہ ”دوا خانہ حکیم اجمل خاں“ احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
حکیم صاحب کی شہرت ایسی تھی کہ سمر قند و بخارا تک کے لوگ علاج کے لئے آتے اور شفا یاب ہو کر جاتے تھے۔ غریب امیر سب کو یکساں توجہ سے دیکھتے اور بغیر کسی فیس کے۔حکیم صاحب کے مزاج میں کچھ شوخی بھی تھی۔ ایک بار ایک شخص دمہ سے ہانپتا کانپتا آیا۔ جیب سے پڑیا نکالی اور بولا:حکیم صاحب، میرے ساتھ بہت ہو گئی۔ آج میں سنکھیا کھاﺅں گا اور اس در پہ جان دے دوں گا۔ شوخی سے بولے: سنکھیا کھا کے کیوں مرتا ہے۔ مرنا ہی ہے تو دوا کھا کے مر.... پھر اس کا علاج کیا اور اس کا دمہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
کچرے کے ٹرک۔۔۔
#betterlifetips
ایک دن میں ٹیکسی میں بیٹھا ایئرپورٹ کی جانب گامزن تھا، گھر سے ایئرپورٹ کی طرف جانے والا رستہ ہائی وے پر ہونے کے باعث تقریباً سیدھا تھا۔ گھر سے نکلے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ٹیکسی ڈرائیور نے پانی خریدنے کے لیے گاڑی کو قریبی مارکیٹ والے رستے پر ڈال دیا۔

جیسے ہی ہم مارکیٹ کی حدود میں پہنچے، مارکیٹ کی پارکنگ سے ایک کار پوری رفتار سے ریورس میں نکلی اور اچانک ہمارے سامنے آ گئی، ٹیکسی ڈرائیور نے تیزی سے بریک پیڈل دبایا، ٹائر احتجاجاً چرمرائے، ٹیکسی اس گاڑی سے ٹکرانے سے بال بال بچی تھی۔

صریحاً غلطی دوسرے ڈرائیور کی تھی، مگر اس صورتحال کی عجیب بات یہ ہے کہ دوسری گاڑی کے "بے وقوف" ڈرائیور نے اپنی کار سے سر باہر نکالا اور رخ ہماری طرف کرتے ہوئے گالم گلوچ کرنے لگا۔

ٹیکسی ڈرائیور کی غلطی نہ ہونے کے باوجود اس نے اپنا غصہ دبایا اور اس بیوقوف سے معذرت کرتے ہوئے معافی مانگی، اس کی جانب مسکراہٹ اچھالی، سامنے والا ڈرائیور بڑبڑاتے ہوئے اپنی گاڑی نکال کر وہاں سے چلا گیا۔

میں حیران ہوا کہ اس ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کیا کیا؟ میں نے اس سے پوچھا: جب وہ غلطی پر ہے تو آپ اس سے معافی کیوں مانگ رہے تھے؟
اس آدمی کی لاپرواہی اور غلطی ہمیں کسی بڑے حادثے سے دوچار کر سکتی تھی؟
یہاں ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے ایک ایسا نکتہ سمجھایا جسے میں نے ہمیشہ یاد رکھا۔

اس نے کہا: بہت سے لوگ کچرا اٹھانے والے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، جو کچرے کے ڈھیروں سے لدے ادھر ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں (ہر قسم کے مسائل، مایوسی، غصہ، ناکامی اور فرسٹریشن سے لدے ہوئے) اور جب یہ فضلہ ان کے اندر زیادہ مقدار میں جمع Overflow ہوجاتا ہے، تو انہیں ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اسے کسی بھی جگہ پر خالی کر دیں ، اس کے لیے وہ کوڑے دان کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اسی لیے اپنے آپ کو نہ ہی کچرا بنائیں اور نہ ہی کچرا کنڈی

اگر ایسے لوگوں سے سامنا ہوجائے تو کبھی بھی ان کی گالم گلوچ کو ذاتی طور پر نہ لیں، بس مسکرائیں، معذرت کریں اور اپنے غصے پر قابو پالیں، پھر اپنے رستے پر چل دیں، اور خدا سے دعا کریں کہ وہ ان منتشر لوگوں کی رہنمائی کرے اور ان کی پریشانی دور کرے، اور ہمیں ایسے لوگوں سے اور ان کے اس گروہ کی طرح ہونے سے بچائے جو اپنے اندر فضلہ اکٹھا کرتے ہیں اور اسے کام کی جگہ پر، گھر پر یا سڑک پر دوسرے لوگوں پر پھینکتے رہتے ہیں۔

شیخ علی الطنطاوی کہتے ہیں اسی واقعے کے بعد میں نے ایسے لوگوں کو "کچرے والا ٹرک" کا نام دینا شروع کیا، اور ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ کسی طرح ان سے پہلو بچا کر گزر جاؤں۔
توقیر بُھملہ
 

جاسمن

لائبریرین
عبداللہ صاحب 14 اگست نہیں مناتے۔لازمی پڑھیے
یہ 14 اگست کے دن معمول کی طرح اپنی دکان کھولتے ہیں‘ گاہک نمٹاتے ہیں اور گھر آ کر سو جاتے ہیں۔ 70 سالوں میں ایک دفعہ بھی انہوں نے گھر پر جھنڈا نہیں لگایا۔ عبداللہ صاحب صرف مٹن کھاتے ہیں یا چکن۔ بلکہ اب تو مہینوں مٹن بھی نہیں کھاتے حالانکہ قالینوں کے سوداگر ہیں‘ صحت بھی ٹھیک ہے‘ ڈاکٹروں نے بھی کوئی خاص پرہیز نہیں بتائی۔ اُنہیں خود بھی مٹن بہت پسند ہے بلکہ مٹن سے زیادہ بیف پسند ہے‘ لیکن ان کے گھر میں آج کل جب گوشت نامی کوئی چیز پکتی ہے تو وہ صرف اور صرف چکن ہوتا ہے۔ عبداللہ صاحب کے گھر کے باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں لگی ہوئی‘ یہ ایک عجیب سا گھر ہے‘ بڑا خوبصورت بنا ہوا ہے‘ شاندار گیٹ ہے لیکن باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اہلیہ وفات پا چکی ہیں۔ دونوں بیٹوں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے اور بیٹی ماسٹرز کر رہی ہے۔ بیٹوں نے سرکاری نوکری کے لیے بڑی تگ و دو کی لیکن میرٹ پر آنے اور نوکری کی جگہ خالی ہونے کے باوجود محروم رہے‘ اور آج کل باپ کے ساتھ قالینوں کا کارخانہ سنبھالتے ہیں۔ بیٹی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے لیکن یونیورسٹی سے گھر آتے ہی رونے لگتی ہے۔ اسے گلہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی گزرتی ہے لڑکے اس پر غلیظ جملے کستے ہیں۔ عبداللہ صاحب محلے میں سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں کیونکہ محلے کے لوگ اُن سے ملنا نہیں چاہتے۔ عبداللہ صاحب محلے کی دکان سے
بوتل بھی لے کر پئیں تو دکاندار احتیاطاً بوتل الگ رکھ دیتا ہے حالانکہ عبداللہ صاحب کو کوئی ایسی بیماری نہیں جو اِن کی وجہ سے کسی دوسرے کو لگ سکے۔ عبداللہ صاحب عموماً نماز گھر میں ہی پڑھتے ہیں‘ البتہ جمعہ پڑھنے شہر کی بڑی مسجد میں چلے جاتے ہیں‘ اور واپسی پر ہمیشہ دوسرا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ اگر کبھی کسی بازار سے گزر رہے ہوں اور اذان کی آواز کانوں میں پڑے تو ''اشہدُ اَن محمدا رسول اللہ‘‘کے الفاط سن کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو بھی نہیں لگاتے۔ پکے نمازی اور کھرے مسلمان ہونے کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ بلند آواز میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔ پچھلے رمضان میں 27ویں کی رات ان کی بیٹی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی‘ آواز ذرا بلند ہو گئی۔ عبداللہ صاحب نے فوراً اپنی نفلی نماز توڑی اور بیٹی کو ڈانٹا کہ آہستہ آواز میں قرآن پڑھے۔ عبداللہ صاحب کے گھر میں کیبل نہیں لگی ہوئی‘ انٹینا لگا ہوا ہے جس پر وہ پی ٹی وی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ پہلے وہ سر پر ٹوپی پہنتے تھے‘ اب نہیں پہنتے۔ عبداللہ صاحب کے گھر میں کسی کی طبیعت خراب ہو جائے تو سرکاری ہسپتال جانے کی بجائے کوشش کرتے ہیں کہ کسی گھریلو ٹوٹکے سے آرام آ جائے۔ اُن کے گھر میں ہر وقت ایک بھرا ہوا ریوالور موجود رہتا ہے اور رات کے وقت گھر کی فضا عجیب قسم کے خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ عبداللہ صاحب کے بیٹوں کے چند دوست ہیں جن کے نام اور موبائل نمبرز عبداللہ صاحب کو بھی یاد ہیں۔ انہوں نے بیٹوں کو سختی سے ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ رات 8 بجے سے پہلے ہر حال میں گھر میں موجود ہوں۔
کبھی کبھی عبداللہ صاحب کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے باہر اپنے نام کی ایک خوبصورت سی نیم پلیٹ بنوا کر لگائیں۔ ایک دفعہ انہوں نے نیم پلیٹ بنوا بھی لی لیکن پھر خاموشی سے بیگم کے جہیز میںآئی ہوئی بڑی کپڑوں کی الماری میں رکھ دی۔ عبداللہ صاحب کسی سے ملتے ہیں تو السلام علیکم بھی نہیں کہتے‘ صرف مصافحے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ تو بنا ہوا ہے لیکن جب کہیں شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ کانپ جاتے ہیں۔ دل ہی دل میں دعائیں کرتے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی گھر میں نیاز پکوائیں اور محلے میں بانٹیں لیکن اُنہیں پتا ہے محلے والے ان کے گھر کی پکی ہوئی چیز کبھی قبول نہیں کریں گے۔ عبداللہ صاحب اس محلے میں گزشتہ تیس سال سے رہ رہے ہیں اس کے باوجود محلے میں کوئی شادی ہو تو کوئی اُنہیں نہیں بلاتا۔ یہ بس میں سفر کر رہے ہوں تو جان بوجھ کر ایسی سیٹ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کسی کی نظر اِن پر نہ پڑ سکے۔ ان کو ہر وقت لگتا ہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے‘ کوئی ان کی باتیں سن رہا ہے‘ کوئی ان کی بیٹی کو اغوا کر لے گا‘ کوئی ان کے بیٹوں کو مار دے گا۔ محلے میں کہیں چار لوگ کھڑے ہوئے ہوں تو یہ دور سے انہیں دیکھتے ہی راستہ بدل لیتے ہیں‘ اگر مجبوراً گزرنا بھی پڑے تو سلام لینے کی بجائے ہاتھ ہلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
جو کچرے والا عبداللہ صاحب کے گھر کا کچرا اٹھانے آتا ہے وہ بھی مشکوک نظروں سے ہر روز کچرے والے شاپنگ بیگ کا جائزہ لیتا ہے۔ عبداللہ صاحب ہر بڑی عید پر قربانی کرتے ہیں لیکن مسجد میں ہی جانور لاتے ہیں وہیں قربان کرکے وہیں گوشت بانٹ دیتے ہیں‘ اپنے لیے جو گوشت گھر لاتے ہیں وہ رات کی تاریکی میں لاتے ہیں۔ عبداللہ صاحب پردے کے انتہائی حامی ہیں لیکن دوسری طرف ان کی بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے تو سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیتی۔ عبداللہ صاحب شرم سے زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ پہلے ان کی بیٹی دوپٹہ لیتی تھی لیکن جب محلے میں ایک اوباش نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر گولا سا بنا کر گندے پانی میں پھینک دیا تھا تب سے انہوں نے خود بیٹی کو اجازت دی کہ وہ ننگے سر یونیورسٹی جایا کرے۔ ایک دن ان کی بیٹی نے اپنے لیے گھر میں ہی سکارف سی کر پہن لیا۔ عبداللہ صاحب نے دیکھا تو ایک دم سے ان کے پائوں تلے زمین نکل گئی۔ فوراً اتارنے کے لیے کہا‘ اور سختی سے تاکید کی کہ آئندہ گھر میں ایسا کوئی کپڑا نظر نہ آئے جس سے سر ڈھانپنے کا کام لیا جا سکے۔
عبداللہ صاحب کا بڑا دل چاہتا ہے کہ وہ روزانہ گھر میں بلند آواز قران کی تلاوت کیا کریں... کسی دوست سے ملیں تو اسے بلند آواز السلامُ علیکم کہا کریں... بیف‘ مٹن‘ چکن سب کھایا کریں... فخر سے سر پر مدینے سے لائی ہوئی ٹوپی پہن کر پانچوں نمازیں پڑھنے کے لیے مسجد میں جایا کریں... محلے کے لوگوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوا کریں... ان کے بیٹے اپنے دوستوں میں خوش رہا کریں... ان کی بیٹی اپنی مرضی سے عبایہ پہن کر یونیورسٹی جایا کرے ... کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھائے... کوئی انہیں مشکوک نظروں سے نہ دیکھے... وہ خوف کی فضا سے نکل کر خوشیوں کے حصار میں آ جائیں... رمضان کے دنوں میں محلے والوں کو افطاری پر بلائیں... بڑی عید پر قربانی کے جانور کو محبت سے گلی گلی گھمائیں... لیکن وہ جانتے ہیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔

عبداللہ صاحب کون ہیں؟
میں ان سے کبھی نہیں ملا‘
یہ میرے ایک دوست کے دور پار کے رشتہ دار ہیں۔ دوست بتا رہا تھا کہ عبداللہ صاحب دو تین سال بعد اُن سے ملنے آتے ہیں۔ ایک ہفتہ قیام فرماتے ہیں... بلند آواز سے آیتیں پڑھتے ہیں‘ فخر سے نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں‘ جی بھر کے بیف کھاتے ہیں‘ مٹن کھاتے ہیں۔ ہنستے ہیں‘ مسکراتے ہیں‘ ہر ملنے جلنے والے سے پُرجوش انداز میں السلامُ علیکم کہتے ہیں... اور پھر ایک ہفتے بعد اُتاری ہوئی خوف کی چادر پھر سے اوڑھ کر واپس... بھارت چلے جاتے ہیں!
#آزادی_نعمت_ھے
کاپی
 

محمداحمد

لائبریرین
عبداللہ صاحب 14 اگست نہیں مناتے۔لازمی پڑھیے
یہ 14 اگست کے دن معمول کی طرح اپنی دکان کھولتے ہیں‘ گاہک نمٹاتے ہیں اور گھر آ کر سو جاتے ہیں۔ 70 سالوں میں ایک دفعہ بھی انہوں نے گھر پر جھنڈا نہیں لگایا۔ عبداللہ صاحب صرف مٹن کھاتے ہیں یا چکن۔ بلکہ اب تو مہینوں مٹن بھی نہیں کھاتے حالانکہ قالینوں کے سوداگر ہیں‘ صحت بھی ٹھیک ہے‘ ڈاکٹروں نے بھی کوئی خاص پرہیز نہیں بتائی۔ اُنہیں خود بھی مٹن بہت پسند ہے بلکہ مٹن سے زیادہ بیف پسند ہے‘ لیکن ان کے گھر میں آج کل جب گوشت نامی کوئی چیز پکتی ہے تو وہ صرف اور صرف چکن ہوتا ہے۔ عبداللہ صاحب کے گھر کے باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں لگی ہوئی‘ یہ ایک عجیب سا گھر ہے‘ بڑا خوبصورت بنا ہوا ہے‘ شاندار گیٹ ہے لیکن باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اہلیہ وفات پا چکی ہیں۔ دونوں بیٹوں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے اور بیٹی ماسٹرز کر رہی ہے۔ بیٹوں نے سرکاری نوکری کے لیے بڑی تگ و دو کی لیکن میرٹ پر آنے اور نوکری کی جگہ خالی ہونے کے باوجود محروم رہے‘ اور آج کل باپ کے ساتھ قالینوں کا کارخانہ سنبھالتے ہیں۔ بیٹی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے لیکن یونیورسٹی سے گھر آتے ہی رونے لگتی ہے۔ اسے گلہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی گزرتی ہے لڑکے اس پر غلیظ جملے کستے ہیں۔ عبداللہ صاحب محلے میں سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں کیونکہ محلے کے لوگ اُن سے ملنا نہیں چاہتے۔ عبداللہ صاحب محلے کی دکان سے
بوتل بھی لے کر پئیں تو دکاندار احتیاطاً بوتل الگ رکھ دیتا ہے حالانکہ عبداللہ صاحب کو کوئی ایسی بیماری نہیں جو اِن کی وجہ سے کسی دوسرے کو لگ سکے۔ عبداللہ صاحب عموماً نماز گھر میں ہی پڑھتے ہیں‘ البتہ جمعہ پڑھنے شہر کی بڑی مسجد میں چلے جاتے ہیں‘ اور واپسی پر ہمیشہ دوسرا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ اگر کبھی کسی بازار سے گزر رہے ہوں اور اذان کی آواز کانوں میں پڑے تو ''اشہدُ اَن محمدا رسول اللہ‘‘کے الفاط سن کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو بھی نہیں لگاتے۔ پکے نمازی اور کھرے مسلمان ہونے کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ بلند آواز میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔ پچھلے رمضان میں 27ویں کی رات ان کی بیٹی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی‘ آواز ذرا بلند ہو گئی۔ عبداللہ صاحب نے فوراً اپنی نفلی نماز توڑی اور بیٹی کو ڈانٹا کہ آہستہ آواز میں قرآن پڑھے۔ عبداللہ صاحب کے گھر میں کیبل نہیں لگی ہوئی‘ انٹینا لگا ہوا ہے جس پر وہ پی ٹی وی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ پہلے وہ سر پر ٹوپی پہنتے تھے‘ اب نہیں پہنتے۔ عبداللہ صاحب کے گھر میں کسی کی طبیعت خراب ہو جائے تو سرکاری ہسپتال جانے کی بجائے کوشش کرتے ہیں کہ کسی گھریلو ٹوٹکے سے آرام آ جائے۔ اُن کے گھر میں ہر وقت ایک بھرا ہوا ریوالور موجود رہتا ہے اور رات کے وقت گھر کی فضا عجیب قسم کے خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ عبداللہ صاحب کے بیٹوں کے چند دوست ہیں جن کے نام اور موبائل نمبرز عبداللہ صاحب کو بھی یاد ہیں۔ انہوں نے بیٹوں کو سختی سے ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ رات 8 بجے سے پہلے ہر حال میں گھر میں موجود ہوں۔
کبھی کبھی عبداللہ صاحب کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے باہر اپنے نام کی ایک خوبصورت سی نیم پلیٹ بنوا کر لگائیں۔ ایک دفعہ انہوں نے نیم پلیٹ بنوا بھی لی لیکن پھر خاموشی سے بیگم کے جہیز میںآئی ہوئی بڑی کپڑوں کی الماری میں رکھ دی۔ عبداللہ صاحب کسی سے ملتے ہیں تو السلام علیکم بھی نہیں کہتے‘ صرف مصافحے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ تو بنا ہوا ہے لیکن جب کہیں شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ کانپ جاتے ہیں۔ دل ہی دل میں دعائیں کرتے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی گھر میں نیاز پکوائیں اور محلے میں بانٹیں لیکن اُنہیں پتا ہے محلے والے ان کے گھر کی پکی ہوئی چیز کبھی قبول نہیں کریں گے۔ عبداللہ صاحب اس محلے میں گزشتہ تیس سال سے رہ رہے ہیں اس کے باوجود محلے میں کوئی شادی ہو تو کوئی اُنہیں نہیں بلاتا۔ یہ بس میں سفر کر رہے ہوں تو جان بوجھ کر ایسی سیٹ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کسی کی نظر اِن پر نہ پڑ سکے۔ ان کو ہر وقت لگتا ہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے‘ کوئی ان کی باتیں سن رہا ہے‘ کوئی ان کی بیٹی کو اغوا کر لے گا‘ کوئی ان کے بیٹوں کو مار دے گا۔ محلے میں کہیں چار لوگ کھڑے ہوئے ہوں تو یہ دور سے انہیں دیکھتے ہی راستہ بدل لیتے ہیں‘ اگر مجبوراً گزرنا بھی پڑے تو سلام لینے کی بجائے ہاتھ ہلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
جو کچرے والا عبداللہ صاحب کے گھر کا کچرا اٹھانے آتا ہے وہ بھی مشکوک نظروں سے ہر روز کچرے والے شاپنگ بیگ کا جائزہ لیتا ہے۔ عبداللہ صاحب ہر بڑی عید پر قربانی کرتے ہیں لیکن مسجد میں ہی جانور لاتے ہیں وہیں قربان کرکے وہیں گوشت بانٹ دیتے ہیں‘ اپنے لیے جو گوشت گھر لاتے ہیں وہ رات کی تاریکی میں لاتے ہیں۔ عبداللہ صاحب پردے کے انتہائی حامی ہیں لیکن دوسری طرف ان کی بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے تو سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیتی۔ عبداللہ صاحب شرم سے زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ پہلے ان کی بیٹی دوپٹہ لیتی تھی لیکن جب محلے میں ایک اوباش نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر گولا سا بنا کر گندے پانی میں پھینک دیا تھا تب سے انہوں نے خود بیٹی کو اجازت دی کہ وہ ننگے سر یونیورسٹی جایا کرے۔ ایک دن ان کی بیٹی نے اپنے لیے گھر میں ہی سکارف سی کر پہن لیا۔ عبداللہ صاحب نے دیکھا تو ایک دم سے ان کے پائوں تلے زمین نکل گئی۔ فوراً اتارنے کے لیے کہا‘ اور سختی سے تاکید کی کہ آئندہ گھر میں ایسا کوئی کپڑا نظر نہ آئے جس سے سر ڈھانپنے کا کام لیا جا سکے۔
عبداللہ صاحب کا بڑا دل چاہتا ہے کہ وہ روزانہ گھر میں بلند آواز قران کی تلاوت کیا کریں... کسی دوست سے ملیں تو اسے بلند آواز السلامُ علیکم کہا کریں... بیف‘ مٹن‘ چکن سب کھایا کریں... فخر سے سر پر مدینے سے لائی ہوئی ٹوپی پہن کر پانچوں نمازیں پڑھنے کے لیے مسجد میں جایا کریں... محلے کے لوگوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوا کریں... ان کے بیٹے اپنے دوستوں میں خوش رہا کریں... ان کی بیٹی اپنی مرضی سے عبایہ پہن کر یونیورسٹی جایا کرے ... کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھائے... کوئی انہیں مشکوک نظروں سے نہ دیکھے... وہ خوف کی فضا سے نکل کر خوشیوں کے حصار میں آ جائیں... رمضان کے دنوں میں محلے والوں کو افطاری پر بلائیں... بڑی عید پر قربانی کے جانور کو محبت سے گلی گلی گھمائیں... لیکن وہ جانتے ہیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔

عبداللہ صاحب کون ہیں؟
میں ان سے کبھی نہیں ملا‘
یہ میرے ایک دوست کے دور پار کے رشتہ دار ہیں۔ دوست بتا رہا تھا کہ عبداللہ صاحب دو تین سال بعد اُن سے ملنے آتے ہیں۔ ایک ہفتہ قیام فرماتے ہیں... بلند آواز سے آیتیں پڑھتے ہیں‘ فخر سے نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں‘ جی بھر کے بیف کھاتے ہیں‘ مٹن کھاتے ہیں۔ ہنستے ہیں‘ مسکراتے ہیں‘ ہر ملنے جلنے والے سے پُرجوش انداز میں السلامُ علیکم کہتے ہیں... اور پھر ایک ہفتے بعد اُتاری ہوئی خوف کی چادر پھر سے اوڑھ کر واپس... بھارت چلے جاتے ہیں!
#آزادی_نعمت_ھے
کاپی
اگر وہ بھارتی ہیں تو پھر 14 اگست کیوں منائیں گے؟
 

سیما علی

لائبریرین
میرے ایک دوست کے دور پار کے رشتہ دار ہیں۔ دوست بتا رہا تھا کہ عبداللہ صاحب دو تین سال بعد اُن سے ملنے آتے ہیں۔ ایک ہفتہ قیام فرماتے ہیں... بلند آواز سے آیتیں پڑھتے ہیں‘ فخر سے نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں‘ جی بھر کے بیف کھاتے ہیں‘ مٹن کھاتے ہیں۔ ہنستے ہیں‘ مسکراتے ہیں‘ ہر ملنے جلنے والے سے پُرجوش انداز میں السلامُ علیکم کہتے ہیں... اور پھر ایک ہفتے بعد اُتاری ہوئی خوف کی چادر پھر سے اوڑھ کر واپس... بھارت چلے جاتے ہیں!
#آزادی_نعمت_ھے
بس اے کاش یہ بات ہمیں سمجھ میں آنے لگے ۔۔۔۔جو شاید 76 سال گذرنے کے بعدبھی لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتیں ۔۔۔
 

زیک

مسافر
عبداللہ صاحب 14 اگست نہیں مناتے۔لازمی پڑھیے
یہ 14 اگست کے دن معمول کی طرح اپنی دکان کھولتے ہیں‘ گاہک نمٹاتے ہیں اور گھر آ کر سو جاتے ہیں۔ 70 سالوں میں ایک دفعہ بھی انہوں نے گھر پر جھنڈا نہیں لگایا۔ عبداللہ صاحب صرف مٹن کھاتے ہیں یا چکن۔ بلکہ اب تو مہینوں مٹن بھی نہیں کھاتے حالانکہ قالینوں کے سوداگر ہیں‘ صحت بھی ٹھیک ہے‘ ڈاکٹروں نے بھی کوئی خاص پرہیز نہیں بتائی۔ اُنہیں خود بھی مٹن بہت پسند ہے بلکہ مٹن سے زیادہ بیف پسند ہے‘ لیکن ان کے گھر میں آج کل جب گوشت نامی کوئی چیز پکتی ہے تو وہ صرف اور صرف چکن ہوتا ہے۔ عبداللہ صاحب کے گھر کے باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں لگی ہوئی‘ یہ ایک عجیب سا گھر ہے‘ بڑا خوبصورت بنا ہوا ہے‘ شاندار گیٹ ہے لیکن باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اہلیہ وفات پا چکی ہیں۔ دونوں بیٹوں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے اور بیٹی ماسٹرز کر رہی ہے۔ بیٹوں نے سرکاری نوکری کے لیے بڑی تگ و دو کی لیکن میرٹ پر آنے اور نوکری کی جگہ خالی ہونے کے باوجود محروم رہے‘ اور آج کل باپ کے ساتھ قالینوں کا کارخانہ سنبھالتے ہیں۔ بیٹی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے لیکن یونیورسٹی سے گھر آتے ہی رونے لگتی ہے۔ اسے گلہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی گزرتی ہے لڑکے اس پر غلیظ جملے کستے ہیں۔ عبداللہ صاحب محلے میں سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں کیونکہ محلے کے لوگ اُن سے ملنا نہیں چاہتے۔ عبداللہ صاحب محلے کی دکان سے
بوتل بھی لے کر پئیں تو دکاندار احتیاطاً بوتل الگ رکھ دیتا ہے حالانکہ عبداللہ صاحب کو کوئی ایسی بیماری نہیں جو اِن کی وجہ سے کسی دوسرے کو لگ سکے۔ عبداللہ صاحب عموماً نماز گھر میں ہی پڑھتے ہیں‘ البتہ جمعہ پڑھنے شہر کی بڑی مسجد میں چلے جاتے ہیں‘ اور واپسی پر ہمیشہ دوسرا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ اگر کبھی کسی بازار سے گزر رہے ہوں اور اذان کی آواز کانوں میں پڑے تو ''اشہدُ اَن محمدا رسول اللہ‘‘کے الفاط سن کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو بھی نہیں لگاتے۔ پکے نمازی اور کھرے مسلمان ہونے کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ بلند آواز میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔ پچھلے رمضان میں 27ویں کی رات ان کی بیٹی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی‘ آواز ذرا بلند ہو گئی۔ عبداللہ صاحب نے فوراً اپنی نفلی نماز توڑی اور بیٹی کو ڈانٹا کہ آہستہ آواز میں قرآن پڑھے۔ عبداللہ صاحب کے گھر میں کیبل نہیں لگی ہوئی‘ انٹینا لگا ہوا ہے جس پر وہ پی ٹی وی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ پہلے وہ سر پر ٹوپی پہنتے تھے‘ اب نہیں پہنتے۔ عبداللہ صاحب کے گھر میں کسی کی طبیعت خراب ہو جائے تو سرکاری ہسپتال جانے کی بجائے کوشش کرتے ہیں کہ کسی گھریلو ٹوٹکے سے آرام آ جائے۔ اُن کے گھر میں ہر وقت ایک بھرا ہوا ریوالور موجود رہتا ہے اور رات کے وقت گھر کی فضا عجیب قسم کے خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ عبداللہ صاحب کے بیٹوں کے چند دوست ہیں جن کے نام اور موبائل نمبرز عبداللہ صاحب کو بھی یاد ہیں۔ انہوں نے بیٹوں کو سختی سے ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ رات 8 بجے سے پہلے ہر حال میں گھر میں موجود ہوں۔
کبھی کبھی عبداللہ صاحب کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے باہر اپنے نام کی ایک خوبصورت سی نیم پلیٹ بنوا کر لگائیں۔ ایک دفعہ انہوں نے نیم پلیٹ بنوا بھی لی لیکن پھر خاموشی سے بیگم کے جہیز میںآئی ہوئی بڑی کپڑوں کی الماری میں رکھ دی۔ عبداللہ صاحب کسی سے ملتے ہیں تو السلام علیکم بھی نہیں کہتے‘ صرف مصافحے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ تو بنا ہوا ہے لیکن جب کہیں شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ کانپ جاتے ہیں۔ دل ہی دل میں دعائیں کرتے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی گھر میں نیاز پکوائیں اور محلے میں بانٹیں لیکن اُنہیں پتا ہے محلے والے ان کے گھر کی پکی ہوئی چیز کبھی قبول نہیں کریں گے۔ عبداللہ صاحب اس محلے میں گزشتہ تیس سال سے رہ رہے ہیں اس کے باوجود محلے میں کوئی شادی ہو تو کوئی اُنہیں نہیں بلاتا۔ یہ بس میں سفر کر رہے ہوں تو جان بوجھ کر ایسی سیٹ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کسی کی نظر اِن پر نہ پڑ سکے۔ ان کو ہر وقت لگتا ہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے‘ کوئی ان کی باتیں سن رہا ہے‘ کوئی ان کی بیٹی کو اغوا کر لے گا‘ کوئی ان کے بیٹوں کو مار دے گا۔ محلے میں کہیں چار لوگ کھڑے ہوئے ہوں تو یہ دور سے انہیں دیکھتے ہی راستہ بدل لیتے ہیں‘ اگر مجبوراً گزرنا بھی پڑے تو سلام لینے کی بجائے ہاتھ ہلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
جو کچرے والا عبداللہ صاحب کے گھر کا کچرا اٹھانے آتا ہے وہ بھی مشکوک نظروں سے ہر روز کچرے والے شاپنگ بیگ کا جائزہ لیتا ہے۔ عبداللہ صاحب ہر بڑی عید پر قربانی کرتے ہیں لیکن مسجد میں ہی جانور لاتے ہیں وہیں قربان کرکے وہیں گوشت بانٹ دیتے ہیں‘ اپنے لیے جو گوشت گھر لاتے ہیں وہ رات کی تاریکی میں لاتے ہیں۔ عبداللہ صاحب پردے کے انتہائی حامی ہیں لیکن دوسری طرف ان کی بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے تو سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیتی۔ عبداللہ صاحب شرم سے زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ پہلے ان کی بیٹی دوپٹہ لیتی تھی لیکن جب محلے میں ایک اوباش نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر گولا سا بنا کر گندے پانی میں پھینک دیا تھا تب سے انہوں نے خود بیٹی کو اجازت دی کہ وہ ننگے سر یونیورسٹی جایا کرے۔ ایک دن ان کی بیٹی نے اپنے لیے گھر میں ہی سکارف سی کر پہن لیا۔ عبداللہ صاحب نے دیکھا تو ایک دم سے ان کے پائوں تلے زمین نکل گئی۔ فوراً اتارنے کے لیے کہا‘ اور سختی سے تاکید کی کہ آئندہ گھر میں ایسا کوئی کپڑا نظر نہ آئے جس سے سر ڈھانپنے کا کام لیا جا سکے۔
عبداللہ صاحب کا بڑا دل چاہتا ہے کہ وہ روزانہ گھر میں بلند آواز قران کی تلاوت کیا کریں... کسی دوست سے ملیں تو اسے بلند آواز السلامُ علیکم کہا کریں... بیف‘ مٹن‘ چکن سب کھایا کریں... فخر سے سر پر مدینے سے لائی ہوئی ٹوپی پہن کر پانچوں نمازیں پڑھنے کے لیے مسجد میں جایا کریں... محلے کے لوگوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوا کریں... ان کے بیٹے اپنے دوستوں میں خوش رہا کریں... ان کی بیٹی اپنی مرضی سے عبایہ پہن کر یونیورسٹی جایا کرے ... کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھائے... کوئی انہیں مشکوک نظروں سے نہ دیکھے... وہ خوف کی فضا سے نکل کر خوشیوں کے حصار میں آ جائیں... رمضان کے دنوں میں محلے والوں کو افطاری پر بلائیں... بڑی عید پر قربانی کے جانور کو محبت سے گلی گلی گھمائیں... لیکن وہ جانتے ہیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔

عبداللہ صاحب کون ہیں؟
میں ان سے کبھی نہیں ملا‘
یہ میرے ایک دوست کے دور پار کے رشتہ دار ہیں۔ دوست بتا رہا تھا کہ عبداللہ صاحب دو تین سال بعد اُن سے ملنے آتے ہیں۔ ایک ہفتہ قیام فرماتے ہیں... بلند آواز سے آیتیں پڑھتے ہیں‘ فخر سے نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں‘ جی بھر کے بیف کھاتے ہیں‘ مٹن کھاتے ہیں۔ ہنستے ہیں‘ مسکراتے ہیں‘ ہر ملنے جلنے والے سے پُرجوش انداز میں السلامُ علیکم کہتے ہیں... اور پھر ایک ہفتے بعد اُتاری ہوئی خوف کی چادر پھر سے اوڑھ کر واپس... بھارت چلے جاتے ہیں!
#آزادی_نعمت_ھے
کاپی
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں بس ان کا مذہب فرق ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ملک کے کسی بڑے شہر کا حاکم اپنے مشیروں اور چند سپاہیوں کے ساتھ مرکزی بازار کے گشت پر نکلا۔ اس نے وہاں‌ ایک پرندے بیچنے والے کو دیکھا جس کے پاس ایک پرندوں سے بھرا ہوا ایک پنجرہ تھا اور اس کی قیمت وہ ایک دینار لگائے ہوئے تھا جب کہ اسی پنجرے کے ساتھ ایک اور پنجرے میں ویسا ہی صرف ایک پرندہ تھا جس کی قیمت وہ دس دینار مانگ رہا تھا۔

حاکمِ وقت کو اس عجیب فرق پر بہت تعجب ہوا تو اس نے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ پرندوں سے بھرا ہوا پورا ٹوکرا محض ایک دینار کا اور ویسا ہی ایک اکیلا پرندہ دس دینار کا؟

بیچنے والے نے عرض کی : حضورِ والا، یہ اکیلا پرندہ سدھایا ہوا ہے، جب یہ بولتا ہے تو اس کے دھوکے میں آکر باقی کے پرندے جال میں پھنس جاتے ہیں، اس لیے یہ قیمتی ہے اور اس کی قیمت زیادہ ہے۔


حاکمِ وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، نیفے سے خنجر نکالا اور اس پرندے کا سَر تن سے جدا کر کے پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر عسکری و سیاسی مصاحبوں سے رہا نہ گیا اور تعجب سے پوچھا: حضور، یہ کیا؟ اتنا مہنگا اور سدھایا ہوا پرندہ خرید کر مار دیا؟ اس پر حاکمِ وقت نے کہا: یہی سزا ہونی چاہیے ہر اس خائن اور چرب زبان منافق کی، جو اپنی ہی قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلائے، ان کو سبز سہانے مستقبل کے خواب دکھائے، اور اس قوم کو اپنے مطلوبہ مقام و منزل پر لا کر ان سے خیانت کرے۔

(ماخوذ از حکایات)
 

محمداحمد

لائبریرین
بس اے کاش یہ بات ہمیں سمجھ میں آنے لگے ۔۔۔۔جو شاید 76 سال گذرنے کے بعدبھی لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتیں ۔۔۔
دراصل جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ سمجھتے تھے کہ ایک مسلم کے لئے پاکستان کی کیا حیثیت ہے۔

بعد کے لوگ اس بات کو اُس طرح نہیں سمجھ سکتے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
حاکمِ وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، نیفے سے خنجر نکالا اور اس پرندے کا سَر تن سے جدا کر کے پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر عسکری و سیاسی مصاحبوں سے رہا نہ گیا اور تعجب سے پوچھا: حضور، یہ کیا؟ اتنا مہنگا اور سدھایا ہوا پرندہ خرید کر مار دیا؟ اس پر حاکمِ وقت نے کہا: یہی سزا ہونی چاہیے ہر اس خائن اور چرب زبان منافق کی، جو اپنی ہی قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلائے، ان کو سبز سہانے مستقبل کے خواب دکھائے، اور اس قوم کو اپنے مطلوبہ مقام و منزل پر لا کر ان سے خیانت کرے۔

اگر آج کا دور ہوتا تو حاکمِ وقت کچھ اس طرح سے جواب دیتا:

حاکمِ وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، اور وزیر کو دے کر کہا کہ ایسا خوش زبان پرندہ تو میرے دربار میں ہونا چاہیے جو قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلائے، ان کو سبز سہانے مستقبل کے خواب دکھائے، اور میری حکومت کی عوام کے لئے خدمات کی دن رات تشہیر کرتا رہے۔

:) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
حکیم اجمل خان

1911ءمیں حکیم اجمل خان یورپ گئے۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یورپی ممالک میں طبی ترقیوں کا مطالعہ کر کے اس کی روشنی میں ہندوستان میں طب یونانی کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔ لندن پہنچ کر وہ چیئرنگ کراس ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر سٹینلے بائڈ، لندن کے چیئرنگ کراس ہسپتال کے سینئر سرجن تھے۔ تشخیص مرض اور فن سرجری دونوں میں ان کا اپنا مقام تھا۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری وہاں ہاﺅس سرجن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حکیم اجمل خاں کا ڈاکٹر بائڈ سے تعارف کرایا۔ ڈاکٹر بائڈ کی دعوت پر حکیم صاحب ان کی کلینیکل سرجری کی کلاس میں بھی گئے۔ یہ کلاس طلباءکی عملی تعلیم کے لئے تھی اور ہفتہ میں دو بار ہسپتال کے کسی نہ کسی وارڈ میں ہوا کرتی تھی۔ جب حکیم صاحب کلاس میں پہنچے تو ڈاکٹر بائڈ ایک مریض کے مرض کے بارے میں طلباءکو سمجھا رہے تھے۔ ان کی رائے میں مرض کی وجہ پتہ پرورم تھا۔ انہوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ وہ بھی مریض کا معائنہ کریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ معائنے کے بعد حکیم صاحب نے کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصے پر پرانا زخم ہے، جس کے باعث داد کی تکلیف، یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بائڈ نے ان سے کہا کہ کل اس مریض کا آپریشن ہو گا، آپ ضرور آیئے۔ پھر ہنس کر بولے: یہ طب یونانی اور انگریزی طب کا امتحان ہے۔ دوسرے روز مریض کا پیٹ چاک کرنے پر حکیم صاحب کی تشخیص صحیح نکلی۔ ڈاکٹر بائڈ نے نہایت خوش دلی سے حکیم صاحب کو ان کی صحیح تشخیص پر نہ صرف مبارک باد دی، بلکہ انہیں اور ڈاکٹر مختار انصاری کو اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا۔ وہاں ڈاکٹر بائڈ نے اپنی بیوی سے، جو خود بھی سینئر سرجن تھیں، حکیم اجمل خاں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں ڈاکٹر انصاری کے ہم وطن، جنہوں نے تشخیص کے مقابلے میں مجھے شکست دی ہے!

پیرس میں وہ ایک ڈاکٹر سے ملے۔ تعارف ہونے پر اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ جس طب میں تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ صرف نبض ہو وہ کیا طب ہو سکتی ہے۔ پھر زور دے کر کہا کہ اگر آپ کو اپنی تشخیص پر اتنا ہی اعتماد ہے، تو ذرا میرے ایک مریض کو دیکھئے، چنانچہ دوسرے روز ایک مریضہ حکیم صاحب کے ہوٹل میں لائی گئی۔ اسے ایک سال سے یہ شکایت تھی کہ اس کی ٹانگیں سکڑ گئی تھیں اور پیٹ میں درد ہوا کرتا تھا۔ ایکسرے اور دوسرے ذرائع تشخیص مرض کا پتہ لگانے میں ناکام ہو چکے تھے۔کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مرض کیا ہے۔ تشخیص مرض کے لئے حکیم صاحب نے اس خاتون سے بہت سے سوال کئے، تو معلوم ہوا کہ و ہ ٹینس بہت کھیلا کرتی تھی اور اسے گھڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ حکیم صاحب نے سوچ بچار کے بعد اسے ایک پڑیا میں دوائی دی اور کہا کہ وہ اسے 1/4 رتی روزانہ مکھن میں ملا کر کھائے۔ فرانسیسی خاتون اس ذرا سی پڑیا اور دوائی کی مقدار پر بے حد حیران ہوئی، لیکن پندرہ روز بعد وہ اپنے پاﺅں پر چل کر اُن کے پاس آئی، حالانکہ آٹھ مہینے سے وہ اس قابل نہیں تھی۔

حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا۔ میرے ذہن میں یہ آیا کہ کیونکہ مریضہ ٹینس کھیلتی اور گھڑ سواری کرتی تھی، اس لئے ممکن ہے کہ اس کی کسی آنت میں کسی جھٹکے کی وجہ سے گرہ پڑ گئی ہو۔ ایسے مریض میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اس لئے مَیں نے اسے ایسی دوائی دی جو آنتوں میں کھجلی پیدا کرے۔ وہ دوا بہترین ثابت ہوئی۔ آنت کی گرہ کھل گئی اور متعلقہ اعضا اپنا کام کرنے لگے۔ اس علاج سے وہ فرانسیسی ڈاکٹر اتنا متاثر ہوا کہ حکیم صاحب سے گھنٹوں طب یونانی کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ اس نے ان کے اعزاز میں ایک ڈنر بھی دیا، جس میں پیرس کے بڑے بڑے ڈاکٹر شریک ہوئے۔ یہ تھے حکیم اجمل خاں۔ طب یونانی میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ آج بھی پاکستان میں ہر جگہ ”دوا خانہ حکیم اجمل خاں“ احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
حکیم صاحب کی شہرت ایسی تھی کہ سمر قند و بخارا تک کے لوگ علاج کے لئے آتے اور شفا یاب ہو کر جاتے تھے۔ غریب امیر سب کو یکساں توجہ سے دیکھتے اور بغیر کسی فیس کے۔حکیم صاحب کے مزاج میں کچھ شوخی بھی تھی۔ ایک بار ایک شخص دمہ سے ہانپتا کانپتا آیا۔ جیب سے پڑیا نکالی اور بولا:حکیم صاحب، میرے ساتھ بہت ہو گئی۔ آج میں سنکھیا کھاﺅں گا اور اس در پہ جان دے دوں گا۔ شوخی سے بولے: سنکھیا کھا کے کیوں مرتا ہے۔ مرنا ہی ہے تو دوا کھا کے مر.... پھر اس کا علاج کیا اور اس کا دمہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔۔۔۔۔

بہت خوب!

کیا یہ پتہ چل سکتا ہے کہ یہ تحریر کس نے لکھی ہے اور اس میں مبالغہ آمیزی تو نہیں ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
امریکا میں ایک حجام تھا‘
انوکھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے گاہکوں سے پیسے بالکل نہ لیتا
اور کہتا کہ میں اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ خدمت خلق کر رہا ہوں‘

ایک شخص نے بال کٹوائے شیو بنوائی اور جب اجرت پوچھی تو حسب معمول حجام نے کہا کہ بھائی میرے لئے دعا کر دینا۔
اس شخص کی پھولوں اور گفٹ کی دکان تھی۔
اگلے دن جب صبح حجام دکان پر پہنچا تو وہاں پر پھول گفٹ اور وش کارڈ آویزاں تھے۔
اس نے خوش دلی سے وہ لے لئے۔

پھر ایک شخص جس کی کتابوں کی دکان تھی اس نے حجام سے بال کٹوائے اور اگلے دن اپنی خوشی سے چند عمدہ کتابیں پیک کر کے بھجوا دیں۔

اسی طرح ایک شخص کی گارمنٹس کی دکان تھی اس نے چند شرٹس اور ٹائی بھجوا دی۔

پھر ایک دن ایک پاکستانی وہاں چلا گیا۔
پاکستانی نے بال کٹوائے شیو بنوائی‘ غسل کیا اور اجرت پوچھی
تو حسب معمول حجام نے نہ لی۔
اب اگلی صبح جب حجام اپنی دکان پر پہنچا تو اس نے بھلا کیا دیکھا؟

ایک سچے پاکستانی بن کر سوچئے
اور اندازہ لگائیے‘
🙏
جی ہاں!
اگلی صبح
وہاں 50 کے قریب پاکستانی اس انتظار میں بیٹھے تھے
کہ کب یہ دکان کھلے
.
اور
وہ سب مفت میں بال و شیو بنوائیں۔🙏🙉🙈🙈🙈

ویسے یہ مفت خوری بھی بڑی بری چیز ہے۔ اکثر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا مل رہا ہے؟ کہاں سے مل رہا ہے؟ پسِ پردہ محرکات کیا ہیں؟ بس مفت ملے تو لے لو۔ عجیب بات ہے۔

جیسے سننے میں یہ بات آتی ہے کہ چائے بیچنے والی کمپنیوں نے شروع شروع میں برِ صغیر کے لوگوں کو مفت میں چائے پلائی۔اور جب وہ عادی ہوگئے تو پھر چائے کی فروخت شروع ہوگئی۔ آج ہمارا کتنا ہی زرِ مبادلہ صرف چائے کی درامد میں خرچ ہو جاتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
امریکا میں ایک حجام تھا‘
انوکھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے گاہکوں سے پیسے بالکل نہ لیتا
اور کہتا کہ میں اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ خدمت خلق کر رہا ہوں‘

ایک شخص نے بال کٹوائے شیو بنوائی اور جب اجرت پوچھی تو حسب معمول حجام نے کہا کہ بھائی میرے لئے دعا کر دینا۔
اس شخص کی پھولوں اور گفٹ کی دکان تھی۔
اگلے دن جب صبح حجام دکان پر پہنچا تو وہاں پر پھول گفٹ اور وش کارڈ آویزاں تھے۔
اس نے خوش دلی سے وہ لے لئے۔

پھر ایک شخص جس کی کتابوں کی دکان تھی اس نے حجام سے بال کٹوائے اور اگلے دن اپنی خوشی سے چند عمدہ کتابیں پیک کر کے بھجوا دیں۔

اسی طرح ایک شخص کی گارمنٹس کی دکان تھی اس نے چند شرٹس اور ٹائی بھجوا دی۔

پھر ایک دن ایک پاکستانی وہاں چلا گیا۔
پاکستانی نے بال کٹوائے شیو بنوائی‘ غسل کیا اور اجرت پوچھی
تو حسب معمول حجام نے نہ لی۔
اب اگلی صبح جب حجام اپنی دکان پر پہنچا تو اس نے بھلا کیا دیکھا؟

ایک سچے پاکستانی بن کر سوچئے
اور اندازہ لگائیے‘
🙏
جی ہاں!
اگلی صبح
وہاں 50 کے قریب پاکستانی اس انتظار میں بیٹھے تھے
کہ کب یہ دکان کھلے
.
اور
وہ سب مفت میں بال و شیو بنوائیں۔🙏🙉🙈🙈🙈

یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مفت خوری کی عادت صرف پاکستانیوں تک محدود ہے یا اور قومیں بھی اس طرف میلان رکھتی ہیں۔

دیکھا جائے تو اس کا بنیادی سبب مادیت پسندی یا کام چوری ہو سکتا ہے۔ یا ذاتی وقار کی کمی۔

دنیا بھر میں بڑی بڑی کارپوریشنز مختلف مہمات چلاتی ہیں جن میں صارفین کو کچھ نہ کچھ مفت ملنے کا لالچ دیا جاتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دنیا بھر میں بڑی بڑی کارپوریشنز مختلف مہمات چلاتی ہیں جن میں صارفین کو کچھ نہ کچھ مفت ملنے کا لالچ دیا جاتا ہے۔
سلیم کوثر کا شعر ملاحظہ فرمائیے:

کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں بس ان کا مذہب فرق ہے۔
انڈیا ہو یا پاکستان۔ میرا خیال ہے یہ مجموعی تاثر مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہو گا ۔ اور پاکستان مین انڈیا کی نسبت کم بھی ۔
 

الف عین

لائبریرین
ہندوستان میں اقلیتوں، بطور خاص مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ صرف ان علاقوں میں روا رکھا جاتا ہے جہاں مودی کے بھکت زیادہ ہیں۔ شمال کی چند ریاستوں اور جنوب میں محض کرناٹکا میں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ تلنگانہ میں تو الحمد للہ ہم کو کبھی تعصب کا سامنا نہیں ہوا۔بی جے پی کاسوشل میڈیا محکمہ ہندوؤں کی برین واشنگ میں ہمہ وقت لگا ہوا ہے!
 
Top