سیما علی
لائبریرین
“میں نے گیارہ ستارے اور ایک سورج اور چاند کو دیکھا جو مجھے سجدہ کررہے ہیں”
لڑکے یوسف نے والد سے کہا۔
“یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا”۔ والد نے باونڈری بنانی سکھا دی۔
بہترین اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے اپنی زندگی میں کچھ باؤنڈریز ضرور بنانی چاہئے ۔ہم میں سے ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے اور اکثر ہم اپنے اعمال میں خوشامد،منافقت اور بناوٹ کے دم چھلے دوسروں کی خوشی کے لئے ٹانک لیتے ہیں،حالاں کہ کوئی بھی کام جو دل کی رضا مندی کے بغیر دوسروں کی نظروں میں نمبر بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے وہ سرا سر خسارے کا سودا ہے۔۔جب ہم اپنی باونڈری وال بناتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ہم کر سکتے ہیں یا نہیں ۔مثلا اکثر لڑکیاں شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنی دھاک بٹھانے یا عزت بنوانے کے چکر میں سسرال میں ہر کام کو کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور" نہیں "کہنا گناہ سمجھتی ہیں ،دھیرے دھیرے جب روئیے پیاز کی پرتوں کی طرح ان پر کھلتے ہیں اور زیادہ کام کرنے سے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ شوہر کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہونے لگتے ہیں تو اس وقت پھر لڑکیاں بہت دکھی ہوتی ہیں اور اکثر لڑکیاں تو زمہ داریوں کے بوجھ سے بدک کر دوسروں کی تکلیف کے موقع پر بھی مدد کرنے سے کتراتی ہیں۔۔
یہی حال اکثر اداروں میں نئے آ نے والے ملازمین کا بھی ہوتا ہے۔شروع میں وہ باؤنڈریز بناتے نہیں اور بعد میں کوئی بنانے دیتا نہیں اور یوں ورکنگ پلیس ایک خوش گوار ماحول فراہم کرنے کی بجائے درد سر بن جاتی ہے۔۔
ہم لوگوں کو اپنے اپنے بوجھ خود اٹھانے ہوں گے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے مناسب الفاظ میں انکار کیا جاسکتا ہے ۔لیکن محض مروت میں آ کر اپنی زندگی کی خوشیوں اور آ سائشات کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہیے ۔۔ قرآن کریم میں بھی اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ
ترجمہ
کوئی انسان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ❤️
اے پیارے والدین ،اساتذہ اور بزرگو ! میری آ پ سب سے ہاتھ باندھ کر ایک درخواست ہے کہ اپنی اولاد کو ،اپنے سے چھوٹوں کو باؤنڈریز بنانا سکھائیں ،انہیں یہ بتائیں کہ' ہر کام آ پ کے کرنے کا نہیں ہوتا 'اور ہر بات کے جواب میں "جی ہاں" بھی نہیں کہا جاتاہے۔جس طرح شروع میں حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں اپنے خواب کو بتانے سے منع فرما کر انہیں باونڈری بنانا سکھایا اسی طرح آ پ بھی اپنے بچوں کی تربیت میں باونڈری وال بناناضرور سکھائیں لیکن حکمت کے ساتھ ،بے شک اسی میں کامیابی ہے ۔۔۔۔۔۔
لڑکے یوسف نے والد سے کہا۔
“یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا”۔ والد نے باونڈری بنانی سکھا دی۔
بہترین اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے اپنی زندگی میں کچھ باؤنڈریز ضرور بنانی چاہئے ۔ہم میں سے ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے اور اکثر ہم اپنے اعمال میں خوشامد،منافقت اور بناوٹ کے دم چھلے دوسروں کی خوشی کے لئے ٹانک لیتے ہیں،حالاں کہ کوئی بھی کام جو دل کی رضا مندی کے بغیر دوسروں کی نظروں میں نمبر بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے وہ سرا سر خسارے کا سودا ہے۔۔جب ہم اپنی باونڈری وال بناتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ہم کر سکتے ہیں یا نہیں ۔مثلا اکثر لڑکیاں شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنی دھاک بٹھانے یا عزت بنوانے کے چکر میں سسرال میں ہر کام کو کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور" نہیں "کہنا گناہ سمجھتی ہیں ،دھیرے دھیرے جب روئیے پیاز کی پرتوں کی طرح ان پر کھلتے ہیں اور زیادہ کام کرنے سے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ شوہر کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہونے لگتے ہیں تو اس وقت پھر لڑکیاں بہت دکھی ہوتی ہیں اور اکثر لڑکیاں تو زمہ داریوں کے بوجھ سے بدک کر دوسروں کی تکلیف کے موقع پر بھی مدد کرنے سے کتراتی ہیں۔۔
یہی حال اکثر اداروں میں نئے آ نے والے ملازمین کا بھی ہوتا ہے۔شروع میں وہ باؤنڈریز بناتے نہیں اور بعد میں کوئی بنانے دیتا نہیں اور یوں ورکنگ پلیس ایک خوش گوار ماحول فراہم کرنے کی بجائے درد سر بن جاتی ہے۔۔
ہم لوگوں کو اپنے اپنے بوجھ خود اٹھانے ہوں گے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے مناسب الفاظ میں انکار کیا جاسکتا ہے ۔لیکن محض مروت میں آ کر اپنی زندگی کی خوشیوں اور آ سائشات کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہیے ۔۔ قرآن کریم میں بھی اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ
ترجمہ
کوئی انسان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ❤️
اے پیارے والدین ،اساتذہ اور بزرگو ! میری آ پ سب سے ہاتھ باندھ کر ایک درخواست ہے کہ اپنی اولاد کو ،اپنے سے چھوٹوں کو باؤنڈریز بنانا سکھائیں ،انہیں یہ بتائیں کہ' ہر کام آ پ کے کرنے کا نہیں ہوتا 'اور ہر بات کے جواب میں "جی ہاں" بھی نہیں کہا جاتاہے۔جس طرح شروع میں حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں اپنے خواب کو بتانے سے منع فرما کر انہیں باونڈری بنانا سکھایا اسی طرح آ پ بھی اپنے بچوں کی تربیت میں باونڈری وال بناناضرور سکھائیں لیکن حکمت کے ساتھ ،بے شک اسی میں کامیابی ہے ۔۔۔۔۔۔