زیک
مسافر
پاکستان میں ایسا تعصب آئین اور قانون کا حصہ ہےپاکستان مین انڈیا کی نسبت کم بھی
پاکستان میں ایسا تعصب آئین اور قانون کا حصہ ہےپاکستان مین انڈیا کی نسبت کم بھی
بہتر حال:بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں اقلیتوں کا حال بہت بہتر ہے۔
بہتر حال:
Rangers called after churches vandalised in Faisalabad’s Jaranwala over blasphemy allegations
Interim PM promises "stern action" against culprits; govt says over 100 arrests made so far; Section 144 imposed in Faisalabad district for a week.www.dawn.com
پاکستان میں نہ تو کوئی سیاسی جماعت ایسی ہے جو ہندو یا عیسائی مخالف ہو اور نہ ہی کوئی ایسی مذہبی جماعت۔ واضح رہے کہ میرا یہ جملہ بھارت اور پاکستان کے تقابل کے ذیل میں تھا۔لیکن بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں اقلیتوں کا حال بہت بہتر ہے۔
معلوم نہیں آپ کونسی دنیا میں رہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین، قانون اور تقریباْ تمام سیاسی جماعتیں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کی شدید مخالفُ ہیں اور اپنے اعمال و اقوال سے باقاعدگی سے ثابت کرتی رہتی ہیں۔یہ معاملہ یقیناََ بہت زیادہ افسوسناک ہے اور اس کی بہر طور مذمت کی جانی چاہیے۔
لیکن آپ کا اس کو میرے پچھلے تبصرے سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔
پاکستان میں نہ تو کوئی سیاسی جماعت ایسی ہے جو ہندو یا عیسائی مخالف ہو اور نہ ہی کوئی ایسی مذہبی جماعت۔ واضح رہے کہ میرا یہ جملہ بھارت اور پاکستان کے تقابل کے ذیل میں تھا۔
موجودہ معاملہ بھی کسی قومی یا مذہبی تنازعہ کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس معاملے میں جذباتی لوگوں کو اُکسانے کا باقاعدہ بندوبست کیا گیا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جو ہوا بہت غلط ہوا اور متعلقہ لوگوں کو تحمل سے کام لیتے ہوئے اشتعال انگیزی کے جواب میں اشتعال انگیزی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
معلوم نہیں آپ کونسی دنیا میں رہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین، قانون اور تقریباْ تمام سیاسی جماعتیں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کی شدید مخالفُ ہیں اور اپنے اعمال و اقوال سے باقاعدگی سے ثابت کرتی رہتی ہیں۔
اگر توہین پر تشدد کا معاملہ مذہبی تعصب سے نہیں جڑا تو پھر کس سے تعلق ہے؟
آپ کی اس بات سے بالکل متفق ہوں۔تھوڑی دیر کے لئے یہ سوچیں کہ کیا یہ وہی طریقہ کار نہیں ہے جو گئو رکشک گائے کے بہانے مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ کسی بھی مذہب بشمول مرزائیت کو ان کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنا ۔ ان کے لوگوں پر اس وجہ سے حملے کرنا کہ وہ مرزائی ، عیسائی ، یہودی ، پارسی ، بہائی یا جو کوئی بھی ہو غیر انسانی ہے ۔ آپ نے ایک فوجی افسر کو گالی دینا ہو تو فیک آئی ڈی سے ایسا کرتے ہیں اتنی عقل آپ میں تو ہے لیکن اس مجوزہ عیسائی شخص میں یہ عقل نہیں تھی جبکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ قرآن کے صفحات پر گالیاں لکھنا اور ایک الگ صفحے پر باقاعدہ بیان دینا اور ساتھ اپنی اور اپنے والد کی تصویر ، گھر کا پتہ اور موبائل فون نمبر بھی دیتا؟ ایسا کیسے ممکن ہے اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو چرچ پر حملہ ، دوسرے ہم مذہبوں پر حملہ ، گھروں کو جلانا، لوگوں کو بے گھر کرنا اور ان کی ذات پر حملہ کرنا صرف حیوانیت ہے ۔ اور جنہوں نے ایسا کیا ہے یا ان پر الزام ہے انہیں حوالہ قانون کرنا ہی صائب عمل تھا نہ کہ خود ہی مدعی، گواہ، منصف، اور جلاد کے فرائض سنبھال لینا۔
دیگراں یہاں یا جہاں بھی ممکن ہو پر ظلم کے خلاف بات ہونی ضروری ہے ۔
یہ بات بھی درست ہے۔لیکن جہاں جس ظلم کی بات ہو رہی ہو وہاں تو اسی پر بات کیجئے تاکہ کوئی بھی موضوع سیر حاصل بحث حاصل کر سکے ۔ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ کا جواز بنانا یا دوسرے واقعہ کو پہلے واقعہ کے ساتھ ہی بیان کرنا شروع کر دینا اس موضوع کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے ۔
آپ یقیناً میرے متعلق ہی فرما رہے ہیں ۔ آپ سیدھا سیدھا میرا نام بھی لیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ نکتہ میں نے اٹھایا تھا۔ میں نے کسی حادثے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن "کچھ لوگوں" کو بتانا مقصود تھا کہ کچھ بے وقوفوں کے عمل کو پوری ملت پر تھوپا نہیں جاتا۔ یہ "کچھ لوگ" وہ ہیں جو مسلمانوں میں موجود شدت پسندوں کے کسی ایسے غیر شرعی عمل پر ڈھول تاشے لے کر چوراہے میں کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ اس مذہب کے ماننے والوں کو سب سے برا کہا اور کہلوایا جائے۔ اور جن ممالک کے باشندے ہونے پر انہیں فخر ہے وہ پوری پوری ریاستوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور اسے اپنا فخر سمجھتے ہیں۔دیگراں یہاں یا جہاں بھی ممکن ہو پر ظلم کے خلاف بات ہونی ضروری ہے ۔ اب وہ چاہے کنٹینرز میں قتل کئے گئے ہوں یا دہشت گردی کی آڑ میں یا پھر لبرل اور لا دین ہونے کا الزا م لگا کر لیکن جہاں جس ظلم کی بات ہو رہی ہو وہاں تو اسی پر بات کیجئے تاکہ کوئی بھی موضوع سیر حاصل بحث حاصل کر سکے ۔ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ کا جواز بنانا یا دوسرے واقعہ کو پہلے واقعہ کے ساتھ ہی بیان کرنا شروع کر دینا اس موضوع کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے ۔
بالکل ویسے ہی جیسے بیان کربلا اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علیہ السلام کی قربانیوں کے ذکر کے ساتھ ہی کوئی امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنا شروع کر دے یا یزید کی نیکیاں بیان کرنا شروع کر دے اب کیونکہ دونوں واقعات کسی نہ کسی سطح پر انٹر ریلیٹڈ ہیں تو لا محالہ وہاں پر محفل میں جو گفتگو ہو رہی ہے اس کا فوکس بھی تبدیل ہو جائے گا اورنیا معاملہ بھی چھڑ جائے گا لہذا کوشش کریں کہ جس موضوع پر بات ہو رہی ہو اسی پر اپنی رائے دیجئے نہ کہ کسی دوسرے پس منظر میں کسی دوسری جگہ ہونے والا واقعہ اس واقعے پر ردعمل کی شدت کو دیکھتے ہوئے وہاں پر موضوع بحث بنانے کی کوشش کی جائے ۔
یہ میری رائے ہے اس سے اختلاف آپ کا حق ہے ۔ اور مختلف رائے سے مجھے بھی اس معاملے کے ان پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملے گی جو شاید میری نظر سے پوشیدہ رہ گئی ہو۔
فیصل عظیم فیصل صاحب، میں نے ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جن کی نشاندہی قیصر راجا کر رہے ہیں۔آپ یقیناً میرے متعلق ہی فرما رہے ہیں ۔ آپ سیدھا سیدھا میرا نام بھی لیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ نکتہ میں نے اٹھایا تھا۔ میں نے کسی حادثے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن "کچھ لوگوں" کو بتانا مقصود تھا کہ کچھ بے وقوفوں کے عمل کو پوری ملت پر تھوپا نہیں جاتا۔ یہ "کچھ لوگ" وہ ہیں جو مسلمانوں میں موجود شدت پسندوں کے کسی ایسے غیر شرعی عمل پر ڈھول تاشے لے کر چوراہے میں کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ اس مذہب کے ماننے والوں کو سب سے برا کہا اور کہلوایا جائے۔ اور جن ممالک کے باشندے ہونے پر انہیں فخر ہے وہ پوری پوری ریاستوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور اسے اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
میں نے "اُن لوگوں" کی حقیقت بیان کی ہے نہ کہ جڑانوالہ کے بلوائیوں کی حمایت کی۔
زیادہ دفاعی پوزیشن میں آنے کی ضرورت نہیں ہے...میں نے "اُن لوگوں" کی حقیقت بیان کی ہے نہ کہ جڑانوالہ کے بلوائیوں کی حمایت کی۔
ایک لڑی میں بات چل رہی تھی کہ جب مغرب میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو مسلمان شاعری کرنے میں مصروف تھے۔ تو میں نے اُس کے جواب میں کہا کہزیادہ دفاعی پوزیشن میں آنے کی ضرورت نہیں ہے...
پہلے مغرب کے غیر مسلموں سے ان کے سیاہ کرتوتوں کا حساب لے لیں پھر اپنی صفائیاں دیتے رہیے گا...
مغرب کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور...
ان کی تہذیب کا درس صرف مسلمانوں کے لیے کہ ہم تمہیں بھنبھوڑ ڈالیں تو بھی جوابی کارروائی نہ کرنا ورنہ جاہل، جنگلی، بد تہذیب اور دہشت گرد وغیرہ وغیرہ ٹھہرو گے...
جبکہ خود ان کا یہ حال ہے کہ مذہب کی بنیاد پر اسرائیل نے صابرہ شتیلا کیمپ کو مذبح خانہ بنادیا. 1995 میں سربین نے بوسنیا کے ہزاروں مسلمانوں کو چن چن کر مارا. اور امریکہ صاحب بہادر تو مادر پدر آزاد ہیں جب چاہیں جس اسلامی ملک کے مسلمانوں کو چاہیں خون کے لوتھڑوں میں بدلنے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں. البتہ شمالی کوریا کی گوشمالی کرتے انہیں بدہضمی کی جگالی ہوئی جاتی ہے!!!
بس پھر کیا تھا مدتوں سے سوئے ہوئے بھی کروٹ لے کر جاگ اٹھے اور مجھے کوسنا شروع کر دیا "تم تو ہو ہی ایسے، بات کوئی بھی چل رہی ہو تم امریکہ اور مغرب کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتے ہو"اس دوران ہم اپنی بقا کی جنگیں لڑ رہے تھے۔ ہمارے لوگوں کو توپوں کے سامنے اڑایا جا رہا تھا۔ ہم اپنی خلافت کی ڈوبتی نیا کو بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اور ہمارے لوگ جو مغرب سے مرعوب تھے وہ ہمارے تابوت میں آخری کیل لگانے کے لیے ایک ہاتھ میں کیل اور دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑا لیے ہوئے تھے ۔
شاعری کررہے تھے دوسروں کو تباہ و برباد تو نہیں کررہے تھے...ایک لڑی میں بات چل رہی تھی کہ جب مغرب میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو مسلمان شاعری کرنے میں مصروف تھے۔ تو میں نے اُس کے جواب میں کہا کہ
ان سوئے ہوؤں نے آپ کو کوسنا شروع کیا تو آپ بھی ان کو پیٹنا شروع کردیتے...بس پھر کیا تھا مدتوں سے سوئے ہوئے بھی کروٹ لے کر جاگ اٹھے اور مجھے کوسنا شروع کر دیا "تم تو ہو ہی ایسے، بات کوئی بھی چل رہی ہو تم امریکہ اور مغرب کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتے ہو"
اب مراسلہ خود ہی دیکھیں ابھی تو انتہائی محترم امریکہ صاحب مدظلہ کا نام تک نہ لیا تھا اور مغرب کا لفظ بھی اپنے بگڑے ہوئے مغرب سے مرعوب مسلمانوں کے لیے استعمال کیا تو میری درگت شروع ہو گئی۔
شیر نے یہ شعر پڑھا ہوتا تو کم از کم الو کو کبھی تعینات نہ کرتا۔الو نے ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے انٹرویو کیے، کاکروچ کی رپورٹوں کے ڈھیر کا لفظ لفظ پڑھا، پیداوار کا عمل دیکھا اور تین مہینے میں دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ شیر کو پیش کر دی جس میں کارکنوں کے رویے، کام میں دلچسپی، پیداواری عمل اور عملے کی تنخواہوں کا مبسوط جائزہ لیا اور والیم ٹین میں یہ نتیجہ نکالا کہ ڈپارٹمنٹ اس لئے خسارے میں جا رہا ہے کیونکہ ادھر ضرورت سے بہت زیادہ عملے کو نوکری دی گئی ہے۔
روایت ہے کہ ایک جنگل میں شیر چیف ایگزیکٹو تھا۔ ادھر ایک ننھی سی چیونٹی محنت مزدوری کیا کرتی تھی۔ صبح سویرے وہ ہنستی گاتی کام پر آتی اور فوراً کام پر لگ جاتی اور ڈھیر سا کام نمٹا دیتی۔ شیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چیونٹی کسی قسم کی نگرانی اور راہنمائی کے بغیر اتنا زیادہ کام کر رہی ہے اور پیداوار کے ڈھیر لگائے کھڑی ہے حالانکہ اسے بہت واجبی سی تنخواہ ملتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر چیونٹی کسی قسم کی نگرانی کے بغیر اتنا کام کر رہی ہے تو اس کے سر پر ایک سپروائزر مقرر کر دیا جائے تو پھر وہ کتنا زیادہ کام کرے گی۔
یہ سوچ کر شیر نے ایک کاکروچ کی بطور سپروائزر تعیناتی کر دی جو اپنے وسیع تجربے اور بہترین رپورٹنگ کی وجہ سے مشہور تھا۔ کاکروچ نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے تو حاضری کا سسٹم بنایا۔ اس نے ایک مکڑی کو بطور سیکرٹری بھی تعینات کر دیا تاکہ وہ دفتری امور میں اس کی مددگار ہو اور اس کی رپورٹس ٹائپ کرنے کے علاوہ ان کی موزوں طریقے سے فائلنگ کرے اور ٹیلی فون بھی سنبھالے۔
شیر نے کاکروچ کی رپورٹیں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔ اس نے کاکروچ کو کہا کہ میاں یہ سب پڑھنا میرا بہت وقت لیتا ہے، ایسا کرو کہ گراف کی شکل میں ایگزیکٹو سمری بھی بنایا کرو جس میں پیداوار کی شرح اور ٹرینڈ بھی دکھائی دیں اور اسے ایک پریزنٹیشن کی شکل میں بھی ای میل کیا کرو۔ میں یہ پریزنٹیشن جنگل کے بورڈ کی میٹنگ میں بھی پیش کروں گا تاکہ ڈائریکٹروں کو بھی علم ہو کہ جنگل بہت ترقی کر رہا ہے۔ کاکروچ کو یہ سب کچھ کرنے کے لئے ایک کمپیوٹر اور لیزر پرنٹر خریدنا پڑا اور اس نے ایک مکھی کو بطور آئی ٹی ایکسپرٹ نوکری دے دی جو انہیں سنبھالے اور پریزینٹشن بنائے۔
دوسری طرف چیونٹی حاضریاں لگا لگا کر، کاکروچ کو رپورٹیں دے دے کر اور مکھی کو پریزنٹیشن کے لئے مواد فراہم کر کر کے اپنی جان سے بیزار ہونے لگی۔ اس کا زیادہ وقت اب کام کی بجائے میٹنگوں میں صرف ہوتا۔ اس کا دن کا چین اور رات کا آرام لٹ گیا اور وہ اپنے کام سے تنگ آنے لگی۔
دوسری طرف شیر کو جب پریزنٹیشن دیکھ دیکھ کر علم ہوا کہ چیونٹی کے ڈیپارٹمنٹ کی پیداوار بہت متاثر کن ہے تو اس نے سوچا کہ ڈیپارٹمنٹ کو بڑھایا جائے تاکہ جنگل مزید ترقی کرے۔ اس نے ایک جھینگر کو اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا جو مینیجمنٹ کے سامنے بہت اچھی پریزنٹیشن دینے اور اچھا بولنے کے لئے مشہور تھا۔ جھینگر نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے دفتر کے لئے ایک نئے قالین اور آرام دہ کرسی کا آرڈر دیا تاکہ اس کے دفتر کی ایگزیکٹو لک بنے۔
جھینگر کو بھی ایک کمپیوٹر اور پرسنل اسسٹنٹ کی ضرورت تھی جو اس کے لئے کام کو ترتیب دے سکے اور اس کے لئے بجٹ کنٹرول کرنے اور پیداوار کو ترقی دینے کی کی حکمت عملی بنانے میں معاون ہو۔ اس نے اپنے پرانے آفس سے ایک لیڈی بگ کا تبادلہ اپنے اس دفتر میں کروا لیا۔
چیونٹی کا ڈپارٹمنٹ اب ایک افسردہ جگہ تھی جہاں کوئی نہیں ہنستا مسکراتا تھا اور معمولی بات پر دوسرے سے جھگڑنے لگتا تھا۔ یہ ماحول دیکھ کر جھینگر نے شیر کو قائل کر لیا کہ ڈپارٹمنٹ کا حال بہتر کرنے کے لئے کسی ماہر سے سٹڈی کروائی جائے۔ چیونٹی کے ڈپارٹمنٹ کے اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ دیکھ کر شیر نے یہ محسوس کیا کہ ڈپارٹمنٹ پیداوار دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اخراجات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی ڈپارٹمنٹ خسارے میں جا رہا ہے۔
شیر نے ایک الو کو ڈپارٹمنٹ کی سٹڈی پر مامور کیا جو بزنس ری انجینرنگ کا ایک ماہر مشہور کنسلٹنٹ تھا تاکہ وہ ڈپارٹمنٹ کا آڈٹ کرے، پیداوار کے پہلے سے بہت کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلائے اور صورت حال بہتر کرنے کے لئے مشورے دے۔
الو نے ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے انٹرویو کیے، کاکروچ کی رپورٹوں کے ڈھیر کا لفظ لفظ پڑھا، پیداوار کا عمل دیکھا اور تین مہینے میں دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ شیر کو پیش کر دی جس میں کارکنوں کے رویے، کام میں دلچسپی، پیداواری عمل اور عملے کی تنخواہوں کا مبسوط جائزہ لیا اور والیم ٹین میں یہ نتیجہ نکالا کہ ڈپارٹمنٹ اس لئے خسارے میں جا رہا ہے کیونکہ ادھر ضرورت سے بہت زیادہ عملے کو نوکری دی گئی ہے۔
شیر نے ایک ہفتہ لگا کر رپورٹ پڑھی۔ اس کے بعد اس نے چیونٹی کو نوکری سے نکال دیا کیونکہ الو کی رپورٹ کے مطابق وہ اپنے کام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی اور وہ فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے دن بھر ڈپارٹمنٹ کے دوسرے اہلکاروں کے دفتروں میں بیٹھی رہتی تھی۔ اس کا رویہ بھی بہت زیادہ منفی اور سرد تھا جو دفتر کے ماحول کو بلاوجہ تلخ کر رہا تھا اور کاکروچ کی بہترین رپورٹنگ اور جھینگر کی بہترین موٹیویشنل سپیچز کے باوجود پہلے سے کم پروڈکشن کر رہی تھی۔
Copied