انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
‏1960 میں ترکی کے شہر میں واقع پاگل خانے سے چوکیداروں کی لاپرواہی کی بناء پر پاگل خانے کے کھلے ہوئے دروازے سے موقع پا کر 423 پاگل فرار ہو گئے۔۔

شہر کی سڑکوں پر پاگلوں نے اودھم مچا دیا، بد نظمی اور ہڑبونگ مچ گئی۔۔

ہسپتال کی طرف سے شہر کی انتظامیہ کو اطلاع ملی۔ ماہرین مسئلے کے حل کیلیئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ فوری طور پر ایک بڑے ماہر نفسیات کو بلوا لیا گیا۔۔

ماہر نفسیات نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً ایک سیٹی منگوائی۔ ہسپتال کے عملے اور انتظامیہ کے کچھ لوگوں کو چھکڑا بنا کر اپنے پیچھے لگایا گاڑی بنائی اور وسل بجاتے چھک چھک کرتے سڑک پر نکل آیا۔۔

ماہر نفسیات کا تجربہ کامیاب رہا۔ سڑک پر چلتے پھرتے مفرور پاگل ایک ایک کر کے گاڑی کا حصہ بنتے گئے۔۔

شام تک ماہر نفسیات ڈاکٹر صاحب سارے پاگلوں کی گاڑی بنا کر ہسپتال لے آئے۔ انتظامیہ نے پاگلوں کو واپس اُن کے وارڈز میں بند کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔۔

مسئلہ شام کو اُس وقت بنا جب پاگلوں کی گنتی کی گئی تو 612 پاگل شمار ہوئے جبکہ ہسپتال سے صبح کے وقت صرف 423 پاگل فرار ہوئے تھے۔۔۔
🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے شکایت کی کہ: میں نے ایک کتاب پڑھی لیکن مجھے اس میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا، چناں چہ انھوں نے مجھے ایک کھجور دی اور فرمایا: لو یہ چباؤ!
پھر مجھ سے پوچھا: کیا اب تم بڑے ہوگئے؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: لیکن یہ کھجور تمھارے جسم میں گھل مل گئ، چناں چہ اس کا کچھ حصہ گوشت بنا، کچھ ہڈی، کچھ، پٹھا، کچھ کھال، کچھ بال کچھ ناخن اور مسام وغیرہ۔۔
تب میں نے جانا کہ جو کتاب بھی میں پڑھتا ہوں وہ تقسیم ہوجاتی ہے، چناں چہ اس کا کچھ حصہ میری لغت مضبوط کرتا ہے، کچھ میرا علم بڑھاتا ہے، کچھ اخلاق سنوارتا ہے، کچھ میرے لکھنے بولنے کے اسلوب کو ترقی دیتا ہے؛ اگرچہ میں اس کو محسوس نہیں کرپاتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
بیٹوں کی اقسام۔

بیٹے پانچ قسموں کے ہوتے ہیں:

۱: پہلے وہ جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا حُکم دیں تو کہنا نہیں مانتے، یہ عاق ہیں۔

۲: دوسرے وہ ہیں جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بے دلی اور کراہت کے ساتھ، یہ کسی قسم کے اجر سے محروم رہتے ہیں۔

۳: تیسری قسم کے بیٹے وہ ہیں جنہیں والدین کوئی کام کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بڑبڑاتے ہوئے، سُنا سُنا کر، احسان جتلا کر، بکواس بازی کر کر کے۔ یہ کام کر کے بھی گھاٹے میں ہیں اور گناہ کما رہے ہیں۔
۴: چوتھی قسم کے وہ بیٹے ہیں جنہیں والدین کوئی کام بتا دیں تو خوش دلی سے کرتے ہیں، یہ اجر کماتے ہیں اور ایسے بیٹے بہت کم ہوتے ہیں۔

۵: پانچویں قسم کے وہ بیٹے ہیں جو والدین کی ضرورتوں کے کام اُن کے کہنے سے پہلے کر دیتے ہیں، یہ خوش بخت بیٹوں کی نادر قسم ہیں۔
آخری دو قسم کے بیٹے؛ ان کی عمر میں برکت، رزق میں وسعت، ان کے معاملات کی آسانی اور ان کے سینوں میں پڑی راحت اور وسعت کے بارے میں کچھ نا پوچھیئے، یہ تو بس اللہ “اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے”۔

ایک چھوٹا سا سوال ہے ہر اُس کرم فرما کیلئے جو اس وقت یہ پڑھ رہا ہے: آپ اوپر بیان کیئے گئے بیٹوں کی قسموں میں سے کون سی قسم کے بیٹے ہیں؟
(بھاگ کر اپنی ماں کے سر پر بوسہ دینے سے پہلے) اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیئے کہ والدین کے ساتھ “بِر” یا حُسن سلوک یا راستبازی ہوتی کیا ہے؟
یہ حُسن سلوک؛ ماں یا باپ کے سر پر ایک بوسہ لے لینے کا نام نہیں ہے، ناں ہی ان کے ہاتھوں پر یا حتی کہ اُن کے پاؤں پر بوسہ لینے کا نام ہے۔ کہیں یہ کر کے تو اس گمان میں میں ناں پڑ جائے کہ تو نے ان کی رضا کو پا لیا ہے۔

حُسن سلوک یہ ہے کہ تو اُن کے دل میں آئی ہوئی خواہش کو محسوس کرے اور پھر اُن کے حُکم کا انتظار کیئے بغیر اس خواہش کو پورا کر دے۔

حُسن سلوک یہ ہے کہ تو یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہے کہ انہیں کونسی بات خوشی دیتی ہے اور پھر اُس کام کو جلدی سے کر ڈالے۔ اور تو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کس بات سے دُکھ پہنچتا ہے اور پھر اس کوشش میں رہے کہ وہ تجھ سے ایسی کوئی چیز کبھی بھی نا دیکھ پائیں۔

اُن سے حسن سلوک یہ ہے کہ تجھے ان کا احساس ہو، تو ان کیلیئے بات چیت کا وقت نکالتا ہو، انہیں کسی چیز کے کھانے پینے کی طلب ہو تو حاضر کر دیتا ہو بھلے یہ ایک چائے کا کپ ہی کیوں ناں ہو۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تو اُن کے آرام اور راحت کا خیال رکھے بھلے اس کیلیئے اپنی راحت کو ہی کیوں نا تیاگنا پڑے۔ اگر تیری دوستوں میں شب بیداری انہیں شاق گزرتی ہے تو تیرا جلدی سو جانا بھی ان کے ساتھ ایک حسن سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ ان کی خاطر اپنی دعوتیں ضیافتیں چھوڑ دے اگر اس سے تیرا اُن کے ساتھ میل جول متاثر ہوتا ہے تو۔

ایک مناسب ریسٹورنٹ پر ان کے ساتھ کھانا، حج و عمرہ میں ان کی راحت کے پیش نظر اچھے ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست، حتی کہ کہیں چھوٹی موٹی تفریح اور پکنک جو تیرے والدین کے دل کو سرور دے اور وہ اپنی اس عمر میں بھی خوشی کا احساس پائیں۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تیرے والدین تیرے مال سے مستفیض ہو رہے ہوں بھلے وہ خود کیوں ناں مالدار ہوں۔ اور تیرا یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس اب کتنے پیسے ہیں اور انہیں ضرورت ہے بھی یا کہ نہیں تو ان پر خرچ کرتا رہے۔

حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کی حتی المقدور راحت تلاش کرتا رہے اور انہوں نے تیری ولادت سے اب تک جو کچھ خدمت کر دی ہے کو کافی سمجھے اور اب ان کے احسانات کے بدلے میں کچھ نا کچھ کرتا رہے۔

حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کے لبوں پر کسی طرح ہنسی لاتا رہے بھلے تو اپنے نظروں میں کیوں ناں مسخرہ ہی لگ رہا ہو،
*آخری بات: والدین سے حسن سلوک تیرے اور تیرے بھائیوں بہنوں کے درمیان "باری بندی" کا نام نہیں۔ یہ تو ایک دوڑ کا نام ہے جو جنت کے دروازوں کی طرف جاری ہے اور پتہ نہیں کون پہلے پہنچ جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جنت کو بہت سے راستے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے تیرے والدین سے ہو کر جاتے ہیں۔*
 

محمداحمد

لائبریرین
بیٹوں کی اقسام۔

بیٹے پانچ قسموں کے ہوتے ہیں:

۱: پہلے وہ جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا حُکم دیں تو کہنا نہیں مانتے، یہ عاق ہیں۔

۲: دوسرے وہ ہیں جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بے دلی اور کراہت کے ساتھ، یہ کسی قسم کے اجر سے محروم رہتے ہیں۔

۳: تیسری قسم کے بیٹے وہ ہیں جنہیں والدین کوئی کام کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بڑبڑاتے ہوئے، سُنا سُنا کر، احسان جتلا کر، بکواس بازی کر کر کے۔ یہ کام کر کے بھی گھاٹے میں ہیں اور گناہ کما رہے ہیں۔
۴: چوتھی قسم کے وہ بیٹے ہیں جنہیں والدین کوئی کام بتا دیں تو خوش دلی سے کرتے ہیں، یہ اجر کماتے ہیں اور ایسے بیٹے بہت کم ہوتے ہیں۔

۵: پانچویں قسم کے وہ بیٹے ہیں جو والدین کی ضرورتوں کے کام اُن کے کہنے سے پہلے کر دیتے ہیں، یہ خوش بخت بیٹوں کی نادر قسم ہیں۔
آخری دو قسم کے بیٹے؛ ان کی عمر میں برکت، رزق میں وسعت، ان کے معاملات کی آسانی اور ان کے سینوں میں پڑی راحت اور وسعت کے بارے میں کچھ نا پوچھیئے، یہ تو بس اللہ “اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے”۔

ایک چھوٹا سا سوال ہے ہر اُس کرم فرما کیلئے جو اس وقت یہ پڑھ رہا ہے: آپ اوپر بیان کیئے گئے بیٹوں کی قسموں میں سے کون سی قسم کے بیٹے ہیں؟
(بھاگ کر اپنی ماں کے سر پر بوسہ دینے سے پہلے) اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیئے کہ والدین کے ساتھ “بِر” یا حُسن سلوک یا راستبازی ہوتی کیا ہے؟
یہ حُسن سلوک؛ ماں یا باپ کے سر پر ایک بوسہ لے لینے کا نام نہیں ہے، ناں ہی ان کے ہاتھوں پر یا حتی کہ اُن کے پاؤں پر بوسہ لینے کا نام ہے۔ کہیں یہ کر کے تو اس گمان میں میں ناں پڑ جائے کہ تو نے ان کی رضا کو پا لیا ہے۔

حُسن سلوک یہ ہے کہ تو اُن کے دل میں آئی ہوئی خواہش کو محسوس کرے اور پھر اُن کے حُکم کا انتظار کیئے بغیر اس خواہش کو پورا کر دے۔

حُسن سلوک یہ ہے کہ تو یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہے کہ انہیں کونسی بات خوشی دیتی ہے اور پھر اُس کام کو جلدی سے کر ڈالے۔ اور تو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کس بات سے دُکھ پہنچتا ہے اور پھر اس کوشش میں رہے کہ وہ تجھ سے ایسی کوئی چیز کبھی بھی نا دیکھ پائیں۔

اُن سے حسن سلوک یہ ہے کہ تجھے ان کا احساس ہو، تو ان کیلیئے بات چیت کا وقت نکالتا ہو، انہیں کسی چیز کے کھانے پینے کی طلب ہو تو حاضر کر دیتا ہو بھلے یہ ایک چائے کا کپ ہی کیوں ناں ہو۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تو اُن کے آرام اور راحت کا خیال رکھے بھلے اس کیلیئے اپنی راحت کو ہی کیوں نا تیاگنا پڑے۔ اگر تیری دوستوں میں شب بیداری انہیں شاق گزرتی ہے تو تیرا جلدی سو جانا بھی ان کے ساتھ ایک حسن سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ ان کی خاطر اپنی دعوتیں ضیافتیں چھوڑ دے اگر اس سے تیرا اُن کے ساتھ میل جول متاثر ہوتا ہے تو۔

ایک مناسب ریسٹورنٹ پر ان کے ساتھ کھانا، حج و عمرہ میں ان کی راحت کے پیش نظر اچھے ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست، حتی کہ کہیں چھوٹی موٹی تفریح اور پکنک جو تیرے والدین کے دل کو سرور دے اور وہ اپنی اس عمر میں بھی خوشی کا احساس پائیں۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تیرے والدین تیرے مال سے مستفیض ہو رہے ہوں بھلے وہ خود کیوں ناں مالدار ہوں۔ اور تیرا یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس اب کتنے پیسے ہیں اور انہیں ضرورت ہے بھی یا کہ نہیں تو ان پر خرچ کرتا رہے۔

حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کی حتی المقدور راحت تلاش کرتا رہے اور انہوں نے تیری ولادت سے اب تک جو کچھ خدمت کر دی ہے کو کافی سمجھے اور اب ان کے احسانات کے بدلے میں کچھ نا کچھ کرتا رہے۔

حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کے لبوں پر کسی طرح ہنسی لاتا رہے بھلے تو اپنے نظروں میں کیوں ناں مسخرہ ہی لگ رہا ہو،
*آخری بات: والدین سے حسن سلوک تیرے اور تیرے بھائیوں بہنوں کے درمیان "باری بندی" کا نام نہیں۔ یہ تو ایک دوڑ کا نام ہے جو جنت کے دروازوں کی طرف جاری ہے اور پتہ نہیں کون پہلے پہنچ جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جنت کو بہت سے راستے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے تیرے والدین سے ہو کر جاتے ہیں۔*
بہترین ۔

اللہ رب العزت ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
 

وجی

لائبریرین
روزمرہ کی گفتگو میں اردو سے فرار اور انگریزی الفاظ کی پیوندکاری اس قدر عام ہے کہ توبہ ہی بھلی، ایک نئی مصیبت رومن اردو کی صورت آئی ہے ۔

مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اسکے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائیگی ، پھر کہا گیا اردو کے لئے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے
This is kamran, how can I hel p yo u ?
ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحبزادے ! ہم نے تو اردو کے لئے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے اسکے باوجود یہ انگریزی ؟فرمانے لگے "جی بولیے ؟"
ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں انسان تو کہتا ہے"
جواباً ارشاد ہوا ,"جی کہیے،"
ہم نے کہا ،" ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہئے تھا " فرمائیے! “
اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے, “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“
ہم نے کہا ,"ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے،"
اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا," سر میں سمجھ گیا آپ شکایت بتائیں،
ہم نے کہا," سر نہیں جناب, اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے، شکایت سنے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں،"
ہم نے کہا، " کیا. ۔۔۔!!"تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔
کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں آپ نے اردو کے لئے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے."ہم نے کہا، “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے, آپکو نشست سے اٹھنا چاہئے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔
کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!“
ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے مگر کیا افتاد پڑی ہے آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!!کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!
 

سیما علی

لائبریرین
شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!
"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جی بالکل حضور۔۔۔!"
"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"
"پھر بھی۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیئے
وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"
اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔
خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔

ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔
ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔
"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔
ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟
معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"
اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔
"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔
ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"
"ہاں بولیں۔۔۔!ً"
ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"
ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔
میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔

ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"
تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"
وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا.
 

عدنان عمر

محفلین
*مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اسکے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائیگی ، پھر کہا گیا اردو کے لئے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے*
*This is kamran, how can I help you ?*
*ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحبزادے ! ہم نے تو اردو کے لئے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے اسکے باوجود یہ انگریزی ؟* *فرمانے لگے "جی بولیے ؟"*
*ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں انسان تو کہتا ہے"*
*جواباً ارشاد ہوا ,"جی کہیے،"*
*ہم نے کہا ،" ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہئے تھا " فرمائیے! “*
*اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے, “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“*
*ہم نے کہا ,"ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے،"*
*اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا," سر میں سمجھ گیا آپ شکایت بتائیں،*
*ہم نے کہا," سر نہیں جناب, اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے،* *شکایت سنے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں،"*
*ہم نے کہا، " کیا. ۔۔۔!!"* *تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔*
*کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں آپ نے اردو کے لئے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے."* *ہم نے کہا، “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے, آپکو نشست سے اٹھنا چاہئے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔*
*کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!*“
*ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے مگر کیا افتاد پڑی ہے آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!!* *کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

*(اقبال اے رحمان)*
 

زیک

مسافر
روزمرہ کی گفتگو میں اردو سے فرار اور انگریزی الفاظ کی پیوندکاری اس قدر عام ہے کہ توبہ ہی بھلی، ایک نئی مصیبت رومن اردو کی صورت آئی ہے ۔

مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اسکے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائیگی ، پھر کہا گیا اردو کے لئے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے
This is kamran, how can I hel p yo u ?
ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحبزادے ! ہم نے تو اردو کے لئے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے اسکے باوجود یہ انگریزی ؟فرمانے لگے "جی بولیے ؟"
ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں انسان تو کہتا ہے"
جواباً ارشاد ہوا ,"جی کہیے،"
ہم نے کہا ،" ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہئے تھا " فرمائیے! “
اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے, “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“
ہم نے کہا ,"ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے،"
اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا," سر میں سمجھ گیا آپ شکایت بتائیں،
ہم نے کہا," سر نہیں جناب, اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے، شکایت سنے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں،"
ہم نے کہا، " کیا. ۔۔۔!!"تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔
کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں آپ نے اردو کے لئے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے."ہم نے کہا، “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے, آپکو نشست سے اٹھنا چاہئے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔
کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!“
ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے مگر کیا افتاد پڑی ہے آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!!کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

*مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اسکے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائیگی ، پھر کہا گیا اردو کے لئے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے*
*This is kamran, how can I help you ?*
*ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحبزادے ! ہم نے تو اردو کے لئے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے اسکے باوجود یہ انگریزی ؟* *فرمانے لگے "جی بولیے ؟"*
*ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں انسان تو کہتا ہے"*
*جواباً ارشاد ہوا ,"جی کہیے،"*
*ہم نے کہا ،" ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہئے تھا " فرمائیے! “*
*اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے, “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“*
*ہم نے کہا ,"ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے،"*
*اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا," سر میں سمجھ گیا آپ شکایت بتائیں،*
*ہم نے کہا," سر نہیں جناب, اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے،* *شکایت سنے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں،"*
*ہم نے کہا، " کیا. ۔۔۔!!"* *تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔*
*کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں آپ نے اردو کے لئے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے."* *ہم نے کہا، “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے, آپکو نشست سے اٹھنا چاہئے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔*
*کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!*“
*ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے مگر کیا افتاد پڑی ہے آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!!* *کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

*(اقبال اے رحمان)*
محفل کا حال بھی واٹس ایپ جیسا ہو چکا ہے
 

الف عین

لائبریرین
*مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اسکے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائیگی ، پھر کہا گیا اردو کے لئے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے*
*This is kamran, how can I help you ?*
*ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحبزادے ! ہم نے تو اردو کے لئے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے اسکے باوجود یہ انگریزی ؟* *فرمانے لگے "جی بولیے ؟"*
*ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں انسان تو کہتا ہے"*
*جواباً ارشاد ہوا ,"جی کہیے،"*
*ہم نے کہا ،" ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہئے تھا " فرمائیے! “*
*اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے, “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“*
*ہم نے کہا ,"ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت اس لیے کہ اردو کے لئے ایک دبایا ہے،"*
*اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا," سر میں سمجھ گیا آپ شکایت بتائیں،*
*ہم نے کہا," سر نہیں جناب, اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے،* *شکایت سنے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں،"*
*ہم نے کہا، " کیا. ۔۔۔!!"* *تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔*
*کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں آپ نے اردو کے لئے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے."* *ہم نے کہا، “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے, آپکو نشست سے اٹھنا چاہئے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔*
*کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!*“
*ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے مگر کیا افتاد پڑی ہے آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!!* *کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

*(اقبال اے رحمان)*
اس میں مصنف / نقال کے نام کا اضافہ ہے، یہی پیغام میں تین چار بار واٹس ایپ پر بھی دیکھ چکا ہوں!
محفل کا حال بھی واٹس ایپ جیسا ہو چکا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت
عمر بن عبدالعزیزؒ

عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس ایک عورت آئی جس کی پانچ جوان بیٹیاں تھی
خاوند فوت ہو چکا تھا وہ جس کے پاس جاتی سب خوش آمدید کہتے
لیکن یہ خوش آمدید اس کے لیے نہیں تھی اس کے غریبی کے لیے نہیں تھی
اسکی خوبصورت جوان بیٹیوں پر گندی نظر ڈالنے کے لیے ہوتی
سمجھدار عورت تھی بہت جلد سمجھ گئی کہ میرے لیے جوان بیٹیوں کی عزت بچانا مشکل ہے
تو وہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دروازے پر آئی دستک دی کسی نے بتایا تھا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ ایسا بادشاہ ہے کہ وہ اپکی جان و مال کا محافظ ہے
وہ اپکی مدد کرے
گا ایک عورت نے دروازہ کھولا وہ اندر گئی ایک عورت برتن دھو رہی تھی وہ سمجھی کوئی خادمہ ہے اس نے اسے ایک درحت کے نیچے بٹھایا
تو اس نے پوچھا امیر المومنین کہاں ہے اتنے میں ایک آدمی اندر آیا جس کے کپڑے پٹھے ہوئے تھے
اور کندھے پر ایک گٹھلی تھی وہ گٹھلی اس عورت نے لے لی وہ ایک درحت کے نیچے بیٹھ گیا تو وہ عورت سوکھی روٹی اور سرکہ لے آئی وہ عورت سمجھی کوئی غلام ہے
جب وہ کھانا کھا چکے تو اسی عورت نے آواز دی کہ امیرالمومنین مہمان آئے ہے وہ عورت کہتی ہے میں حیران رہ گئی میں نے اس خادمہ سے کہا کہ
آپ میری غریبی کا مزاق اڑا رہی ہے یہ پھٹے ہوئے کپڑے اور سوکھی روٹی کھانے والا امیرالمومنین ہے
تو اس نے کہا کہ اللہ کی قسم یہی امیر المومنین ہے میں جب ان کے قریب گئی تو اس میں اتنی حیاہ تھی کہ اس نے اپنی نظریں جھکا لی فرمانے لگے
کیسے آئی ہو
میں نے کہا یہ میری بیٹیاں ہے میں غریب ہو بیوہ ہو میرے پاس ان کے لیے کچھ نہیں میرا خیال تھا کہ امیرالمومنین میری تمام بیٹیوں کے لیے سو دینار لکھ دے تو کافی ہے
اس نے قلم اٹھایا
میری ایک بیٹی کے لیے ایک سال کے لیے ایک ہزار دینار لکھ دئیے میں دوسری کو آگے
کیا اس نے اس کے لیے بھی ایک ہزار دینار لکھ دئیے میں تیسری چوتھی کو آگے کیا
اس نے ان کے لیے بھی ہزار ہزار دینار لکھ دئیے جب وہ لکھ رہے تھے
میں اللہ کا شکر ادا کرتی رہی اور جب پانچویں بیٹی کے لیے دینار لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو میں نے امیرالمومنین کا شکریہ ادا کیا اس نے قلم واپس رکھا
میں نے پوچھا امیرالمومنین کیا ہوا تو فرمانے لگے میں نے چار ہزار دینا اپکے لیے لکھے تو آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا
اس دفعہ آپ نے میرا شکریہ ادا کیا قیامت کے دن اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ ہزار دینار تم
نے میرے لیے نہیں لکھے
اپنی خوشامدی کیلئے دیئے میں رونے لگی کہ یااللہ یہ کیسا انسان ہے تو عمربن عبدالعزیز کہنے لگے
کہ عام انسان ہو بس رسول اللہ ﷺ کا غلام ہو۔
سبحان اللہ ایسے ایمان والے لوگ بھی تھے
۔۔۔۔،،،——-
 
🌸🌸🌸
تین گھر تین کہانیاں
🌸🌸🌸

ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼﺳﮩﯿﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ؟

ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ؟

ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺑﻢ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ
ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﻨﯽ

ہو سکتا تھا کہ ﺗﮭﻮﮌﯼ ہی ﺩﯾﺮﺑﻌﺪ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﺎﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮآتاﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍﭘﺎتا، ﭘﮭﺮﺩﻭﻧﻮﮞﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮتاﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ برا بھلا کہتے لیکن لڑکی نے شکر گزاری کرنا شروع کی اور اپنی نعمتوں کا خیال اور مسکراتے ہوئے بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھنا شروع ہوگئی۔ وقت گزرتا گیا اور اسکا غم ہلکا ہوتا گیا۔ شوہر آیا تو اسکو مسکرا کر دیکھا۔ شوہر نے بھی بیوی کو مسکرا کر دیکھا۔ یوں زندگی غموں سے دور خوش گواری میں گزرتی گئی اور ان دونوں کے بچے بھی اب ہر موقعے پر بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے ہیں۔

🌸🌸🌸

اسی طرح زید نے حامد سے پوچھا

تم کہاں کام کرتے ہو
حامد : فلاں دکان میں
ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے
حامد:18000 روپے
زید: 18000 روپے بس،تمہاری زندگی کیسے کٹتی ہے اتنے پیسوں میں
حامد ۔گہری سانس کھینچتے ہوئے ۔ بس یار کیا بتاوں

میٹنگ ختم ہوئی

ہوسکتا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد حامد اب اپنے کام سے بیزار ہوجاتا، اور تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کردیتا، جسے مالک رد کردیتا، نوجوان نے جاب چھوڑ دیتا اور بے روزگار ہوجاتا،پہلے اس کے پاس کام تھا اب کام نہیں رہتا۔لیکن حامد نے شکر گزاری کرنا شروع کی اور اپنی نعمتوں کا خیال اور مسکراتے ہوئے بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھنا شروع ہوگیا۔ وقت گزرتا گیا اور اسکا غم ہلکا ہوتا گیا۔ مالک آیا تو اسکو مسکرا کر دیکھا۔ مالک نے بھی حامد کو مسکرا کر دیکھا۔ یوں زندگی غموں سے دور خوش گواری میں گزرتی گئی اور اب حامد کے بچے پڑھ لکھ کر انجینئیر بن گے ہیں۔ وہ بھی اب ہر موقعے پر بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے ہیں۔


🌸🌸🌸

ایک صاحب نے نے ایک شخص سے کہا جو اپنے بیٹے سے الگ رهتا تها
تمہارا بیٹا تم سے بہت کم ملنے آتا هے کیا اسے تم سے محبت نہیں

باپ نے کہا: بیٹا مصروف رهتا هے، اس کے کام کا شیڈول سخت ہے .اسکے بیوی بچے هیں.اسے بہت کم وقت ملتا ہے
پہلا آدمی بولا: واہ یہ کیا بات هوئی.تم نے اسے پالا پوسا اسکی هر خواهش پوری کی اب خود کو خوامخواہ سمجهاتے هو کہ اس کو مصروفیت کی وجہ ملنے کا وقت نہیں ملتا یہ تو نہ ملنے کا بہانا ہے

اس گفتگو کے بعد باپ کے دل میں بیٹے کے لئے خلش سی پیدا هوسکتی تھی۔ہو سکتا تھا کہ بیٹا جب بهی ملنے آتا وہ یہی سوچتا رهتا کہ اسکے پاس سب کے لئے وقت ہے سوائے میرے۔لیکن باپ نے شکر گزاری کرنا شروع کی اور اپنی نعمتوں کا خیال اور مسکراتے ہوئے بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھنا شروع ہوگیا۔ وقت گزرتا گیا اور اسکا غم ہلکا ہوتا گیا۔ بیٹا آیا تو اسکو مسکرا کر دیکھا۔ بیٹے نے بھی حامد کو مسکرا کر دیکھا۔ یوں زندگی غموں سے دور خوش گواری میں گزرتی گئی اور اب اسکےپوتے پڑھ لکھ کر اعلی عہدوں پر لگ گے ہیں۔ گھر میں باپ بیٹے نے جو غموں کو دور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اس کا اثر یہ ہوا کہ پورا خاندان خوشیوں کا گہووارہ بن گیا۔ آئے دن کوئی نا کوئی دعوت ہوتی ہے اور گھر میں خوب رونق لگی رہتی ہے۔ باپ، بیٹا، بہویں اور پوتے سب ہی اب ہر موقعے پر بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے ہیں۔


یاد رکهیےزبان سے نکلے الفاظ دوسرے پر بڑا گہرا اثر ڈال سکتے هیں
ﺑﮯ ﺷﮏﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮕﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟﺧﺮﯾﺪﺍ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻞﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ
ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺎﻥﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺑﯿﺸﺘﺮﺳﻮﺍﻻﺕ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﻼﻣﻘﺼﺪ ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﯾﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ

آج کے دور میں ہمارے ارد گرد یا گھروں میں جو فسادات ہو رہے ہیں، ان کی جڑ تک جایا جائے تو اکثر اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے ،وہ یہ نہیں جانتے کہ نادانی میں یا جان بوجھ کر بولے جانے والے جملے کسی کی زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں

اسی لیے جب بھی دل میں نفرت یا فساد کا بیج بوتا محسوس ہو تو بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي
العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے رہیں اور گھرانوں کو آباد، خوش باش اور عافیت سے رکھیں۔

اللہ آپ کو ہر قسم کے غموں سے دور رکھے۔
🌸🌸🌸
 

سیما علی

لائبریرین
ہم بھی تو دیسی نہیں رہے، برائلر ہوچکے ہیں، 🐔🐥

پچھلے دنوں میری بڑی بہو رابعہ اپنی ہمشیرہ کی شادی کے سلسلے میں پاکستان آئی۔ پہلے دن ہم نے ان کے کھانے کیلئے خصوصی اہتمام کیا کہ وہ میری اوّلین بہو تھی اور مجھے بےحد پیاری تھی۔ مونا نے اسے خصوصی طور پر تیارکردہ چکن کڑاہی پیش کی تو وہ کہنے لگی۔ ’’یہ چکن آرگینک ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’نہیں یہ چکن آرگینک وغیرہ نہیں، چکن کڑاہی ہے۔‘‘
’’انکل یہ چکن تو ہے، پر کیا ہے۔ آرگینک ہے یا زہریلا ہے؟‘‘
اب ایک تو میں پہلی بار چکن کی اس خصوصی ڈش سے متعارف ہورہا تھا جو آرگینک کہلاتی تھی، شاید کوئی امریکی یا اطالوی ڈش تھی لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ چکن زہریلا نام کی بھی کوئی ڈش ہوا کرتی ہے… تب رابعہ نے ہمیں نہایت سنجیدگی سے روزمرہ کی خوراک کے بارے میں ایک لیکچر دیا۔ ’’انکل! آپ نہیں جانتے کہ ان دنوں آپ جو چکن برائلر نام کا کھاتے ہیں تو اس میں کتنا زہر ہوتا ہے۔ کبھی یوٹیوب پر جاکر دیکھئے کہ اس کی خوراک میں کیسے کیسے زہریلے اجزا شامل ہوتے ہیں۔ ان کی پرورش مصنوعی طریقے سے ہوتی ہے اور اسے کھانے سے اگر کینسر نہ ہو تو کم ازکم تپ دق اور یرقان وغیرہ تو بہرحال ہوجاتے ہیں۔‘‘ چنانچہ میں تو لرز گیا اور رابعہ کو مکس ویجی ٹیبل کی ایک ڈش پیش کی تو وہ باقاعدہ خوف زدہ ہوگئی۔ ’’نہیں… نہیں انکل! ان دنوں تمام سبزیاں زہریلی کھادوں سے زبردستی اگائی جاتی ہیں اور ان پر کیمیکلز کا چھڑکائو کیا جاتا ہے… یہ سبزیاں نہیں، سبز زہر ہیں۔ انکل مجھے حیرت ہے کہ…‘‘ وہ چپ ہوگئی لیکن کہنا وہ یہ چاہتی تھی کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں۔
اس کے واپس چلے جانے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کو جب کبھی کوئی عارضہ لاحق ہوتا، کبھی گھٹنوں میں درد کی ٹیس اٹھتی، کان شائیں شائیں کرنے لگتے، چھینکیں آنے لگتیں یا دل کی دھڑکن ذرا تیز ہوجاتی تو فوراً ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے کہ ہو نہ ہو، اس کا سبب برائلر چکن اور سبزیاں ہیں جنہیں ہم بے دریغ کھاتے چلے آئے تھے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ ہم صرف آرگینک فوڈ کھائیں گے۔ اس سلسلے میں، میں نے عادل سے مشورہ کیا جس نے فیصل آباد سے فوڈ ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی رکھی ہے تو وہ کہنے لگا۔ ’’تارڑ صاحب! آپ کی بہو درست کہتی ہے۔ اگر آپ کو اپنی صحت عزیز ہے تو صرف آرگینک چکن کھایا کیجئے۔‘‘ چنانچہ میں نے اپنے مرغی فروش سے رجوع کیا۔ ’’مجھے ایک عدد آرگینک چکن درکار ہے۔‘‘ اس نے ڈربے میں سے ایک ناتواں سا مرغ دبوچ کر پیش کردیا۔ ’’تارڑ صاحب ان دنوں جیسے بسکٹوں کو کوکیز کہا جاتا ہے، قیمے والے نان کو پیزا کہتے ہیں، اسی طرح دیسی مرغ کو آرگینک چکن کہتے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ برائلر اور اس میں کیا فرق ہوتا ہے تو میرا مرغی فروش کہنے لگا۔ ’’برائلر اگر نہایت زہریلی اور گندی خوراکیں کھاتا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ دیسی مرغی ایسا ایسا گند بلا کھا جاتی ہے جس کا ذکر کرنے سے ہی متلی ہونے لگتی ہے اور یہی تو آرگینک ہے… یہ مرغ یا مرغی عام طور پر بھورے رنگ کی ہوتی ہے اور کچھ مرغی فروش سفید برائلر مرغیوں کے پروں پر مہندی لگا کر انہیں بھورا کرلیتے ہیں۔ اس کی پہچان کا سائنسی طریقہ یہ ہے کہ ایک مرغ کو ڈربے میں سے نکال کر زمین پر رکھ دیجئے۔ اگر وہ فوراً بھاگ کھڑا ہو تو دیسی ہے یعنی آرگینک ہے… اگر وہیں کھڑا رہے اور جھومتا رہے تو یقیناً جعلی دو نمبر مرغ ہے۔‘‘ بہرطور اس روز میں نے دگنی قیمت پر ایک عدد آرگینک مرغ خریدا۔ بیگم نے اسے بہت چائو سے چولہے پر چڑھایا۔ چولہا ٹھنڈا ہوگیا، پر اس مرغ نے گلنے کا نام نہ لیا۔ چنانچہ بعدازاں ہم نے کبھی آرگینک چکن کا نام نہ لیا۔
انہی دنوں عدنان نام کا ایک نوجوان میری تحریروں کے حوالے سے مجھے ملنے کیلئے آیا تو میں نے پوچھا کہ برخوردار آپ کا پیشہ کیا ہے، تو وہ کہنے لگا کہ ’’میں نے کچھ عرصہ ایک ایسی جرمن این جی او کے ساتھ کام کیا ہے جو دنیا بھر میں آرگینک فوڈ کو رائج کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ پچھلی صدی میں ایک جرمن سائنسدان نے پیش گوئی کی تھی کہ ان دنوں کیمیائی کھادوں کو سبزیوں کی بڑھوتری کیلئے استعمال کرنے کا رواج شروع ہورہا ہے تو آئندہ زمانوں میں انسان قدرتی طور پر اگائی ہوئی خوراک سے محروم ہوجائیں گے اور سبزیوں اور گوشت کے نام پر زہر کھائیں گے۔ چنانچہ اس نے آرگینک فوڈ کا تصور سائنسی طریقے سے پیش کیا… یہ جرمن این جی او اسی سائنسدان کی تحقیق کو پاکستان میں متعارف کروا رہی تھی اور اب میں نے ذاتی طور پر دو تین ایکڑ زمین ٹھیکے پر حاصل کرکے اس میں بغیر کیمیائی کھادوں کے قدرتی کھادوں پر انحصار کرکے سبزیاں کاشت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ آپ کو بھجوائوں؟‘‘
عدنان نے اگلے ہفتے مجھے آرگینک گھیا کدو، بینگن اور پالک کی ایک بوری بھیج دی۔ بیگم نے ان سبزیوں کو بھی نہایت چائو اور تردّد سے چولہے پر چڑھایا اور پکایا لیکن ان کا تو ذائقہ ہی عجیب تھا، جیسے کسی دیسی حکیم کا عرق گائو زبان وغیرہ حلق میں اترتا ہے۔ بمشکل انہیں نگلا بلکہ آرگینک شہد کا ذائقہ بھی کچھ کڑوا سا تھا۔ عدنان کا کہنا تھا کہ یہ میانوالی کی جنگلی بیریوں کا نایاب شہد ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ ہم بیر ہی کھا لیتے، وہ اتنے مہنگے تو نہ ہوتے۔
مختصر یہ کہ ہم آرگینک خوراک سے تائب ہوکر پھر سے زہریلی سبزیوں اور مرغیوں کی جانب رجوع کرگئے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ستّر برس کے پار ہونے کے باوجود آرگینک خوراک وغیرہ نہ کھانے کے باوجود ہم ابھی تک زندہ ہیں اور زہریلی خوراکیں اور مرغیاں کھاتے کھاتے اب مر بھی جائیں تو کیا غم ہے۔
ویسے، جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ایک نکتہ ہے جس پر ہم اپنی سوچ کو غرق کرسکتے ہیں کہ ہم خود بھی تو آرگینک یا خالص دیسی نہیں رہے۔ کل کے بچے ماں کے دودھ پر پلتے تھے، آج کے بچے عجب مصنوعی طریقوں سے ڈبے کے دودھ، وٹامن کی ٹافیوں، جوس اور برگر پر پلتے ہیں۔ میری ایک بھتیجی نے نہایت کامیابی سے کمپیوٹر پر درج روزانہ ہدایات کے مطابق اپنے بچے کو فلاں سبزی کا سوپ پلائو، دوپہر کو اس کے سر میں مالش کرکے فلاں وٹامن کی گولیاں چوسنے کو دو۔ اگر وہ بہت روئے تو اسے فوراً ایک نفسیات دان کے پاس لے جائو وغیرہ… اپنے بچے پالے ہیں اور خوب پالے ہیں۔
غرض کہ ہم بھی تو خالص نہیں رہے، دیسی نہیں رہے، مصنوعی برائلر مرغیاں ہوچکے ہیں، تو ہمیں یہ آرگینک خوراکیں کیسے ہضم ہوسکتی ہیں۔ آپ بے شک تجربہ کرلیجئے، ہم بھاگ نہیں سکتے، ایک ہی مقام پر کھڑے جھومتے جاتے ہیں۔
گوشہ ادب،
مستنصر حسین تارڑ 🥀
 

جاسمن

لائبریرین
حضرت
عمر بن عبدالعزیزؒ

عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس ایک عورت آئی جس کی پانچ جوان بیٹیاں تھی
خاوند فوت ہو چکا تھا وہ جس کے پاس جاتی سب خوش آمدید کہتے
لیکن یہ خوش آمدید اس کے لیے نہیں تھی اس کے غریبی کے لیے نہیں تھی
اسکی خوبصورت جوان بیٹیوں پر گندی نظر ڈالنے کے لیے ہوتی
سمجھدار عورت تھی بہت جلد سمجھ گئی کہ میرے لیے جوان بیٹیوں کی عزت بچانا مشکل ہے
تو وہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دروازے پر آئی دستک دی کسی نے بتایا تھا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ ایسا بادشاہ ہے کہ وہ اپکی جان و مال کا محافظ ہے
وہ اپکی مدد کرے
گا ایک عورت نے دروازہ کھولا وہ اندر گئی ایک عورت برتن دھو رہی تھی وہ سمجھی کوئی خادمہ ہے اس نے اسے ایک درحت کے نیچے بٹھایا
تو اس نے پوچھا امیر المومنین کہاں ہے اتنے میں ایک آدمی اندر آیا جس کے کپڑے پٹھے ہوئے تھے
اور کندھے پر ایک گٹھلی تھی وہ گٹھلی اس عورت نے لے لی وہ ایک درحت کے نیچے بیٹھ گیا تو وہ عورت سوکھی روٹی اور سرکہ لے آئی وہ عورت سمجھی کوئی غلام ہے
جب وہ کھانا کھا چکے تو اسی عورت نے آواز دی کہ امیرالمومنین مہمان آئے ہے وہ عورت کہتی ہے میں حیران رہ گئی میں نے اس خادمہ سے کہا کہ
آپ میری غریبی کا مزاق اڑا رہی ہے یہ پھٹے ہوئے کپڑے اور سوکھی روٹی کھانے والا امیرالمومنین ہے
تو اس نے کہا کہ اللہ کی قسم یہی امیر المومنین ہے میں جب ان کے قریب گئی تو اس میں اتنی حیاہ تھی کہ اس نے اپنی نظریں جھکا لی فرمانے لگے
کیسے آئی ہو
میں نے کہا یہ میری بیٹیاں ہے میں غریب ہو بیوہ ہو میرے پاس ان کے لیے کچھ نہیں میرا خیال تھا کہ امیرالمومنین میری تمام بیٹیوں کے لیے سو دینار لکھ دے تو کافی ہے
اس نے قلم اٹھایا
میری ایک بیٹی کے لیے ایک سال کے لیے ایک ہزار دینار لکھ دئیے میں دوسری کو آگے
کیا اس نے اس کے لیے بھی ایک ہزار دینار لکھ دئیے میں تیسری چوتھی کو آگے کیا
اس نے ان کے لیے بھی ہزار ہزار دینار لکھ دئیے جب وہ لکھ رہے تھے
میں اللہ کا شکر ادا کرتی رہی اور جب پانچویں بیٹی کے لیے دینار لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو میں نے امیرالمومنین کا شکریہ ادا کیا اس نے قلم واپس رکھا
میں نے پوچھا امیرالمومنین کیا ہوا تو فرمانے لگے میں نے چار ہزار دینا اپکے لیے لکھے تو آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا
اس دفعہ آپ نے میرا شکریہ ادا کیا قیامت کے دن اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ ہزار دینار تم
نے میرے لیے نہیں لکھے
اپنی خوشامدی کیلئے دیئے میں رونے لگی کہ یااللہ یہ کیسا انسان ہے تو عمربن عبدالعزیز کہنے لگے
کہ عام انسان ہو بس رسول اللہ ﷺ کا غلام ہو۔
سبحان اللہ ایسے ایمان والے لوگ بھی تھے
۔۔۔۔،،،——-
اللہ پاک ہم سب کی نیتیں اپنے لیے خالص کر دے۔ ریاکاری اور دکھاوے سے پناہ دے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
🌸🌸🌸
تین گھر تین کہانیاں
🌸🌸🌸

ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼﺳﮩﯿﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ؟

ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ؟

ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺑﻢ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ
ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﻨﯽ

ہو سکتا تھا کہ ﺗﮭﻮﮌﯼ ہی ﺩﯾﺮﺑﻌﺪ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﺎﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮآتاﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍﭘﺎتا، ﭘﮭﺮﺩﻭﻧﻮﮞﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮتاﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ برا بھلا کہتے لیکن لڑکی نے شکر گزاری کرنا شروع کی اور اپنی نعمتوں کا خیال اور مسکراتے ہوئے بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھنا شروع ہوگئی۔ وقت گزرتا گیا اور اسکا غم ہلکا ہوتا گیا۔ شوہر آیا تو اسکو مسکرا کر دیکھا۔ شوہر نے بھی بیوی کو مسکرا کر دیکھا۔ یوں زندگی غموں سے دور خوش گواری میں گزرتی گئی اور ان دونوں کے بچے بھی اب ہر موقعے پر بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے ہیں۔

🌸🌸🌸

اسی طرح زید نے حامد سے پوچھا

تم کہاں کام کرتے ہو
حامد : فلاں دکان میں
ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے
حامد:18000 روپے
زید: 18000 روپے بس،تمہاری زندگی کیسے کٹتی ہے اتنے پیسوں میں
حامد ۔گہری سانس کھینچتے ہوئے ۔ بس یار کیا بتاوں

میٹنگ ختم ہوئی

ہوسکتا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد حامد اب اپنے کام سے بیزار ہوجاتا، اور تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کردیتا، جسے مالک رد کردیتا، نوجوان نے جاب چھوڑ دیتا اور بے روزگار ہوجاتا،پہلے اس کے پاس کام تھا اب کام نہیں رہتا۔لیکن حامد نے شکر گزاری کرنا شروع کی اور اپنی نعمتوں کا خیال اور مسکراتے ہوئے بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھنا شروع ہوگیا۔ وقت گزرتا گیا اور اسکا غم ہلکا ہوتا گیا۔ مالک آیا تو اسکو مسکرا کر دیکھا۔ مالک نے بھی حامد کو مسکرا کر دیکھا۔ یوں زندگی غموں سے دور خوش گواری میں گزرتی گئی اور اب حامد کے بچے پڑھ لکھ کر انجینئیر بن گے ہیں۔ وہ بھی اب ہر موقعے پر بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے ہیں۔


🌸🌸🌸

ایک صاحب نے نے ایک شخص سے کہا جو اپنے بیٹے سے الگ رهتا تها
تمہارا بیٹا تم سے بہت کم ملنے آتا هے کیا اسے تم سے محبت نہیں

باپ نے کہا: بیٹا مصروف رهتا هے، اس کے کام کا شیڈول سخت ہے .اسکے بیوی بچے هیں.اسے بہت کم وقت ملتا ہے
پہلا آدمی بولا: واہ یہ کیا بات هوئی.تم نے اسے پالا پوسا اسکی هر خواهش پوری کی اب خود کو خوامخواہ سمجهاتے هو کہ اس کو مصروفیت کی وجہ ملنے کا وقت نہیں ملتا یہ تو نہ ملنے کا بہانا ہے

اس گفتگو کے بعد باپ کے دل میں بیٹے کے لئے خلش سی پیدا هوسکتی تھی۔ہو سکتا تھا کہ بیٹا جب بهی ملنے آتا وہ یہی سوچتا رهتا کہ اسکے پاس سب کے لئے وقت ہے سوائے میرے۔لیکن باپ نے شکر گزاری کرنا شروع کی اور اپنی نعمتوں کا خیال اور مسکراتے ہوئے بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھنا شروع ہوگیا۔ وقت گزرتا گیا اور اسکا غم ہلکا ہوتا گیا۔ بیٹا آیا تو اسکو مسکرا کر دیکھا۔ بیٹے نے بھی حامد کو مسکرا کر دیکھا۔ یوں زندگی غموں سے دور خوش گواری میں گزرتی گئی اور اب اسکےپوتے پڑھ لکھ کر اعلی عہدوں پر لگ گے ہیں۔ گھر میں باپ بیٹے نے جو غموں کو دور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اس کا اثر یہ ہوا کہ پورا خاندان خوشیوں کا گہووارہ بن گیا۔ آئے دن کوئی نا کوئی دعوت ہوتی ہے اور گھر میں خوب رونق لگی رہتی ہے۔ باپ، بیٹا، بہویں اور پوتے سب ہی اب ہر موقعے پر بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے ہیں۔


یاد رکهیےزبان سے نکلے الفاظ دوسرے پر بڑا گہرا اثر ڈال سکتے هیں
ﺑﮯ ﺷﮏﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮕﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟﺧﺮﯾﺪﺍ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻞﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ
ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺎﻥﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺑﯿﺸﺘﺮﺳﻮﺍﻻﺕ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﻼﻣﻘﺼﺪ ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﯾﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ

آج کے دور میں ہمارے ارد گرد یا گھروں میں جو فسادات ہو رہے ہیں، ان کی جڑ تک جایا جائے تو اکثر اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے ،وہ یہ نہیں جانتے کہ نادانی میں یا جان بوجھ کر بولے جانے والے جملے کسی کی زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں

اسی لیے جب بھی دل میں نفرت یا فساد کا بیج بوتا محسوس ہو تو بسم الله الرحمن الرحيم لا حول ولا قوة الا بالله العلي
العظيم پڑھ کر اپنا غم دور کرتے رہیں اور گھرانوں کو آباد، خوش باش اور عافیت سے رکھیں۔

اللہ آپ کو ہر قسم کے غموں سے دور رکھے۔
🌸🌸🌸
اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
ہم بھی تو دیسی نہیں رہے، برائلر ہوچکے ہیں، 🐔🐥

پچھلے دنوں میری بڑی بہو رابعہ اپنی ہمشیرہ کی شادی کے سلسلے میں پاکستان آئی۔ پہلے دن ہم نے ان کے کھانے کیلئے خصوصی اہتمام کیا کہ وہ میری اوّلین بہو تھی اور مجھے بےحد پیاری تھی۔ مونا نے اسے خصوصی طور پر تیارکردہ چکن کڑاہی پیش کی تو وہ کہنے لگی۔ ’’یہ چکن آرگینک ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’نہیں یہ چکن آرگینک وغیرہ نہیں، چکن کڑاہی ہے۔‘‘
’’انکل یہ چکن تو ہے، پر کیا ہے۔ آرگینک ہے یا زہریلا ہے؟‘‘
اب ایک تو میں پہلی بار چکن کی اس خصوصی ڈش سے متعارف ہورہا تھا جو آرگینک کہلاتی تھی، شاید کوئی امریکی یا اطالوی ڈش تھی لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ چکن زہریلا نام کی بھی کوئی ڈش ہوا کرتی ہے… تب رابعہ نے ہمیں نہایت سنجیدگی سے روزمرہ کی خوراک کے بارے میں ایک لیکچر دیا۔ ’’انکل! آپ نہیں جانتے کہ ان دنوں آپ جو چکن برائلر نام کا کھاتے ہیں تو اس میں کتنا زہر ہوتا ہے۔ کبھی یوٹیوب پر جاکر دیکھئے کہ اس کی خوراک میں کیسے کیسے زہریلے اجزا شامل ہوتے ہیں۔ ان کی پرورش مصنوعی طریقے سے ہوتی ہے اور اسے کھانے سے اگر کینسر نہ ہو تو کم ازکم تپ دق اور یرقان وغیرہ تو بہرحال ہوجاتے ہیں۔‘‘ چنانچہ میں تو لرز گیا اور رابعہ کو مکس ویجی ٹیبل کی ایک ڈش پیش کی تو وہ باقاعدہ خوف زدہ ہوگئی۔ ’’نہیں… نہیں انکل! ان دنوں تمام سبزیاں زہریلی کھادوں سے زبردستی اگائی جاتی ہیں اور ان پر کیمیکلز کا چھڑکائو کیا جاتا ہے… یہ سبزیاں نہیں، سبز زہر ہیں۔ انکل مجھے حیرت ہے کہ…‘‘ وہ چپ ہوگئی لیکن کہنا وہ یہ چاہتی تھی کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں۔
اس کے واپس چلے جانے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کو جب کبھی کوئی عارضہ لاحق ہوتا، کبھی گھٹنوں میں درد کی ٹیس اٹھتی، کان شائیں شائیں کرنے لگتے، چھینکیں آنے لگتیں یا دل کی دھڑکن ذرا تیز ہوجاتی تو فوراً ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے کہ ہو نہ ہو، اس کا سبب برائلر چکن اور سبزیاں ہیں جنہیں ہم بے دریغ کھاتے چلے آئے تھے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ ہم صرف آرگینک فوڈ کھائیں گے۔ اس سلسلے میں، میں نے عادل سے مشورہ کیا جس نے فیصل آباد سے فوڈ ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی رکھی ہے تو وہ کہنے لگا۔ ’’تارڑ صاحب! آپ کی بہو درست کہتی ہے۔ اگر آپ کو اپنی صحت عزیز ہے تو صرف آرگینک چکن کھایا کیجئے۔‘‘ چنانچہ میں نے اپنے مرغی فروش سے رجوع کیا۔ ’’مجھے ایک عدد آرگینک چکن درکار ہے۔‘‘ اس نے ڈربے میں سے ایک ناتواں سا مرغ دبوچ کر پیش کردیا۔ ’’تارڑ صاحب ان دنوں جیسے بسکٹوں کو کوکیز کہا جاتا ہے، قیمے والے نان کو پیزا کہتے ہیں، اسی طرح دیسی مرغ کو آرگینک چکن کہتے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ برائلر اور اس میں کیا فرق ہوتا ہے تو میرا مرغی فروش کہنے لگا۔ ’’برائلر اگر نہایت زہریلی اور گندی خوراکیں کھاتا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ دیسی مرغی ایسا ایسا گند بلا کھا جاتی ہے جس کا ذکر کرنے سے ہی متلی ہونے لگتی ہے اور یہی تو آرگینک ہے… یہ مرغ یا مرغی عام طور پر بھورے رنگ کی ہوتی ہے اور کچھ مرغی فروش سفید برائلر مرغیوں کے پروں پر مہندی لگا کر انہیں بھورا کرلیتے ہیں۔ اس کی پہچان کا سائنسی طریقہ یہ ہے کہ ایک مرغ کو ڈربے میں سے نکال کر زمین پر رکھ دیجئے۔ اگر وہ فوراً بھاگ کھڑا ہو تو دیسی ہے یعنی آرگینک ہے… اگر وہیں کھڑا رہے اور جھومتا رہے تو یقیناً جعلی دو نمبر مرغ ہے۔‘‘ بہرطور اس روز میں نے دگنی قیمت پر ایک عدد آرگینک مرغ خریدا۔ بیگم نے اسے بہت چائو سے چولہے پر چڑھایا۔ چولہا ٹھنڈا ہوگیا، پر اس مرغ نے گلنے کا نام نہ لیا۔ چنانچہ بعدازاں ہم نے کبھی آرگینک چکن کا نام نہ لیا۔
انہی دنوں عدنان نام کا ایک نوجوان میری تحریروں کے حوالے سے مجھے ملنے کیلئے آیا تو میں نے پوچھا کہ برخوردار آپ کا پیشہ کیا ہے، تو وہ کہنے لگا کہ ’’میں نے کچھ عرصہ ایک ایسی جرمن این جی او کے ساتھ کام کیا ہے جو دنیا بھر میں آرگینک فوڈ کو رائج کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ پچھلی صدی میں ایک جرمن سائنسدان نے پیش گوئی کی تھی کہ ان دنوں کیمیائی کھادوں کو سبزیوں کی بڑھوتری کیلئے استعمال کرنے کا رواج شروع ہورہا ہے تو آئندہ زمانوں میں انسان قدرتی طور پر اگائی ہوئی خوراک سے محروم ہوجائیں گے اور سبزیوں اور گوشت کے نام پر زہر کھائیں گے۔ چنانچہ اس نے آرگینک فوڈ کا تصور سائنسی طریقے سے پیش کیا… یہ جرمن این جی او اسی سائنسدان کی تحقیق کو پاکستان میں متعارف کروا رہی تھی اور اب میں نے ذاتی طور پر دو تین ایکڑ زمین ٹھیکے پر حاصل کرکے اس میں بغیر کیمیائی کھادوں کے قدرتی کھادوں پر انحصار کرکے سبزیاں کاشت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ آپ کو بھجوائوں؟‘‘
عدنان نے اگلے ہفتے مجھے آرگینک گھیا کدو، بینگن اور پالک کی ایک بوری بھیج دی۔ بیگم نے ان سبزیوں کو بھی نہایت چائو اور تردّد سے چولہے پر چڑھایا اور پکایا لیکن ان کا تو ذائقہ ہی عجیب تھا، جیسے کسی دیسی حکیم کا عرق گائو زبان وغیرہ حلق میں اترتا ہے۔ بمشکل انہیں نگلا بلکہ آرگینک شہد کا ذائقہ بھی کچھ کڑوا سا تھا۔ عدنان کا کہنا تھا کہ یہ میانوالی کی جنگلی بیریوں کا نایاب شہد ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ ہم بیر ہی کھا لیتے، وہ اتنے مہنگے تو نہ ہوتے۔
مختصر یہ کہ ہم آرگینک خوراک سے تائب ہوکر پھر سے زہریلی سبزیوں اور مرغیوں کی جانب رجوع کرگئے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ستّر برس کے پار ہونے کے باوجود آرگینک خوراک وغیرہ نہ کھانے کے باوجود ہم ابھی تک زندہ ہیں اور زہریلی خوراکیں اور مرغیاں کھاتے کھاتے اب مر بھی جائیں تو کیا غم ہے۔
ویسے، جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ایک نکتہ ہے جس پر ہم اپنی سوچ کو غرق کرسکتے ہیں کہ ہم خود بھی تو آرگینک یا خالص دیسی نہیں رہے۔ کل کے بچے ماں کے دودھ پر پلتے تھے، آج کے بچے عجب مصنوعی طریقوں سے ڈبے کے دودھ، وٹامن کی ٹافیوں، جوس اور برگر پر پلتے ہیں۔ میری ایک بھتیجی نے نہایت کامیابی سے کمپیوٹر پر درج روزانہ ہدایات کے مطابق اپنے بچے کو فلاں سبزی کا سوپ پلائو، دوپہر کو اس کے سر میں مالش کرکے فلاں وٹامن کی گولیاں چوسنے کو دو۔ اگر وہ بہت روئے تو اسے فوراً ایک نفسیات دان کے پاس لے جائو وغیرہ… اپنے بچے پالے ہیں اور خوب پالے ہیں۔
غرض کہ ہم بھی تو خالص نہیں رہے، دیسی نہیں رہے، مصنوعی برائلر مرغیاں ہوچکے ہیں، تو ہمیں یہ آرگینک خوراکیں کیسے ہضم ہوسکتی ہیں۔ آپ بے شک تجربہ کرلیجئے، ہم بھاگ نہیں سکتے، ایک ہی مقام پر کھڑے جھومتے جاتے ہیں۔
گوشہ ادب،
مستنصر حسین تارڑ 🥀
آخری جملہ تو تحریر کا گویا نچوڑ ہے۔
 
Top