سیما علی
لائبریرین
جنگ آزادی ہند میں مسلم خواتین کا کردار
برصغیر ہند و پاکستان کی تقسیم پر آج تک جتنا کچھ لکھا گیا، وہ اکثر مَردوں کے ہاتھوں سے لکھا گیا، شاید اسی وجہ سے جنگِ آزادی میں خواتین کا کردار پسِ پردہ ہی رہا، ویسے اس کی دیگر چند وجوہات بھی ہیں، جب کہ کانگریس ہو یا مسلم لیگ، ہر جگہ عورتوں نے مختلف خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے پرچم بنائے، لیڈروں کی خاطر داری کی، جہادِ آزادی میں شریک اپنے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی راحت رسانی کا کام کیا، اسی پربس نہیں بلکہ انھوں نے عملی جد و جہد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور عورتیں بطور رضاکار مہم میں شامل ہوئیں۔اسی لیے اس مضمون میں ہم چند ایسی مسلم خواتیں کا ذکر کریں گے، جنھوں نے اپنے رشتے داروں کو جنگِ آزادی میں حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ یہ بھی واضح کر دیں کہ مضمون کی طوالت کے مدِّنظر ہم نے چند کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔بیگم حضرت محل زوجۂ واجد علی
بیگم حضرت محل کا نام زبان پرا ٓتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے، وہ جنگِ آزادی کی اولین سرگرم عمل خاتون رہنما تھیں۔ ۱۸۵۷-۱۸۵۸ء کی جنگِ آزادی میں صوبۂ اودھ سے حضرت محل کی نا قابلِ فراموش جدو جہد تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں درج رہے گی کہ کس طرح ایک عورت ہوتے ہوئے انھوں نے بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا اور آخر وقت یعنی اپنی موت (۱۸۷۹ء) تک تقریباً بیس سالہ زندگی انگریز حکومت کی مخالفت میں بسر کی۔جب ۱۸۵۶ء میں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتے بھیج دیا، اس وقت حضرت محل نے زمامِ حکومت سنبھا لی اور وہ ایک نئے اوتار میں سامنے آئیں۔انھوں نے محل میں بیٹھ کر صرف پالیسیاں نہیں بنائیں بلکہ جنگ کے میدان میں اتر کر اپنے جوہر بھی دکھائےاور وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب جنگِ آزادی میں ایک عظیم قائد بن کر ابھریں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ چھوڑنے کے بعد نیپال میں پناہ لی اور وہیں ۱۸۷۹ء میں ان کی وفات ہوئی اور کاٹھ منڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفن کر دیا گیا ۔
بی امّاں والدۂ علی برادران
بی اماں عابدی بیگم زوجۂ عبدالعلی خان، ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں شریک رہیں اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ان کی ایک بیٹی پانچ بیٹے تھے، جن میں سے دو؛ محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی تحریکِ آزادی کے علم بردار ہوئے۔ ۱۹۱۷ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں بی اماں کی تقریر نے سامعین کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔جس وقت ان کے دونوں بیٹے محمد علی اور شوکت علی جیل میں تھے، اس دوران بی اماں نے تحریک ِخلافت کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا اور اس تحریک کو جِلا بخشی۔ان کانعرہ تھا:
بولی محمد علی کی اماں کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دو
دسمبر ۱۹۲۱ء کو جب علی برادران کو انگریز سپاہیوں کے ذریعے گرفتار کیے جانے کی خبر ان کی والدہ کو ملی تو وہ قطعاً پریشان نہیں ہوئیں بلکہ صبرو استقلال برقرار رکھا۔ اسی لیے گاندھی جی نے کہا تھا کہ گر چہ وہ ایک بزرگ خاتون تھیں لیکن ان کاحوصلہ جواں تھا۔جب خلافت تحریک ختم ہوگئی، اس کے بعد مختصر علالت کے چلتے ۱۳؍نومبر ۱۹۲۴ء کو ان کا انتقال ہو ا۔
امجدی بیگم زوجۂ محمد علی جوہر
مولانا محمد علی جوہر کی بیگم جن کا اصل نام امجدی بانو تھا،۵؍فروری ۱۹۰۲ء کو ان کا نکاح مولانا محمد علی جوہر سے ہوا۔۱۹۱۹ء میںجب مولانا کو خلافت تحریک کے سلسلے میں جیل بھیج دیا گیا، اس وقت امجدی بیگم نے عملی سیاست میں قدم رکھااور پھر اسی برس انھیں خود بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، رہائی کے بعد وہ مزید فعال ہوگئیں اور۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد سیاسی میدان میں ان کی نیابت کرنے لگیں۔وہ مولانا کی فلسفیانہ اور سیاسی اصولوں کی معتقد تھیں اور ان کے تمام سفروں ،عوامی جلسوں اور سرگرمیوں میں شامل رہتی تھیں، انھوں نے ’ستیہ گرہ ‘ اور ’خلافت فنڈ‘ کے لیے روپیہ بھی جمع کیا ۔ان کا انتقال۲۸؍ مارچ۱۹۴۷ء کو ہوا۔
نشاط النساء بیگم زوجہ موہانی
نشاط النساء بیگم یعنی مولانا حسرت موہانی کی زوجہ محترمہ۔ وہ ایک پُر عزم خاتون اور تحریکِ آزادی کی فعال رُکن تھیں،۱۳؍اپریل۱۹۱۶ء کو مولانا حسرتؔ موہانی جب دوسری بار قید و بند میں محبوس ہوئے، اس وقت یہ باضابطہ سیاست میںنظر آئیں،انھوں نے انگریزی عدالتوں میں مولانا کے مقدمات کی پیروی بھی کی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ہر جلسے میںشریک ہوتی رہیں۔قدرت نے خودداری اورغیرت ان کے مزاج میں اس قدر ودیعت کی تھی کہ مالی صعوبتوں سے نمٹنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ شوہر جیل میں چکی چلایا کرتے اور یہ گھر میں لوگوں کا آٹا پیستیں۔انھوں نے کانگریس سبجکٹ کمیٹی کی نمائندگی کی، سودیشی تحریک میں شامل رہیں اور علی گڑھ میں خلافت تحریک کے قیام میں بھی انھوں نے تگ و دوکی۔مولانا حسرت موہانی نے اپنی آپ بیتی ’مشاہداتِ زنداں‘ میں لکھا ہے کہ ۲۳؍جون ۱۹۰۸ء کو اپنے رسالہ ’اردوئے معلی‘ میں ایک مضمون شائع کرنے پر بغاوت کے جرم میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور مقدمہ چلا کر دو سال قید با مشقت اور پچاس روپیے جرمانہ کی سزا سنائی گئی تو اپیل کرنے پر ان کی سزا ایک سال کر دی گئی اور جرمانے کی رقم ان کے بھائی نے ادا کردی۔ گرفتاری کے وقت ان کی شیرخوار بیٹی نعیمہ بے حد علیل تھی اور گھر ان کی زوجہ اور ایک خادمہ کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا لیکن اس موقع پر بھی ان کی اہلیہ نشاط النساء نے بے حد حوصلے اورجرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے ہی روز سپرنٹنڈنٹ جیل کے ذریعے سے اپنے شوہر کو ایک خط لکھا جس میں یہ کہہ کر اپنے شوہر کا حوصلہ بڑھایا:’’تم پر جو افتاد پڑی ہے ، اسے مردانہ وار برداشت کرو، میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار! تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔‘‘
زلیخا بیگم زوجۂ مولانا آزاد
زلیخا بیگم یعنی مولانا ابو الکلام آزاد کی زوجۂ محترمہ بھی باحوصلہ خاتون تھیں، تمام مصاعب و مصائب برداشت کرنے کے باوجود اپنے شوہر کا دست و بازو بنی رہیں اور انھیں خانگی مسائل سے ہمیشہ بے فکر رکھا۔ ان حضرات کے نزدیک اپنے مشن میں تکلیفیں برداشت کرنا کتنا سہل تھا، اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے، جو ۱۹۴۲ء میں جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انھوں نے مہاتما گاندھی کو لکھا تھا، وہ لکھتی ہیں:
’’میرے شوہر کومحض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے،اگر ملک وقوم سے محبت کے نتیجے میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا، یہ ان کی اہلیت کے لیے بہت کم ہے۔آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی۔۔۔‘‘
طاہرہ خاتون