انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
اور یقینا زمین والون میں جانور بھی شامل ہیں ۔
اگر کسی کی استعداد میں کچھ بھی کرنا ممکن نا ہو تب بھی کم از کم اپنی اولاد کی یہ تربیت ضرور کریں کہ کبھی بھی کسی جانور کو کسی بھی طرح پتھر کا ڈنڈے سے مت ماریں اور نا کسی اور کو مارنے دیں۔

آئیے وعدہ کیجئے کہ اپنے بچے کو تربیت دیکر اپ مزید کسی جانور کو اپنے بچے
بیشک ایسا ہی ہے ۔معصوم اور بے زبان جانوروں پر
رحم کا حکم بار بار ہے ۔
ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ!کیا جانوروں (کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لیے اجر و ثواب ہے؟۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے(بخاری حدیث: 5009 ، مسلم حدیث: 153۔ 2244)
 

سیما علی

لائبریرین
عجیب ویلڈر#

کہتے ہیں کے کسی شہر کے بیچوں بیچ
ایک ویلڈر کی
دوکان تھی جس پر لگے بورڈ پر لکھا تھا یہاں
رشتے ناطے، تعلوقات، ٹوٹی رفاقتیں اور دل مضبوطی سے ویلڈ کئے جاتے ہیں،

ایکُ دن میں نے سوچا کیوں نہ اس انوکھے کاریگر سے جاکر ملا جائے؟ پتہ پوچھتا ہوا پہنچ ہی گیا۔

اتفاق سے تنہا ہی بیٹھا تھا، سلام کرکے بیٹھ گیا
گا ریگر دلی کا کارخندار تھا،منہ میں گٹکے کیساتھ بولتا تو پر نالہ جیسے ہونٹ بن جاتے، باتوں کے بیچ گالیاں بھی گندی نالیوں کی طرح جملوں کو گدلا کرتیںُ لیکن کوئی برا نہیں مانتا کہ کسی کو اپنی اصل نسل کا پتا ہی نہیں تھا

میںُ نے پوچھا کہ میاں سنا ہے تم ٹوٹےُ دل، رشتے ناطے، تعلوقات وغیرہ تسلی سے جوڑے ہو؟ میری عمر دیکھ کر کہنے لگا صاحب اس عمر میں اپکا کیا ٹوٹ گیا؟

میں نے اصلُ بات سے ہٹ کر کہا کہ کیوں میاں میرے پاس دل نہیں؟

کہنے لگا ارے صاحبُ، صاحب دل سب کہاں ہوتے ہیں، آپ یہ چھوڑو، بتاؤ کیا ویلڈ کرنا ہے
میں نے کہا کچھ رشتے ٹوٹ سے گئے ہیں، کیا ویلڈ کر پاؤ گے؟

اس نےُ گٹکا منہ ڈالا اور کہا آپ اندر آو یہاںُ باہر غلُ بہت ہے۔بینچ پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی لال سی زبان نکالی اس پر انگلی رکھی اور کہا صاحب دنیا میں اس سے بڑی ویلڈ ینگ مشین ابھی تک تو کوئی ایجاد نہیں ہوئی،عقل کی طرح سب کے پاس ہے لیکن استعمال ہر کوئی نہیں جانتا۰۰۰لمحہ بھر کو تو مجھے سکتا سا ہوگیا؟

پھر طنزیہ انداز میں کہنےُ لگا چاہو تو میں اسکے استعمال کا طریقہ آپ کو بھی بتادوں۰۰۰میں نے تجسس میں حامی بھر لی کہنے لگا۰۰۰
صاحب رشتوں اور تعلوقات میں جوڑ لگانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اتنا میٹھا بول کے تیرے ہونٹوں کا تبسم نہ چھپے؟ بس یہ ہی اس ویلڈ ینگ راڈ کا مسالہ ہے،

بات تو سچ تھی مگر تھی رسوائی کی کہُ سارا مثلہ ہی زبان کا ہےکے انسان اپنیُ ہی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں نا کے گنے کا رس اگر سوکھ جائے تو وہ لکڑی بن جاتا ہے اور زبان اکڑ جائے تو تیر؟ میںُ ایک جاہل کے سامنے خود کو ان پڑھ سا محسوس کر رھا تھا،

پھر وہ ہنس کر کہنے لگا صاحب میں زبان کا ڈاکٹر ہوں، بندے کے منہُ کھولتے ہی بتا دیتا ہوں کے زبان میٹھی ہے کہ کڑوی، لمبی ہے کہ چھوٹی، مضبوط ہے کہ کچی؟ چالو ہے یا انداز آپ فضیحت اوروں کو نصیحت کا ہے؟

میںُ ذرا اور قریب ہوکر بیٹھ گیا تو سگریٹ سلگا کر کہنے لگا لو جی سنو زندہ مثال سنو کے میری چھوٹی بھاوج سالوں سے ناراض تھیں، بھائی بھی نہیں ملتا تھا، ایک دن میں سب کچھ چھوڑ سیدھا ناراض بھاوج کے گھر پہنچ گیا اور برسوں پرانی غلط فہمیوں کی پھیکی کھیر میں زبان کی مٹھاس ڈالی تو معجزہ دیکھو الگے ہی دن بھابھی بھائی کو لیکر ہمارے گھر اگئیں اور دل سمیت سب ہی دروازے کھل گئے

میں نے پوچھا کیوں ناراض تھیں؟
اس نے عجیب جواب دیا کہ صاحب کنواں کھودتے وقت پانی پر نظر رکھو، راستے کے کنکر مٹی سے کیا لینا دینا؟ یہ غلط فہمیاں الزامات شک و شبے، کہنا سننا رشتوں کے درمیان کنکر مٹی ہیُ تو ہیں؟ جھاڑو پھیرو ان پر اور آگے بڑھ جاؤ کے رشتوں میں دوریاں زندگی کو تو شاید مطمین کردیں لیکن دل کو ضرور اداس کر رکھتی ہیں

مجھے جانا تھا تو میں نے اجازت مانگی تو کہنے لگا صاحب سفر انجام کیسے ہوگا آپ تو اپنے ہی راستے میں خود کھڑے ہوجاتے ہو؟ بات تو پوری سن کر جاؤ؟
میں نے کہا کہ اب اور کیا رہ گیا کہنے کو تم نے گاگر میں ساگر تو بھر دیا ہے بھائی

کہنے لگا آخری بات سنتے جاؤ اور وہ یہ کے زبان کو بھی پیسے کی طرح سنبھال کر استعمالُ کرو نہ زیادہُ دکھاؤ نہ زیادہ جمع خرچ کرو؟ زبان اور پیسا اگر سنبھال کر استعمال کئے جائیں تو دونوں ہی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں

اپنا ڈنڈا اٹھا کر کہنے لگا کے ایک وقت تھا لوگ تلواریںُ ڈنڈے چلایا کرتے، ہاتھوں سے لڑا کرتےُ، جس سے جان تو جاتی لیکن عزت نہیں، آج دیکھو یہ زبان کیسے رشتے توڑے دے رہی ہے کتنوں کی عزتیںُ پامال کر رہی ہے؟
خیر اپکو دیر ہوتی ہے آپ جاؤ لیکن خیال رکھو صاحب کہُ زبان پھسلنے سے کہیں بہتر ہے ٹانگ پھسل جائے،
اٹھتے وقت میںُ سوچ میںُ پڑ گیا کے معاشرے کی اسی ذبوںُ حالیُ اور ہمارے روئیوں کی وجہ سے بڑوں کا ادب دل سے اتر کر گھٹنوں تو پہنچ چکا ہے، اور لگتا ایسا ہے کہ کچھ ہی وقت میںُ جوتیوں تک بھی پہنچ جائے گا اور ہمیں ویلڈر نہیں موچی کے پاس جانا ہوگا؟

اس کے پاس سے اٹھ کر لگ رھا کہ میری طرح سب ہی لوگ ادھورے ہیں، صبر کسی میں نہیں ہر کوئی خضر کو ڈھونڈتا ملتا ہے خود خضر نہیں بنتا کہ اپنا راستہ خود متین کرسکے اور جیونُ کو سدھارے۔

عالمُ ڈائری مورخہ ۱۵ ستمبر۲۰۲۰
 

سیما علی

لائبریرین
ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﻮﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﮨﮯ، ﺳﻤﻦ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﯿﮧ ﭘﺴﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﺑﻮﺭ ﺑﻮﮐﮭﻼﯾﺎ ﺑﻮﮐﮭﻼﯾﺎ ﺳﺎ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮍﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺩﻥ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﭼﻮﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﮐﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ
‘ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﮨﮯ؟ ’
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔۔ ﺩﮐﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺍﺑﻞ ﭘﮍﯾﮟ۔ ﻗﻖ ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ۔۔ ﻣﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﭘﺘﺎ ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺩﮐﺎﻥ ﮐﺎ ﺷﭩﺮ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﺎ۔۔
ﮈﺍﮐﯿﮧ ﭘﮭﺮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﭼﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﺎ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﮐﮭﺴﮏ ﺟﺎﺗﺎ۔۔ ﮈﺍﮐﯿﮧ ﻧﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﻧﮧ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﺭﺟﺴﭩﺮﯼ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﮬﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﮐﻮ؟؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﻧﺎﻡ ﭘﮍﮬﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﮉﻝ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ
’ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﮍﮮ ﻭﺍﺿﺢ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ۔
ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ
‘ﻏﺎﻟﺐ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ‘
ﺳﻤﻦ ﺁﺑﺎﺩ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
ﺩﻭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﭼﮭﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮨﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﺎ’ ﭘﮩﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﮨﯽﺍﺳﮯ ﻧﺎﮐﺎﻣﯽ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺍ۔۔
ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻮﺳﭧ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﻨﮧ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﻠﻖ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻟﮕﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﭘﺮ
ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ۔۔
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮯ ﺯﻭﺭ ﺩﺍﺭ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻟﮕﺎ۔۔
ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﭧ ﺗﮭﺎ
ﺑﻠﮑﮧ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻣﯿﮟ
‘ﻗﺎﺗﻞ ﺳﭙﺎﮨﯽ’ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﻭﮌ ﮔﺌﯽ۔۔ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺍﻭ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ۔۔
ﮈﺍﮐﯿﮯ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺭﺟﺴﭩﺮﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ۔۔ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮨﯽ ﯾﮧ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ؟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥﻧﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﺩﺍ ﮨﯿﮟ۔۔ ﮈﺍﮐﯿﮯ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔۔”ﮐﯿﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ؟
ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ”
ﻗﺘﯿﻞ ﺷﻔﺎﺋﯽ
 

سیما علی

لائبریرین
آج سے 24 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔

وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں تاکہ معاملہ حل کر سکیں۔ وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا’آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔‘ یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چور بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئیں تھیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلرک صرف اپنے کام سے کام رکھتا۔ وجیہہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کے پرچوں میں ان کا پرچہ ڈھونڈتا۔ لیکن اس نے اپنے کام کی بجائے وجیہہ کے بارے میں رائے دینا زیادہ ضروری سمجھا، یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی کس قدر متاثر کر سکتا ہے۔

وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیس میں ان کا ساتھ ان کے والد نے دیا۔ کیس درج ہونے کے چار ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا لیکن معاملہ اب ایک ڈگری سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وجیہہ نے یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب مانگا۔ یہ قانونی جنگ 17 سال چلتی رہی۔ گذشتہ سال عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

وجیہہ نے اس ایک جملے کا بار 17 سال تک اٹھایا۔ وہ تو جی دار تھیں، معاملہ عدالت تک لے گئیں۔ ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی۔ خاندان کی عزت ان کے بڑھتے قدم تھام لیتی ہے ورنہ یقین مانیں ہم میں سے ہر کوئی عدالت کے چکر کاٹتا پھرے اور اپنے منہ سے کسی لڑکی کے بارے میں نکلے ایک ایک جملے کی وضاحت دیتا پھرے۔

وجیہہ کے والدین نے ان کی ڈگری مکمل ہوتے ہی ان کی شادی کر دی۔ انہیں ڈر تھا کہ بات مزید پھیلی تو کہیں وجیہہ کے رشتے آنا ہی بند نہ ہو جائیں۔ وجیہہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں لیکن اس ایک جملے کی وجہ سے انہیں وہ سب نہیں کرنے دیا گیا۔ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ان کے دل میں کچھ نہ کر پانے کی کسک بھی موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top