انکشاف در انکشاف!!!

سید عمران

محفلین
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

اس شعر میں شاعر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل شناس بھی ہے۔ اسی لیے شاعر نے ’’یہ بازی گر‘‘ اور ’’دھوکہ دہی‘‘ کے الفاظ لا کر بالترتیب بھیا کی مردم شناسی اور ان کی دھوکہ دہی کے بارے میں واشگاف انداز میں اعلان کردیا کہ یہ مستقبل میں دہی لانے کے بہانے کیا کیا دھوکے دینے والے ہیں۔

تو صاحبو، آغاز اس بکھیڑے کا یوں ہوا جب عاطف بھائی نے عرب دیس سے اِس دیس آنے کا سندیس دیا۔ بھیا کو بھنک پڑی تو حسب معمول بازی گری کے وہ وہ کرتب دکھائے کہ ہم ان کے دھوکہ میں آگئے۔ ہم ان کے دھوکہ میں ایسے آئے کہ انہوں نے کہا ہمیں عاطف بھائی کے اعزاز میں ایک پُر تکلف ناشتہ کا انتظام کرنا چاہیے۔ دعوت پُرتکلف ہو یا بے تکلف ہمیں قبولنے سے کوئی عار نہیں، سو جھٹ تیار ہوگئے اور فٹ عاطف بھائی کو مراسلہ داغ دیا۔

ان سے تمام اہم اور ضروری معلومات لیں۔ احباب کراچی کو مطلع کیا۔ سب نے آنے کی ہامی بھر لی۔ کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ ایک دن عاطف بھائی نے پوچھا کون کون آرہا ہے؟ ہم نے جواب دیا جس جس کو بتایا ہے سب نے آنے کا وعدہ کیا۔ اب دیکھتے ہیں نبھاتا کون کون ہے۔ نہ ہم شاہجہاں ہیں نہ دیگر ممتاز محل کہ اِدھر ہم نے آواز دی جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا، اُدھر جھٹ صدا آئی تم نے جب بھی پکارا ہم کو آنا پڑے گا۔

بوقت دس بجے صبح، بروز اتوار، بتاریخ ۲۹، بماہ دسمبر، بسال ۲۰۱۹ بمقام ملک ہوٹل بہادر آباد صبح کا ناشتہ نصیب میں لکھا تھا۔ سب سے پہلے محفل کے نئے نویلے دولہا عدنان عمر بھائی پہنچ گئے۔ اب ہر کوئی آپ کی طرح ویلا تو ہے نہیں عدنان بھائی کہ بروقت پہنچے۔ اس ویلے نے ہم اکیلے کو فون کیا کہ ہم ہوٹل پہنچ چکے ہیں اب کیا کریں؟ ہم نے کہا ٹیبل گھیریں۔ ہم بھی بس اب پہنچے کہ تب پہنچے۔

جیسے ہی ہم ہوٹل تک پہنچے سید عاطف علی بھائی کا فون آگیا کہ آپ کہاں تک پہنچے، ہم تو ہوٹل پہنچ چکے۔ ہم نے کہا ہاتھ اوپر اٹھائیے، سزا کے طور پر نہیں، شناخت کے لیے۔ انہوں نے ہاتھ اٹھائے، ہم انہیں اٹھانے پہنچ گئے۔ یہاں اٹھانے سے مراد اغوا کرنا نہیں ہے بلکہ ٹھکانے لگانا ہے۔ اور ٹھکانے لگانے سے مراد قتل و غارت گری وغیرہ کی ہرگز نہ لی جائے بلکہ اس کا مطلب ہوٹل جاکر اپنے ٹھکانے پر جا براجمان ہونا ہے۔ لگے ہاتھوں ایک حل طلب مسئلہ بھی یار لوگوں سے دریافت کرلیں کہ یہ ہمیشہ جابراجمان ہی کیوں ہوا جاتا ہے، آج تک کوئی آبراجمان کیوں نہ ہوا؟؟؟

خیر اس لاینحل مسئلہ کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور عاطف بھائی کے ساتھ ہوٹل کے اندر چلتے ہیں۔ ہوٹل پہنچ کر ہم نے عدنان عمر بھائی کو فون کیا کہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجائیں۔ وہ جلدی سے کھڑے ہوگئے۔ سچ میں آج بہت مزہ آرہا تھا، کسی کے ہاتھ اٹھوائے، کسی کو کرسی سے اٹھوایا۔ اسکول مانیٹر بننے کا زمانہ یاد آگیا۔ عدنان عمر بھائی کھڑے ہوئے تو ہم نے لاکھوں کے مجمع میں انہیں پہچان لیا۔ اگرچہ لاکھوں کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے تاہم کبھی کبھار لمبی لمبی چھوڑنے کا بھی الگ ہی مزہ ہے۔ بہرحال اب کسی کو ہماری قیافہ شناسی و مردم شناسی پر کوئی شک و شبہ باقی نہ رہنا چاہیے۔

ابھی ہم آپس میں صحیح طور سے مل بھی نہ پائے تھے کہ خراماں خراماں سرخلیل داخل ہوئے۔ خراماں خراماں کی نسبت سر خلیل کی طرف نہیں، ان کی چال کی طرف ہے، اور سب جان لیں کہ چال کی طرح ان کا چلن بھی نہایت تسلی بخش حالت میں موجود ہے۔ سر خلیل کے وارد ہوتے ہی فہیم بھائی، پھر مابدولت اور آخر میں فاخر بھائی اپنے ایک دوست کے ہمراہ شامل محفل ہوگئے۔ اگر کوئی داخل ہونے میں آگے پیچھے ہوگیا ہو تو برائے مہربانی اس کی نشاندہی کرکے مضمون کی روانی میں خلل نہ ڈالیں۔

تھوڑی دیر بعد تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔ فاخر بھائی کے دوست الیکٹریکل انجینئر تھے۔ ہمارے سر خلیل بھائی بھی یہی نکلے۔ اور تو اور عاطف بھائی نے بھی پیچھے رہنا مناسب نہ سمجھا اور اس تہمت کو اپنے سر بھی دھر لیا۔ تو آج کا پہلا انکشاف یہ ہوا کہ ہم نے بیک وقت تین تین الیکٹریکل انجینئرز کو شرف زیارت بخشا۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ عدنان عمر بھائی صحافی نکلے، نہ جانے صحافت کے کس کس کوچہ کی خاک چھانی ہے۔ ہم تو سب بھول گئے۔ اب وہ اس حوالہ سے اپنا تعارف از سر نو لڑی ہذا میں کروائیں گے۔

اسی دوران ہم نے غالب کے بازی گر کو فون گھمادیا۔ کاش گھما کر دینے کی خواہش پر بھی عمل پیرا ہوسکتے۔ حسبِ توقع انہوں نے ہمیں گھمانا شروع کردیا۔ بازی گری کے وہ وہ کرتب دکھائے کہ حاضرین محفل عش عش کر اٹھے۔ ہم نے پوچھا کہاں ہیں؟ جواب دیا دہی لینے جارہا ہوں۔ ہم نے پوچھا یہ دھوکہ دہی کیوں؟ جواب دیا دھوکہ دہی نہیں، نواب دہی۔ ہم نے کہا یہ دہی کی کون سی قسم ہے؟ کہا قسم نہیں ہے دہی والے کا اسم ہے۔ بہرحال بازی گر اس بار بھی دھوکہ دینے میں کامیاب رہا۔

لو بھائی ناشتہ آتے ہی سب ایسے ٹوٹ پڑے جیسے کبھی کھانے کو نہ ملا ہو اور آئندہ بھی ملنے کی کوئی توقع نہ ہو۔ ناشتہ کرتے ہی فاخر بھائی مع دوست رخصت ہوئے۔ اس سے پہلے کہ ایک ایک کرکے سب کھسکنے کی سوچتے ہم ان کی آرزوؤں کا خون پی گئے۔ ہم نے ارشاد فرمایا کہ فاخر بھائی کے جانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمیں بھی جانا چاہیے۔ یہ کہہ کر ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب نے پوچھا دوسروں کو بھاشن دے کر خود راشن لینے کہاں چل دئیے؟ ہم نے کہا باہر۔ پوچھا کیوں؟ کہا چائے پینے۔ چائے باہر کی اچھی ہے۔ سب باہر آگئے۔ ٹھنڈی ہواؤں میں نرم گرم دھوپ مزہ دینے لگی۔

لگتا ہے اس بار سب غالب کی بازی گریوں والا شعر سمجھے بیٹھے تھے۔ ابھی ہم چائے پینے کے لیے کرسیوں پر بیٹھے ہی تھے کہ بیرے نے کہا چائے روڈ پار والے ہوٹل میں ملے گی۔ ہم اٹھنے لگے۔ دوسرے بیرے نے کہا ملتی تو وہیں ہے لیکن ہم یہاں منگوا دیتے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد پہلے والے نے کہا کہ چائے یہاں نہیں آسکتی، آپ کو وہاں جانا پڑے گا۔ ہم اٹھنے لگے۔ تیسرے بیرے نے کہا کہ جا کہاں رہے ہیں؟ چائے آرہی ہے۔ ہم بیٹھ گئے۔ اس اٹھک بیٹھک میں کافی سمے بیت گیا۔

اس نشست میں تیسرا انکشاف یہ ہوا کہ ہم جو عاطف بھائی کی فولاد نما سخت سخت تحریریں پڑھ پڑھ کر کانپ کانپ جاتے تھے اور انہیں نہایت بارعب سمجھتے تھے وہ سارا رعب جاتا رہا۔ عاطف بھائی نہایت دھیمے اور شگفتہ مزاج کے نکلے، یاروں کے یار اور ان میں بے تکلفی سے گھل مل جانے والے۔ کاش ہم یہ مراسلہ ان سے ملنے کے بعد لکھتے!!!

چائے پینے کے بعد چوتھا انکشاف فہیم بھائی نے کیا۔کہا، سنا ہے یہاں کہیں ایک چھپی ہوئی پہاڑی ہے، نام ہے ’’کڈنی ہِل پارک‘‘ ہم نے پوچھا اس کا یہ نام کیوں پڑا؟ کیا اس پر چڑھنے سے کڈنی ہل ہل جاتی ہے؟ بولے کیا پتا ایسا ہی ہو، یہ تو چڑھنے سے معلوم ہوگا۔ چچا گوگل کی مدد سے لوکیشن معلوم کی اور چند گلیاں گھومنے کے بعد اچانک پہاڑی سامنے آگئی۔ سب خراماں خراماں اوپر چڑھنے لگے۔ اوپر پہنچ کر لگا گویا سارا شہر قدموں تلے بچھا ہے۔ وہاں کی پر فضا فضاؤں میں حسب روایت مابدولت نے اپنی مدھر آواز کے سُر بکھیرے۔

تھوری دیر بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ باتوں کے دوران سر خلیل نے آج کا پانچوں اور آخری انکشاف کیا کہ ہم نے چار سالہ دراسات کا کورس کیا ہوا ہے۔ ہم نے کہا یعنی آپ نیم ملا ہیں یعنی۔۔۔ ابھی ہم کچھ اور کہنا چاہ رہے تھے کہ سر خلیل نے وہیں روک دیا۔ نہیں بھئی ہم کسی کے ایمان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔سر خلیل کی اس بات کے ساتھ ہی آج کی بات ختم ہوئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارے۔ اب آپ بھی جاکر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگیں۔

خدا حافظ!!!

نوٹ ۱: عدنان عمر بھائی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بھی لڑی ہذا میں روداد لکھیں گے۔

نوٹ۲: سر خلیل نے بھی ایسا ہی کچھ ارادہ ظاہر کیا ہے۔ مگر گلے میں تکلیف کے باعث تاخیر ہورہی ہے۔ ویسے دنیا کی جدید ترین سائنس بھی لکھنے کا تعلق گلے سے ظاہر کرنے سے معذرت ظاہر کر رہی ہے۔ امید ہے سر جلد ہی کچھ نہ کچھ لکھیں گے کہ لوگ ان کو بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس بہانے ہماری لڑی ہذا کو بھی چار چاند لگوا کر چاند چڑھنے کا موقع مل جائے گا۔

نوٹ۳: اب کی بار سچی مچی کا خدا حافظ!!!
 
آخری تدوین:
پھر مابدولت اور آخر میں فاخر بھائی اپنے ایک دوست کے ہمراہ شامل محفل ہوگئے۔
بار اول ملک ہوٹل میں ورود کے بعد مابدولت کی ٹٹولتی نگاہوں کو جب کسی ہستیء شناسا کی دید دلخوش کن نصیب نا ہوئی تو مابدولت اپنا سا منہہ لے کر ہوٹل سے باہر آئے ۔ ساعت طویل تک انتظار کوفت آمیز کا شکار رہے ۔ پھر مثل خر کم فہم پیروں پر نظر جماکر دیکھنے کی بجائے مانند شتر دور بین گردونواح میں نگاہیں دوڑادیں اور نظارۂ حسب منشا کو سامنے قدرے فاصلے پرمحو گفتگو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا ، یعنی کہ ہردو شاہ صاحبان سید عاطف علی اور سید عمران ۔ بعدۂ ، تمامتر جاہ وجلال کے باوجود ، مابدولت قدم بوسی کے لیے بنفس نفیس ان حضرات محترم کے پاس پہنچے۔ پھر مل ملیاں ہوئیاں ، گلاں باتاں ہوئیاں ،بڑے مزے بڑے لشکارے ۔اس کے بعد اس جتھۂ سہ نفری نے ملک ہوٹل کا ازسر نو رخ کیا ۔:):)
 
Top