انکشاف در انکشاف!!!

جاسم محمد

محفلین
لیکن وہ اپنے مفتی صاحبِ حسبِ سابق پردہ شریف ہی میں رہے! :)
یعنی اصل انکشاف تو رہ گیا۔
مفتی صاحب برے پھنسے ہیں بھئی
اب مفر اور نہ کوئی جائے پناہ
اپنا چہرہ دکھائیے اب تو
“پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ”​
مزید کہ میرے پاس امین بھائی کی وہ گانے والی "فوٹیج" بمعہ تصویر و آواز موجود ہے۔
جس میں ہم نے کیمرہ مفتی صاحب کے اوپر سے گھمالیا تھا:)
ایسا لگ رہا ہے جیسے اوپر سے کیمرہ گھما کر صدقہ میں دے دیا ہو!!!
اتنے سخت دباؤ کے باوجود اپنا "شناختی" دیدار نہ کروانا بار بار محفلین ملاقات رکھنے کا بہانہ لگ رہا ہے :)
 

فہیم

لائبریرین
جی زیر استعمال ہے۔ کوئی کام ہے؟
اس کے ساتھ ایک فونٹ نیویگیٹر ہوتا ہے جس میں ہم ایک بار سسٹم میں موجود تمام فونٹ اسکین کرا دیتے ہیں۔
اور پھر اگر کوئی فونٹ درکار ہوتا ہے تو کورل اسے ٹیمپوریری طور پر انسٹال کرلیتا ہے بعد میں ختم۔ یعنی سسٹم پر فونٹ کا بوجھ نہیں پڑتا۔
لیکن یہ کام صرف کورل تک ہے مجھے اگر پورے سسٹم میں کوئی فانٹ عارضی طور پر انسٹال کرنا ہو تو اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن یہ کام صرف کورل تک ہے مجھے اگر پورے سسٹم میں کوئی فانٹ عارضی طور پر انسٹال کرنا ہو تو اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
مین ٹائپ کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔
MainType_1.png

ڈاؤنلوڈ
 

جاسم محمد

محفلین
حساب لگایا جائے تو اس تصویر کی عمر 100 سال سے بھی زیادہ ہوگی:)
ہاہاہاہا ۔۔۔ مابدولت کا ایک قہقہۂ فلک شگاف جس کی شدت ارتعاش سے حسب روایت مابدولت خودہی لرز کر رہ گئے !
مابدولت برادرم فہیم سے ملتمس ہیں کہ اس سطر کے مفہوم کو مخفی ہی رہنے دیں ۔:):)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صد شکر مالک الملک کا کہ جس ہجو کی زد میں ہماری ذات ِنکوہش صفات اتنی زور و شور سے آئی تھی اب اس کی تلافی میں ایک غلو آمیز قصیدہ لکھ کر ہمیں بالآخر با عزت بری کرنے کا ایک پروانہ ایسی تفصلی دوئداد کی شکل میں لڑی ہذا کی دیوار پر آویزاں کر دیا گیا ہے کہ ہم پھر سے کچھ سامنے آنے کے لائق ہو گئے ۔ یہ البتہ خدا جانے کہ ہجو اور قصیدے کی ہر دو کیفیات میں بین السطور دروغِ مصلحت آمیز کا کتنا کردار ہے ۔اس کا فیصلہ محفلینِ معصومین کے نیک گمان پر چھوڑنا بہتر معلوم ہوتا ہے ۔

یہ کہنا البتہ انتہائی ضروری ہے کہ اس بہانے زندگی کے بہترین لمحات کو اپنی یادوں میں قید کرنے کا موقع ہاتھ لگا اور حاضر ہونے والے محفلین کو بالمشافہ ملاقات میں دیکھنے کی سعادت سے پیاسے نیناں خوب سیراب ہوئے ۔ اس سے قبل کراچی۔اسلام آباد، لاہور۔دلی اور امریکہ وغیرہ کی محافل کی داستانیں ہم تک ضرور پہنچتی تھیں اور دل میں کچوکے بھی دیتی تھیں ۔ اس مرتبہ نصیب نے یارآوری کی اور امیدیں بر آئیں ۔

اس ملاقات میں اگرچہ ڈاکٹر فاخر صاحب اور ان کے بلاواسطہ دوست انجینئر صاحب نے ناشتے (جس کی حوصلہ افزائی اپنے فہیم بھائی کافی وضاحت کے ساتھ کرچکے ہیں ) کے بعد جلد رخصت ہو کر اپنی راہ لی تاہم محفلی عقلمندوں کے لیے اپنے زیادہ مصروف ہونے کا اشارہ دے گئے ۔ بس پھر کیا تھا یہ اشارہ پا کر بقیہ محفلین گویا اپنے کم مشغول ہونے کو کیش کرانے پر ذرا اور کمر کس کر آمادہ ہو گئے ۔ہم تو تھے ہی دیار غیر سے وقتی رخصت پر فارغ ، سو کشادہ دلی سے یہ جیسچر بھانپتے ہی قبول کیا ۔ اسی آمادگی نے غالباََ فہیم بھائی کے دل میں قرب و جوار کی کسی پہاڑی کا راستہ القا کیا اور نہ صرف راستہ رکھایا بلکہ اس پہاڑی پر چڑھا کر ہی دم لیا ۔ ذرا آگے کنارے تک قدم اٹھائے تو شہر کا وہ منظر دیکھا کہ اپنے ائیر فورس کے ترانے میں تحریف کرنے کو بلا اختیار جی چاہا اور شاعر
مشرق کے کلام کا احترام کر نے کی ذرا پروا نہ کی ۔

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
"شہر"است کہ "بحر" ست تہِ بالِ "محفل" است

اصل شعر یوں ہے کہ

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
صحراست کہ دریاست تہِ بال و پر ماست
میں شاہین ہوں مجھے زمین کی پستیوں سے کیا کام ۔ یہ زمیں پر صحرا و دریا کے خشک و تر سب میرے پروں کے نیچے رہتے ہیں ۔

یہ کہنے میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ اگر چہ بحر تو نظر یاب نہ تھا لیکن انسٹینٹ تحریف میں یہی ممکن ہو سکا۔

اس خوشگوار موسم میں اور شہر قائد کے شور و شغب اور اس کی مہیب مصروفیتوں کے آشوب سے پناہ لیے محفلین کی یہ جماعت جب اس پہاڑی کی بظاہر بیاباں نما چوٹی پر پہنچی کہ جس کا حال اس کے مستقبل قریب کے کسی خوبصورت اور آراستہ و پیراستہ باغیچہ میں ڈھلنے کے توانا خوابوں کے نقوش ظاہر کر رہا تھا تو پھر اردو محفل نے مابدولت کی بدولت یکا یک اپنا وہ رنگ جمایا کہ جسے دیکھ کر تو گویا "ستاروں سے اور بہاروں سے پہاڑی کا ویرانہ سج گیا" اور ایسے میں بہ زبانِ حال اور بحالِ ترنم کراچی کی۔انتیس دسمبر دو ہزار انیس کے اتوار ۔کی یاد گار صبح ، اپنے ما بدولت ،یعنی اپنے امین صدیق بھائی کے کوٹ کی جیب سے ایک پوشیدہ فل فلیجڈ مِنی سٹوڈیو منصہء شہود پر ظاہر ہوا اور اسی اسٹوڈیو کے سر تال کے سنگ اس صبح کی خاموشی ما بدولت کے ساتھ ہم آواز ہو کر وہ نغمہ گنگنا اٹھی کہ جسے "ایّاں یو یو" کے اشارے کے بغیر لفظوں کی قید میں لانا یا تو اعجاز ِبیان ہو یا پھر محال ِمحض ہو۔

ما بدولت کے گلے سے جب تک سروں کی لہریں صنعتی زندگی کے شور و غل سے دور ، واجبات ِروزگار کے اعمال و تعب سے گریزاں، فضا کی پہنائیوں میں بکھرتی رہیں تو گویا زندگی ماضی کے جھروکوں میں کچھ مناظر تازے کرتی رہی ان چند لمحوں کے لیے زندگی کی ساعتیں تھم سی گئیں ۔خلیل بھائی نے بھی کچھ صوتی نمونے اپنے موبائل سے پیش کیے اور یوں یہ نشست ، بلکہ نشست و برخاست کا سلسلہ جو ناشتے ، چائے اور پہاڑی کے سیشنز پر مشتمل تھا فہیم بھائی کے اشارے پر سمٹنے لگا۔

اس موقع پر نقیبی بھائی اور محمد احمد بھائی کی بہت کمی محسوس کی گئی لیکن وہ اس صبح میں ممکن نہ ہو سکی ۔ بہر حال فہیم بھائی کی سادگی اور اپنائیت بھری باتوں ، عمر بھائی کی شرمیلی اور منکسر المزاج طبیعت ،خلیل بھائی کی متین تخلیقیت اور مابدولت کی سادہ دل اور دوستانہ قربت کو عزیزم سید عمران بھائی نے جن قائدانہ صلاحیت اور یارانہ جانفشانی کے ساتھ میری عزت افزائی اور محبت میں جمع کیا اس کا کما حقہٗ شکریہ ادا کرنا اگرچہ میری بساط کی حدوں سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن میری کوشش رہی کہ اپنے خلوص کا کچھ عکس الفاظ میں رکھ کر آپ تک پہنچا سکوں ۔ بہر حال تمام محفلین سے امید قبولیت اور دعاؤں کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔ یہ سب اپنائیت اور دوستانہ یگانگت دیکھ کر دل بہت باغ باغ ہوا مولیٰ تعالیٰ سب محفلین کو ان کے امور میں بہ سہولت کامیاب کرے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ملک خداداد کے بسنے والوں میں بھی ایسی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور ہم امن ، سلامتی اور فلاح کے ساتھ زندگی کا سفر کریں اور خدا کے حضور قلوبِ منیب لے کر مقبول ہوں ۔
خیر اندیش ۔
 
آخری تدوین:
صد شکر مالک الملک کا کہ جس ہجو کی زد میں ہماری ذات ِنکوہش صفات اتنی زور و شور سے آئی تھی اب اس کی تلافی میں ایک غلو آمیز قصیدہ لکھ کر ہمیں بالآخر با عزت بری کرنے کا ایک پروانہ ایسی تفصلی دوئداد کی شکل میں لڑی ہذا کی دیوار پر آویزاں کر دیا گیا ہے کہ ہم پھر سے کچھ سامنے آنے کے لائق ہو گئے ۔ یہ البتہ خدا جانے کہ ہجو اور قصیدے کی ہر دو کیفیات میں بین السطور دروغِ مصلحت آمیز کا کتنا کردار ہے ۔اس کا فیصلہ محفلینِ معصومین کے نیک گمان پر چھوڑنا بہتر معلوم ہوتا ہے ۔

یہ کہنا البتہ انتہائی ضروری ہے کہ اس بہانے زندگی کے بہترین لمحات کو اپنی یادوں میں قید کرنے کا موقع ہاتھ لگا اور حاضر ہونے والے محفلین کو بالمشافہ ملاقات میں دیکھنے کی سعادت سے پیاسے نیناں خوب سیراب ہوئے ۔ اس سے قبل کراچی۔اسلام آباد، لاہور۔دلی اور امریکہ وغیرہ کی محافل کی داستانیں ہم تک ضرور پہنچتی تھیں اور دل میں کچوکے بھی دیتی تھیں ۔ اس مرتبہ نصیب نے یارآوری کی اور امیدیں بر آئیں ۔

اس ملاقات میں اگرچہ ڈاکٹر فاخر صاحب اور ان کے بلاواسطہ دوست انجینئر صاحب نے ناشتے (جس کی حوصلہ افزائی اپنے فہیم بھائی کافی وضاحت کے ساتھ کرچکے ہیں ) کے بعد جلد رخصت ہو کر اپنی راہ لی تاہم محفلی عقلمندوں کے لیے اپنے زیادہ مصروف ہونے کا اشارہ دے گئے ۔ بس پھر کیا تھا یہ اشارہ پا کر بقیہ محفلین گویا اپنے کم مشغول ہونے کو کیش کرانے پر ذرا اور کمر کس کر آمادہ ہو گئے ۔ہم تو تھے ہی دیار غیر سے وقتی رخصت پر فارغ ، سو کشادہ دلی سے یہ جیسچر بھانپتے ہی قبول کیا ۔ اسی آمادگی نے غالباََ فہیم بھائی کے دل میں قرب و جوار کی کسی پہاڑی کا راستہ القا کیا اور نہ صرف راستہ رکھایا بلکہ اس پہاڑی پر چڑھا کر ہی دم لیا ۔ ذرا آگے کنارے تک قدم اٹھائے تو شہر کا وہ منظر دیکھا کہ اپنے ائیر فورس کے ترانے میں تحریف کرنے کو بلا اختیار جی چاہا اور شاعر
مشرق کے کلام کا احترام کر نے کی ذرا پروا نہ کی ۔

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
"شہر"است کہ "بحر" ست تہِ بالِ "محفل" است

اصل شعر یوں ہے کہ

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
صحراست کہ دریاست تہِ بال و پر ماست
میں شاہین ہوں مجھے زمین کی پستیوں سے کیا کام ۔ یہ زمیں پر صحرا و دریا کے خشک و تر سب میرے پروں کے نیچے رہتے ہیں ۔

یہ کہنے میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ اگر چہ بحر تو نظر یاب نہ تھا لیکن انسٹینٹ تحریف میں یہی ممکن ہو سکا۔

اس خوشگوار موسم میں اور شہر قائد کے شور و شغب اور اس کی مہیب مصروفیتوں کے آشوب سے پناہ لیے محفلین کی یہ جماعت جب اس پہاڑی کی بظاہر بیاباں نما چوٹی پر پہنچی کہ جس کا حال اس کے مستقبل قریب کے کسی خوبصورت اور آراستہ و پیراستہ باغیچہ میں ڈھلنے کے توانا خوابوں کے نقوش ظاہر کر رہا تھا تو پھر اردو محفل نے مابدولت کی بدولت یکا یک اپنا وہ رنگ جمایا کہ جسے دیکھ کر تو گویا "ستاروں سے اور بہاروں سے پہاڑی کا ویرانہ سج گیا" اور ایسے میں بہ زبانِ حال اور بحالِ ترنم کراچی کی۔انتیس دسمبر دو ہزار انیس کے اتوار ۔کی یاد گار صبح ، اپنے ما بدولت ،یعنی اپنے امین صدیق بھائی کے کوٹ کی جیب سے ایک پوشیدہ فل فلیجڈ مِنی سٹوڈیو منصہء شہود پر ظاہر ہوا اور اسی اسٹوڈیو کے سر تال کے سنگ اس صبح کی خاموشی ما بدولت کے ساتھ ہم آواز ہو کر وہ نغمہ گنگنا اٹھی کہ جسے "ایّاں یو یو" کے اشارے کے بغیر لفظوں کی قید میں لانا یا تو اعجاز ِبیان ہو یا پھر محال ِمحض ہو۔

ما بدولت کے گلے سے جب تک سروں کی لہریں صنعتی زندگی کے شور و غل سے دور ، واجبات ِروزگار کے اعمال و تعب سے گریزاں، فضا کی پہنائیوں میں بکھرتی رہیں تو گویا زندگی ماضی کے جھروکوں میں کچھ مناظر تازے کرتی رہی ان چند لمحوں کے لیے زندگی کی ساعتیں تھم سی گئیں ۔خلیل بھائی نے بھی کچھ صوتی نمونے اپنے موبائل سے پیش کیے اور یوں یہ نشست ، بلکہ نشست و برخاست کا سلسلہ جو ناشتے ، چائے اور پہاڑی کے سیشنز پر مشتمل تھا فہیم بھائی کے اشارے پر سمٹنے لگا۔

اس موقع پر نقیبی بھائی اور محمد احمد بھائی کی بہت کمی محسوس کی گئی لیکن وہ اس صبح میں ممکن نہ ہو سکی ۔ بہر حال فہیم بھائی کی سادگی اور اپنائیت بھری باتوں ، عمر بھائی کی شرمیلی اور منکسر المزاج طبیعت ،خلیل بھائی کی متین تخلیقیت اور مابدولت کی سادہ دل اور دوستانہ قربت کو عزیزم سید عمران بھائی نے جن قائدانہ صلاحیت اور یارانہ جانفشانی کے ساتھ میری عزت افزائی اور محبت میں جمع کیا اس کا کما حقہٗ شکریہ ادا کرنا اگرچہ میری بساط کی حدوں سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن میری کوشش رہی کہ اپنے خلوص کا کچھ عکس الفاظ میں رکھ کر آپ تک پہنچا سکوں ۔ بہر حال تمام محفلین سے امید قبولیت اور دعاؤں کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔ یہ سب اپنائیت اور دوستانہ یگانگت دیکھ کر دل بہت باغ باغ ہوا مولیٰ تعالیٰ سب محفلین کو ان کے امور میں بہ سہولت کامیاب کرے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ملک خداداد کے بسنے والوں میں بھی ایسی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور ہم امن ، سلامتی اور فلاح کے ساتھ زندگی کا سفر کریں اور خدا کے حضور قلوبِ منیب لے کر مقبول ہوں ۔
خیر اندیش ۔
روئداد ملاقات محفلین کو اس قدر خوبصورت پیرائے میں بیان کرنے کے لیئے مابدولت شاہ صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔:):)
 

عرفان سعید

محفلین
صد شکر مالک الملک کا کہ جس ہجو کی زد میں ہماری ذات ِنکوہش صفات اتنی زور و شور سے آئی تھی اب اس کی تلافی میں ایک غلو آمیز قصیدہ لکھ کر ہمیں بالآخر با عزت بری کرنے کا ایک پروانہ ایسی تفصلی دوئداد کی شکل میں لڑی ہذا کی دیوار پر آویزاں کر دیا گیا ہے کہ ہم پھر سے کچھ سامنے آنے کے لائق ہو گئے ۔ یہ البتہ خدا جانے کہ ہجو اور قصیدے کی ہر دو کیفیات میں بین السطور دروغِ مصلحت آمیز کا کتنا کردار ہے ۔اس کا فیصلہ محفلینِ معصومین کے نیک گمان پر چھوڑنا بہتر معلوم ہوتا ہے ۔

یہ کہنا البتہ انتہائی ضروری ہے کہ اس بہانے زندگی کے بہترین لمحات کو اپنی یادوں میں قید کرنے کا موقع ہاتھ لگا اور حاضر ہونے والے محفلین کو بالمشافہ ملاقات میں دیکھنے کی سعادت سے پیاسے نیناں خوب سیراب ہوئے ۔ اس سے قبل کراچی۔اسلام آباد، لاہور۔دلی اور امریکہ وغیرہ کی محافل کی داستانیں ہم تک ضرور پہنچتی تھیں اور دل میں کچوکے بھی دیتی تھیں ۔ اس مرتبہ نصیب نے یارآوری کی اور امیدیں بر آئیں ۔

اس ملاقات میں اگرچہ ڈاکٹر فاخر صاحب اور ان کے بلاواسطہ دوست انجینئر صاحب نے ناشتے (جس کی حوصلہ افزائی اپنے فہیم بھائی کافی وضاحت کے ساتھ کرچکے ہیں ) کے بعد جلد رخصت ہو کر اپنی راہ لی تاہم محفلی عقلمندوں کے لیے اپنے زیادہ مصروف ہونے کا اشارہ دے گئے ۔ بس پھر کیا تھا یہ اشارہ پا کر بقیہ محفلین گویا اپنے کم مشغول ہونے کو کیش کرانے پر ذرا اور کمر کس کر آمادہ ہو گئے ۔ہم تو تھے ہی دیار غیر سے وقتی رخصت پر فارغ ، سو کشادہ دلی سے یہ جیسچر بھانپتے ہی قبول کیا ۔ اسی آمادگی نے غالباََ فہیم بھائی کے دل میں قرب و جوار کی کسی پہاڑی کا راستہ القا کیا اور نہ صرف راستہ رکھایا بلکہ اس پہاڑی پر چڑھا کر ہی دم لیا ۔ ذرا آگے کنارے تک قدم اٹھائے تو شہر کا وہ منظر دیکھا کہ اپنے ائیر فورس کے ترانے میں تحریف کرنے کو بلا اختیار جی چاہا اور شاعر
مشرق کے کلام کا احترام کر نے کی ذرا پروا نہ کی ۔

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
"شہر"است کہ "بحر" ست تہِ بالِ "محفل" است

اصل شعر یوں ہے کہ

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
صحراست کہ دریاست تہِ بال و پر ماست
میں شاہین ہوں مجھے زمین کی پستیوں سے کیا کام ۔ یہ زمیں پر صحرا و دریا کے خشک و تر سب میرے پروں کے نیچے رہتے ہیں ۔

یہ کہنے میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ اگر چہ بحر تو نظر یاب نہ تھا لیکن انسٹینٹ تحریف میں یہی ممکن ہو سکا۔

اس خوشگوار موسم میں اور شہر قائد کے شور و شغب اور اس کی مہیب مصروفیتوں کے آشوب سے پناہ لیے محفلین کی یہ جماعت جب اس پہاڑی کی بظاہر بیاباں نما چوٹی پر پہنچی کہ جس کا حال اس کے مستقبل قریب کے کسی خوبصورت اور آراستہ و پیراستہ باغیچہ میں ڈھلنے کے توانا خوابوں کے نقوش ظاہر کر رہا تھا تو پھر اردو محفل نے مابدولت کی بدولت یکا یک اپنا وہ رنگ جمایا کہ جسے دیکھ کر تو گویا "ستاروں سے اور بہاروں سے پہاڑی کا ویرانہ سج گیا" اور ایسے میں بہ زبانِ حال اور بحالِ ترنم کراچی کی۔انتیس دسمبر دو ہزار انیس کے اتوار ۔کی یاد گار صبح ، اپنے ما بدولت ،یعنی اپنے امین صدیق بھائی کے کوٹ کی جیب سے ایک پوشیدہ فل فلیجڈ مِنی سٹوڈیو منصہء شہود پر ظاہر ہوا اور اسی اسٹوڈیو کے سر تال کے سنگ اس صبح کی خاموشی ما بدولت کے ساتھ ہم آواز ہو کر وہ نغمہ گنگنا اٹھی کہ جسے "ایّاں یو یو" کے اشارے کے بغیر لفظوں کی قید میں لانا یا تو اعجاز ِبیان ہو یا پھر محال ِمحض ہو۔

ما بدولت کے گلے سے جب تک سروں کی لہریں صنعتی زندگی کے شور و غل سے دور ، واجبات ِروزگار کے اعمال و تعب سے گریزاں، فضا کی پہنائیوں میں بکھرتی رہیں تو گویا زندگی ماضی کے جھروکوں میں کچھ مناظر تازے کرتی رہی ان چند لمحوں کے لیے زندگی کی ساعتیں تھم سی گئیں ۔خلیل بھائی نے بھی کچھ صوتی نمونے اپنے موبائل سے پیش کیے اور یوں یہ نشست ، بلکہ نشست و برخاست کا سلسلہ جو ناشتے ، چائے اور پہاڑی کے سیشنز پر مشتمل تھا فہیم بھائی کے اشارے پر سمٹنے لگا۔

اس موقع پر نقیبی بھائی اور محمد احمد بھائی کی بہت کمی محسوس کی گئی لیکن وہ اس صبح میں ممکن نہ ہو سکی ۔ بہر حال فہیم بھائی کی سادگی اور اپنائیت بھری باتوں ، عمر بھائی کی شرمیلی اور منکسر المزاج طبیعت ،خلیل بھائی کی متین تخلیقیت اور مابدولت کی سادہ دل اور دوستانہ قربت کو عزیزم سید عمران بھائی نے جن قائدانہ صلاحیت اور یارانہ جانفشانی کے ساتھ میری عزت افزائی اور محبت میں جمع کیا اس کا کما حقہٗ شکریہ ادا کرنا اگرچہ میری بساط کی حدوں سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن میری کوشش رہی کہ اپنے خلوص کا کچھ عکس الفاظ میں رکھ کر آپ تک پہنچا سکوں ۔ بہر حال تمام محفلین سے امید قبولیت اور دعاؤں کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔ یہ سب اپنائیت اور دوستانہ یگانگت دیکھ کر دل بہت باغ باغ ہوا مولیٰ تعالیٰ سب محفلین کو ان کے امور میں بہ سہولت کامیاب کرے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ملک خداداد کے بسنے والوں میں بھی ایسی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور ہم امن ، سلامتی اور فلاح کے ساتھ زندگی کا سفر کریں اور خدا کے حضور قلوبِ منیب لے کر مقبول ہوں ۔
خیر اندیش ۔
ماشاءاللہ!
بہت خوبصورت اندازِ نگارش!
 
صد شکر مالک الملک کا کہ جس ہجو کی زد میں ہماری ذات ِنکوہش صفات اتنی زور و شور سے آئی تھی اب اس کی تلافی میں ایک غلو آمیز قصیدہ لکھ کر ہمیں بالآخر با عزت بری کرنے کا ایک پروانہ ایسی تفصلی دوئداد کی شکل میں لڑی ہذا کی دیوار پر آویزاں کر دیا گیا ہے کہ ہم پھر سے کچھ سامنے آنے کے لائق ہو گئے ۔ یہ البتہ خدا جانے کہ ہجو اور قصیدے کی ہر دو کیفیات میں بین السطور دروغِ مصلحت آمیز کا کتنا کردار ہے ۔اس کا فیصلہ محفلینِ معصومین کے نیک گمان پر چھوڑنا بہتر معلوم ہوتا ہے ۔

یہ کہنا البتہ انتہائی ضروری ہے کہ اس بہانے زندگی کے بہترین لمحات کو اپنی یادوں میں قید کرنے کا موقع ہاتھ لگا اور حاضر ہونے والے محفلین کو بالمشافہ ملاقات میں دیکھنے کی سعادت سے پیاسے نیناں خوب سیراب ہوئے ۔ اس سے قبل کراچی۔اسلام آباد، لاہور۔دلی اور امریکہ وغیرہ کی محافل کی داستانیں ہم تک ضرور پہنچتی تھیں اور دل میں کچوکے بھی دیتی تھیں ۔ اس مرتبہ نصیب نے یارآوری کی اور امیدیں بر آئیں ۔

اس ملاقات میں اگرچہ ڈاکٹر فاخر صاحب اور ان کے بلاواسطہ دوست انجینئر صاحب نے ناشتے (جس کی حوصلہ افزائی اپنے فہیم بھائی کافی وضاحت کے ساتھ کرچکے ہیں ) کے بعد جلد رخصت ہو کر اپنی راہ لی تاہم محفلی عقلمندوں کے لیے اپنے زیادہ مصروف ہونے کا اشارہ دے گئے ۔ بس پھر کیا تھا یہ اشارہ پا کر بقیہ محفلین گویا اپنے کم مشغول ہونے کو کیش کرانے پر ذرا اور کمر کس کر آمادہ ہو گئے ۔ہم تو تھے ہی دیار غیر سے وقتی رخصت پر فارغ ، سو کشادہ دلی سے یہ جیسچر بھانپتے ہی قبول کیا ۔ اسی آمادگی نے غالباََ فہیم بھائی کے دل میں قرب و جوار کی کسی پہاڑی کا راستہ القا کیا اور نہ صرف راستہ رکھایا بلکہ اس پہاڑی پر چڑھا کر ہی دم لیا ۔ ذرا آگے کنارے تک قدم اٹھائے تو شہر کا وہ منظر دیکھا کہ اپنے ائیر فورس کے ترانے میں تحریف کرنے کو بلا اختیار جی چاہا اور شاعر
مشرق کے کلام کا احترام کر نے کی ذرا پروا نہ کی ۔

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
"شہر"است کہ "بحر" ست تہِ بالِ "محفل" است

اصل شعر یوں ہے کہ

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست
صحراست کہ دریاست تہِ بال و پر ماست
میں شاہین ہوں مجھے زمین کی پستیوں سے کیا کام ۔ یہ زمیں پر صحرا و دریا کے خشک و تر سب میرے پروں کے نیچے رہتے ہیں ۔

یہ کہنے میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ اگر چہ بحر تو نظر یاب نہ تھا لیکن انسٹینٹ تحریف میں یہی ممکن ہو سکا۔

اس خوشگوار موسم میں اور شہر قائد کے شور و شغب اور اس کی مہیب مصروفیتوں کے آشوب سے پناہ لیے محفلین کی یہ جماعت جب اس پہاڑی کی بظاہر بیاباں نما چوٹی پر پہنچی کہ جس کا حال اس کے مستقبل قریب کے کسی خوبصورت اور آراستہ و پیراستہ باغیچہ میں ڈھلنے کے توانا خوابوں کے نقوش ظاہر کر رہا تھا تو پھر اردو محفل نے مابدولت کی بدولت یکا یک اپنا وہ رنگ جمایا کہ جسے دیکھ کر تو گویا "ستاروں سے اور بہاروں سے پہاڑی کا ویرانہ سج گیا" اور ایسے میں بہ زبانِ حال اور بحالِ ترنم کراچی کی۔انتیس دسمبر دو ہزار انیس کے اتوار ۔کی یاد گار صبح ، اپنے ما بدولت ،یعنی اپنے امین صدیق بھائی کے کوٹ کی جیب سے ایک پوشیدہ فل فلیجڈ مِنی سٹوڈیو منصہء شہود پر ظاہر ہوا اور اسی اسٹوڈیو کے سر تال کے سنگ اس صبح کی خاموشی ما بدولت کے ساتھ ہم آواز ہو کر وہ نغمہ گنگنا اٹھی کہ جسے "ایّاں یو یو" کے اشارے کے بغیر لفظوں کی قید میں لانا یا تو اعجاز ِبیان ہو یا پھر محال ِمحض ہو۔

ما بدولت کے گلے سے جب تک سروں کی لہریں صنعتی زندگی کے شور و غل سے دور ، واجبات ِروزگار کے اعمال و تعب سے گریزاں، فضا کی پہنائیوں میں بکھرتی رہیں تو گویا زندگی ماضی کے جھروکوں میں کچھ مناظر تازے کرتی رہی ان چند لمحوں کے لیے زندگی کی ساعتیں تھم سی گئیں ۔خلیل بھائی نے بھی کچھ صوتی نمونے اپنے موبائل سے پیش کیے اور یوں یہ نشست ، بلکہ نشست و برخاست کا سلسلہ جو ناشتے ، چائے اور پہاڑی کے سیشنز پر مشتمل تھا فہیم بھائی کے اشارے پر سمٹنے لگا۔

اس موقع پر نقیبی بھائی اور محمد احمد بھائی کی بہت کمی محسوس کی گئی لیکن وہ اس صبح میں ممکن نہ ہو سکی ۔ بہر حال فہیم بھائی کی سادگی اور اپنائیت بھری باتوں ، عمر بھائی کی شرمیلی اور منکسر المزاج طبیعت ،خلیل بھائی کی متین تخلیقیت اور مابدولت کی سادہ دل اور دوستانہ قربت کو عزیزم سید عمران بھائی نے جن قائدانہ صلاحیت اور یارانہ جانفشانی کے ساتھ میری عزت افزائی اور محبت میں جمع کیا اس کا کما حقہٗ شکریہ ادا کرنا اگرچہ میری بساط کی حدوں سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن میری کوشش رہی کہ اپنے خلوص کا کچھ عکس الفاظ میں رکھ کر آپ تک پہنچا سکوں ۔ بہر حال تمام محفلین سے امید قبولیت اور دعاؤں کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔ یہ سب اپنائیت اور دوستانہ یگانگت دیکھ کر دل بہت باغ باغ ہوا مولیٰ تعالیٰ سب محفلین کو ان کے امور میں بہ سہولت کامیاب کرے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ملک خداداد کے بسنے والوں میں بھی ایسی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور ہم امن ، سلامتی اور فلاح کے ساتھ زندگی کا سفر کریں اور خدا کے حضور قلوبِ منیب لے کر مقبول ہوں ۔
خیر اندیش ۔
بہت خوب عاطف بھائی۔ اسی طرح اپنے قلم کی جولانیاں دکھاتے رہا کریں۔
 

سید عمران

محفلین

عدنان عمر

محفلین
خدانخواستہ یہ وہ کل تو نہیں جو کبھی نہیں آتا؟؟؟
:thinking: :thinking: :thinking: :thinking: :thinking:
ان شاءاللہ یہ کل جلد ہی آئے گی۔ کل ارادہ تھا کہ کمپیوٹر کھول کر اس حوالے سے کچھ تحریر کیا جائے لیکن ٹائم نہیں مل سکا۔ موبائل میں ٹائپنگ اسپیڈ بہت کم ہوتی ہے۔ کوشش کروں گا کہ جلد ہی کچھ پیش کر سکوں۔:)
 
Top