صاحبانِ گرامی!
اسمائے اشیاء کے ترجمے میں ہمیں چند باتیں ذہن میں رکھنی ہوں گی۔
اول ۔ ترجمہ اصل سے بھی مشکل تر ہو جائے تو اس کا مقصد ہی نہ رہا۔
دوم۔ جو اصل معروف سے بھی بڑھ کر مانوس ہو چکے ہیں، ان کا ترجمہ بدیہی طور پر لازمی نہیں رہا، ترجیحی طور پر ہو جائے تو اچھا ہے۔
سوم۔ کسی شے کے نام کے ترجمے میں اس کے جملہ خواص کو احاطہ کر سکنے والی بات ناقابلَ عمل ہے ، نمایاں وصف بیان ہو جائے بہت ہے۔ جہاں وضاحت ضروری ہو، ترکیب سے کام لیا جا سکتا ہے۔
چہارم۔ ہم نے پتہ نہیں کیوں ترجمے میں کا، کے ، کی، والا، وغیرہ کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے، جب کہ زیرِ اضافت و توصیف بھی تو یہی کام کرتی ہے۔ ہم شاید اپنی زبان کے بارے میں احساسَ کمتری کا شکار ہیں؟ اس احساس کو جھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔
پنجم۔ کسی بھی مقامی زبان کا کوئی لفظ اگر فٹ بیٹھتا ہے تو اس کو لے لینے میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جانی چاہئے۔
ششم۔ تصغیر و تکبیر، تذکیر و تانیث وغیرہ کے معروف طریقوں کو اعتبار دیا جانا چاہئے۔
ہفتم۔ زبان و بیان کے قواعد کی مکمل ادبی صحت کا التزام عوامی زبان میں شاید ہر سطح پر ممکن نہ ہو۔ ادب والی جمالیات کو اس معاملے میں لازم قرار نہ دیا جائے۔
ہشتم۔ مزید کچھ ذہن میں آ گیا تو عرض کر دوں گا۔
احباب کا میری ان گزارشات سے متفق ہونا اگرچہ ضروری نہیں تاہم مطلوب ضرور ہے۔ بہت آداب۔