امجد علی راجا
محفلین
ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا
خود ستم ڈھا کے مرا نام ستمگر رکھنا
سرخ آنکھوں میں رہے اشک تری یادوں کے
کتنا مشکل ہے شراروں میں سمندر رکھنا
سیج پھولوں کی ہے گلشن ہے نہ خوشبو کوئی
عشق صحرا ہے قدم سوچ سمجھ کر رکھنا
پہلے تجدید وفا کا کوئی امکان تو تھا
اب تو عادت سی ہے دن رات کھلا در رکھنا
آج رستے میں مرے پھول بچھانے والے
یاد ہے مجھ کو ترا ہاتھ میں پتھر رکھنا
رشک سے یاد فرشتے بھی ہیں کرتے اب تک
بے خودی میں وہ ترے در پہ مرا سر رکھنا
کیا خبر پھر سے کہیں لوٹ نہ آئے راجا
اے مرے اہل ستم ہاتھ میں پتھر رکھنا
افلاطون الشفاء الف عین الف نظامی امجد میانداد امر شہزاد باباجی ذوالقرنین شمشاد شوکت پرویز شہزاد احمد شیزان عمراعظم عینی شاہ محسن وقار علی سید زبیر محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد حفیظ الرحمٰن محمد وارث محمد یعقوب آسی محمد احمد مقدس مہ جبین نیرنگ خیال نیلم کاشف عمران یوسف-2