ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا

ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا
خود ستم ڈھا کے مرا نام ستمگر رکھنا
سرخ آنکھوں میں رہے اشک تری یادوں کے
کتنا مشکل ہے شراروں میں سمندر رکھنا
سیج پھولوں کی ہے گلشن ہے نہ خوشبو کوئی
عشق صحرا ہے قدم سوچ سمجھ کر رکھنا
پہلے تجدید وفا کا کوئی امکان تو تھا
اب تو عادت سی ہے دن رات کھلا در رکھنا
آج رستے میں مرے پھول بچھانے والے
یاد ہے مجھ کو ترا ہاتھ میں پتھر رکھنا
رشک سے یاد فرشتے بھی ہیں کرتے اب تک
بے خودی میں وہ ترے در پہ مرا سر رکھنا
کیا خبر پھر سے کہیں لوٹ نہ آئے راجا
اے مرے اہل ستم ہاتھ میں پتھر رکھنا
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت خوب راجا صاحب۔ آپ کا فن روز بروز بلندی کی طرف مائل ہے۔ آسمان خیر منائے!
 

یوسف-2

محفلین
پہلے تجدید وفا کا کوئی امکان تو تھا
اب تو عادت سی ہے دن رات کھلا در رکھنا
واہ کیا بات ہے جناب۔ بہت عمدہ
 

باباجی

محفلین
واہ بہت خوب راجا صاحب کیا ہی خوب کلام ہے
ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا
خود ستم ڈھا کے مرا نام ستمگر رکھنا
رشک سے یاد فرشتے بھی ہیں کرتے اب تک
بے خودی میں وہ ترے در پہ مرا سر رکھنا
 
لاجواب
رشک سے یاد فرشتے بھی ہیں کرتے اب تک
بے خودی میں وہ ترے در پہ مرا سر رکھنا
شکریہ سید زبیر صاحب، اور یہ حقیقت ہے کبھی کبھی انسان سے ایسا سجدہ ادا ہو جاتا ہے کہ پوری کائنات کے لئے رشک کا باعث ہوتا ہے۔ اور اس وقت کی کیفیت ناقابلِ بیان ہوتی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو ایسا سجدہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
آج رستے میں مرے پھول بچھانے والے
یاد ہے مجھ کو ترا ہاتھ میں پتھر رکھنا

واہ واہ بہت ہی خوب امجد علی راجا
زندگی انسان کو بہت کچھ دکھاتی ہے، جسے دیکھ کر انسان بہت کچھ سیکھتا بھی ہے، لیکن وہ نظارہ اتنا اذیت ناک ہوتا ہے کہ بسسسسسسس۔ لیکن کیا کیجئے زندگی کا تو کام ہی سکھانا ہے :)
 
واہ بہت خوب راجا صاحب کیا ہی خوب کلام ہے
ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا
خود ستم ڈھا کے مرا نام ستمگر رکھنا
رشک سے یاد فرشتے بھی ہیں کرتے اب تک
بے خودی میں وہ ترے در پہ مرا سر رکھنا
آداب بابا جی۔
 
آپ کی شاعری کا سنجیدہ پہلو مجھے بہتر محسوس ہوا۔

زیرِ نظر غزل میں کچھ گنجائشیں ضرور موجود ہیں، تاہم عمدہ کوشش ہے۔
کچھ گزارشات پیش کروں گا، بارِ دگر دیکھ لوں۔
 
ان کی عادت ہے شرارے مرے دل پر رکھنا
خود ستم ڈھا کے مرا نام ستمگر رکھنا
شرارے رکھے نہیں جاتے، پھینکے یا اچھالے جا سکتے ہیں۔ ہاں کوئی آپ کے دل پر انگارے ضرور رکھ سکتا ہے۔ دوسرا مصرع بہت اچھا ہے۔

سرخ آنکھوں میں رہے اشک تری یادوں کے
کتنا مشکل ہے شراروں میں سمندر رکھنا
شعر اچھا ہے، اس کی جگہ بدل دیجئے۔ شرارے کا یکے بعد دیگرے متواتر دو شعروں میں آنا گرانی پیدا کر سکتا ہے۔

سیج پھولوں کی ہے گلشن ہے نہ خوشبو کوئی
عشق صحرا ہے قدم سوچ سمجھ کر رکھنا
مفہوم واضح ہے تاہم محسوس ہوتا ہے جیسے بیان میں کچھ کچا پن رہ گیا ہو۔ پہلا مصرع بہتر کیجئے، عمدہ شعر بنے گا۔

پہلے تجدید وفا کا کوئی امکان تو تھا
اب تو عادت سی ہے دن رات کھلا در رکھنا
دونوں مصرعوں میں رابطہ کمزور ہے۔ در کھلا رکھنا تجدیدِ وفا کے امکان کی امید ہی تو ہے، جب کہ شعر کا تقاضا اس امید کی نفی ہے۔ تجدیدِوفا مناسب ترکیب ہے یا تجدیدِعہدِوفا؟ یہ آپ پر موقوف ہے۔

آج رستے میں مرے پھول بچھانے والے
یاد ہے مجھ کو ترا ہاتھ میں پتھر رکھنا
اچھا شعر ہے، اگرچہ مضمون نیا نہیں۔

رشک سے یاد فرشتے بھی ہیں کرتے اب تک
بے خودی میں وہ ترے در پہ مرا سر رکھنا
اچھا ہے۔ پہلے مصرعے کو چست بنانے کی کوشش کر دیکھئے۔

کیا خبر پھر سے کہیں لوٹ نہ آئے راجا
اے مرے اہل ستم ہاتھ میں پتھر رکھنا
’’کیا خبر‘‘ اس میں کسی بات کے ہو گزرنے کا شائبہ زیادہ ہوتا ہے، نہ ہونے کی نسبت مثلاً ’’لوٹ ہی آئے راجا‘‘؟


فیصلہ بہر حال آپ کا مؤثر ہو گا۔ جو کچھ محسوس کیا، بلا تأمل عرض کر دیا۔
دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
Top