میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے ہر گروہ میں جو عمل یعنی فتنہ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، وہ ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ باقی ہجوم صرف منہ پر کالک ملنے کو ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔
یہ ہے جذبات سے اٹھ کر سوچنا لیکن معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا آپ کی ابتدائی تحریر پر جذبات کا غلبہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس واقعے کو دیکھ کر کسی بھی حساس طبیعت رکھنے والے کا دل خون ہو گا لیکن ان کا تدارک کرنے کے لیے اصل محرکات کو بہر صورت بغور دیکھنا پڑے گا۔
معاشروں میں بگاڑ کیوں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی اصلاح کیونکر ممکن ہے۔ آپ نے آیت مبارکہ سے جو نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے (معذرت کے ساتھ) اس میں آپ نے خطا کھائی ہے۔ اگر اللّٰہ پاک نے قرآن کی حفاظت اس انداز میں کرنی ہے کہ براہ راست آسمان سے فرشتے اتار رکھے ہیں تو یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اس بھاری ذمہ داری کو انسانوں کے ذریعے ہی پورا کیا جائے گا، ہاں اس کے اسباب انسانوں کو ضرور مہیا کیے جائیں گے۔
نبی کریم ﷺ سے بھی نبوت کی تبلیغ خالصتاً ایک انسان کے لیول پر کرائی گئی۔ کسی کاز کو پورا کرنے کے لیے سب مدارج طے کرائے گئے۔ اگر سب اللّٰه پاک نے براہ راست ہی کرنا تھا تو بیچ میں انبیاء کرام علیہم السلام کا واسطہ کیوں ڈالا گیا۔
اور قرآن کی حفاظت کے متعلق نبوت و رسالت کے پہلے مخاطبین کا ہی رویہ دیکھ لیجیے اگر قرآن کی حفاظت انسانوں کے ذمے نہ ہوتی تو قرآن اس حالت میں ہم تک کبھی پہنچتا ہی نہیں، نہ یہ ترتیب ہوتی اور نہ ہی کوئی کتاب، سب اس کا ذمہ اللّٰه پاک پر ڈال کر اپنا پلا جھاڑ لیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔