گل زیب انجم
محفلین
کاش ہم سے بھی بابت عید کسی نے پوچھا ہوتا۔یہ مطلوبہ کا لفظ آپ نے خود بیچ میں شامل کر دیا میں نے تو مطلوبہ کی بات ہی نہیں کی تھی
آپ نے عید کا نہیں بتایا
کاش ہم سے بھی بابت عید کسی نے پوچھا ہوتا۔یہ مطلوبہ کا لفظ آپ نے خود بیچ میں شامل کر دیا میں نے تو مطلوبہ کی بات ہی نہیں کی تھی
آپ نے عید کا نہیں بتایا
کاش ہم سے بھی بابت عید کسی نے پوچھا ہوتا۔
او عظیم صاحب تُسی !کیسی گزری عید ؟
ّعظیم صاحب تعارف کے لیے گزارش کی تھی! کی خیال اے تہاڈا ۔او عظیم صاحب تُسی !
بھول چکا تھا کب سے مسکرانا کوئی
حالت سے لگ رہا تھا دیوانہ کوئی
بھیگ رہا تھا جن سے اُس کا دامن
اُن آنسوؤں کو کہہ رہا تھا نذرانہ کوئی۔
آپ کو عید مبارک ہو۔
آپ کے سابقہ مراسلوں سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آپ صرف ان علماء کی بات کو مانتے ہیں جو آپ کے مسلک سے ہیںیہ مطلوبہ کا لفظ آپ نے خود بیچ میں شامل کر دیا میں نے تو مطلوبہ کی بات ہی نہیں کی تھی
آپ نے عید کا نہیں بتایا
ایک بادشاہ اگر امورِ مملکت کو وقت دیتا ہو تو کیا اس کے پاس اتنا وقت باقی بچتا ہے کہ وہ ٹوپیاں سی کر اپنے اہل و عیال کی کفالت کر سکے؟ جبکہ فروخت بھی اسی نے خود کرنی ہوتی ہیں؟ ایک عام ٹوپی فروش دن میں کتنی ٹوپیاں سی کر بیچ سکتا ہے؟سر ۔اُس کی ٹوپیوں والی بات کے متعلق آپکی اور زیک بھائی کی کیا راےء ہے۔پلیز اس پر کچھ روشنی ہو جاےء ۔
آپ اس کو کیا نام دیں گے؟ خلفاء کے چنے جانے کا ایک عمل ہوتا ہے۔ حکمران ولد حکمران ولد حکمران کو آپ اور کیا نام دینا پسند کریں گے؟آپ کے درمیان بنا اجازت آنے کی معذرت چاہتے ہوے ٰیہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا بادشاہ کا لفظ اس نے اپنےلیے خود تجویز کی تھا ٰیا ہمارا دیا ہوا لقب تھا؟ اگر ہم اس بات کو لے کر بیٹھ جاہیں کہ بادشاہ کہنا یا لکھنا جرم تھا آج ہم کتنے ایسے جرم کر رہے ہیں جن کی ہمیں خود بھی سمجھ نہیں ٰیعنی ایسے کلمات ہم ادا کر جاتے ہیں جو صرحاّ خلاف معمول ہیں ۔ ہمیشہ یہ ذہہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ تبارک تعالٰی دلوں کہ بھید خوب جانتا ہے۔
میں کن علماء کی بات مانتا ہوں اور کن کا احترام کرتا ہوں یہ تو ایک الگ سے طویل موضوع بن جائے گا مگر آپ نے تو سرے سے ہی علماء کی بات اور سنت میں سے ایک کو چننے کی بات کی تھی۔ اس لئے مطلوبہ یا غیر مطلوبہ علماء سے کوئی فرق نا پڑتاآپ کے سابقہ مراسلوں سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آپ صرف ان علماء کی بات کو مانتے ہیں جو آپ کے مسلک سے ہیں
جناب میں نے غیر ضروری بحث سے بچنے کے لئے عید کے احوال پوچھے ورنہ یہ دھاگہ تو عید کے متعلق نہیں ہے۔کاش ہم سے بھی بابت عید کسی نے پوچھا ہوتا۔
ّعظیم صاحب تعارف کے لیے گزارش کی تھی! کی خیال اے تہاڈا ۔
ایک عظیم الشان سلطنت کا بادشاہ جس کی رعایا کی تعداد کروڑوں میں ہو گی اور وہ ان کی خبر گیری کرنے کی بجائے محل میں بیٹھا ٹوپیاں سی رہا ہے۔۔۔ اس سے بڑھ کر نالائقی اور احمقانہ پن کا کوئی تصور آپ کے ذہن میں ابھرتا ہو تو بتائیےٹوپیاں سی کر اپنے محلات کے خرچے چلاتا تھا.
قصہ گوئی کی نہیں بلکہ ٹوپیاں پہنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔قصہ گوئی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
انہی "ولی اللہ" کے متعلق شاید ابن انشا نے لکھا تھا کہ "نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ ہی کوئی بھائی"۔دو بھائیوں کا قتل اور باپ کو قید زبردست انصاف!
نہ اورنگزیب وہ ولن تھا جو اس کے مخالف پیش کرتے ہیں اور نہ وہ ولی جو اس کے حامی کہتے ہیں
ہدایت کے لئے سب سے بہتر ہے کہ اللہ تعالی کے کلام قرآن حکیم سے رجوع کیا جائے۔
3:138 هَ۔ذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ
یہ قرآن لوگوں کے لئے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے
قرآن حکیم سمجھنے کے لئے آسان ہے۔ اس کی گواہی اللہ تعالی نے سورۃ القمر میں 4 بار دی ہے ۔ لہذا اللہ تعالی کی اس گواہی پر کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ 54:17، 54:22 ، 54:32، 54:40
54:17 وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے
اسلام میں فرد واحد کی حکومت یعنی بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔ اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم باہمی مشورے سے فیصلے کا حکم صادر فرماتا ہے۔ اس کے بعد کسی عالم کی کتاب کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالی کے نظام میں حکومت، حکم سازی، قانون سازی شوری کے باہمی مشورے سے ہوتی ہے۔ دیکھئے سورۃ شوری کی آیت نمبر 38۔
42:38 وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
والسلام
برادر محترم، بہت شکریہ۔جزاک اللہ
انسان کی ارتقاء کی لڑی میں بہت سے محفلین کا یہ گمان ہے کہ قرآن کو سمجھنا مشکل ہے اور ابھی تک کوئی بھی پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔
میں چاہتا تھا کہ ان کے تبصرے کا جواب ان ہی آیت سے دوں ، جو آپ نے میرے لئے آسان بنادیا۔
شکریہ
اللہ تعالی نے قران کریم میں ہی " سنت " (جو کہ " اسوہ حسنہ " کی پیروی کا حامل عمل ہے ۔ )بیان فرما دیا ہے ۔ تاکہ " غوروفکر " کرنے والے " اندھی تقلید "کی بجائے اپنی سوچ وزمانے کے ارتقاء کے ساتھ ان نکات کو سامنے لاتے جائیں جو نکات انسانیت کے فلاحی منشور کی ہر زمانے کی ضروریات کے حساب سے "اساس " میں شامل ہوتے ہیں ۔ قران زندہ کلام ہے اور " غیر متغیر " کی صفت کا حامل ہوتے ہوئے یہ کائنات میں گزرتے ہر زماں کے ساتھ ہم آہنگ رہتے " فلاح انسانی " کے جذبوں کو اپنی آفاقیت اور سچائی کے بیان پر قائم رکھتے مہمیز دیتا ہے ۔برادر محترم، بہت شکریہ۔
قران حکیم سمجھنے کے لئے یقینی طور پر آسان ہے۔ اس کی گواہی خود اللہ تعالی دیتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی درست ہے کہ ہماری اپنی سوچوں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے فرمان قران سے نئے نکات سمجھ میں آتے ہیں۔ جزاک اللہ خیر۔
والسلام
بات صرف والد کے قتل کی نہیں ہےجیسا کہ زیک نے بتایا، اس نے بادشاہت کی خاطر اپنے بھائیوں کا قتل بھی کیا۔ پتہ نہیں ایسے قاتل کو ولی کہا جائے کہ نہیں