حادثہ پرپا ہونے سے پہلے اس کے سد باب پر غور کیا جاتا ہے جب حادثہ وقوع پذیر ہوجائے تو پھر رونے پیٹنے کی بجائے الجھی ہوئی چیزوں کو سلجھانا چاہیئے نہ کہ اسے مزید الجھا دیا جائے۔
بہت سے نظریات حالات و واقعات کیساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں ان کو تضادات نہیں کہا جاتا۔
مسلم لیگ کا تقریباً ہر راہنما پہلے متحدہ ہندوستان کا قائل تھا اور اسی طرح 1945 کے بعد بہت سے گانگرسی راہنماؤں کا نقطہ نظر تبدیل ہوچکا تھا اور وہ نھی اب بٹوارے کی جانب دیکھ رہے تھے اس میں صرف امام الہند آخری روز تک متحدہ ہندوستان کے نظریے پر قائم تھے ان کے علاوہ گاندھی اور نہرو بھی تقسیم کے قائل ہوچکے تھے ۔ مزید معلومات کے لئے ابولکلام کی کتاب آزادئ ہند دیکھی جاسکتی ہے۔
اس بات کی روایت پاکستانی کی مقامی آبادی بڑے فخر سے کہتی ہے کہ جنہوں نے ہماری عزتوں کو پائمال کیا ، ہم نے بھی ان کی عزتوں کو پائمال کیا ۔
اس میں قتل و غارت کا تو طرفین سے ذکر ملتا جو اشتعال کا لازمی جزو تھا مگر عزتوں والی بات مجہول نظر آتی ہے پاکستان کی طرف سے۔ اس میں یہ بات ضرور ہے کہ یہاں کی اشرافیہ نے ضرور آنے والے مسلم مہاجروں کی عزتوں سے ضرور کھیلا تھا جس کی عکاسی بہت سے افسانوں میں ملتی ہے جیسا کہ "یا خدایا" میں مگر اس شہوت پرستی کو اسلام کیساتھ اور نظریہ پاکستان کیساتھ نتھی کرنا درست نہیں۔
اور اقبال کا شعر پکار پکار کر کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے !!!
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔۔۔
اور بہت اشعار ہیں کس کس کو نقل کیا جائے لیکن یہ اقبال کی فکر کے ساتھ مذاق ہے کہ پاکستان کو ان کا خواب کہا جائے
باقی تمام باتوں پر عارف کریم بھائی سے متفق ہوں
اقبال کا یہ شعر جھوٹ کہ رہا ہے ۔میں بھی یہی کہتی ہوں ۔ مگر کیا وجہ ہے ایک نہرو رپورٹ کے بعد، چودہ نکات کے بعد ، اقبال نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے اس کی سرحدیں بھی تجویز کیں ۔ اقبال کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے ۔ ان کی فکر مستحکم ان کی '' خودی '' کے فلسفہ سے ہوئی ۔۔۔مگر اس فلسفے سے معاشرے پر کیا اچھا اثر پڑا؟ کیا ہم ترقی کر گئے ؟ کیا زوال عروج میں بدل گیا؟ یا سر سید کی اصلاحات زیادہ اہم تھیں ، جن کی فکر مستحکم بھی تھی ۔ کبھی دو باتیں نہیں کہیں تھیں مگر ان کو آج یاد نہیں کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر سید نے کب پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ؟ الٹا ان کی سوچ پر دھاوا بول دیا گیا ۔
محظ ایک شعر کی بنیاد پر تضادات کا مجموعہ نہیں کہا جاسکتا۔
یہ شعر باقاعدہ تاریخی تناظر میں کہا گیا تھا۔ یہ شعر بانگ درا کی نظم وطنیت سے ہے جو عین اس زمانے میں لکھی گئی جب ترکوں کو جنگ عظیم اول میں شکست ہورہی تھی مغربی قوتیں سلطنت کے بٹوارے کر رہی تھیں اور اس کے لئے باقاعدہ قومیت کا نعرہ بلند کیا گیا اور اس میں شریف مکہ کا نام دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر اس تناظر میں آپ دیکھیں تو یہ پوری نظم ایک حقیقت نظر آئے گی۔
اب ہند کے حالات ایسا رخ اختیار کر چکے تھے کہ ایک طبقہ باقاعدہ اس چیز کا حامی ہوا کہ تقسیم ہی بہترین حل ہے اور یہی نعرو مقبول عوام ہوا لوگوں نے ووٹ دئے مسلم لیگ کو حالانکہ اس سے پہلے یونینسٹ اور مجلس احرار پنجاپ اور مسلمانوں میں مسلم لیگ میں زیادہ مقبول تھیں۔
اقبال کے شکوہ سے منقولات سے خودی کا سفر مسلمانوں کے لیے زادہ سفر اور رہنما ہے ؟
اب یہ کہ اقبال کو کیوں کر مشرق کا شاعر قرار دیا گیا اب یہ تو اقبالیات کے ماہر ہی فیصلہ صادر کرسکتے ہیں کہ اقبال میں آفاقیت ہے یہ نہیں میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہتا۔
مگر ایک بات ضرور ہے کہ فلسفہ میں وحدت الوجود کے صدیوں کے جمود کے بعد فلسفہ خودی پیدا ہوتا ہے جسے وحدت الوجود کا بہتر متبادل کہا جاسکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سائنس کی اچانک ترقی نے بہت سے علوم و معارف سے انسان کو بے نیاز کر دیا اور فلسفہ خودی پر مزید محققین کی قلم نہ رواں ہو سکی۔
یہ ایک طویل بحث کی متقاضی چیز ہے۔ دو قومی نظریہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت فیل نہیں ہوا تھا، بلکہ 1952 یا اس سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا، جب سرحدوں کو مزید مہاجرین کے لئے بند کر دیا گیا۔ یعنی ان کو یہ پیغام دیا گیا کہ اب یہ ملک مسلمانوں کا نہیں، بلکہ پاکستانیوں کا ہے۔
ویسے ہندوستانی مسلمانوں کا الگ الگ ملکوں میں بٹوارا ہونا بھی کچھ ایسا غلط نہیں تھا۔ شاید ابتدا میں سوچا بھی ایسا ہی گیا تھا۔ میں نے چوہدری رحمت علی کے مضمون کا ایک حصہ پڑھا تھا۔ اس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کے نام سے کنفیڈریشن کا تصور تھا شاید۔ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ قصہ ہے کہ چوہدری رحمت علی پاکستان کے قیام کے کچھ ہی بعد یہاں سے روتے پیٹتے کہیں چلے گئے، کہ سوچا کیا تھا اور بن کیا گیا۔
اب یہ بات درست ہے کہ جس طرح تقسیم چاہی گئی تھی ویسی تقسیم نہ ہو سکی، جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور محمد علی جناح کے بلکل سخت مؤقف نے بھی بہت سی راہیں مسدود کیں ۔ اس پر ابوالکلام کا بھی مشورہ ملتا ہے جو مسلم لیگ کو دیا گیا جب تقسیم کی صورت حال مستقل نظر آرہی تھی کہ آدھا بنگال اور آدھا پنجاب لیکر کیا کرو گے اگر لینا ہے تو پورے پنجاب کا مطالبہ کرو پھر مگر افسوس کہ جذباتیات کا مظاہرہ کیا گیا اور متحدہ کا نعرہ لگانے والوں کی ہر ممکن تضحیک اور تکفیر کی گئی۔
اب 1952 میں روکے جانا کو اس وقت کے انتظامی مشکلات کے پیش نظر دیکھنا چاہیئے نہ کہ اسے دوقومی نظریہ کی ناکامی سے منسوب۔
اب یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ 1000 میل کی مسافت پر دو مختلف خطے، دو مختلف زبانوں والے لوگ، صرف ایک چیز پر اکھٹے رو سکتے ہیں اگر ان دینی وحدت ہو اور یہ صرف دوقومی نظریے کی بدولت تھا ایسی مثال کسی اور خطے سے نہیں دی جاسکتی۔ مگر جب نااہل اور آمر غیر بوٹوں والے ،بوٹوں والے یا بوٹوں نے نکلنے والے عنان حکومت پر قابض ہوئے تو ملک بٹوارے کی طرف گامزن ہوا۔ اس کی وجہ پھر تقسیم ہند نہ تھی بلکہ قحط الرجال تھی جس کو کتاب "آواز دوست" میں پڑھا جاسکتاہے۔
اب ہم بجائے اپنے آپ کو کوسنے اور تحریک آزادی کے راہنماؤں پر ملامت کی بجائے تعمیری جوش و جذبے کی طرف بڑھنا چاہیئے جیسا کہ امام الہند نہ آزادی کے بعد کہا تھا ہم نہیں چاہتے تھے کہ تقسیم ہو مگر اب کہ جب پاکستان بن چکا ہے اب اسے قائم رہنا چاہئے اور اس کی بنیادوں کو مظبوط کرنا چاہئے کیونکہ سارے عالم کی نظریں اس پر ہیں۔ اب ہمیں ہمت اور حوصلے کیساتھ ملکی ترقی اور اس میں وحدت و یگانگت کے لئے ہر ممکن کام کرنا چاہئے اور اس میں سید عطاءاللہ شاہ بخاری صدر مجلس احرار کے کردار کو نمونہ بنانا چاہئے جو انہوں نے تقسیم کے بعد پیش کیا ۔ انہوں نے کہا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہم تقسیم کے مخالف تھے اور ہم دیانتداری کیساتھ مخالفت کر رہے تھے لیکن ہماری سوچ کے حق میں آپ لوگوں نے فیصلہ نہیں دیا بلکہ مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ کیا۔ اب ہم آپ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ملکی رضاکار بن کر اس ملک کی ترقی و مظبوطی میں کردار ادا کریں گئے اور باقاعدہ یہ بھی کیا گیا کہ مسلم لیگ کی مخالفت نہیں کریں گے اور پھر باقاعدہ سیاست سے بھی دستبردار ہوئی احرار صرف اسی لئے کہ مسلم لیگ کو چلنے دیا جائے۔