نیلم
محفلین
سیدنا سہیل بن عمرو العامری اپنی زوجہ محترمہ کے ہمراہ ایک مرتبہ سفر پر تھے کہ دوران سفر کچھ ڈاکوؤں نے ان کو آگھیرا۔۔۔ جو کچھ بھی مال واشیاء خوردنی ہمراہ تھیں چھین لیں۔
اب ڈاکو ایک طرف بیٹھ کر جو کچھ ان کے ہاتھ کھانے پینے کی چیزیں لگی تھیں کھانے لگ پڑے۔۔۔ ناگہاں سیدنا سہیل بن عمرو نے دیکھا کہ ڈاکوؤں کا سرغنہ کھانے پینے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شامل نہیں۔
تو انہوں نے اس سردار سے دریافت کیا: ’’تم ان کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟‘‘
سردار: میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔
سیدنا سہیل کو بہت شاک گزرا کہ ایک ڈاکو روزے سے ہے؟؟؟ اس کو کہنے لگے: ایک طرف تم چوری کرتے ہو اور دوسری طرف روزہ رکھتے ہو؟؟؟!!
سردار بولا: میں نے اپنے اور اللہ کے درمیان ایک ایسا دروازہ رکھ دیا ہے کہ شاید میں اپنی زندگی میں کبھی اس دروازے سے گزر کر اپنے رب کے قریب ہو جاؤں۔
اس کے ایک یا دو سال بعد سیدنا سہیل نے اس سردار کو حج کےدوران اس حالت میں دیکھا کہ وہ کعبۃ اللہ کے پردوں سے چپکا ہوا التجائیں کر رہا تھا۔
اب کے وہ بدل چکا تھا،،، زہد وتقویٰ اور عبادت کا متوالا تھا۔ ڈاکو نہ رہا تھا
سیدنا سہیل نے اس کو دیکھا اور پہچان لیا تو فرمایا: ’’میں جان گیا ہوں کہ جس نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایک ایسا رستہ چھوڑا جس میں سے کسی وقت وہ داخل ہو کر اپنے رب سے قریب ہو جائے،،، وہ یقیناً اس میں سے کبھی ضرور داخل ہو گا۔
ہمیں بھی بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونے کو یاد رکھنا چاہیے اور اپنے گناہوں میں اتنا نہیں ڈوب جانا چاہیے کہ اللہ کی طرف جانے والا ہر رستہ بند ہو جائے اور ہم پچھتانے کے علاوہ کچھ نہ کر پائیں.
اب ڈاکو ایک طرف بیٹھ کر جو کچھ ان کے ہاتھ کھانے پینے کی چیزیں لگی تھیں کھانے لگ پڑے۔۔۔ ناگہاں سیدنا سہیل بن عمرو نے دیکھا کہ ڈاکوؤں کا سرغنہ کھانے پینے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شامل نہیں۔
تو انہوں نے اس سردار سے دریافت کیا: ’’تم ان کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟‘‘
سردار: میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔
سیدنا سہیل کو بہت شاک گزرا کہ ایک ڈاکو روزے سے ہے؟؟؟ اس کو کہنے لگے: ایک طرف تم چوری کرتے ہو اور دوسری طرف روزہ رکھتے ہو؟؟؟!!
سردار بولا: میں نے اپنے اور اللہ کے درمیان ایک ایسا دروازہ رکھ دیا ہے کہ شاید میں اپنی زندگی میں کبھی اس دروازے سے گزر کر اپنے رب کے قریب ہو جاؤں۔
اس کے ایک یا دو سال بعد سیدنا سہیل نے اس سردار کو حج کےدوران اس حالت میں دیکھا کہ وہ کعبۃ اللہ کے پردوں سے چپکا ہوا التجائیں کر رہا تھا۔
اب کے وہ بدل چکا تھا،،، زہد وتقویٰ اور عبادت کا متوالا تھا۔ ڈاکو نہ رہا تھا
سیدنا سہیل نے اس کو دیکھا اور پہچان لیا تو فرمایا: ’’میں جان گیا ہوں کہ جس نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایک ایسا رستہ چھوڑا جس میں سے کسی وقت وہ داخل ہو کر اپنے رب سے قریب ہو جائے،،، وہ یقیناً اس میں سے کبھی ضرور داخل ہو گا۔
ہمیں بھی بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونے کو یاد رکھنا چاہیے اور اپنے گناہوں میں اتنا نہیں ڈوب جانا چاہیے کہ اللہ کی طرف جانے والا ہر رستہ بند ہو جائے اور ہم پچھتانے کے علاوہ کچھ نہ کر پائیں.