جی سزائے موت والے پر اوپر فرقان صاحب نے لکھ دیا، اپیل کا حق آخری حد تک ہوتا ہے۔
جہاں تک فیصلے کی بات ہے تو ججوں نے اس فیصلے میں قرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے اور کئی ایک علمی و مذہبی نکات پر بات کی ہے، مولویوں کو یہ فیصلہ ضرور پڑھنا چاہیئے۔
اسلامی نکتے سے ہٹ کر، ٹرائل کے قانونی پہلوؤں پر بھی ججوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے گواہان کے بیانات مشکوک اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ اس ساری کہانی میں جھول ہیں اور حقائق کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا گیا ہے اور شک کا فائدہ جو کہ ملزم کو ملنا چاہیئے تھا اور جو ہمیشہ ملزم ہی کو ملتا ہے، اس کیس میں آسیہ بی بی کو نہیں دیا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی چاہے وہ مسلمان ہے یا عیسائی کو اس کیس کی تفصیلات کا علم ہی نہیں۔ اور اب آدھ خاصے معقول لوگوں کہ طرف سے بنے بنائے فارورڈڈ میسج پڑھ کر یہ دل چاہتا ہے کہ چاہے میڈیا یا کسی اور طرح اس کیس کا فیصلے میں دی گئی تمام تفصیلات عوام کے سامنے پہنچائی جائیں تا کہ انھیں یہ علم ہو کہ کب کیا اور کیوں ہوا۔
میں نے بھی فیصلہ پڑھا ہے۔ چیف جسٹس کا حصہ پڑھ لیا ہے اور ابھی جسٹس کھوسہ والے حصے پر ہوں۔ میرے ذہن میں دو ہی باتیں آتی ہیں۔
1۔ بیانات و واقعات میں مطابقت نہ ہونا ایک عام بندے کو بھی واضح دکھائی دے رہا ہے۔
2۔ کیا ہمارے ہاں کوئی ایسا قانون بھی ہے کہ اگر کوئی غلط بیانی کر کے کسی پر اس قدر سنگین الزام لگائے تو اس کے ساتھ کیا کیا جائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر آسیہ بی بی نے ایسا کچھ نہیں کہا تو جن لوگوں نے غلط بیانی کرتے ہوئے جو الزامات لگائے کیا وہ توہین رسالت کے مرتکب نہیں ہوئے؟