سید عاطف علی
لائبریرین
اللہ تعالی اس قوم کی سب آزمائشوں سے نکلنے میں مدد کرے جو اس وقت درپیش ہیں ۔آمین۔
حالانکہ حیرت تو ان پر ہونی چاہیئے جو کلمہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھتے ہیں لیکن ایمان و عمل میں ان کے شاتمین کے حمایتیوں کو اپنا رہ نما مانتے ہیں۔حیرت تو ان کی سوچ اور ہمت پہ ہوتی ہے جو اپنے ذہن سے یہ نعرے نکال کے ایسے مطمئن ہیں جیسے ۔۔۔۔۔ ۔
لاہور والولاہور بند کرو
اسلام آباد والو اسلام آباد بند کر دو
کراچی والو کراچی بند کردو
بجلی اور گیس کے بل جلا دو
سو بندے اکٹھے ہو جائیں تو جرنیلوں کا ۔۔۔۔۔۔۔
میں نےساری قوم کو ناموس رسالت کا مسئلہ بتایا۔لاٹھی اٹھاؤ، نیزہ اٹھاؤ۔۔جاتی امرا کی طرف مارچ کرو ۔ تقریروں سے یہ نہیں جائیں گے یہ ۔۔
یعنی آپ جنگل کے قانون کے حامی ہیں؟ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس کے خلاف قانونی نظر ثانی اپیل بھی دائر ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب کیسے نکالا کہ اختلاف کی بنیاد پر مذہبی جماعتوں کو فساد کرنےکی کھلی اجازت دے دی جائے؟تم لوگوں نے اپنا کام کر لیا اب ہم اپنا کام کریں گے ان شاء اللہ ۔ باقی رہی بات پاکستان کی تو ناموس رسالت پر ایک چھوڑ ہزار پاکستان قربان ۔چیف جسٹس کیا وزیر اعظم کیا چیف آف آرمی اسٹاف جو کوئی بھی ناموس رسالت کے شاتمین کا حامی ہوگا جہنم میں جائے
ملک میں انصاف کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے چنیدہ کیسز کو ہدف بنا کر جلاؤ گھیراؤ کی سیاست نہیں کی جا سکتی۔ پورے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔جس ملک کا چیف جسٹس اپنے ہاتھوں سے شراب پکڑ کر اسے شراب ثابت نہیں کر سکا وہاں ایسے مقدمات پہ صرف انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے ۔
چیف جسٹس کیا کم ایمان والے ہیں؟ کون کتنا اہل ایمان ہے یہ دین کے ٹھیکے دار طے کریں گے؟حالانکہ حیرت تو ان پر ہونی چاہیئے جو کلمہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھتے ہیں لیکن ایمان و عمل میں ان کے شاتمین کے حمایتیوں کو اپنا رہ نما مانتے ہیں۔
جہاں عدالت نے مدعی کو باہر رکھ کر ایک منٹ میں فیصلہ سنا دیا وہاں قانونی نظر ثانی کی اپیل کرنے کا راستہ اختیار کرنے کے علاوہ اگر جائز احتجاج کو فساد کا نام دیا جاتا ہے تو پھر یوں ہی سہی ۔ اور ناموس رسالت کے لیئے کھڑے ہونے کو اگر آپ جنگل کا قانون کہتے ہیں تو یہ جنگل کا قانون ہمیں منظور ہے۔ ویسے بھی آپ کی عدالت نے جن نقاط کو بہانہ بنا کر فیصلہ سنایا وہ جنگل کا قانون کہلانے کا زیادہ حق دار ہے۔ فساد کی تعریف کیا وہ ہوگی جو آپ کریں گے ۔۔؟؟ ویسے بھی عدالتوں میں جانے کا آپشن آپ لوگ خود محدود کرنے جا رہے ہیںیعنی آپ جنگل کے قانون کے حامی ہیں؟ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس کے خلاف قانونی نظر ثانی اپیل بھی دائر ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب کیسے نکالا کہ اختلاف کی بنیاد پر مذہبی جماعتوں کو فساد کرنےکی کھلی اجازت دے دی جائے؟
سیاسی کیسز میں احتجاج برحق ہے۔ جیسے اگر تحریک انصاف حکومت آئین و قانون میں ختم نبوت یا ناموس رسالت پر مبنی شقوں کے ساتھ ردوبدل کرے تو مذہبی جماعتیں احتجاج کر سکتی ہیں۔ ہاں جیلاؤ گھیراؤ اور ملکی املاک کو نقصان غیرقانونی ہے۔ اور اس کے خلاف ریاستی کاروائی کرنا لازم ہے۔جناب نیازی صاحب بھی اسی طرح سڑکیں بند کرانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ اب ان کا یہ گلہ نہیں بنتا ہے کہ لاک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے! اصولی بات ہے کہ پورے ملک کو بند کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ آپ جیلاؤ گھیراؤ کو جائز احتجاج سمجھتے ہیں یا نہیں۔جائز احتجاج کو فساد کا نام دیا جاتا ہے تو پھر یوں ہی سہی ۔
تو کیا یہ فیصلہ کرنے کا اختیار شرابیوں کبابیوں اور حرام خوروں کو یا قادیانیوں سے کروایا جائے۔۔؟؟؟چیف جسٹس کیا کم ایمان والے ہیں؟ کون کتنا اہل ایمان ہے یہ دین کے ٹھیکے دار طے کریں گے؟
یعنی آپ فیصلہ صادر کرنے والے معزز ججوں کو شرابی، کبابی، حرام خور یا قادیانی سمجھتے ہیں۔تو کیا یہ فیصلہ کرنے کا اختیار شرابیوں کبابیوں اور حرام خوروں کو یا قادیانیوں سے کروایا جائے۔۔؟؟؟
یعنی آپ اپنے الفاظ مجھ سے کہلانا چاہتے ہیں۔۔؟؟یعنی آپ فیصلہ صادر کرنے والے معزز ججوں کو شرابی، کبابی، حرام خور یا قادیانی سمجھتے ہیں۔
سیاسی کیسز میں احتجاج برحق ہے۔
جیلاؤ گھیراؤ اور ملکی املاک کو نقصان غیرقانونی ہے۔ اور اس کے خلاف ریاستی کاروائی کرنا لازم ہے۔
ماضی میں عمران خان یا مولانا رضوی کے احتجاج پر حکومت اپنے فیصلے تبدیل کرنے کی استطاعت رکھتی تھی۔ کیونکہ وہ سیاسی فیصلے تھے۔کوشش یہی کیجیے کہ ایمان داری سے صورت حال کا تجزیہ کیا جائے۔ وہ سب کچھ بھی غلط تھا، پہلے یہ مانیے۔ اس کے بعد موجودہ احتجاج پر اپنے تحفظات ظاہر کیجیے۔
اچھا یعنی دینی رہنماؤں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ بیچ چوراہے میں کھلے عام ملک کے آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیر اعظم کے خلاف زبان درازی کریں۔ انہیں واجب القتل، یہودی، قادیانی قرار دیں۔ اور جب ان کو انہی کی زبان میں فسادی کہا جائے تو "زبان سنبھالنے" کا درس ملے۔آپ کو اگر دینی رہ نماؤں کے خلاف زبان سنبھالنے کی عقل نہیں ہے
سیاسی فیصلوں کو تبدیل کروانے کے لیے بھی سول نافرمانی اور دیگر خرافات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ غلطی کا اعتراف کرنا بہتر رویہ ہے۔ماضی میں عمران خان یا مولانا رضوی کے احتجاج پر حکومت اپنے فیصلے تبدیل کرنے کی استطاعت رکھتی تھی۔ کیونکہ وہ سیاسی فیصلے تھے۔
جبکہ عدالت عظمیٰ کے ساتھ وہی سیاسی کھیل نہیں کھیلا جا سکتا۔ وہاں آئین و قانون کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ تمام شواہد، ثبوت و دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ آسیہ بی بی بے قصور ہے۔ تو مذہبی جماعتوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس فیصلہ کی بنیاد پر فساد فی الارض کرے۔ کل عمران خان کی تقریر کا حاصل بحث بھی یہی تھا کہ جو فیصلہ اعلیٰ عدالت نے کیا ہے۔ اس میں سیاسی حکومت کا کیا قصور ہے؟ یا اس فیصلہ کا آرمی چیف کے مذہب سے کیا جوڑ ہے؟
اچھا یعنی دینی رہنماؤں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ بیچ چوراہے میں کھلے عام ملک کے آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیر اعظم کے خلاف زبان درازی کریں۔ انہیں واجب القتل، یہودی، قادیانی قرار دیں۔ اور جب ان کو انہی کی زبان میں فسادی کہا جائے تو "زبان سنبھالنے" کا درس ملے۔
دلچسپ یہ کہ سارا دن میڈیا کو روک کر آخر میں خان نے خود اس شخص کی طرح بھانڈا دیا جس کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رکتی.تو جناب سارا دن میڈیا پہ پابندی کیوں لگائے رکھی ہے ؟؟ میڈیا کو بھی کہنے دیں کہ فلاں فلاں جرنیلوں کے خلاف بول رہا ہے اور فلاں نے اسکے خلاف قتل کا فتویٰ دیا ہے ؟؟ دنیا کو بھی پتہ چلے کہ کون کون غداری پہ اترا ہوا ہے ۔ انہیں لائیو کوریج کرنے دیں ۔
اب یہ لطیفہ نہ سنا دیجیے گا کہ میڈیا کو کس نے روکا ہے وہ تو میچور پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں خود ہی کوریج نہیں دے رہے ۔