منتظر تیرے سدا عقدہ کُشا رکھتے ہیں
دلِ زندہ کے لئے حق سے وِلا رکھتے ہیں
گُھٹ کے مر جاتے ترا غم جو نہیں ہوتا نصیب
سانس لینے کے لئے تازہ ہوا رکھتے ہیں
لاشِ قاسم پہ یہ شبیر کی حالت دیکھی
جسم کے ٹکڑوں کو گٹھری میں اٹھا رکھتے ہیں
درِ خیمہ پہ کھڑے سوچ رہے ہیں سرور
ماں نے گر پوچھا کہ آغوش میں کیا رکھتے ہیں
وحشتِ دل نہ بڑھے عالمِ تنہائی میں
اس لئے قبر میں ہم خاکِ شفا رکھتے ہیں
فرشِ ماتم جو بچھاتے ہیں تو اس سے پہلے
فاطمہ کے لئے آنکھوں کو بچھا رکھتے ہیں
نوجواں سینے سے برچھی کو نکالا کیسے
ہائے کیا دولتِ تسلیم و رضا رکھتے ہیں
بس یہی اپنا ہے سرمایہ ہستی تسنیم
درمیانِ نفسِ بیم و رجا رکھتے ہیں
تسنیم عابدی