آپ ﷺ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
دل خوب سمجھتا ہے مَحبت کے تقاضے
ہر کسبِ کمال اس کا ہے قربانِ محمد ﷺ

کیا جانیے کس بات پہ دنیا کو گماں ہے
خالؔد بھی ہے منجملہِ خاصانِ محمد ﷺ

عبد العزیز خالد​

 

سیما علی

لائبریرین
منتظر تیرے سدا عقدہ کُشا رکھتے ہیں
دلِ زندہ کے لئے حق سے وِلا رکھتے ہیں

گُھٹ کے مر جاتے ترا غم جو نہیں ہوتا نصیب
سانس لینے کے لئے تازہ ہوا رکھتے ہیں

لاشِ قاسم پہ یہ شبیر کی حالت دیکھی
جسم کے ٹکڑوں کو گٹھری میں اٹھا رکھتے ہیں

درِ خیمہ پہ کھڑے سوچ رہے ہیں سرور
ماں نے گر پوچھا کہ آغوش میں کیا رکھتے ہیں

وحشتِ دل نہ بڑھے عالمِ تنہائی میں
اس لئے قبر میں ہم خاکِ شفا رکھتے ہیں

فرشِ ماتم جو بچھاتے ہیں تو اس سے پہلے
فاطمہ کے لئے آنکھوں کو بچھا رکھتے ہیں

نوجواں سینے سے برچھی کو نکالا کیسے
ہائے کیا دولتِ تسلیم و رضا رکھتے ہیں

بس یہی اپنا ہے سرمایہ ہستی تسنیم
درمیانِ نفسِ بیم و رجا رکھتے ہیں
تسنیم عابدی
 

سیما علی

لائبریرین
شہرطیبہ کے دروبام سے باندھے ہوئے رکھ
میں ہوں جیسامجھے اس نام سے باندھے ہوئے رکھ

میں بھی ہوں اے مرے آقا ترا زندانی عشق
اپنے قید ی کو اسی دام سے باندھے ہوئے رکھ

مری آنکھوں سے برستے ہوئے ان اشکوں کو
دل میں برپا کسی کہرام سے باندھے ہوئے رکھ

یہ چمکتا ہوا سورج مری خواہش میں نہیں
تومجھے اپنی کسی شام سے باندھے ہوئے رکھ

میں نہیں چاہتا آسودہ دنیا ہونا
بس مجھے راحت انجام سے باندھے ہوئے رکھ

قمر رضا شہزاد
 

سیما علی

لائبریرین
"دیکھتے جلوہِ دیدار کو آتے جاتے
گلِ نظارہ کو آنکھوں سے لگاتے جاتے"

"ہر سحر روئے مبارک کی زیارت کرتے
داغِ حرماں دلِ محزوں سے مٹاتے جاتے"

"پائے اقدس سے اٹھاتے نہ کبھی آنکھوں کو
روکنے والے اگر لاکھ ہٹاتے جاتے"

"دشتِ اسرا میں ترے ناقہ کے پیچھے پیچھے
دھجیاں جیب و گریباں کی اڑاتے جاتے"

"سرِ شوریدہ کو گیسو پہ تصدق کرکے
دلِ دیوانہ کو زنجیر پنہاتے جاتے"

"قدمِ پاک کی گر خاک بھی ہاتھ آجاتی
چشمِ مشتاق میں بھر بھر کے لگاتے جاتے"

"خواب میں دولتِ دیدار سے ملتے وہ اگر
بختِ خوابیدہ کو ٹھوکر سے جگاتے جاتے"

"دستِ صیادِ سے جو چھوٹے ہزاروں کی طرح
چمنِ کوچہِ دلبر ہی میں آتے جاتے"

"کافیِ کشتہِ دیدار کو زندہ کرتے
لبِ اعجاز اگر آپ ہلاتے جاتے"
کفایت علی کافی
 

سیما علی

لائبریرین

نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم​

یہی جی میں ہے
تری رحمتوں کے حصار میں ترے آستاں پہ کھڑا رہوں
تری اُونٹنی کے سفر میں جو ‘اُڑی ریت ‘اُڑ کے دھنک بنی

اُسے اپنی آنکھ سے چوم لوں،اُسے اپنی جاں میں اُتار لوں
اُسی محترم سے غبار میں ،ترے راستوں میں پڑا رہوں

یہی جی میں ہے
یہی جی میں ہے ،ترے شہرمیں کبھی ایسے گھوموں گلی گلی
ترانقشِ پا مرے ساتھ ہو

مجھے یوں لگے کہ قدم قدم
ترے ہاتھ میں مراہاتھ ہو!
ترالطف اس کوسکون دے یہ جو سانس سانس ہے بے کلی

مرے خوش نظر،مرے چارہ گر ،مرے رازداں ،مرے مہرباں!
یہ جو چارسو ہے خلا مرے ،یہ جووقت بہتا ہے درمیاں
اسے کھول میرے شعور پر

اسے کھول میرے شعور پرکہ نشاں ملے،یہ نشاں ملے
کہ جو واہموں کے چراغ ہیں یہ جلے ہوئے ہیں کہاں کہاں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی جی میں ہے ترے درپہ میں
کبھی ایسے جاکے صدا کروں!

توپلٹ کے پوچھے جومُدعا
تومیں بے دھڑک ،تجھے مانگ لوں!!
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
پیری کا زمانہ ہے مدینے کا سفر ہے
صد شکر مری شام ہم آغوش سحر ہے

یہ وقت مناجات ہے ہنگام ظفر ہے
آہوں میں تاثیر ہے دعاوں میں اثر ہے

گفتار میں شرینی ہے ، رفتار میں مستی
موضوع سخن سید ذی شان کا نگر ہے

ہر لحظہ ہیں سرکار کی رحمت پہ نگاہیں
ہر لحظہ گنہگار پہ رحمت کی نظر ہے

صبحیں بھی ضیا بار ہیں شامیں بھی صیا بار
کیا نور افشاں سلسلہ شام و سحر ہے

یہ ریت کے ٹیلے ہیں کہ آیات الہی
ذرات کی دنیا ہے کہ جلووں کا نگر ہے

خاموش فضاوں میں ہیں دن رات اذانیں
خاک راہ محبوب ہے اور سجدوں میں سر ہے

مکہ بھی نظر میں ہے مدینہ بھی نظر میں
القصہ محبت کا جہاں زیر و زبر ہے

دیکھا ہے مری روح نے وہ کیف کا عالم
دشوار جہاں حورو ملائک کا گزر ہے

ہر گام ہے اک زندگی تازہ کا پیغام
مٹی میں ہے تاثیر، ہوا میں بھی اثر ہے

ان دونوں مقامات کے آداب جدا ہیں
اک منزل محبوب، اک اللہ کا گھر ہے
مظہر الدین مظہر
 
Top