الف عین
لائبریرین
مہک اٹھے گا گل موج سے سمندر بھی
جو فصل آئی تو مہکیں گے رہ کے پتھر بھی
سزا ملی ہے مجھے اپنے جھوٹ کی شاید
کہ جی رہا ہوں، ابھی تک میں تجھ کو کھو کر بھی
نہ فصل، گل ادھر آئی نہ کشتِ زخم پھلی
نہ سینچ پائی اسے جوئے دیدۂ تر بھی
اب اور رنگ نہیں خوں میں تر سحر کے بعد
لو آج ٹوٹ گیا بازِ شب کا شہ پر بھی
دریچۂ شبِ ہجراں کا فضل ہے یہ عبیدؔ
وہ شعر اُترے ہیں، مرہم بھی ہیں جو نشتر بھی
1978ء
جو فصل آئی تو مہکیں گے رہ کے پتھر بھی
سزا ملی ہے مجھے اپنے جھوٹ کی شاید
کہ جی رہا ہوں، ابھی تک میں تجھ کو کھو کر بھی
نہ فصل، گل ادھر آئی نہ کشتِ زخم پھلی
نہ سینچ پائی اسے جوئے دیدۂ تر بھی
اب اور رنگ نہیں خوں میں تر سحر کے بعد
لو آج ٹوٹ گیا بازِ شب کا شہ پر بھی
دریچۂ شبِ ہجراں کا فضل ہے یہ عبیدؔ
وہ شعر اُترے ہیں، مرہم بھی ہیں جو نشتر بھی
1978ء