اپنی برہنہ پائی پر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
وہ شخص جس کی یاد اب مرے گلے کا ہار ہے
وہ رات کی سیاہیوں میں چاندنی کا تار ہے
یہ کس کی بد دعا کی آگ اس چمن میں لگ گئی
بجھا بجھا بلوط ہے جلا جلا چنار ہے
یہ انجمن تو پہلے جھنجھناتی پائزیب تھی
یہ کیا ہو ہر ایک ساز اب شکستہ تار ہے
وہ مرے ساتھ ساتھ ہے، میں چاہے جس جگہ رہوں
اس آب و ہادِ عشق میں4 جدائی تو بہار ہے
یہ احمقانہ خواب ہے، عجیب بیوقوف ہو
کہ خود سے وہ کہے گی تم سے ۔ مجھ کو تم سے پیار ہے

1992ء
 

الف عین

لائبریرین
تھے چھپے ہوئے پسِ کوئے یار چلے گئے
وہ مرے جنوں کے نگاہ دار چلے گئے
ہمیں چاہے جیسی بھی نظر سے بھی تو نواز دے
وہ ترے کرم کے امیدوار چلے گئے
رہیں بے نتیجہ تمام خوں چکاں دستکیں
نہ کھلا مگر در انتظار ۔۔ چلے گئے
وہ جو چشمِ نم کبھی مسکرائی تھی اس طرح
جو بسے تھے دل میں غم، اشک بار چلے گئے
پڑے رہ گئے کئیٔ زخمی جسم نواح میں
وہ جو کج کلاہ تھے شہ سوار، چلے گئے
اسی رہ سے گزرے تھے اور لوگ بھی میرے بعد
مرے نقشِ پا کو مٹا کے یار چلے گئے

1993ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ بھی کم نہیں، اس کے نام سے رابطہ تو ہے
خوش رہو میاں! اس کی یاد کا سلسلہ تو ہے
اک گلی بھی ہے شہر میں کہیں ، ایک گھر بھی ہے
کم سے کم یہاں تم کو ایک شخص جانتا تو ہے
سوچو اس طرح بے حس آسمان ہے رحیم بھی
رنگ بدلے جب، ہر نظارے میں کچھ نیا تو ہے
اس کی دلبری کا ہے بھرم ، کہ اپنا شیشۂ انا
اس سے جب ملیں ، چھن سے کچھ کہیں ٹوٹتا تو ہے
جستجو کریں، جھپ کے دیکھ لیں، اس کے ہاتھ میں
کچھ حنا کے رنگ ، درمیاں میں نام اک لکھا تو ہے
ہے یزید کون، کون ہے حسین، ہے کہاں فرات
کچھ پتہ نہیں، محشرِ خیال کربلا تو ہے
اتنے دن کے بعد کچھ کبت لکھے، بن گئی خبر
دل ٹھہر گیا، جاں کا چین بھی سانحہ تو ہے

1996ء
 

الف عین

لائبریرین
ان پلکوں تک بہہ آؤں
قطرہ قطرہ گر جاؤں
ربط ہے لفظ بھی چھوٹا سا
کیوں بیکار میں پھیلاؤں
خود بھی سمجھنا مشکل ہے
تم کو کیسے سمجھاؤں
پھر اس سے ملنے کے لئے
پھر اک بار بچھڑ جاؤں
مجھ کو اب آواز نہ دے
واپس شاید ہی آؤں

1998ء
 

الف عین

لائبریرین
کیسی آوارہ خو ہے
دل کس رم کا آہو ہے
اس کو نہ دیکھیں ۔ دیکھیں آج
دل پر کتنا قابو ہے
ہم بھی بس خاموش رہے
اس کی چپ تو جادو ہے
ابھی ابھی ہیں اشک تھمے
جاں میں سوندھی خوشبو ہے
کیا گلشن میں بہار آئی
کیا اک گل کی خوشبو ہے
اس کا کوئی نام نہ لے
اپنا چرچا ہر سو ہے
روٹھے تو مننا مشکل
اس میں بھی اپنی خو بو ہے
کیا مہکئ ہیں دشت و در
اپنی غزل کا جادو ہے

2000ء
 

الف عین

لائبریرین
کیسا جادو سحر جگانے لگی
بسترِ غم پہ نیند آنے لگی
ذکر جب اس کا چھڑ گیا کل رات
ساری محفل ہی گنگنانے لگی
یاد نے آکے دل پہ دستک دی
اور اسی پل میں نیند آنے لگی
کوچۂ جاں عجیب صحرا ہے
غم کی بارش بھی قہر ڈھانے لگی
اب تو سیرِ چمن بھی مشکل ہے
پھر کوئی یاد ہم کو آنے لگی
روٹھ جانا بھی اس سے مشکل ہے
وہ بھلا کیوں ہمیں منانے لگی

2002ء
 

الف عین

لائبریرین
کاسۂ دل ہے عطرداں اپنا
یاد ہے اس کی، زخمِ جاں اپنا
اب کی ایسا ہے سائباں اپنا
نہ زمیں ہے ، نہ آسماں اپنا
عشق میں کس کو کچھ ہوا حاصل
یہ تھا سودا ہی رائیگاں اپنا
نام اس کا ہر اک زباں پر ہے
ذکر پھیلا کہاں کہاں اپنا
لاکھ منظر ہوں تھامتے دامن
اب رکے گا نہ کارواں اپنا
عالم رنگ و بو نواح میں ہے
پیرہن اس کا، شہرِ جاں اپنا
اب تو ہندی میں کام کیجیے عبیدؔ
شاید اردو میں ہو زیاں اپنا

2003ء
 

الف عین

لائبریرین
چاندی سونا دیکھوں میں
مئی میں کیا دیکھوں میں
صبح سویرے اٹھتے ہی
کس کا چہرا دیکھوں میں
فرشِ خاک پہ سوؤں جب
سچّا سپنا دیکھوں میں
وہ تو میرے گھر میں ہے
کس کا رستا دیکھوں میں
یاہو1 کی ایک ’وِنڈو‘2 میں
اس کا مکھڑا دیکھوں میں
جب بھی، جہاں بھی چاہوں اسے
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
آنکھوں میں رِم جھِم ہو جائے
جب اسے ہنستا دیکھوں میں
صبح اٹھنے کی جلدی میں
خواب ادھورا دیکھوں میں
بول یہ سندر سندر درشّیہ
کب تک تنہا دیکھوں میں
میرؔ تمہاری غزلوں میں
اپنا دُکھڑا دیکھوں میں
مانیٹر3 کے پردے پر
ایک ہی چہرا دیکھوں میں
اس کی یاد آئے جب بھی
مونا لیزا دیکھوں میں
تو ہی بتا تیرا ایسا روپ
دیکھوں یا نا دیکھوں میں


1. Yahoo 2. Window 3. Monitor
2003ء
 

الف عین

لائبریرین
ہزار یادوں نے محفل یہاں سجائی۔ ۔۔ پر
جو نیند آتی ہے سولی پہ بھی، سو آئی ۔۔ پر
سلگتی ریت کو دو دن میں پھول جائیں نہ ہم
یہ ایک شعر ہےاپنی برہنہ پائی پر
میں فرشِ خاک پہ لیٹوں تو سوتا رہتا ہوں
ہزار خواب اترتے ہیں چار پائی پر
نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائی بھائی پر
عطا کرے مجھے اقلیمِ شعر کی شاہی
یہ شک نہیں ہے مجھے تیری کبریائی پر

2004ء
 

الف عین

لائبریرین
دعا کرو کہ دعا میں مری اثر ہو جائے
میں اس کا نام نہ لوں، اور اسے خبر ہوجائے
بس اب یہ آخری خواہش بچی ہے، اس کے حضور
یہ صرف سادہ مرا حرف معتبر ہوجائے
بس اک شرار خسِ خشک جاں کو کافی ہے
چلو کہ آج تماشہ یہ رات پھر ہوجائے
نہ کچھ گناہ میں لذت ، ثواب میں نہ مزا
کروں نہ کچھ بھی ، مگر زندگی بسر ہوجائے
بہار جذبوں پہ آئے، پھر آنکھیں خشک رہیں
یہ برّ و بحر مرا پھر سے بحر و بر ہو جائے

2004ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ کشتِ غم ہے خدایا ہری بھری رکھنا
جہاں بھی جائے نظر، سبز ہی نظر آئے
میں بہیگتا رہوں بارش میں جیسے ساری رات
جو خواب میں بھی کبھی اس کی چشمِ تر آئے
ہوائے تیز میں ، جیسے کچھ آنکھ میں گر جائے
نہ کوئی بات ہو، بس یوں ہی آنکھ بھر آئے
میں اس کو چھوڑنا چاہوں، تو چھوڑنے کو مجھے
طویل فاصلے تک اس کی رہ گزر آئے
پتہ تو تھا کہ ہمارا مقام کیا ہوگا
ہم اس کی بزم میں سب جان بوجھ کر آئے

2005ء
 

الف عین

لائبریرین
میرا اس کا میل ہی کیا، کروں اس کا سوالی میں
وہ ہے اک مصروف سی ساعت ، لمحۂ خالی نہیں
دیکھیں کب تک دیکھا ۔ ان دیکھا کرتے ہیں لوگ
شعر میں اب بھی عروج پہ مائل ، گو ہوں زوالی میں
ہوا کا جھونکا اس کو مہکا دے مجھے بکھرا دے
وہ آراستہ باغِ عدن ہے، ربعُ الخالی میں
کِرنوں یا پانی کو ترسنا دونوں کا ہی نصیب
وہ آمیزن بن کی دھرتی، قطب شمالی میں
قصے طوطا مینا کے اب سب کو بھول گئے
کس کا نام لئے یوں چہکوں ڈالی ڈالی میں


2005ء
 

الف عین

لائبریرین
تیرا روپ سنہرا ہوگا ، ہم کوئی تجھ سے ہیٹے ہیں
اپنی وفا کی آگ میں تپ کر سونا بن کر نکھرے ہیں
چاندی کے سکوں کی کھن کھن جیسی ہے اسکی آواز
زنجیریں بجنے کی زباں میں ہم بھی باتیں کرتے ہیں
اس کے ہاتھ میں چاند اور سورج، آنچل میں جھل مل تارے
تم کہتے ہو رات اندھیری ، ہم کو بہت یہ اجالے ہیں
کابکشاں کے زینے سے چھم چھم کوئی پری اتر آئے
اس کی یاد کے پیروں چل کر یوں اشعار اترتے ہیں

2005ء
 

الف عین

لائبریرین
تم وہاں پہ تنہا ہو ، ہم یہاں اکیلے ہیں
آؤ آکے مل جاؤ ، دونوں وقت ملتے ہیں
وہ نہیں مقابل اب ورنہ اس چمن کے پھول
پہلے بھی مہکتے تھے ، آج بھی مہکتے ہیں
راستے نہیں تھکتے، دیکھے ہیں ہم بھی آج
ساتھ اپنے کتنی دیر، کتنی دور چلتے ہیں
ہے چمن تمام اس کا ، ہم کو اس کا بس اک پھول
نیند اس کو بھاتی ہے۔ ہم کو خواب پیارے ہیں
بس ابھی تو اس نے چائے لا کے دی مگر یہ کیا !!
ہاتھ میں رسالہ ہے ، جاگتے کے سپنے ہیں

2005ء
 

الف عین

لائبریرین
کچھ صدا صبح تک تو آئے گی
پیالیوں کی کھنک تو آئے گی
ایک پل کو ہی وہ لگا تھا گلے
اپنے تن سے مہک تو آئے گی
لاکھ رستے بدل کے گھر جاؤں
راہ میں وہ سڑک تو آئے گی
رات بھر اس امید پر جاگے
اک کرن صبح تک تو آئے گی
خشک آنکھوں کے سوکھے جنگل میں
آنسوؤں کی مہک تو آئے گی
رات ہونے تو دو ، پھر اس کی آباد
سرِ نوکِ پلک تو آئے گی
آج صحرائے جان خشک سہی
آنسوؤن کی کمک تو آئے گی
اتنے دن بعد آج شعر کہے
چہرے پر کچھ چمک تو آئے گی
دکھ کے بادل برس چکیں تو عبیدؔ
ایک رنگیں دھنک تو آئے گی

2006ء
 

الف عین

لائبریرین
وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں
اس مرض کی تو شاید دوا ہی ہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں
عفو ہوتے ہیں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائیوں کی جزا مانگ لوں
شاید اس بار اس سے ملاقات
بارے اب سچّے دل سے دعا مانگ لوں
یہ خزانہ لٹانے کو آیا بھی میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں
اب کوئی تیر ترکش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صدائے رسا مانگ لوں
جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گِری ہے ردا ۔ مانگ لوں

2006ء
 

الف عین

لائبریرین
سمجھو اسے شاعری ہماری
یا دل کی کہو لگی ہماری
کہا چِت بھی تھی، پَٹ بھی تھی تمہاری
لو ۔۔ بات تو مان لی ہماری
پہلے ہی پتنگ کٹ چکی تھی
لو ڈور بھی لُٹ گئی ہماری
اب کس کی امید ، کون آئے
اب شام بھی بجھ چلی ہماری
کچھ تھا کہ اٹھا رہا سر اپنا
دیکھو تو کج کلہی ہماری
افسانے سنے جو اس کی چُپ میں
کہتی رہی خامشی ہماری

2007ء
 
Top