چلیں جی ابو کاشان تو ہو گئے۔
اب
عدیل بھائی کو بلاتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنی عادات کے متعلق بتائیں۔
شمشاد بھائی!
آج آپ نے ہمیں آڑے ہاتھوں لے ہی لیا۔اپنی عادات کے بارے میں بتانے سے ہم یوں بھاگتے ہیں جیسے قرضدار قرض خواہ سے۔خیر اب کیا ہوسکتا ہے۔رِیت جو چلی تو نبھانی ہی پڑے گی۔
جیسے پہاڑ میں ایک خامی ہے کہ اسے پورا دیکھنے کیلئے بندے کو اس سے دور ہونا پڑتا ہے۔ اس کے نیچے کھڑے ہوکر اس کی بلندی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ایسے ہی اپنے بارے میں جاننے کیلئے دوسروں کی نظر چاہئے۔
میں اپنی عادات کے بارے میں لکھ رہا ہوں اب یہ پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان کو اچھا جانے یا خامی جانے۔
دنیا میں 3 طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔
1۔پہلی طرح کے۔
2۔دوسری طرح کے۔
3۔ہر طرح کے۔
اور میرا تعلق تیسری طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔
و
قت کا بہت پابند ہوں۔
اس وقت دوسروں کے گھر پہنچتا ہوں جب وہ کھانا شروع کرنے لگیں۔سست لوگوں سے سخت کوفت ہوتی ہے۔کچھ لوگ تو اتنے سست ہوتے ہیں کہ جب شیو بناتے ہیں تو اتنی آہستہ آہستہ کہ جتنی دیر میں شیو مکمل ہوتی ہے اتنی دیر میں وہ دوبارہ اتنی ہی بڑھ چکی ہوتی ہے۔
کسی سے ناراض نہیں ہوتا۔
جب میں کسی سے ناراض ہوں تو پھر پریشان ہوتا ہوں۔اور جب پریشان ہوں تو پھر پریشان ہی رہتا ہوں۔سو پریشانی سے بچنے کیلئے میں نے یہی سیکھا کہ ناراض ہونا ہی چھوڑ دیا۔
کسی کا احسان نہیں بھولتا۔
ایک دفعہ ایک صاحب نے مجھ پر احسان کیا۔میں انکا شکریہ ادا کرنے انکے گھر جاتا تو کھانا کھا کر ہی واپس آتا اور پھر یہ میرا روز کا معمول بن گیا۔پھر ایک دن وہ صاحب کچھ بتائے بنا کہیں اور چلے گئے اور میں آج تک ان کی تلاش میں ہوں، کیونکہ وہ میرے محسن جو ہیں۔
مجھے جھوٹ بولنا نہیں آتا
کسی نے پوچھا کہ "تم جھوٹے ہو" اس کو عربی میں کیسے بولیں گے۔ میں نے کہا "انت فی درغ گو"۔ وہ صاحب ہنس پڑے اور بولے۔تمہیں عربی میں جھوٹ بولنا نہیں آتا۔
خود پر نکتہ چینی پسند نہیں
جبکہ چینی بغیر نکتوں کہ چینی ہی نہیں ہوتی۔البتہ چینی بہت پسند ہے۔اس کے بغیر تو ہمارا روز مرہ کا گزارہ ہی نہیں ہوتا۔اس مہنگائی کے دور میں جہاں دیکھو میڈ ان چین ہر کسی کےزیر استعما ل ہے۔
کسی بھی سنجیدہ بات کا جواب سنجیدگی سے نہیں دیتا
اگر سنجیدگی سے جواب دوں تو پھر پوچھنے والا سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ گھر والے شادی کے بارے میں پوچھتے تو ہنس کر ٹال دیتا تھا۔جب سنجیدہ ہوکر جواب دیا تو گھر والے سنجیدہ ہوگئے۔