اپنے شہر کی چار مشہور چیزیں بتائیں

شمشاد

لائبریرین
فاتحہ خوانی کے لیے اور بس۔
یہ ایسے بزرگ تھے جنہوں نے بہت سے لوگوں کو مسلمان کیا تھا اور بہت سارے بے راہرو لوگوں کو راہ راست دکھائی تھی اور اس علاقے کو اس وقت کے بادشاہ سے ٹیکس سے بری علاقہ قرار دلوایا تھا۔ اسی مناسب سے ان کا نام بری مشہور ہوا تھا۔
 

سارا

محفلین
ماشااللہ یہ تو بہت زیادہ اچھے کام کیے ہیں۔۔لیکن جو آج کل وہاں کی حالت ہے لوگ وہاں جا کر کر رہے ہیں میں اسے صحیح نہیں سمجھتی۔۔اور دعا تو ہم گھر بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں۔۔ہاں قبروں کی زیارت کرنے اس لیے ضرور جانا چاہیے کہ ہمیں بھی موت یاد آئے۔۔۔اور فاتحہ تو ہم اپنے لیے پڑھتے ہیں ان کے معنی پر اگر غور کریں تو سمجھ آجائے گی۔۔ہو سکتا ہے آپ میرے خیالات سے متفق نہ ہوں۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
لوگ جو کچھ کرتے ہیں صرف وہیں بری امام پر ہی نہیں کرتے بلکہ ہر جگہ اور ہر بزرگ کی قبر پر یہی کچھ ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو ڈھول باجے بھی بجتے دیکھے ہیں۔

قبرستان میں جانا اور خاص کر بزرگوں کی قبروں پر ضرور جانا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے۔ لیکن صرف مردوں کو، عورتوں کو قبرستان نہیں جانا چاہیے۔
 

محسن حجازی

محفلین
1۔ سفارتکار
2۔ بیوروکریٹ
3۔ مشرف
4۔ مشرف
:grin:
ویسے یہ ہماری دو سال میں پانچسویں پوسٹ ہے! یہ ہم شمشاد بھائی کے نام کرتے ہیں!:grin:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بری امام پر کیوں جانا چاہیے سر جی؟؟:confused:
ویسے وہاں میں بھی گئی ہوئی ہوں لیکن تب ذرا چھوٹی تھی۔۔۔:rolleyes:

کیوں جانا چاہے بس اتنا ہی کہوں‌گا اگر بری امام سرکار سے عقیدت و محبت ہے تو پھر ضرور جانا چاہے کس لے جانا چاہے یہاں‌سب کے الگ الگ بیان ہیں میں‌تو جاتا ہوں اور جاتا رہوں گا اب مجھے عقیدت ہے ان سے اس لے جانا چاہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ماشااللہ یہ تو بہت زیادہ اچھے کام کیے ہیں۔۔لیکن جو آج کل وہاں کی حالت ہے لوگ وہاں جا کر کر رہے ہیں میں اسے صحیح نہیں سمجھتی۔۔اور دعا تو ہم گھر بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں۔۔ہاں قبروں کی زیارت کرنے اس لیے ضرور جانا چاہیے کہ ہمیں بھی موت یاد آئے۔۔۔اور فاتحہ تو ہم اپنے لیے پڑھتے ہیں ان کے معنی پر اگر غور کریں تو سمجھ آجائے گی۔۔ہو سکتا ہے آپ میرے خیالات سے متفق نہ ہوں۔۔۔



میرے خیال میں دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں‌ہے جس کو سارے ٹھیک سمجھتے ہو جس کو انسان خود ٹھیک سمجھتا ہے بس اس کے لیے وہی ٹھیک ہے اور باقی سب غلط ہے میرے خیال ہے اس بات کو یہاں ختم کیاجائے اور اصل موضوع کی طرف آیا جائے ورنہ بات کہی سے کہی نکل جائے گی شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
1۔ سفارتکار
2۔ بیوروکریٹ
3۔ مشرف
4۔ مشرف
:grin:
ویسے یہ ہماری دو سال میں پانچسویں پوسٹ ہے! یہ ہم شمشاد بھائی کے نام کرتے ہیں!:grin:



ارے ارے نا کرے جناب زیادہ کام کرنا آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں‌ہے آپ پھر اتنا کام کرتے ہیں :grin:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں راولپنڈی کا رہنے والاہوں‌اس لے میرے خیال میں‌سب سے پیارا شہر راولپنڈی ہی ہے آئے میں‌ آپ کو راولپنڈی کے بارے میں‌کچھ بتاتا ہوں جو کچھ میں جانتا ہوں جو کچھ میں نے پڑھا ہے کچھ کاپی پیسٹ بھی کر رہا ہوں تو شروع کرتے ہیں

راولپنڈی​
راولپنیڈی صوبہ پنچاب میں‌سطح مرتفع پوٹھو ھار میں‌واقع ایک اہم شہر ہے کیوں کہ اس شہر میں میں‌رہتا ہوں :) یہ پاکستان آرمی کا صدر مقام بھی ہےاور جب 1960 میں اسلام آباد کی تعمیر ہو رہی تھی اس وقت قائم مقام دارلحکومت بھی راولپنڈی ہی تھا۔ یہ شہر بہت سے کارخانوں کا گھر ہے اس شہر کی سب سے مشہور جگہ ایئرپورٹ ہے یہ اصل میں‌راولپنڈی میں ہی واقع ہے لیکن اس کو اسلام آباد کے نام سے منصوب کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی شہر صوبہ پنچاب میں لاہور شہر سے 275 کلومیٹر (171 میل) کے فاصلے پر واقع ہے اس کی کل آبادی 2006 کے مطابق تقریباََ 30 لاکھ ہے

تاریخ

راولپنڈی، پنڈی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرینِ آثارِ قديمہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پوٹھوھار سطح مرتفع پر واقع ثقافت 3000 سال قدیم ہے۔ یہاں ملنے والا مادہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ یہاں پر بدھ پرست لوگوں کا استحکام ٹیکسلا اور ویدی استحکام (ہندو تمدّن) کے ہم عمر ہے۔ ٹیکسلا اس بات سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا شمار "گینس بک آف ورلڈ رکارڈز" میں بھی ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی "تکشاہلا یونیورسٹی" کے آثارات ملے ہیں۔


یہ دکھائی دیتا ہے کہ یہ شہر ناکامی کی طرف ایشیا کی ایک خانہ بدوش قوم "وائٹ ہن" کی بربادی کے باعث گیا تھا۔ اس علاقے میں پہلے مسلمان حملہ آور "محمود" (جو کہ غزنی، افغانستان سے تھا) نے تباہ شدہ شہر کو ایک گکھڑ حاکم "کائے گوہر" کے حوالے کر دیا۔ شہر، بہر حال، ایک حملہ آوری کے راستے پر ہونے کے باعث کامیاب نہ ہو سکا اور تب تک بنجر رہا جب تک ایک اور گکھڑ رہنما جھنڈا خان آیا اور اس نے شہر کی صورتحال کو درست کیا اور اس کا نام ایک گاؤں "راول" کے نام پر 1493ء میں "راولپنڈی" رکھ دیا۔ راولپنڈی گکھڑوں کے زیرِ حکومت رہا حتٰی کہ آخری گکھڑ حکمران "مقرب خان" کو سکھوں کے ہاتھوں 1765ء میں شکست واقع ہوئی۔ سکھوں نے دوسرے علاقوں کے تاجروں کو راولپنڈی میں آ کر رہنے کی دعوت دی۔ یوں راولپنڈی نمایا ہوا اور تجارت کے لیے بہترین علاقہ ثابت ہو کر ابھرا۔


پھر انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کے راولپنڈی میں اپنائے گئے پیشے کی پیروی کرتے ہوئے راولپنڈی کو 1851ء میں مستحکم طور پر انگریز فوج کا قلعہ بنا دیا گیا۔ 1880 کے عشرہ میں راولپنڈی تک ریلوے لائن بچھائی گئی، اور ٹرین سروس کا افتتاح 1 جنوری 1886ء میں کیا گیا۔ ریلوے لنک کی ضرورت لورڈ ڈیلہوزی کے بعد پیش آئی جب راولپنڈی کو شمالی کمانڈ کا صدر مقام بنا دیا گیا اور راولپنڈی برطانوی فوج کا ہندوستان میں سب سے بڑا قلعہ بن گیا۔


1951ء میں راولپنڈی میں پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم جناب لیاقت علی خان کو ایک مقامی پارک میں خطاب کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ اس پارک کا نام اسی سانحے کے باعث "لیاقت باغ" رکھ دیا گیا۔ آج راولپنڈی پاکستان آرمی اور پاکستان ایئرفورس کا صدر مقام ہے۔


راولپنڈی کی مشہور سڑک "مری روڈ" ہمیشہ ہی سے سیاسی جلسے جلوسوں کا مرکز رہا ہے۔ نالہ لئی، اپنے سیلابی ریلوں کی وجہ سے بہت مشہور، راولپنڈی شہر کے بیچ و بیچ بہتا ہے، جوکہ راولپنڈی کو دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہے "راولپنڈی شہر" اور "راولپنڈی کینٹ"۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نالہ لئی کا پانی کبھی اتنا صاف شفاف اور خالص تھا کہ اسے پیا جا سکے، لیکن اب یہ گھروں سے خارج ہونے والا فضلہ اور کارخانوں سے خارج ہونے والا گندہ پانی اس کو ناپاک کر چکا ہے۔

ماحول اور لوگ​

راولپنڈی ایک بے ترتیب لیکن گرد سے پاک صاف ستھرا شہر ہے۔ جنوری 2006 کے مطابق راولپنڈی میں نوست و خواند کی قابلیت کی شرح %70.5 ہے۔ شہر کی آبادی میں پوٹھوہاری، پنجابی، مہاجر (بھارت سے پاکستان ہجرت کر کے آنے والے افراد) اور پٹھان شامل ہیں۔ شہر کا درجہ حرارت گرمیوں میں نا قابل پیشین ہوتا ہے۔ شہر میں بارش کا سالانہ اوسط درجہ 36 انچ ہوتا ہے۔ موسم گرما میں گرمی زیادہ سے زیادہ 52 ڈگری اور موسم سرما میں درجہ حرارت 5- تک گر سکتا ہے۔لیکن آج کل تو منفی 5 تک بھی چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی برف بھی پڑتی ہے




راولپنڈی کے دلکش مناظر

راولپنڈی میں بہت سارے اچھے ہوٹل، طعام خانے، عجائب گھر اور سبزہ زار ہیں۔ راولپنڈی کا مشہور سبزہ زار ایوب نیشنل پارک ہے۔ یہاں گلیات کے علاقے جیسے مری، نتھیا گلی، ایوبیا، ایبٹ آباد اور شمالی علاقہ جات سوات، کاغان، گلگت، ہنزہ، سکردو اور چترال جانے والے سیاحوں کا بیس کیمپ ہے۔

راولپنڈی کو دیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے بازاروں میں گھوما جائے۔ شہر کی دو اہم شاہراہیں: جی ٹی روڈ بالعموم مشرق سے مغرب تک چلتے ہوئے مال روڈ کنٹونمنٹ سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور مری روڈ مال روڈ کے شمال سے شروع ہوتا، ریلوے لائنوں کو اوپر اور نیچے سے عبور کرتا ہوا اسلام آباد تک پہنچتا ہے۔ راولپڈی کے دو اہم بازار ایک راجہ بازار جو کہ پرانے راولپنڈی شہر میں واقع ہے اور صدر بازار ہیں
 

چاند بابو

محفلین
چاند بابو اس موجد کا کوئی اتہ پتہ، انہوں نے اپنی ایجاد رجسٹر کیوں نہیں کروائی؟

جی شمشاد بھائی اس کے موجد کو تقریبا تمام شہر جانتا ہے(نام میں بھول گیا)۔ کیوں کہ اس کا ایک اور کارنامہ سوزوکی کار کے انجن سے ہیلی کاپٹر بنانا تھا۔ اس نے ہیلی کاپٹر بنا لیا لیکن اس کو آزمائشی پروازکی اجازت نہ مل سکی اسکا دعوی تھا کہ اگر اس کو سپورٹ کیا جاتا توصرف دس لاکھ کی معمولی رقم سے وہ اپنا بنایا ہیلی کاپٹر مارکیٹ میں لا سکتا ہے۔ خیر ہوا وہی جو غریب آدمی کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ رجسٹریشین نہ کروانا بھی شائد اسی وجہ سے تھا کہ اتنا سوچا ہی نہ ہو گا کہ یہ چنگ چی اتنی مشہور ہو جائے گی۔
دلبرداشتہ ہو کر پہلے لاہور چلا گیا وہاں سے فرانس چلا گیا آخر کار واپس بوریوالا آگیا۔ آجکل بھی یہاں ہی ہے۔
 

خرم

محفلین
ہمارا آبائی شہر نارووال ہے جہاں رہنا تو بہت کم نصیب ہوا لیکن پھر بھی پہچان اسی کے حوالے سے ہے۔ نارووال کی اہمیت تاریخی ہے۔ باباجی گرونانک نے اپنی بستی کرتار پور اسی کے قریب بسائی اور ان کا مقبرہ یا مڑھی بھی دربار صاحب کرتار پور میں ہی واقع ہے۔ اس کے علاوہ جسڑ کا خوں آشام پُل جس نے تقسیم کے وقت انتہائی خون ریز مناظر کا مظاہرہ کیا، وہ بھی نارووال ہی میں واقع ہے۔ ہمارے یہاں کی خاص سوغات مسور اور چاول ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
نارووال کی ایک بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ میرے سسرال نارووال کے ہیں۔ ہے ناں خاص بات خرم بھائی۔;)
آپ تو غالباً کئی سالوں کے نارووال سے نکلے ہوئے ہیں، لیکن میں ہر سال نارووال ضرور جاتا ہوں۔ جو کہ بہت ہی بدل چکا ہے۔

نارووال فقہ حنفیہ والوں کا گڑھ بھی ہے۔
 

سارا

محفلین
اب آپ ماشااللہ بڑی ہوگئی ہیں دوبارہ چکر لگا لیں جب آپ چھوٹی تھیں تب کیوں گئیں

ہمارے ہاں عورتیں قبروں کی زیارت کو نہیں جاتیں اگر کسی اپنے والد والدہ دادا دادی کی قبر پر جانا ہو تو صبح صبح اندھیرے میں تھوڑی دیر کے لیے چلی جاتیں ہیں۔۔
جب میں چھوٹی تھی تب ہمارے ہاں بھی ایسے قبروں کی زیارت کے لیے ضرور جاتے تھے جن کے بارے میں سن لیں کہ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں وغیرہ تو ظاہر ہے ہمیں بھی ساتھ لے جایا جاتا تھا۔۔اب انہیں بھی سمجھ آگئی ہے۔۔اور میں بھی وہی کرتی جسے ٹھیک سمجھتی ہوں۔۔اور میرا یہ خیال ہے کہ عورتوں کو ایسی جگوں پر ہرگز نہیں جانا چاہیے۔۔۔
 

سارا

محفلین
میرے خیال میں دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں‌ہے جس کو سارے ٹھیک سمجھتے ہو جس کو انسان خود ٹھیک سمجھتا ہے بس اس کے لیے وہی ٹھیک ہے اور باقی سب غلط ہے میرے خیال ہے اس بات کو یہاں ختم کیاجائے اور اصل موضوع کی طرف آیا جائے ورنہ بات کہی سے کہی نکل جائے گی شکریہ

بھائی جان اگر آپ غور کرتے تو میں نے اوپر شمشاد بھائی کی پوسٹ کا شکریہ ادا کر کے بات ختم کر دی تھی۔۔:rolleyes:
 

ساجداقبال

محفلین
میرا آبائی شہر تو کوہاٹ لیکن بسلسلہء روزگار اسلام آباد میں ہوں۔
پہلے کوہاٹ:
1۔ کوہاٹ کے امرود جو لاڑکانہ کے مقابلے کے ہوتے ہیں۔
2۔ آئی ایس ایس بی (دوسری شاید گوجرنوالہ میں ہے)
3۔ کوہاٹ‌کا پانی۔۔۔صرف شہر کا۔
4۔ کباب

اسلام آباد
1۔ فیصل مسجد
2۔ کراچی کمپنی
3۔ لال مسجد
4۔ مزاج کے لحاظ سے دنیا کا پھیکا ترین شہر
 

پپو

محفلین
ہمارے ہاں عورتیں قبروں کی زیارت کو نہیں جاتیں اگر کسی اپنے والد والدہ دادا دادی کی قبر پر جانا ہو تو صبح صبح اندھیرے میں تھوڑی دیر کے لیے چلی جاتیں ہیں۔۔
جب میں چھوٹی تھی تب ہمارے ہاں بھی ایسے قبروں کی زیارت کے لیے ضرور جاتے تھے جن کے بارے میں سن لیں کہ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں وغیرہ تو ظاہر ہے ہمیں بھی ساتھ لے جایا جاتا تھا۔۔اب انہیں بھی سمجھ آگئی ہے۔۔اور میں بھی وہی کرتی جسے ٹھیک سمجھتی ہوں۔۔اور میرا یہ خیال ہے کہ عورتوں کو ایسی جگوں پر ہرگز نہیں جانا چاہیے۔۔۔
شکریہ بہن جی میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کی عورتوں کو قبروں پر نہیں جانا چاہیے
 

پپو

محفلین
نارووال کی ایک بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ میرے سسرال نارووال کے ہیں۔ ہے ناں خاص بات خرم بھائی۔;)
آپ تو غالباً کئی سالوں کے نارووال سے نکلے ہوئے ہیں، لیکن میں ہر سال نارووال ضرور جاتا ہوں۔ جو کہ بہت ہی بدل چکا ہے۔

نارووال فقہ حنفیہ والوں کا گڑھ بھی ہے۔
پھر تو بھائی شمشاد کے سسرال والوں نے ابرار الحق کے ہسپتال کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کیا ہوگا
 

پپو

محفلین
جی شمشاد بھائی اس کے موجد کو تقریبا تمام شہر جانتا ہے(نام میں بھول گیا)۔ کیوں کہ اس کا ایک اور کارنامہ سوزوکی کار کے انجن سے ہیلی کاپٹر بنانا تھا۔ اس نے ہیلی کاپٹر بنا لیا لیکن اس کو آزمائشی پروازکی اجازت نہ مل سکی اسکا دعوی تھا کہ اگر اس کو سپورٹ کیا جاتا توصرف دس لاکھ کی معمولی رقم سے وہ اپنا بنایا ہیلی کاپٹر مارکیٹ میں لا سکتا ہے۔ خیر ہوا وہی جو غریب آدمی کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ رجسٹریشین نہ کروانا بھی شائد اسی وجہ سے تھا کہ اتنا سوچا ہی نہ ہو گا کہ یہ چنگ چی اتنی مشہور ہو جائے گی۔
دلبرداشتہ ہو کر پہلے لاہور چلا گیا وہاں سے فرانس چلا گیا آخر کار واپس بوریوالا آگیا۔ آجکل بھی یہاں ہی ہے۔

جی ہاں اس کا نام مستری اکرم ہے
 
Top