اکڑشاہ اور ماہِ رمضان
اکڑشاہ بے حد پریشان تھا
کہ اب جارہا ماہِ شعبان تھا
بالآخر ہوا ختم شعبان بھی
اور آیا مہینوں کا سلطان بھی
لگا کرنے فوراً وہ تیاریاں
وہ لے آیا کھجلا بھی اور پھینیاں
اکڑ شاہ نے رج کے کیں سحریاں
تلافی کو پھر کرلیں افطاریاں
یہ روزے لگے اس کو بھاری بڑے
مشاغل سبھی ترک کرنے پڑے
کہا سب سے مجھ کو بڑے کام ہیں
عبادت ، ریاضت کے ایام ہیں
بالآخر رکھے اس نے روزے سبھی
دکھا چاند پھر آگئی عید بھی
تو ”آم“ اور ”چشموں“ سے واقف تھے جو
دیا فطرہ سب نے اکڑشاہ کو
کھِلی اس کے دل میں خوشی کی کلی
وہ سمجھا اسے اس کی عیدی ملی
نماز اس نے پھر عید کی ، کی ادا
سنی بھانجوں کی پھر اس نے صدا
اکڑماموں! عیدی ہماری کہاں؟
اکڑشاہ کو تھا نہ اس کا گماں
کسی کو نہیں دی تھی عیدی کبھی
مگر بچے چڑھ دوڑے اب کے سبھی
ملے اس کو فطرے میں جو چار سو
ہر اک کو دیے چاروناچار سو
اسامہ سے قصے اکڑشاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے