دو تین قوافی توجہ چاہتے ہیں۔ کلی اور ملی، سحریاں اور افطاریاں، سبھی اور بھی

استاد محترم توجہ فرمانے کا بہت شکریہ۔
یہ قاعدہ ذہن میں تھا کہ حرف روی اگر خود متحرک ہو تو اس کے ماقبل کی حرکت کی مطابقت ضروری نہیں رہتی۔ جیسے سحریاں اور افطاریاں میں حرف روی ”ر“ ہے جو کہ خود محترک ہے۔
اسی طرح اگر حرف روی خود تو ساکن ہو مگر اس کا ماقبل متحرک ہو تب بھی ماقبل سے پہلے والے حروف کی حرکت کی مطابقت ضروری نہیں رہتی جیسے کلی اور ملی میں حرف روی ”ی“ ہے اور اس کے ماقبل حرف یعنی ”ل“ متحرک ہے اور مکسور ہے۔
سبھی اور بھی کو میں ایسے ہی سمجھا جیسے طرب اور رب۔

اپنی معلومات اس لیے لکھی ہیں تاکہ غلط ہوں تو آپ حضرات کی طرف سے درست رہنمائی مل جائے۔
 
مزمل شیخ بسمل متوجہ ہوں، استاد محمد یعقوب آسی کا کیا خیال ہے۔ میں تو اس معاملے میں جاہل ہوں۔ قوافی دیکھیں۔


یہ ’’جاہل‘‘ ہونے کی بھی خوب کہی، جناب اعجاز عبید صاحب! چلئے آپ کی بات رکھتے ہیں اور اس کو ’’تجاہلِ بزرگانہ‘‘ کہے لیتے ہیں کہ بچوں کا حوصلہ بندھا رہے۔


جناب الف عین
 
بات ذرا تلخ ہے، پر کیا کروں!
ع: پھر وہی تٌخ نوائی جو مرا حصہ ہے

گستاخی معاف! مجھے اس کاوش میں کچھ ’’کشش‘‘ محسوس نہیں ہوئی، سب کچھ بناوٹی بناوٹی سا لگتا ہے۔
شاید اس ’’کہانی‘‘ میں بہاؤ کی کمی ہے، یا کچھ پیوند کاری ہے جو آنکھوں میں کھُب نہیں رہی، کچھ نہ کچھ ہے ضرور!
 
پھر اک روز چشمے کی کھولی دکان
لکھا بورڈ پر ’’روٹی کپڑا مکان‘‘
دُکان، مِکان ۔۔۔ حرکات نہیں مل رہیں۔

اکڑشاہ وہاں سے اڑن چھو ہُوا
اکڑفوں ہوئی اس کی ساری ہَوا
ہُوا، ہَوا ۔۔۔ وہی حرکات کا مسئلہ۔

”دسہری“ کی قیمت ہے دس دس روپے
ہیں ”انوررٹول“ آم سستے بڑے
روپے، بڑے ۔۔۔ یائے لین بمقابلہ یائے مجہول

جو سنتے تھے اعلاں چلے آتے تھے
مگر پھر وہ واپس چلے جاتے تھے
مزمل شیخ بسمل صاحب، اس کو کیا کہئے گا؟

یہ دیکھو ، یہ سونگھو ، نرا آم ہے
یہ کیری نہیں ہے ، ہرا آم ہے
نِرا، ہَرا ۔۔۔ حرکات کا اختلاف

خریدار کہنے لگے چل چکھا
اگر تو ہے سچا ، چکھا کر دکھا
چکھا، دکھا ۔۔۔ حرکات کا اختلاف

اکڑ شاہ نے رج کے کیں سحریاں
تلافی کو پھر کرلیں افطاریاں
سحریاں، افطاریاں ۔۔۔ حائے حطی بمقابلہ الف ۔


کھِلی اس کے دل میں خوشی کی کلی
وہ سمجھا اسے اس کی عیدی ملی
کَلی، مِلی ۔۔۔ اختلافِ حرکات۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آداب
 
یہاں اصلاح سخن کے تمام اساتذہ مجھ سے بڑے اور سینئیر ہیں تو مجھ 21 سالہ چھوکرے کی کیا اوقات کہ کچھ کہہ سکے۔ :) :) :)
بہر حال اپنی رائے سے آپ کو آگاہ کئے دیتا ہوں، کسی کو سکھانا مقصود نہیں صرف اپنی رائے کا اظہار مقصود ہے۔
میرا موقف صرف اتنا ہے جو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ:
جب حرفِ روی ساکن ہو تو ماقبل حرکات و سکنات کا اعتبار ضرور ہے۔ بصورتِ دیگر اگر روی خود متحرک ہے تو محض روی کی حرکت میں مطابقت ضروری ہوتی۔ ماقبل کسی حرف میں مطابقت ضروری نہیں۔
روی کے متحرک ہونے پر پچھلے حرف کی مطابقت کا قانون میں نے علم عروض میں ابھی تک نہیں پایا۔ ہاں روی ساکن ہو تو ماقبل کی حرکت کو عروضی زبان میں توجیہہ کہا جاتا ہے، اور توجیہہ میں اختلاف آئمۂ فن کے نزدیک بالاتفاق مکروہ و ممنوع ہے۔
حرف روی متحرک ہونے پر ماقبل حرکت میں اختلاف عام پایا گیا ہے۔ اساتذہ نے بھی یہ اختلاف روا رکھا ہے۔ یہیں اسی فورم پر میں نے چند ایک مثالیں بھی لکھی تھیں۔ میر تقی میر اور دوسرے شعرا کے اشعار سے، جن میں ملا، جلا، اور مقابلہ وغیرہ کو ایک ہی غزل میں بطور قافیہ لایا گیا ہے، جبکہ روی لام ہے۔

اگر عروضی قوانین میں کوئی ایسا قانون کسی اہل علم کی نظر سے گزرا ہو کہ روی کے متحرک ہونے پر بھی ماقبل حرکت میں مطابقت ضروری ہے تو مجھ لا علم و بے بہرا کی رہنمائی ضرور فرمائیں۔ بہت شکر گذار۔
 
یہاں اصلاح سخن کے تمام اساتذہ مجھ سے بڑے اور سینئیر ہیں تو مجھ 21 سالہ چھوکرے کی کیا اوقات کہ کچھ کہہ سکے۔ :) :) :)

اگر عروضی قوانین میں کوئی ایسا قانون کسی اہل علم کی نظر سے گزرا ہو کہ روی کے متحرک ہونے پر بھی ماقبل حرکت میں مطابقت ضروری ہے تو مجھ لا علم و بے بہرا کی رہنمائی ضرور فرمائیں۔ بہت شکر گذار۔



جناب مزمل شیخ بسمل ! ’’بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال‘‘ ۔۔۔ اس میں کسی کسرِنفسی کی گنجائش نہیں ہے، بھائی۔

رہی بات قوافی کے علوم کی۔ میں تو بہت پہلے عرض کر چکا کہ یہ معاملہ اپنے بس سے باہر ہے۔ محولہ بالا قوافی پر میری رائے خالصتاً محسوساتی اور ملائمت کے حوالے سے ہے۔


محمد اسامہ سَرسَری اور جناب الف عین
 
اکڑشاہ نے اسکوٹر سیکھی
اکڑشاہ سے دوستوں نے کہا
تمھاری سواری کا پھر کیا رہا
اکڑشاہ نے جھنجھلا کر کہا
جواب اس کا میں دے چکا بارہا
مجھے کار کا شوق تو ہے مگر
نہیں مال اتنا جو ہو کارگر
بنا کار کے میں ہوں بے کار سا
کسی میں نہیں ہے مزہ کار سار
ہیں سستی اگرچہ یہ اسکوٹریں
چلا جو نہیں سکتے وہ کیا کریں
یہ سن کر کہا اس سے اک دوست نے
اگر تو کہے تو سکھائیں تجھے
اکڑشاہ یہ سن کے خوش ہوگیا
مسرت کی شہ راہ میں کھوگیا
اکڑتے ہوئے وہ یہ کہنے لگا
ہے یہ سیکھنا کام اک روز کا
اک اسکوٹر اچھی اکڑشاہ نے
خریدی ، لگا پھر اسے سیکھنے
کلچ ، گیئر ، اسپیڈ اور پھر بریک
بیک وقت چاروں نہ کر پایا چیک
نہ رکھ پایا بیلنس اپنا ذرا
چلاتے ہی اسکوٹر اک دم گرا
اسے روڈ کرنا نہ آتا تھا پار
کجا یہ کہ کرتا وہ ہوکر سوار
اکڑشاہ کو جب لگیں ٹھوکریں
کہا بھاڑ میں جائیں اسکوٹریں
پریشاں ہوا اور گھبرا گیا
وہ بوجھل سے قدموں سے گھر آگیا
اسامہ سے قصے اکڑشاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زبان کی ایک بات آ گئی۔
جھنجلاہٹ اور جھلّاہٹ میں کیا مماثلت اور کیا فرق ہے۔

محمد خلیل الرحمٰن ، فاتح ، الف عین ، محمد وارث ، گل بانو ، سید عاطف علی ، فارقلیط رحمانی
ایک محض ذاتی اور صرف ذاتی نوعیت کی رائے عرض ہے۔
جھنجلانا جھلّانا دونوں ہی مشابہ کیفیات کا اظہار ہیں۔جھنجلانے کی کیفییت قدرے خفیف ہے۔ اور جھلانے کی قوی۔ اسلئے اس کے استعمال میں تھوڑا سا فرق بھی ہے ۔ عموما" استعمال کیا جاتا ہے کہ میں جھنجلا گیا ۔جھنجلاہٹ کی وجہ سے واپس آگیا ۔ جھنجلاہٹ کے عالم میں ایساہوا ۔۔۔ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ جھلّانااس طرح استعمال ہوتا ہے کی میں نے جھلاّ کر یہ کر دیا ۔اس نے جھلّا کر ران پہ ہاتھ مارا ۔جھّلا کر جواب دیا ۔۔وغیرہ۔اور اسی لئے جھلّانا عموما" رد عمل کے ساتھ آتا ہے۔جبکہ جھنجلانا ایک بہت عمومی سی کیفیت کا سا مفہوم پہنچاتا ہے۔
دیگر احباب کی رائے کا اشتیاق ہے۔
 

فاتح

لائبریرین

فاتح

لائبریرین
جھلانا:
BookReaderImages.php

جھنجلانا:
BookReaderImages.php
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نور اللغات اور فيروز اللغات ميں بھی کم و بيش يہی لکھا ہے اور جھنجلانا کا ايک ويريئنٹ جھنجھلانا بھی بتايا گيا ہے۔
ميں نے ان کے محل استعمال اوربرتاؤ سے فرق کی کچھ لطافت اخذ کرکے حيطہء تحرير ميں لانے کي کوشش کی ۔:)
 
ایک محض ذاتی اور صرف ذاتی نوعیت کی رائے عرض ہے۔
جھنجلانا جھلّانا دونوں ہی مشابہ کیفیات کا اظہار ہیں۔جھنجلانے کی کیفییت قدرے خفیف ہے۔ اور جھلانے کی قوی۔ اسلئے اس کے استعمال میں تھوڑا سا فرق بھی ہے ۔ عموما" استعمال کیا جاتا ہے کہ میں جھنجلا گیا ۔جھنجلاہٹ کی وجہ سے واپس آگیا ۔ جھنجلاہٹ کے عالم میں ایساہوا ۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔جبکہ جھلّانااس طرح استعمال ہوتا ہے کی میں نے جھلاّ کر یہ کر دیا ۔اس نے جھلّا کر ران پہ ہاتھ مارا ۔جھّلا کر جواب دیا ۔۔وغیرہ۔اور اسی لئے جھلّانا عموما" رد عمل کے ساتھ آتا ہے۔جبکہ جھنجلانا ایک بہت عمومی سی کیفیت کا سا مفہوم پہنچاتا ہے۔
دیگر احباب کی رائے کا اشتیاق ہے۔

بہت شکریہ جناب سید صاحب۔
 
اکڑشاہ اور بقرعید

نظر آیا چاند اور ملی یہ نوید
کہ دس دن کے بعد آئے گی بقرعید

اکڑشاہ دل میں لگا سوچنے
اسی سوچ میں کھا گیا سو چنے

کہ اس بار قربانی میں بھی کروں
خدا سے محبت کا دم میں بھروں

ارادہ یہ ظاہر کیا دوست پر
کہ منڈی سے لاتے ہیں اک جانور

چناں چہ اکڑشاہ منڈی گیا
بہت موٹا تازہ سا بکرا لیا

گھمایا اسے خوب اکڑشاہ نے
رکھا اس کو محبوب اکڑشاہ نے

اکڑشاہ لگواتا چکر اسے
تو بکرا لگاتا تھا ٹکر اسے


بالآخر پھر آہی گیا یومِ عید
وہ دن جو ہمارے لیے ہے سعید

کہا دوست نے اس سے بعد از نماز
قصائی کہاں ہے ، بتادو یہ راز

اکڑ کر وہ بولا یہ مشکل نہیں
اسے ذبح میں خود کروں گا یہیں

یہ کہہ کر وہ مذبح کی جانب بڑھا
جہاں ہٹا کٹا تھا بکرا کھڑا

اکڑشہ نے گردن سے جکڑا اسے
لگا کر بہت زور پکڑا اسے

گرانے کی کوشش وہ کرنے لگا
وہیں رک گیا جو گزرنے لگا

اکڑشاہ اب تھا ’’پکڑشاہ‘‘ ، پر
چڑھ آیا وہ بکرا اکڑشاہ پر

کہا ایک نے پھر یہ بھائی ہے کون؟
یہ بکرے سے لاغر قصائی ہے کون؟

مجھے بات کہنی تھی یہ آپ سے
ہو جو کام جس کا وہ ساجھے اسے

قصائی کو پھر اس نے بلوالیا
جھکاکر نظر گھر کا رستہ لیا

اسامہ سے قصے اکڑشاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے
 
Top