محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
مکمل کتاب یہاں ملاحظہ فرمائیں
اکڑ شاہ
’’اکڑ شاہ‘‘ اک شخص نادان تھا
وہ اس بات سے لیکن انجان تھا
تھی اس کی طبیعت میں آوارگی
حماقت وہ کرتا تھا یک بارگی
وہ قرضوں کے مارے پریشان تھا
اصولِ تجارت سے انجان تھا
خریدار آتے تھے بس خال خال
کہ موسم کا رکھتا نہ تھا وہ خیال
کہ سردی میں وہ گولے گنڈے رکھے
تو گرمی میں وہ ابلے انڈے رکھے
دسمبر میں قلفی کی کھولے دکان
مئی میں رکھے موٹے کپڑوں کے تھان
اکڑ شاہ کی کی چشمے کی دکان
پھر اک روز چشمے کی کھولی دکان
لکھا بورڈ پر ’’روٹی کپڑا مکان‘‘
کسی نے کہا اس سے ’’یہ کیا بھلا؟‘‘
دکاں میں ہے کچھ ، بورڈ پر کچھ لکھا!
اکڑ شاہ نے اس سے اکڑ کر کہا
جو اس کو پڑھے گا ادھر آئے گا
نہ آیا ، مگر کوئی اس کے قریب
اکڑشاہ اکیلا تھا بیٹھا غریب
اچانک ہوا اس کا روشن دماغ
اندھیرے میں جیسے ہے جلتا چراغ
لگا زور سے کرنے اعلان وہ
جو سنتا تھا ہوتا تھا حیران وہ
مرے بھائیو! بہنو! آئو یہاں
اگر چاہیے ’’روٹی کپڑا مکاں‘‘
فریم اپنی پوشاک ، شیشہ ہے نان
دکاں میری ہے آپ کا ہی مکان
وہاں خوب رش پھر تو ہونے لگا
اکڑ شاہ ان سب میں کھونے لگا
اکڑشاہ پہ پہلے چڑھائی ہوئی
کہ جی بھر کے اس کی پٹائی ہوئی
بڑھے پھر دکاں توڑنے پھوڑنے
فریموں کو اس کی لگے موڑنے
اکڑشاہ وہاں سے اڑن چھو ہُوا
اکڑفوں ہوئی اس کی ساری ہَوا
اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے
(جاری ہے۔۔۔)
وہ اس بات سے لیکن انجان تھا
تھی اس کی طبیعت میں آوارگی
حماقت وہ کرتا تھا یک بارگی
وہ قرضوں کے مارے پریشان تھا
اصولِ تجارت سے انجان تھا
خریدار آتے تھے بس خال خال
کہ موسم کا رکھتا نہ تھا وہ خیال
کہ سردی میں وہ گولے گنڈے رکھے
تو گرمی میں وہ ابلے انڈے رکھے
دسمبر میں قلفی کی کھولے دکان
مئی میں رکھے موٹے کپڑوں کے تھان
اکڑ شاہ کی کی چشمے کی دکان
پھر اک روز چشمے کی کھولی دکان
لکھا بورڈ پر ’’روٹی کپڑا مکان‘‘
کسی نے کہا اس سے ’’یہ کیا بھلا؟‘‘
دکاں میں ہے کچھ ، بورڈ پر کچھ لکھا!
اکڑ شاہ نے اس سے اکڑ کر کہا
جو اس کو پڑھے گا ادھر آئے گا
نہ آیا ، مگر کوئی اس کے قریب
اکڑشاہ اکیلا تھا بیٹھا غریب
اچانک ہوا اس کا روشن دماغ
اندھیرے میں جیسے ہے جلتا چراغ
لگا زور سے کرنے اعلان وہ
جو سنتا تھا ہوتا تھا حیران وہ
مرے بھائیو! بہنو! آئو یہاں
اگر چاہیے ’’روٹی کپڑا مکاں‘‘
فریم اپنی پوشاک ، شیشہ ہے نان
دکاں میری ہے آپ کا ہی مکان
وہاں خوب رش پھر تو ہونے لگا
اکڑ شاہ ان سب میں کھونے لگا
اکڑشاہ پہ پہلے چڑھائی ہوئی
کہ جی بھر کے اس کی پٹائی ہوئی
بڑھے پھر دکاں توڑنے پھوڑنے
فریموں کو اس کی لگے موڑنے
اکڑشاہ وہاں سے اڑن چھو ہُوا
اکڑفوں ہوئی اس کی ساری ہَوا
اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے
(جاری ہے۔۔۔)
آخری تدوین: