اگر اردو کو تعلیمی زبان قرار دے دیا جائے تو محنت آدھی

محمد امین

لائبریرین
قومی زبان میں اصطلاحات کے حوالے سے طلبہ کیسے کنقیوز ہوں گے؟؟؟

اگر اس بات کی وضاحت کر دی جائے تو کوئی رائے قائم کی جا سکے گی۔


سرکار زیادہ کچھ عرض نہیں کروں گا۔۔ اب صرف اتنا بتانا باقی رہ گیا ہے کہ مجھے بچپن سے ہی اردو سے بڑی محبت رہی ہے مگر میں اسکول، کولج اور جامعہ وغیرہ میں جب بھی کچھ کہتا تھا تو یار لوگ ایک ہی بات کہتے تھے "بھائی پلیزز۔۔۔۔اردو میں بات کر۔۔۔۔" اور کوئی شعر سنا دیتا تھا تو وہ بھی سر کے اوپر سے گزر جاتا تھا۔ یہ ایک جگہ کا قصہ نہیں ہے، ہر جگہ یہی ہوتا آیا ہے میرے ساتھ۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج میں نسبتاً آسان اردو میں بات کرتا ہوں، نہ صرف یہ، بلکہ میں وہ اردو بھول ہی گیا ہوں جو بولتے وقت میری زبان اس کی حلاوت کو محسوس کرتی تھی۔

آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے معاشرے میں آپ اردو کی دقیق، غیر مانوس اور متروک اصطلاحات نافذ کر سکیں گے؟
 

محمد امین

لائبریرین
اردو کی دقیق، غیر مانوس اور متروک اصطلاحات میں نے اس لیے کہا کہ سائنسی و دیگر علوم کی اصطلاحات پر جو کام 80، 100 سال قبل ہوگیا وہ ہوگیا۔ اور پھر ہماری اردو بھی ویسی نہیں رہی۔ اردو میں انگریزی اس قدر در آئی ہے کہ آپ ان علوم میں انگریزی اصطلاحات سے اعراض کر ہی نہیں سکتے، اور نہ ہی طلباء کو سمجھا سکتے ہیں۔ بس ایک واحد حل یہی ہے کہ پہلے اپنی اردو کا حال حلیہ درست کیا جائے۔ لوگوں میں شعور اور زبان سے محبت بیدار کی جائے۔ اس کے لیے مقصدی ادب تخلیق کیا جائے جیسا کہ ابنِ صفی نے علم بلند کیا تھا آج ویسے ہی کسی مردِ میدان کی ضرورت ہے۔ وگرنہ تو آپ اردو میں تعلیم و تعلم رائج نہیں کر سکتے۔ کیوں کسی چیز کے لیے بنیاد بہت ضروری ہے اور آپ کے معاشرے میں اردو کی بنیادیں ڈھیلی ہو چکی ہیں!
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب، بہت ہی اچھی بحث ہے اور ہر دو طرح کی رائے رکھنے والوں کے انداز سے اردو سے محبت عیاں ہے۔ اللہ اس بحث کو مزید تعمیری بحث بنائے اور اس سے خاطر خواہ نتائج بھی برامد ہوں۔ میں امین بھائی کی تمام تر باتوں سے متفق ہوں لیکن ابنِ عادل اور کامران صاحب کا موقف بھی کسی حد تک ٹھیک ہے۔

میں نے زندگی میں صرف ایک ہی چیز ایسی پائی ہے جو ہر جگہ کھپ جاتی ہے اور ہر جگہ کام آتی ہے اور وہ ہے اعتدال ۔ سو یہاں بھی میرا خیال ہے کہ ہمیں بیچ کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔ یعنی جہاں تک ممکن ہوسکے مواد کو اردو میں منتقل کر لیا جائے لیکن جو اصطلاحات عام ہو چکی ہیں وہ انگریزی میں ہی رہیں۔

اردو وکی نے تمام تر اصطلاحات کو اردو میں منتقل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی اور کر بھی دیں لیکن ہوا یہی کہ وہ اصطلاحات باوجوہ دقیق ہوتی گئیں اور نتیجتاً لوگ ان سے مانوس نہیں ہو سکے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر علوم آپ کی مادری زبان میں ہوں تو سیکھنے کا اور تحقیق کا جذبہ بہت بڑھ جاتا ہے اور بے حد آسانی بھی رہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارے ہاں اردو کا وہ مقام ہے بھی یا نہیں۔ جس بات کا ذکر امین بھائی نے کیا وہ ہمارے ساتھ بھی ویسےہی ہوتا ہے یعنی اگر ایک جملے میں اردو کا ایک لفظ بھی مشکل بول دیا جائے تو لوگ منہ تکنے لگتے ہیں اور اگر آپ کسی کو شعر سنا دیں تب تو تیوری سے بل جاتے ہی نہیں جاتے۔ اکثر الفاظ کے انگریزی متبادل بتائے بغیر آپ کسی کو اپنی بات تک نہیں سمجھا سکتے پھر ایسے میں اردو میں تعلیم کیونکر ممکن ہو سکتی ہے۔ اور اس سب کے باوجود دکھ کی بات یہ ہے کہ انہیں انگریزی بھی نہیں آتی۔ یعنی آپ کسی ایک زبان میں اپنی بات انہیں سمجھانا چاہیں تو یہ ممکن ہی نہیں۔

پھر اب تقریباً تمام عالم نے انگریزی کو رابطے کی زبان مان ہی لیا ہے تو ایسے میں ہم انگریزی سے بالکل ناطہ نہیں توڑ سکتے۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہو اور خصوصاً اردو اور انگریزی کی تعلیم اتنی اعلیٰ ہو کہ دیگر علوم کے حصول میں یہ دونوں زبانیں رکاوٹ کے بجائے معاون کا کردار ادا کر سکیں۔
 

عثمان

محفلین
مرے خیال میں کسی زبان سے جان چھڑانے کی فکر حقیقت میں کوئی مثبت سوچ نہیں ہے
جی بالکل ، اس لئے کہا ہے کہ انگریزی سے جان چھڑانے کی فکر حقیقت میں کوئی مثبت سوچ نہیں۔ اصل کو اصل حالت ہی میں قبول کیجیے۔

یہاں پہ بحث سائنسی علوم کی تعلیم پہ ہو رہی ہے۔ کیوں کہ طلبہ کو بیک وقت لسانیات اور سائینسی علوم میں ماہر بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ ویسے بھی ضروری نہیں کہ ایک سائنسی تحقیقی ذہن لسانیات میں بھی اتنا ہی ماہر ہو جتنا وہ تحقیق کے میدان میں ماہر ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ یہاں لسانیات (Linguistics) نہیں ، بلکہ محض ایک زبان سیکھنے پر بات ہو رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں۔ ایک اچھا تخلیقی ذہن سائنس بھی سیکھ سکتا ہے اور زبان بھی۔ دنیا بھر میں سائنس کے طلبہ کا انگریزی جاننا اور سائنس پڑھنا اس کا ثبوت ہے۔ دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیز میں تو سائنس میں پی ایچ ڈی کے لئے یہ ایک شرط ہے کہ آپ کو انگریزی زبان کے علاوہ ایک دو دوسری زبانوں سے بھی واقفیت ہو۔

اس لحاظ سے اگر ایک خاص حلقہ دقیق سائنسی اصطلاحات کو اپنی زبان میں منتقل کر دے تو ہمارے وہ قابل طلبہ بھی تحقیقی میدان میں آگے آسکتے ہیں جو صرف غیر ملکی زبان میں عدم دلچسبی کے باعث کوئی قابل قدر کام نہیں کر پاتے۔
یعنی دقیق سائنسی اصطلاحات کو دقیق ترین سائنسی اصطلاحات سے بدل دیا جائے ؟ :)۔ طلبہ میں تحقیقی صلاحیت کی کمی کا زبان دانی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ مسائل کی بڑی وجہ پاکستان کا بوسیدہ نظام تعلیم ہے۔ نیز وہ غیر سائنسی علوم جو اردو میں باآسانی پڑھے جا سکتے ہیں ان میں بھی ہمارے طلبہ نے دنیا میں کوئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دیا۔ تو پھر انگریزی کو الزام کیسا ؟

یہ بات درست نہیں کہ سائنسی علوم غیر ملکی زبانوں میں فروغ پا رہے ہیں ۔ سائنس نے ہمیشہ سائنسدانوں کی زبان میں ترقی کی ہے۔ جب مسلم سائنسدانوں کا دور تھا تو سائنس عربی میں ترقی کر رہی تھی۔ علاوہ چین اور جاپان جیسی عالمی قوتیں بھی اپنی مقامی زبانوں میں ان علوم کو فروغ دے رہی ہیں ۔
علوم نے ہمیشہ محققین کی زبان میں ترقی کی ہے، نقالوں کی زبان میں نہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کے دور میں سائنس عربی میں اس لئے ترقی کر رہی تھی کہ مسلمان یا عرب مسلمان تحقیق کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ محض نقل پر اکتفا نہیں کررہے تھے۔ چین ، جاپان ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک جو اپنی زبانوں میں تعلیم دیتے ہیں وہ اپنی زبانوں ہی میں تحقیق بھی کررہے ہیں۔ پھر ان لوگوں نے انگریزی سے قطعی جان نہیں چھڑائی ، وہاں تعلیمی اداروں میں انگریزی سیکھنے پر سخت محنت کروائی جاتی ہے۔ جاپان تو ہر سال کینیڈا اور امریکہ سے انگریزی کے ہزاروں اساتذہ کنٹریکٹ پر درآمد کرتا ہے۔
نقل تحقیق کا متبادل نہیں۔ نہ ہی نقل تحقیق کا پیش خیمہ ہے۔

قومی زبان میں اصطلاحات کے حوالے سے طلبہ کیسے کنقیوز ہوں گے؟؟؟
اگر اس بات کی وضاحت کر دی جائے تو کوئی رائے قائم کی جا سکے گی۔

پہلے بھی وضاحت ہو چکی ہے کہ طلبہ کو پہلے سے موجود انگریزی اصطلاحات کی بجائے ناقابل فہم نت نئی تراشیدہ دقیق اردو اصطلاحات پر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میٹرک سے لے کر انجینئرنگ تک سارا نصاب اور ساری ریفرنس کتب انگریزی سے اردو میں نقل کر بھی لیں پھر بھی آپ کے مسائل حل نہیں ہونے لگے۔ اول تو یہ کہ آپ جناتی اصطلاحات میں کہاں تک نقل کریں گے ؟ پھر نقل کر بھی لیں تو عالمی حلقوں سے کٹ کر رہنے کا نقصان الگ ہے۔

زبان ، کوئی بھی زبان ہمیشہ ارتقاء کی حالت میں رہتی ہے۔ خود انگریزی زبان بھی خالص انگریزی یا لاطینی الفاظ پر مشتمل نہیں ، بلکہ ہرسال اس میں نت نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں جن کا ماخذ کئی دوسری زبانیں ہوتی ہیں۔ تاہم انگریزی کے پاس دنیا سے لینے کے عوض دنیا کو دینے کو بھی بہت کچھ ہے۔ اس لئے یہ اپنی مقبولیت اور اجاراداری برقرار رکھتی ہے۔
جبکہ اہل اردو اور کئی دیگران کی ہمت محض لینے اور نقل کرنے تک ہی محدود ہے۔ ہمارے پاس فی الوقت دنیا کو دینے کو کچھ نہیں۔ انگریزی اردو میں اپنا سر گھساتی رہے گی۔ آپ یہ سب محض نقل سازی کے زور پر روک نہ سکیں گے اور نہ ہی اس کا کچھ فائدہ ہے۔
 
جی بالکل ، اس لئے کہا ہے کہ انگریزی سے جان چھڑانے کی فکر حقیقت میں کوئی مثبت سوچ نہیں۔ اصل کو اصل حالت ہی میں قبول کیجیے۔


پہلی بات تو یہ کہ یہاں لسانیات (Linguistics) نہیں ، بلکہ محض ایک زبان سیکھنے پر بات ہو رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں۔ ایک اچھا تخلیقی ذہن سائنس بھی سیکھ سکتا ہے اور زبان بھی۔ دنیا بھر میں سائنس کے طلبہ کا انگریزی جاننا اور سائنس پڑھنا اس کا ثبوت ہے۔ دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیز میں تو سائنس میں پی ایچ ڈی کے لئے یہ ایک شرط ہے کہ آپ کو انگریزی زبان کے علاوہ ایک دو دوسری زبانوں سے بھی واقفیت ہو۔


یعنی دقیق سائنسی اصطلاحات کو دقیق ترین سائنسی اصطلاحات سے بدل دیا جائے ؟ :)۔ طلبہ میں تحقیقی صلاحیت کی کمی کا زبان دانی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ مسائل کی بڑی وجہ پاکستان کا بوسیدہ نظام تعلیم ہے۔ نیز وہ غیر سائنسی علوم جو اردو میں باآسانی پڑھے جا سکتے ہیں ان میں بھی ہمارے طلبہ نے دنیا میں کوئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دیا۔ تو پھر انگریزی کو الزام کیسا ؟


علوم نے ہمیشہ محققین کی زبان میں ترقی کی ہے، نقالوں کی زبان میں نہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کے دور میں سائنس عربی میں اس لئے ترقی کر رہی تھی کہ مسلمان یا عرب مسلمان تحقیق کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ محض نقل پر اکتفا نہیں کررہے تھے۔ چین ، جاپان ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک جو اپنی زبانوں میں تعلیم دیتے ہیں وہ اپنی زبانوں ہی میں تحقیق بھی کررہے ہیں۔ پھر ان لوگوں نے انگریزی سے قطعی جان نہیں چھڑائی ، وہاں تعلیمی اداروں میں انگریزی سیکھنے پر سخت محنت کروائی جاتی ہے۔ جاپان تو ہر سال کینیڈا اور امریکہ سے انگریزی کے ہزاروں اساتذہ کنٹریکٹ پر درآمد کرتا ہے۔
نقل تحقیق کا متبادل نہیں۔ نہ ہی نقل تحقیق کا پیش خیمہ ہے۔



پہلے بھی وضاحت ہو چکی ہے کہ طلبہ کو پہلے سے موجود انگریزی اصطلاحات کی بجائے ناقابل فہم نت نئی تراشیدہ دقیق اردو اصطلاحات پر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میٹرک سے لے کر انجینئرنگ تک سارا نصاب اور ساری ریفرنس کتب انگریزی سے اردو میں نقل کر بھی لیں پھر بھی آپ کے مسائل حل نہیں ہونے لگے۔ اول تو یہ کہ آپ جناتی اصطلاحات میں کہاں تک نقل کریں گے ؟ پھر نقل کر بھی لیں تو عالمی حلقوں سے کٹ کر رہنے کا نقصان الگ ہے۔

زبان ، کوئی بھی زبان ہمیشہ ارتقاء کی حالت میں رہتی ہے۔ خود انگریزی زبان بھی خالص انگریزی یا لاطینی الفاظ پر مشتمل نہیں ، بلکہ ہرسال اس میں نت نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں جن کا ماخذ کئی دوسری زبانیں ہوتی ہیں۔ تاہم انگریزی کے پاس دنیا سے لینے کے عوض دنیا کو دینے کو بھی بہت کچھ ہے۔ اس لئے یہ اپنی مقبولیت اور اجاراداری برقرار رکھتی ہے۔
جبکہ اہل اردو اور کئی دیگران کی ہمت محض لینے اور نقل کرنے تک ہی محدود ہے۔ ہمارے پاس فی الوقت دنیا کو دینے کو کچھ نہیں۔ انگریزی اردو میں اپنا سر گھساتی رہے گی۔ آپ یہ سب محض نقل سازی کے زور پر روک نہ سکیں گے اور نہ ہی اس کا کچھ فائدہ ہے۔

1 آپ کی یہ بات درست ہے کہ ایک اچھا تخلیقی ذہن زبان دانی پر قادر ہے۔تاہم ضروری نہیں کہ ہر سائنسدان ہی زبان دانی کے ذوق سے مالامال ہو ۔جس طرح ایک ماہر لسانیات کے ضروری نہیں کہ وہ اچھا سائنسدان بھی ہو ۔اسی طر ح سائنسدان کو بھی غیر ملکی زبان میں مہارت پہ قدرت حاصل کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔
اور نجانے کیوں آپ نے فرمایا ہے کہ یہاں لسانیات کی نہیں صر ف انگریزی دانی کی بات ہو رہی ہے۔ کیا انگریزی کا شمار لسانیات میں نہیں ہےِ؟؟؟؟؟

2 آپ نے انگریزی اصطلاحات کو دقیق اور اردو اصطلاحات کو دقیق ترین قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو رائج نہیں ہے۔ جب اردو طلبہ کو بچپن سے ہی پڑھائی جائے گی تو یہ مسئلہ تو خود بخود حل ہو جائے گا۔

3 آپ کے نزدیک ہم نقال ہیں ۔ اس کہ وجہ یہی ہے کہ ہمیں ایک غیر ملکی زبان میں سائنس پڑھائی جاتی ہے۔ اس لیے معاشرے میں یہ فکر پروان چڑھتی رہے گی کہ سائنس اہل مغرب کی ملکیت ہے اور ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار کے بر عکس ہے۔ اس غلط تصور کے خا تمے کے لیے لازم ہے کہ اس علم کو اپنی زبان میں ڈھال لیا جائے۔تاکہ اجنبیت اور عدم دلچسپی کی جگہ تجسس اور تحقیق پروان چڑھ پائے۔
 

عثمان

محفلین
1 آپ کی یہ بات درست ہے کہ ایک اچھا تخلیقی ذہن زبان دانی پر قادر ہے۔تاہم ضروری نہیں کہ ہر سائنسدان ہی زبان دانی کے ذوق سے مالامال ہو ۔جس طرح ایک ماہر لسانیات کے ضروری نہیں کہ وہ اچھا سائنسدان بھی ہو ۔اسی طر ح سائنسدان کو بھی غیر ملکی زبان میں مہارت پہ قدرت حاصل کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔
اور نجانے کیوں آپ نے فرمایا ہے کہ یہاں لسانیات کی نہیں صر ف انگریزی دانی کی بات ہو رہی ہے۔ کیا انگریزی کا شمار لسانیات میں نہیں ہےِ؟؟؟؟؟

لسانیات (Linguistics) از خود ایک سائنسی مضمون ہے جو زبانوں کی ساخت ، اقسام اور ارتقاء وغیرہ پر مطالعہ سے متعلق ہے۔ آپ کی باقی بات خود تضادی کا شکار ہے۔

1
2 آپ نے انگریزی اصطلاحات کو دقیق اور اردو اصطلاحات کو دقیق ترین قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو رائج نہیں ہے۔ جب اردو طلبہ کو بچپن سے ہی پڑھائی جائے گی تو یہ مسئلہ تو خود بخود حل ہو جائے گا۔
اردو کو مزید کیا رائج کریں گے۔ مادری زبان ہے ، بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود جب اصطلاحات دقیق ہی رہتی ہیں تو مثبت نتائج کیا برآمد کریں گے ؟ اردو میں ویسے بھی اتنے الفاظ اور تراکیب نہیں جو انگریزی ترجمہ کا پیٹ بھر سکیں۔ لامحالہ ایسی ایسی تراکیب ایجاد کرنا ہونگی جو مکمل نامانوس ہونگی۔ اتنے پاپڑ بیلنے سے بہتر نہیں کہ اصل انگریزی اصطلاحات پر اکتفاء کیا جائے۔ آخر ترجیح تو طلبہ کی سہولت ہی ہے نا جو انگریزی میں کہیں بہتر دستیاب ہے۔

1
3 آپ کے نزدیک ہم نقال ہیں ۔ اس کہ وجہ یہی ہے کہ ہمیں ایک غیر ملکی زبان میں سائنس پڑھائی جاتی ہے۔ اس لیے معاشرے میں یہ فکر پروان چڑھتی رہے گی کہ سائنس اہل مغرب کی ملکیت ہے اور ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار کے بر عکس ہے۔ اس غلط تصور کے خا تمے کے لیے لازم ہے کہ اس علم کو اپنی زبان میں ڈھال لیا جائے۔تاکہ اجنبیت اور عدم دلچسپی کی جگہ تجسس اور تحقیق پروان چڑھ پائے۔
میرا نہیں خیال کہ معاشرے میں اس قسم کی کوئی فکر ہے کہ سائنس اہل مغرب کی ملکیت اور ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار اس سائنس کے برعکس ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے طالب علم سائنس انگریزی میں پڑھتے اجنبیت اور عدم دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔
 
لسانیات (Linguistics) از خود ایک سائنسی مضمون ہے جو زبانوں کی ساخت ، اقسام اور ارتقاء وغیرہ پر مطالعہ سے متعلق ہے۔ آپ کی باقی بات خود تضادی کا شکار ہے۔


اردو کو مزید کیا رائج کریں گے۔ مادری زبان ہے ، بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود جب اصطلاحات دقیق ہی رہتی ہیں تو مثبت نتائج کیا برآمد کریں گے ؟ اردو میں ویسے بھی اتنے الفاظ اور تراکیب نہیں جو انگریزی ترجمہ کا پیٹ بھر سکیں۔ لامحالہ ایسی ایسی تراکیب ایجاد کرنا ہونگی جو مکمل نامانوس ہونگی۔ اتنے پاپڑ بیلنے سے بہتر نہیں کہ اصل انگریزی اصطلاحات پر اکتفاء کیا جائے۔ آخر ترجیح تو طلبہ کی سہولت ہی ہے نا جو انگریزی میں کہیں بہتر دستیاب ہے۔


میرا نہیں خیال کہ معاشرے میں اس قسم کی کوئی فکر ہے کہ سائنس اہل مغرب کی ملکیت اور ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار اس سائنس کے برعکس ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے طالب علم سائنس انگریزی میں پڑھتے اجنبیت اور عدم دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔


1 سر آپ کی بات درست ہےکہ لسانیات خود ایک سائنسی مضمون ہے۔ تاہم اگر یہ وضاحت فرما دیتے کہ اس کا تعلق کون سی سائنس کے ساتھ ہے تو مزید بہتر ہوتا اور مزید یہ بھی فرما دیتے کہ مری بات میں کون کون سے تضادات پائے جاتے ہیں اور مجھے نہ کہنا پڑتا کہ

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

2 مرا خیال ہے اردو کے رائج ہونے کے حوالے سے آپ کی بات درست نہیں ہے۔ کسی زبان کے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زبان رائج ہے۔ کیونکہ اردو اور انگریزی دونوں زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ اب فیصلہ خود فرمائیں کہ کون سی زبان رائج ہے۔

3 آپ کے نزدیک اردو زبان کی دامن تنگ ہے۔ اس فکر پہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مرا نہیں خیال کہ اردو جتنی وسعت کی گنجائش کسی اور زبان میں ہے سوائے عربی کے۔

4 سائنس اور سائنسی نظریہ کے خلاف مذہبی حلقوں کے منفی افکار کے حوالے سے آپ تحقیق کر لیں تو بہتر ہے۔ میں خود چونکہ دینی مدرسے کا طالب علم رہا ہوں اس لیے میں ان طبقات کے افکا ر سے آگاہ ہوں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اردو کو تعلیمی زبان قرار دینا ایک مستحسن فیصلہ ہو گا بشرط یہ کہ دوسری زبانوں سے علوم و فنون کی منتقلی کے عمل کے دوران "اصطلاحات" کو نہ چھیڑا جائے ۔۔۔ صرف اس قدر اہتمام کیا جائے کہ اردو زبان میں ان اصطلاحات کے متبادل بھی "فراہم" کر دیے جائیں ۔۔۔
 
اردو کو تعلیمی زبان قرار دینا ایک مستحسن فیصلہ ہو گا بشرط یہ کہ دوسری زبانوں سے علوم و فنون کی منتقلی کے عمل کے دوران "اصطلاحات" کو نہ چھیڑا جائے ۔۔۔ صرف اس قدر اہتمام کیا جائے کہ اردو زبان میں ان اصطلاحات کے متبادل بھی "فراہم" کر دیے جائیں ۔۔۔


ویسے آپ کی بات معقول ہے
 

عثمان

محفلین
1 سر آپ کی بات درست ہےکہ لسانیات خود ایک سائنسی مضمون ہے۔ تاہم اگر یہ وضاحت فرما دیتے کہ اس کا تعلق کون سی سائنس کے ساتھ ہے تو مزید بہتر ہوتا اور مزید یہ بھی فرما دیتے کہ مری بات میں کون کون سے تضادات پائے جاتے ہیں اور مجھے نہ کہنا پڑتا کہ

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

2 مرا خیال ہے اردو کے رائج ہونے کے حوالے سے آپ کی بات درست نہیں ہے۔ کسی زبان کے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زبان رائج ہے۔ کیونکہ اردو اور انگریزی دونوں زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ اب فیصلہ خود فرمائیں کہ کون سی زبان رائج ہے۔

3 آپ کے نزدیک اردو زبان کی دامن تنگ ہے۔ اس فکر پہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مرا نہیں خیال کہ اردو جتنی وسعت کی گنجائش کسی اور زبان میں ہے سوائے عربی کے۔

4 سائنس اور سائنسی نظریہ کے خلاف مذہبی حلقوں کے منفی افکار کے حوالے سے آپ تحقیق کر لیں تو بہتر ہے۔ میں خود چونکہ دینی مدرسے کا طالب علم رہا ہوں اس لیے میں ان طبقات کے افکا ر سے آگاہ ہوں۔

آپ پہلے فیصلہ کر لیجیے کہ آپ محض بال کی کھال اتارنا چاہتے ہیں یا بات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ میں لسانیات کی بابت بتا چکا ہوں۔ آپ پہلے اس سے کلی لاعلم دیکھائی دیتے تھے ، اب اقسام پر اتر آئے۔
آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ایک اچھا تخلیقی ذہن زبان دانی پر قادر ہے۔ اگلے ہی جملے میں آپ اپنی ہی بات کی نفی کررہے ہیں۔ نیز میں آپ کو مثال دے چکا ہوں کہ دنیا بھر میں سائنس کے طلبہ باآسانی سائنس اور غیر ملکی زبانیں پڑھ لیتے ہیں۔ ایسے میں تکرار کیسی ؟

پاکستان بھر میں اردو لکھی ، پڑھی ، بولی اور سنی جاتی ہے۔ میڈیا ، نصاب اور عام بول چال کا ایک اچھا خاصہ حصہ اسی زبان میں ہے۔ اب بھی اگر اردو کی بجائے انگریزی ہی "رائج" ہے تو پھر آپ کو اردو پہ فاتحہ پڑھ ہی لینی چاہیے۔

اردو لغت میں شامل الفاظ اور تراکیب کا موازنہ انگریزی لغت میں شامل الفاظ اور تراکیب بشمول سائنسی اصطلاحات سے کر لیجیے۔ کس کا حجم کیا ہے ، معلوم ہو جائے گا۔ یہ میری فکر نہیں بلکہ Empirical Fact ہے۔

میں مذہبی حلقوں کی نہیں ، عام لوگوں کی بات کررہا ہوں۔ تمام قوم مدرسہ یافتہ نہیں۔
 
ابنِ عادل بھائی۔ ہم سب ہی نفاذِ اردو کے حامی رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں۔ مگر ٹی وی اور انٹرنیٹ کے آجانے کے بعد معاملات بہت بدل چکے ہیں۔ آپ نے درست کہا، جتنی بھی قومیں ترقی کرتی ہیں وہ اپنی زبان میں تعلیم کے ذریعے ہی ترقی کرتی ہیں۔ مگر وہ قومیں علم تخلیق بھی کرتی ہیں۔ علم انکا خانہ زاد ہیں، گھر کی لونڈی کی طرح ہے۔ مشرقی اقوام فقط ہنس کی چال چلنے میں مصروف ہیں۔ یورپ کو ہی دیکھ لیں تو ان کی علمی و سائنسی اصطلاحات ہر قوم کی الگ الگ ہوتی ہیں کیوں کہ وہ علم و سائنس تخلیق کر رہے ہیں۔ آپ نے اور ہم نے "اجملین" کے سوا دنیا کو دیا ہی کیا ہے؟ یا کچھ اور ایسی ہی چیزیں جو ڈوکٹر سلیم الزماں جیسے سرپھروں نے ایجاد و دریافت کر دیں۔ ہمارے سائنسدانوں کے نام انگلیوں کی پوروں پر گنے جا سکتے ہیں (وہ سائنسدان جو پاکستان میں رہ کر تحقیق کرتے تھے اور ہیں)۔ اگر ہم اردو اصطلاحات ہی سے چپکے رہیں تو وہی حال ہوگا جو "حکمت" کے علم کا ہوا ہے، یعنی کہ اٹھتا جا رہا ہے۔

اگر آپ کو مکمل اردو کا نفاذ کرنا ہے تو وقت کے دھارے کو روکنا ہوگا۔ معاشرے کی تغیر پذیری کے آگے بند باندھنے ہونگے۔ ذرائعِ ابلاغ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہم چند افراد کے یہاں بحث و مباحثہ کرنے یا انفرادی سطح پر کاوشیں کرنے سے اجتماعی فائدہ ہونا غیر ممکن لگتا ہے۔ آپ اپنی آنے والی نسل کو اردو میں مہارت دلادیں، مگر تعلیم اسے انگریزی کی دیں۔ آپ کے لیکچرز اردو میں ہوں مگر اصطلاحات اوریجنل ہوں۔ اپنے بچوں میں اردو ادب سے شغف کو بڑھائیں۔ لٹریچر اور با مقصد لٹریچر کو فروغ دیں تو ہی آپ اس مقام پر آسکیں گے کہ جہاں آپ اپنی خانہ زاد اصطلاحات نافذ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

ادب اور فنونِ لطیفہ کس قدر مفقود ہوتے جا رہے ہیں ہمارے یہاں سے۔ جہاں ہم قومی زبان میں تعلیم کے لیے ان اقوام کی مثال دیتے ہیں وہاں ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انکا معاشرہ فقط "وضعِ اصطلاحات" یا "نفاذِ زبان" سے نہیں نمو پا رہا۔ بلکہ ان اقوام میں علم، ادب، فنونِ لطیفہ وغیرہ سے محبت اوجِ کمال پر ہے۔ ہمارے یہاں تو "تعلیم" کا ہی حال پتلا ہے، پہلے تو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ بچہ اسکول میں آئے اور پھر اسکول آنے کے بعد آنے کے مقصد کا حصول بھی ممکن بنایا جائے۔ طلباء کی ایک بڑی تعداد سرکاری جامعات سے پرائیویٹ بی اے، ایم اے کرتی ہے۔ کیا معیار ہے اس تعلیم کا؟ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو جدید، پروفیشنل اور عصری سائنسی تعلیم دے ہی نہیں رہے ہیں۔ تو یہاں علم کی تخلیق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب علم کی تخلیق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو اپنی زبان کا نفاذ اور مقتدرہ اور دیگر قومی اداروں کی بلاوجہ (و بلا تکان) محنت کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ اسے مجذوب کی بڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔

میں ایک الیکٹرونک انجینیئر ہوں۔۔ (نہ ہی الیکٹرونک اردو کا لفظ ہے اور نہ ہی انجینیئر)۔۔۔ لیکن اگر میں یہ تعلیم اردو میں حاصل کرتا (یعنی اصطلاحات) تو دنیا میں کہاں کھڑا ہوتا آج؟ نہ ہی مجھے انٹرنیٹ پر موجود علم کے بحرِ بے ذخار سے کوئی بوند ملتی نہ ہی میں اس بحر میں کوئی دو چار موتی لٹا پاتا (وہ تو خیر اب بھی نہیں لٹا پارہا کہ ہمارے پیارے دیس میں انجینیئرنگ ہوتی ہی نہیں ہے)۔۔۔
بحث تو بہت طویل ہے مگر چونکہ آخر میں آپ نے ذکر کیا ہے انجنیئر کا اور انجینئرنگ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہمارے دیس میں ہو ہی نہیں رہی تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ محمد امین ، بھائی تم کچھ زیادہ ہی نا امید اور قنوطی ہو رہے ہو ۔ اب میں نے لفظ قنوطی استعمال کیا ہے pessimistic نہیں حالانکہ اب لوگ عموما انگبحث تو بہت طویل ہے مگر چونکہ آخر میں آپ نے ذکر کیا ہے انجنیئر کا اور انجینئرنگ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہمارے دیس میں ہو ہی نہیں رہی تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ محمد امین ، بھائی تم کچھ زیادہ ہی نا امید اور قنوطی ہو رہے ہو ۔ اب میں نے لفظ قنوطی استعمال کیا ہے pessimistic نہیں حالانکہ اب لوگ عموما انگریزی متبادل استعمال کرتے ہیں اور لکھتے ہیں مگر مجھے لفظ قنوطی اور قنوطیت سے ہی تسلی اور اطمینان ہوتاہے کیونکہ یہ میری ثقافت اور زمین سے جڑا ہوا ہے ۔ یہ لفظ میں نے انگریزی متبادل کے بعد سیکھا مگر سمجھ زیادہ آیا اور پھر کبھی نہیں بھولا۔ اس کے ساتھ اس لفظ کا پورا پس منظر اور معنی کا دبستان بھی کھل جاتا ہے جو انگریزی لفظ سے کبھی میرے ذہن میں نہیں آیا۔ الیکٹرونک انجنیئرنگ میرا شعبہ نہیں البتہ سافٹ ویئر انجنیئرنگ کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس پر ملک میں کام بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوئی ہے۔

باقی بحث ذرا وقفہ کے بعد
 
اردو کو مزید کیا رائج کریں گے۔ مادری زبان ہے ، بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود جب اصطلاحات دقیق ہی رہتی ہیں تو مثبت نتائج کیا برآمد کریں گے ؟ اردو میں ویسے بھی اتنے الفاظ اور تراکیب نہیں جو انگریزی ترجمہ کا پیٹ بھر سکیں۔ لامحالہ ایسی ایسی تراکیب ایجاد کرنا ہونگی جو مکمل نامانوس ہونگی۔ اتنے پاپڑ بیلنے سے بہتر نہیں کہ اصل انگریزی اصطلاحات پر اکتفاء کیا جائے۔ آخر ترجیح تو طلبہ کی سہولت ہی ہے نا جو انگریزی میں کہیں بہتر دستیاب ہے۔

پہلی بات تو یہ بہت ہی محدود طبقہ کی مادری زبان ہے ۔

پنجاب میں پنجابی مادری زبان ہے
سندھ میں سندھی
بلوچستان میں بلوچی
پختونخواہ میں پشتو
صرف کراچی اور حیدرآباد میں کافی حد تک یہ مادری زبان ہے۔

اس لیے آپ کی مادری زبان والی بات تو غلط ہے۔

بچپن سے کہاں پڑھتے ہیں ؟

اب بلکہ کافی عرصہ سے انگریزی میدیم اسکولوں کا رواج ہے اور اردو میں صرف دو تین مضامین ہی پڑھائے جاتے ہیں عموما
اسلامیات
اور بذات خود اردو
یا نویں دسویں میں مطالعہ پاکستان

باقی تمام مضامین انگریزی میں ہی ہوتے ہیں اور اب تو بہت سے اسکولوں میں مطالعہ پاکستان Pakistan Studies یا History بن جاتا ہے اور
اسلامیات Islamic Studies ہوتی ہےا ور اردو کئی زیادہ انگریزی یافتہ اسکول بننے کے چکر میں اردو سرے سے ہی گول ۔

میں نے آج سے بیس پچیس سال پہلے اردو صرف دو تین مضامین میں ہی پڑھی تھی جبکہ انگریزی کا اتنا زیادہ دباؤ نہیں تھا اب تو اردو کو رائج ایک طرف بہتر شکل میں بچانے کی کوشش کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ بات صرف اصطلاحات کی نہیں ہے اگر ایک اردو اصطلاح کے ساتھ انگریزی بھی دے دی جائے تو دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ کچھ اصطلاحات انگریزی میں آسان ہیں اور کچھ اردو میں ، ان پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور استعمال کے بعد جو زیادہ دقیق اور نامانوس اصطلاح ہوگی وہ خود ہی ختم ہو جائے گی۔
 

عثمان

محفلین
پہلی بات تو یہ بہت ہی محدود طبقہ کی مادری زبان ہے ۔

پنجاب میں پنجابی مادری زبان ہے
سندھ میں سندھی
بلوچستان میں بلوچی
پختونخواہ میں پشتو
صرف کراچی اور حیدرآباد میں کافی حد تک یہ مادری زبان ہے۔

اس لیے آپ کی مادری زبان والی بات تو غلط ہے۔

بچپن سے کہاں پڑھتے ہیں ؟
پہلی بات تو یہ کہ آپ کا مادری زبان کا تصور ہی غلط ہے۔ مادری زبان وہ ہوتی ہے جسے کوئی بھی شخص انتہائی کم سنی میں ہی اپنے ماحول سے سیکھنا شروع کرتا ہے۔ اس میں سوچ سکتا ہے۔ اپنا بہتر اظہار خیال کرسکتا ہے۔ مثلا میں پنجابی ہونے کے باوجود پنجابی نہیں بلکہ اردو کو اپنی مادری زبان خیال کرتا ہوں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں اکثر بچے کوئی بھی چیز پڑھنے کا آغاز الف ب سے کرتے ہیں۔ پھر کہانیاں موجود ہیں اور ہر سکول میں ابتدا سے ہی اردو کسی نہ کسی طور پڑھائی جاتی ہے۔ اخبارات اور کتب وغیرہ الگ ہیں۔ لہذا اردو کو آپ "مادری" نہ بھی کہیں تب بھی یہ وہ زبان ہے جو پاکستان کے اکثریتی آبادی میں انتہائی قابل فہم ہے۔

اردو کے علاوہ دوسری مادری زبانوں کی فہرست دے کر آپ اپنا ہی کیس کمزور کردیا ہے۔ اب آپ کو نصابی کتب اردو میں نہیں بلکہ پنجابی اور پشتو میں کروانے کے لئے اصرار کرنا چاہیے۔

اب بلکہ کافی عرصہ سے انگریزی میدیم اسکولوں کا رواج ہے اور اردو میں صرف دو تین مضامین ہی پڑھائے جاتے ہیں عموما
اسلامیات
اور بذات خود اردو
یا نویں دسویں میں مطالعہ پاکستان
یہ آپ نے خود اقرار کر لیا ہے کہ کچھ مضامین اردو میں پڑھائے جا رہے ہیں۔

میں نے آج سے بیس پچیس سال پہلے اردو صرف دو تین مضامین میں ہی پڑھی تھی جبکہ انگریزی کا اتنا زیادہ دباؤ نہیں تھا اب تو اردو کو رائج ایک طرف بہتر شکل میں بچانے کی کوشش کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ بات صرف اصطلاحات کی نہیں ہے اگر ایک اردو اصطلاح کے ساتھ انگریزی بھی دے دی جائے تو دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ کچھ اصطلاحات انگریزی میں آسان ہیں اور کچھ اردو میں ، ان پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور استعمال کے بعد جو زیادہ دقیق اور نامانوس اصطلاح ہوگی وہ خود ہی ختم ہو جائے گی۔

ماشااللہ آپ نے انگریزی میڈیم اس وقت کیا تھا جب انگریزی میڈیم کا اتنا دباؤ نہ تھا۔ خاکسار نے اردو میڈیم کی نحوست اس وقت برداشت کی تھی جب انگریزی میڈیم کا خوب دباؤ تھا۔ اردو میڈیم کیا ہے، اردوائی سائنس کیا فضولیات ہے یہ ہم دونوں میں سے میں ہی واقف ہوں۔
 
مجھے اس ساری گفتگو سے ایک بات یاد آئی۔۔۔یہاں شارجہ میں کچھ عرصہ قبل ، دورانِ سفر ایف ایم ریڈیو سننے کا اتفاق ہوا۔ انگریزی زبان کے وہ الفاظ جو ہم روزمرّہ گفتگو میں استعمال کرتے ہیں ، انکے متبادل ہندی الفاظ بتانے کا ایک انعامی مقابلہ جاری تھا۔۔۔ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ ٹائی کو ہندی میں کیا کہیں گے۔ جب کوئی نہ بتا سکا تو ریڈیو والوں نے خود ہی اسکا جواب دیا۔۔۔ملاحظہ ہو ٹائی کا متبادل۔۔۔۔۔کنٹھ لنگوٹی۔۔۔۔:laugh::laugh::laugh:
 

ابن عادل

محفلین
نفاذاردو ہونا چاہیے اس نکتے پر ساری قوم متفق ہے ۔ اب یہ سوال کہ کیسے ہو ؟ میرا خیال ہے اس سوال کا جواب تب خود بخود مل جائے گا جب قوت نافذہ اس کے نفاذ میں سنجیدہ ہوجائے ۔ اب ذرا دیکھیے کراچی میں قوت نافذہ نے اعلان کیا کہ شادی ہال رات بارہ بجے بند ہوں گے اور اس پر کسی حد تک سنجیدہ بھی ہوئی یہی کام جو نا ممکن نظر آتا تھا ممکن ہوگیا ۔ حالا نکہ قوت نافذہ کا حال کیا ہے ہم خوب جانتے ہیں ۔گویا کہ بقول اقبال
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
ابھی اردو ڈائجسٹ میں ایک افریقی ملک (نام یاد نہیں ) کے بارے میں بتایا گیا کہ جب تک وہ روس کے زیر اثر رہا رسم الخط روسی رہا اور رشین فیڈریشن کی تباہی کے بعد ان کا قبلہ امریکہ بنا تو رسم الخط تک بدل دیا انہوں نے ۔ اور ذرا اپنے ماضی میں جھانکیں کمال اتاترک نے ایک حکم میں کیا کردیا سب خوب جانتے ہیں ۔ کوئی اعتراض نہ ہوا کہ جناب قوم پوری تاریخ سے کٹ جائے گی فلاں اصطلاحات اور الفاظ کا کیا بنے گا ۔
الغرض یہ کہ میں اپنے ناقص فہم کے مطابق یہ سمجھتا ہوں کہ اصل چیز قوت نافذہ ہے باقی ساری بحثیں ثانوی ہیں ۔ شاید اصل کے بعد بہت سے سوالات ہی باقی نہ رہیں ۔
جہاں تک یہ بات کہ ہمارے ہاں سائنسی علوم میں بہت زیادہ کام نہیں ہوا لہذا یہ سائنسی زبان نہیں بن سکتی ۔ میرا خیال ہے مذکورہ بالا گذارشات میں اس طرف اشارہ ہوچکا کہ جب نفاذ ہو گا تو پھر اردو میں کتابیں تیار کی جائیں گی اور صرف دوچار سالوں میں وہ پود سامنے آئے گی جو اردو میں سائنسی علوم کو بیان کرنے والی ہوگی اور صرف دوچارسالوں میں الفاظ واصطلاحات کے اکثر سوالات حل ہوچکے ہوں گے ۔
 

زیک

مسافر
ابھی اردو ڈائجسٹ میں ایک افریقی ملک (نام یاد نہیں ) کے بارے میں بتایا گیا کہ جب تک وہ روس کے زیر اثر رہا رسم الخط روسی رہا اور رشین فیڈریشن کی تباہی کے بعد ان کا قبلہ امریکہ بنا تو رسم الخط تک بدل دیا انہوں نے ۔
بہتر سورس؟ میری معلومات کے مطابق تو افریقہ کےکسی ملک کی کوئ بھی زبان cyrillic میں نہیں لکھی گئی۔

دوسرے رشین فیڈریشن تو ابھی تک قائم ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
بحث تو بہت طویل ہے مگر چونکہ آخر میں آپ نے ذکر کیا ہے انجنیئر کا اور انجینئرنگ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہمارے دیس میں ہو ہی نہیں رہی تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ محمد امین ، بھائی تم کچھ زیادہ ہی نا امید اور قنوطی ہو رہے ہو ۔ اب میں نے لفظ قنوطی استعمال کیا ہے pessimistic نہیں حالانکہ اب لوگ عموما انگبحث تو بہت طویل ہے مگر چونکہ آخر میں آپ نے ذکر کیا ہے انجنیئر کا اور انجینئرنگ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہمارے دیس میں ہو ہی نہیں رہی تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ محمد امین ، بھائی تم کچھ زیادہ ہی نا امید اور قنوطی ہو رہے ہو ۔ اب میں نے لفظ قنوطی استعمال کیا ہے pessimistic نہیں حالانکہ اب لوگ عموما انگریزی متبادل استعمال کرتے ہیں اور لکھتے ہیں مگر مجھے لفظ قنوطی اور قنوطیت سے ہی تسلی اور اطمینان ہوتاہے کیونکہ یہ میری ثقافت اور زمین سے جڑا ہوا ہے ۔ یہ لفظ میں نے انگریزی متبادل کے بعد سیکھا مگر سمجھ زیادہ آیا اور پھر کبھی نہیں بھولا۔ اس کے ساتھ اس لفظ کا پورا پس منظر اور معنی کا دبستان بھی کھل جاتا ہے جو انگریزی لفظ سے کبھی میرے ذہن میں نہیں آیا۔ الیکٹرونک انجنیئرنگ میرا شعبہ نہیں البتہ سافٹ ویئر انجنیئرنگ کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس پر ملک میں کام بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوئی ہے۔

باقی بحث ذرا وقفہ کے بعد
سرکار سوفٹ ویئر انجینیئرنگ ہی فقط ترقی کی ضامن نہیں ہوتی۔ الیکٹرونک تو کیا پاکستان میں کوئی سی بھی انجینیئرنگ نہیں ہورہی جو ہو رہی ہے وہ بھی طریقے سے نہیں۔ سول کے شعبے کا کیا حال ہے حالانکہ یہ پاکستان میں قدیم پیشہ ہے۔ ہم دنیا کو بہترین سوفٹ وئیر آؤٹ سورس کر کے تو دے رہے ہیں مگر ایک معمولی سی سوئی بھی ہم چائنا سے منگواتے ہیں۔ بہر حال یہ گفتگو طوالت کی متقاضی ہے اور موضوع غیر متعلق ہوجائے گی۔ سائنس اور فنون کے کسی بھی شعبے میں کمال حاصل کرنے کے لیے اسے صنعتی درجہ اور سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔ میں صنعتی شعبے میں ملازم ہوں اور یقین جانیے ہمارے ملک میں صنعتی شعبے کی کوئی بھی چیز نہیں بنتی۔ ہر چیز ہم باہر سے منگواکر لگاتے ہیں۔ چاہے وہ الیکٹرکل کی ہو، الیکٹرونکس کی، انسٹرومینٹ ہو یا میکینیکل کا کچھ۔ ایک صنعتی والو تک ہمارے ملک میں نہیں بنتا۔ بہرحال اب بس کرتا ہوں ورنہ میری بحث معاشیات ککی طرف چلی جائے گی :)
 

S. H. Naqvi

محفلین
میرے خیال میں تو اسکا آسان حل ہے جو کہ جدید سکولز بخوبی انجام دے رہے ہیں اور وہ یہ کہ آپ نرسری اور پریپ سے ہی انگریزی کو میڈیم آف لرننگ بنا دیں،بچے کو شروع سے ہی اس کی مادری زبان کی طرع انگلش میں بھی ماہر کر دیں تا کہ اس کے لیے نہ انگریزی اجنبی رہے اور نہ سائنسی علوم۔۔۔۔۔! باقی جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو اسے ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھاتے رہیں اور اپنے رہن سہن اور بول چال میں اسے نافذ کریں۔ میں خود ایک میڈیکل پروفیشنل ہوں اور اکثر سوچتا ہوں کہ اے کاش اگر میں نے چھٹی کلاس میں اے بی سی سیکھنے کے بجائے، انگریزی میں بھی کم از کم اردو جتنی دسترس حاصل کی ہوتی اور انگریزی میرے لیے اجنبی نہ ہوتی تو میں موجودہ علم سے دس گنا زیادہ علم رکھتا۔ مجھے خوشی ہوتی ہے ان ڈاکٹرز سے مل کر جو ہوتے تو اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں مگر اردو میں اٹھنا بیٹھنا، شاید یہ اچھی تربیت کا اثر ہوتا ہے۔
بہرحال میرے خیال میں ہمیں انگلش کی برتری ماننی ہی ہو گی اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو۔۔۔۔۔۔!
 
Top