فیصل بھائی،
مسئلہ یہ ہے کہ ہمت بھائی کی آزاد سوچ کو تو سراہا جا سکتا ہے، مگر جب اس آزاد سوچ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان کی تمام برائیوں کی جڑ پنجاب ہے یا فوج ہے ۔۔۔۔۔ تو پھر میں ایسے مراسلوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
میں بھی اس کمنٹ کو نظر انداز کرتا ہون کہ یہ دیسٹریکشن ہے۔
اور جس طرح ہمت بھائی ایران کے خلاف یہ سازشی تھیوری ثابت کرنا چاہتے ہیں
یہ بھی غلط ہے۔ ثابت نہیں کرنا چاہتا بلکہ خیال ظاہر کیا ہے
تو اسے پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ بہتر ہوتا کہ ایران میں شاہ ہی ہوتا جو کہ اسرائیل کا پہلے دن سے پکا دوست تھا اور عرب ممالک کے خلاف اسکی مدد کرتا تھا۔ تو ایران کی موجودہ حکومت کو کیا صلہ دے رہے ہیں ہمت بھائی کہ جس نے فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز اٹھائی۔۔۔۔
یہ اپکی نظر ہے کہ شاہ ایران اسرائیل پرست تھا۔ جب کہ وہ ترقی پرست تھا۔ جس کے دور میں ایران بے انتہا دولت مند ہوگیا تھا اور قریب تھا کہ وہ خطہ میںطاقتور ہوجائے اور ایران، پاکستان اور ترکی کے درمیان ایک علاقائی طاقت پیدا ہوجائے۔ ایک خیال ہے کہ اس عنوان پر شاہ کی مخالفت کی گئی اور ایرانی ملا کی مدد خود امریکہ کے اپنے حق میںتھی۔
فلسطین کے لیے ایران نے صرف اواز اٹھائی۔ کوئی ٹھوس مدد نہیںکی۔ میرا نہیںخیال کہ ایران فلسطین کے معاملہ میںکوئی حقیقی مدد کرتا ہے۔ وہ صرف خطےمیںاپنا رسوخ بڑھانےکی کوشش کرتا ہے۔
بہرحال اپ ایرانی کی موجودہ حکومت کو اور طریق حکومت کو برحق مان رہی ہیں؟ یعنی اپ ملائیت کے حق میںہیں؟
جی ہمت بھائی اسے سازش قرار دے رہے ہیں کہ اس طرح ایران کی موجودہ حکومت فقط فلسطینی بھائیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں مروانا چاہتی تھی اس لیے ایران فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ اور اگر اس کے برخلاف ایران دیگر عرب ممالک کی جگہ فلسطیں کی
لیے آواز اٹھانے کی بجائے اسرائیل کو تسلیم کر لیتا تو کم از کم یہ الزام تو لگتا۔
ایران اپنی خارجہ پالیسی بنانے میںازاد ہے اور اگر وہ اسرائیل کو تسلیم نہیںکرتا تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسکی وجہ سے خطے میںاسکا رسوخ ظاہر ہے کم ہوگا۔ عرب عوام میںیہ پسندیدہ نہیں۔ جبکہ ایران تو عرب عوام میںاپنا اثربڑھانا چاہتا ہے۔
حیرت ہے کہ عرب ممالک تو لبنان میں فواد سینورا حکومت کی حمایت کر کے بھی ہر الزام سے پاک، مگر حزب اللہ اتنی قربانیاں دینے کے بعد بھی امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ۔
میںنے عرب ممالک کے بارے میں ایک لفظ نہیںکہا۔ اپنی رائے محفوظ ہے۔ اپ اپنی بات میری زبان میںڈالنا چاہتی ہیں۔
حزب اللہ کی قربانیاں کیا لبنان کو ازاد کراسکیں؟ کیا ان قربانیوںکی وجہ سے فلسطینی محفوظ ہوگئے؟ اپ نتیجہ دیکھںشور نہ دیکھیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ علاقے میں صرف ایرانی اثر بڑھا
فواد سینورا پکا امریکا نواز ہے اور اس کی حکومت میں کرسچین فورسز اسکی سب سے بڑی حلیف جماعت ہے اور یہ کرسچین فورسز وہ جماعت ہے کہ جس نے اسرائیل کے پچھلے وزیر اعظم کے کہنے پر فلسطینی کیمپ صابرہ اور شتیلا میں کئی سو معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔ جی ہاں ایریل شیرون نے انہی کرسچین فورسز کی مدد سے یہ قتل عام کیا تھا اور آج عرب ممالک جب اسی سینورا اور کرسچین فورسز کی حکومت کی مدد کریں تو کوکوئی مسئلہ نہیں مگر جب ایران اور حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جہاد کریں تو وہ الٹا اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں سازش کرنے والے اور امریکی ایجنٹ اور اسرائیلی ایجنٹ قرار دیے جائیں
عرب کے بارے میںبات بعد میں۔ یہاںتو ایران کی بات ہورہی ہے۔ عرب حمکرانوں کےبارے میںمیری رائے کچھ اچھی نہیںمگر محفوظ ہے۔
ایران کو میں نے امریکی اور اسرائیلی ایجنٹنہیںکہا بلکہ یہ کہا ہے کہ اس وقت ایران ، اسرائیل اور امریکہ کے مفادات ایک ہے ۔ چاہے عراق ہو، چاہے افغانستان چاہے فلسطین۔ یہ تینوںایک صف میںکھڑے نظر اتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میری رائے غلط ہو۔ ابھی تک تو مجھے یہی لگ رہا ہے
اور ایرانی عوام نے امریکی تسلط سے جان چھڑانے کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ آج اگر ایران صرف ایک اشارہ امریکہ کو کر دے کہ وہ پھر سے اسکا ویسا ہی پٹھو بننے کے لیے تیار ہے جیسا کہ شاہ کے دور میں تھا، تو امریکہ آج ان عرب ممالک کو لات مار کر سب سے بڑا فوجی اڈا ایران میں ہی قائم کرے۔
میںعرضکرچکاہوںکہ شاہ ایک علاقائی طاقت بننے کے لیے جارہا تھا اور یہ امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میںنہیںتھا۔ شاید شاہ کی طرحپٹھوبنے بغیر ایرانی ملا امریکہ اور اسرائیل کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہورہا ہو یا ہے۔
بہرحال، آزادی رائے کے نام پر ہمت بھائی اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں، مگر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے منہ سے یہ بات سن کر دکھ بہت ہوتا ہے۔
بیٹی اپنے ہی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی منہ سے بہت اور کچھ سن کر بہت درد ہمیںبھی ہوتا ہے۔