ابن حسن وہ شخص ہے جو بار بار "تقیہ" اور "تبرا" کے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے اور محفل کے اصولوں کے مطابق میں اسے جواب نہیں دیتی۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو صدیوں سے ہوتی چلی آ رہی ہیں اور جواب میں غصہ میں آ کر فریق مخالف کے بڑوں کا تقیہ اور ایک دوسرے پر تبرا دکھایا جاتا ہے اور اس سب چیزوں کا آخری فائدہ انہی انتہا پسندوں اور فرقہ واریت کے ان زہریلے سانپوں کو ہوتا ہے اور وہ قوتیں کمزور ہوتی ہیں جو ان مسائل کو نظر انداز کر کے امت کے مجموعی بھلے کا سوچ رہی ہوتی ہیں۔
اور اس شخص کے زہریلے دماغ کو جانیے کہ مشرف اور متحدہ کو سپورٹ کرنا میرا "ذاتی" فیصلہ ہے اور اسکا فرقہ واریت سے کیا تعلق؟ کراچی کے لاکھوں اہلسنت متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور اسی طرح ملک کے کڑوڑوں لوگ مشرف کو پسند کرتے ہیں۔ اختلاف رائے ہر کسی کو ہو سکتا ہے اور بہت سے اہل تشیع مشرف اور متحدہ سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر اس شخص کو ہر ہر بات میں بس فرقہ واریت دکھائی دیتی ہے۔
**************
اور اس شخص نے جو امل کے متعلق کہا وہ بھی اصل حقائق سے بہت دور ہے۔
امل کے جنگ لبنان کے اہلسنت سے نہیں تھی، بلکہ فلسطینی کمیپوں میں موجود "غیر اسلامی" مارکسٹ یاسر عرفات کی فتح سے ہوئی تھی۔
بہتر ہے کہ میں ریفرنس کے ساتھ کچھ تفصیل پیش کر دوں تاکہ یہ شخص جھوٹی باتیں بنا کر اور حقائق کو توڑ مڑوڑ کر اپنی نفرت کے جالے نہ بن سکے۔
ذیل کا مضمون "لبنان کی خانہ جنگی" نامی آرٹیکل سے لیا گیا ہے جو کہ وکیپیڈیا پر موجود ہے۔
لنک یہ ہے۔ اس صفحہ پر آپ کو بہت سے External Links بھی مل جائیں گے جہاں آپ ہر سائیڈ کو موقف پڑھ سکتے ہیں۔
Shi'a militias
The
Shi'a militias were slow to form and join in the fighting. Initially, many Shi'a had sympathy for the Palestinians and a few had been drawn to the
Lebanese Communist Party, but after 1970's
Black September, there was a sudden influx of armed Palestinians to the Shi'a areas. South Lebanon's population is mainly Shi'a and the Palestinians soon set up base there for their attacks against the Israelis. The
Palestinian movement quickly squandered its influence with the Shi'ite, as radical factions ruled by the gun in much of Shi'ite-inhabited southern Lebanon, where the refugee camps happened to be concentrated, and the mainstream PLO proved either unwilling or unable to rein them in.
Flag of Hezbollah
The
Palestinian radicals'
secularism and behaviour had alienated the traditionalist Shi'ite community, the Shi'a didn't want to pay the price for the PLO's rocket attacks from Southern Lebanon. The PLO created a State within a State in South Lebanon and this instigated a fury among Lebanon's Shi'a who feared a retaliation from the Israelis to their native land in the South. Initially the Shi'a had been sympathetic towards the Palestinians, but when the PLO created chaos in South Lebanon these feelings were reversed. The Shiʿa predominated in the area of southern Lebanon that in the 1960s became an arena for Israel-Palestinian conflict. The state of Lebanon, which always avoided provoking Israel, simply abandoned southern Lebanon. Many of the people there migrated to the suburbs of Beirut which are known as "poverty belts." The young Shi'a migrants, who had not participated in the prosperity of prewar Beirut, joined many Lebanese and some Palestinian organizations. After many years without their own independent political organizations, there suddenly arose
Musa Sadr's
Amal Movement in 1974-75. The Amal movement was created to expel foreign forces from Lebanese land, solely the PLO at the time. Its moderate
Islamist ideology immediately attracted the unrepresented people, and Amal's armed ranks grew rapidly. Amal fought against the PLO in the early days. Later, in the early 1980s, Amal proved to be a strong militia in the face of the Israelis. Amal fighters had delivered the first attack against their Israeli occupiers and succeeded. The Lebanese Shi'a soon proved that the Israelis were not as invincible as everyone thought. Later a hard line faction would break away to join with Shi'a groups fighting
Israel to form
Hezbollah also known as the National Resistance, who to this day remain the most powerful militia of Lebanon. Hezbollah was created to fight against Israel. There was a time in the war when the South was occupied by Israel, if anyone wanted to pass out of South Lebanon they had to have their passports stamped by the Israelis with an Israeli stamp. After a 20 year occupation the Lebanese resistance had succeeded in liberating South Lebanon from the Israelis.
اہم نکات یہ ہیں:
1۔ اسرائیل کے وجود کے آنے کے بعد یاسر عرفات کی فتح نامی تنظیم کے اسرائیل کے خلاف مزاحمت شروع کی اور اپنی اڈے لبنان کے جنوب میں بنائے جہاں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں موجود تھی۔
2۔ جنوبی لبنان کی آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے اور روایتی طور پر مذہبی ہے۔
3۔ آغاز میں جنوبی لبنان کی شیعہ آبادی نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی بہت مدد کی۔ حتی کہ ایک وقت وہ آیا جب الفتح ان کیمپوں میں بہت مضبوط ہو گئی اور چونکہ یہ مسلح جدوجہد اسرائیل کے خلاف کر رہے تھے، اس لیے ان کے پاس کیمپوں میں بہت اسلحہ آ گیا [عرب حکومتیں ان کی مدد کر رہی تھیں، خصوصا صدام حسین اور یاسر عرفات کے تعلقات بہت گہرے تھے]
4۔ مگر الفتح چونکہ غیر مذہبی جماعت تھی اور کمیونسٹ رجحان رکھتی تھی، ان لوگوں نے لبنانی اہل تشیع کی آبادی پر مافیا صورت اختیار کرنا شروع کر دی۔
میں بذات خود ادھر لبنانی کمیونٹی سے واقف ہوں اور وہ بتاتے ہیں کہ کیسے الفتح کے یہ لوگ اسلحہ لے کر آتے تھے اور لبنانی خواتین [جو کہ علاقے میں بہت خوبصورت جانی جاتی ہیں] کو راہ چلتے تنگ کرتے تھے۔
انہی اوباش حرکتوں کی وجہ سے تنازع شروع ہوا جو کہ بنیادی طور پر شیعہ سنی تنازعہ نہیں تھا بلکہ الفتح کے کارکنوں اور مقامی آبادی کے مابین تھا۔
5 سن 1975 میں جنوبی لبنان میں امل ملیشیا قیام میں آئی اور اس نے الفتح کی مافیا کو علاقے میں چیلنج کیا اور انکے مابین جھڑپیں ہوئیں۔
6۔ پھر 1982 میں حزب اللہ قیام میں آ گئی اور اس نے فلسطینی کیمپوں میں موجود اس وقت کے اسلامی جہاد اور بعد میں حماس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے اور یہ الفتح کے برعکس یہ لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔
یہ وہ مختصر تاریخ ہے جس کا پتا ہونا ضروری ہے ورنہ ابن حسن جیسے لوگ اسے توڑ مڑوڑ کے اپنے زہر کے رنگ اس میں بھرتے رہیں گے۔
از ابن حسن:
میری اوپر کی پوسٹ ایک مختصر تبصرہ تھی ہمت علی کے پوسٹ کے اوپر یہاںمیں بیٹھ کر لبنان کی پوری صورت حال کا جائزہ نہیں لے رہا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ میں نے امل کے بارے میں کہا کیا غلط کہا ؟؟؟؟ March 14 Alliance جس کو حالیہ انتخابات میں کامیابی ملی ہے اس کے کرتوتوں سے بھی اچھی طرح میں باعلم ہوں حزب اللہ ہو یا امل یا دروز یا March 14 Alliance یہی تو وہ بگڑی ہو ئی جماعتیں ہیں جنھوننے لبنان کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے ان میں کوئی بھی پاک باز نہیں ہے۔ یہ تو بتا دیا گیا کہ صابرہ و شتیلا 1982 کے واقعہ میں Lebanese Forces ملوث تھیں لیکن 1985 سے1987 تک جو صابرہ کیمپ پر حملے کیے گئے ان میں امل ملوث تھی جو آج حزب اللہ کی ساتھی ہے ۔
یہ شخص پھر آدھی بات کہہ کر بھاگ رہا ہے۔
دروز اور Christian Forces اور سعد حریری [جسے سعودی میڈیا "مظلوم سنی" گروپ بنا کر پیش کر رہا ہے] یہ سب مارچ 14 الائنس کے نام سے جیتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل اور سعودیہ کھل کر موجود ہیں۔
کرسچین فورسز کے علاوہ وہ عیسائی بھی شامل ہیں جن کو اسرائیل نے سرحدوں کی رکھوالی کے لیے بھرتی کیا تھا اور جب حزب اللہ نے لبنانی علاقے اسرائیل سے چھینے تو یہ عیسائی بھی بھاگ کر اسرائیل چلے گئے تھے۔
آج سعودیہ اور اسکے مفتی حضرات کھل کر فتوے دے رہے ہیں کہ لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنا حرام ہے کیونکہ اس مزاحمت کی قیادت حزب اللہ کر رہی ہے۔
مجال ہے جو آپ اس شخص کے منہ سے اس سعودی منافقت کے خلاف بھی ایک لفظ سن سکیں، حالانکہ سعودی کرادر کتنا کھل کر سب کے سامنے ہے۔ آج جب ہمت علی صاحب کھل کر ان امریکی اسرائیلی سعودی پٹھوؤں کی فتح پر جشن منا رہا ہے تو اس کو تو کچھ کہتا نہیں ہے، مگر حزب اللہ کی مزاحمت کے خلاف زبان طعن موجود ہے۔
ْ اور اس شخص کو اگر اپنی نفرت میں کوئی گناہ نظر آتا ہے تو فقط یہ کہ حزب اللہ نے امل کے ساتھ امن معاہدہ کیوں کر لیا۔ مگر یہ شخص آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ امل ملیشیا کا اگرچہ کہ الفتح سے تو اختلاف تھا، مگر اسکے باوجود یہ فلسطینی برادران کے حقوق کی بات کرتی تھی اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں باقاعدہ طور پر شامل رہی ہے۔
جب خانہ جنگی ختم ہو گئی اور صلح ہو گئیِ تو پھر اب امل ملیشیا سے امن معاہدہ کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟
کیوں یہ شخص چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے یہ دو گروہ ایک دوسرے کے ساتھ صلح اور امن معاہدہ نہ کریں اور اسرائیل جو انکا مشترکہ دشمن ہے اور انکے علاقوں پر قابض ہے، اسکے خلاف مل کر مزاحمت نہ کریں؟
کہ دو مسلمان گروہوں میں یہ تاریخ کی پہلی جنگ ہے؟
اس شخص کو ان باتوں کا خوب علم ہے، مگر یہ اسکی فرقہ وارانہ نفرت ہے اور یہ مجھ پر مسلسل تقیہ کا فتوی لگاتا ہے مگر اندر سے یہ یہ پکا لشکر جھنگوی کا یار ہے اور میں وہ وقت ہرگز بھولی نہیں ہوں کہ یہ کیسے طالبان کی ظلم و بربریت پر پردے ڈالا کرتا تھا، اور آج سعودی کردار پر پردے ڈال رہا ہے۔
*******************
از ابن حسن:
اور خود حزب اللہ کا کردار لبنان میں کیا رہا ہے لبنان کو کھنڈر بنانے میں حزب اللہ کا ایک
بنیادی ہاتھ رہا ہے۔
منافقت سامنے آئے گی۔
یہ وہی شخص ہے جسے آج تک افغانستان کے طالبان کا افغانستان کو کھنڈر بنانا نظر نہیں آیا، اور وہ بھی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون کی ندیاں بہاتے ہوئے۔ مگر اسرائیل نے جو شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کی، اسے سے آنے والی تباہی کو حزب اللہ کے نام کر رہا ہے۔
اسے چاہیے کہ حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر ایسے گندے الزامات لگانے سے قبل ایک مرتبہ اپنے گریبان میں تو جھانک کر دیکھے تو اسے طالبان کی وہ تباہیاں اور بربادیاں نظر آئیں گی جس سے یہ آج تک منہ پھیرے بیٹھا ہے۔
از ابن حسن:
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں بھی ملوث ہے۔
ایک مرتبہ بھر اس کی زہریلی نفرت بھرے الزام کی حقیقت سامنے آنے والی ہے اور پتا چلے گا کہ کیسے اس جیسے لوگ اپنی نفرتوں کا شکار ہو کر امریکی و اسرائیلی مفادات کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ الزام لگایا ہے یہودی زیر اثر
Der Spiegel نے کہ حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہے۔ اور یہ الزام لگایا گیا ہے عین انتخابات کے وقت، اور پھر اسے مغربی اور سعودی میڈیا نے پروپیگنڈا کے زور پر ہر طرف پھیلا دیا۔
مگر اللہ کی نصرت ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور باطل کو آخر کار مٹ ہی جانا ہے۔
Der Spiegel نے اپنے ان الزامات کے سورس کے طور پر جس تحقیقاتی ٹریبیونل کا نام لیا تھا، اں کے طرف سے فورا Der Spiegelکے الزام کی مکمل تردید ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں پتا کہ Der Spiegelنے یہ الزام لگاتے وقت انکا نام کیوں لیا ہے کیونکہ تحقیقات میں انکے سامنے ایسے کوئی شواہد نہیں آئے ہیں۔
Bellemar Spokeswoman: Where Did Der Spiegel Get This Story From?
Mohamad Shmaysani
24/05/2009
The spokeswoman for the Special Tribunal for Lebanon Radiya Ashouri that “we don’t know where did the Der Spiegel magazine get this information from and we don’t know where did they bring this story from.” Ashouri stressed general prosecutor Daniel Bellemar “does not issue any comment on issues that are related to the Hariri investigation operational aspects.
Speaking to the Lebanese Al-Intiqad website, Ashouri refuted claims that “anyone in the general prosecutor’s office had spoken to the German magazine about anything.” She added that if there had been something to speak about, “Mr. Bellemar would have directly addressed it without resorting to the media. We have a clear policy of not leaking any information about the tribunal through media outlets, and we have stressing this since the beginning.”
Bellemar’s spokeswoman also denied allegations that any member of the tribunal’s panel had spoken to Der Spiegel. “When Der Spiegel spoke about Bellemar’s spokesperson, they meant me. They emailed me and asked a few questions. My answer was that the tribunal does not deal with investion files through the media and adopts the policy of direct announcement by the part of Mr. Bellemar..If we had something to say, we would have said it directly, not through media outlets.”
Der Spiegel’s Erich Follath claimed that the international committee investigating the assassination of former Prime Minister martyr Rafik Hariri “has reached surprising new conclusions -- and it is keeping them secret – pointing to Hezbollah. After making a long sentimental introduction and gave an affective background about martyr Hariri and the parties and states that “hated secular Hariri”, Follath said: ”Intensive investigations in Lebanon are all pointing to a new conclusion: that it was not the Syrians, but instead special forces of the Lebanese Shiite organization Hezbollah ("Party of God") that planned and executed the diabolical attack. “ Follath also stated names in what he called “the circle of hell” and claimed that “according to the Lebanese security forces, all of the numbers involved apparently belong to the "operational arm" of Hezbollah.”
According to observers, Follath’s baseless allegations are part of a coordinated campaign to put Hezbollah and Lebanese security forces at loggerheads, at a time coordination between the two sides has so far led to the dismantling of some ten Israeli spy networks in Lebanon. Der Spiegel’s report was published amid Israeli official silence and calls for the UN Security Council to take a decisive position as to this grave and most serious violation of UNSCR1701. Follath’s report also comes at a time of extremely serious US-Israeli concern about the outcome of the upcoming elections in Lebanon on June 7, in which the Lebanese National Opposition, of which Hezbollah is a key constituent, are likely to score the majority in parliament and form the next Lebanese government.
Hezbollah dismissed Follath’s report that was also broadcast on Al-Arabiya channel as fabricated police stories cooked in the same black room that has been keen on fabricating such stories for over four years regarding the Syrians and the four Lebanese officers and others.”
اس سٹوری کی پوری کوریج اس
لنک پر دیکھیں۔
اور قرآن کہتا ہے کہ جب کوئی فاسق و فاجر کوئی خبر لے کر آئیں تو اس پر یقین کرنے سے پہلے اس خبر کی تصدیق کر لو۔
افسوس کہ اس تہمت کی پول کھل گئی، مگر دشمن اپنے مقصد میں کامیاب پھر بھی ہے۔ دشمن نے اس خبر کو اتنے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کے ذریعے پھیلایا کہ اس کا فوری اثر انتخابات پر پڑا۔ اگرچہ کہ اسکی بروقت تردید کرنے کی بہت کوشش کی گئی، مگر پھر بھی نقصان سے بچا نہ جا سکا۔
بہرحال، پھر بھی یہودیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے یہ کچھ "اپنے" پہنچانے گئے۔ امریکہ اور اسرائیل کا پہنچایا ہو نقصان اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ ان اپنوں کا پیٹھ پر کیا گیا وار ہے۔
میں تو بس یہی دعا کرتی ہوں کہ دونوں طرف کے یہ انتہا پسند ایک دوسرے کا سہارا لیتے ہوئے کمیونٹیز میں مضبوط نہ ہونے پائیں، ورنہ بطور امت ہمیں اور بہت خسارہ اٹھانا پڑے گا۔