مہوش علی
لائبریرین
اور ابن حسن صاحب کی نفرت پھیلانے کی یہ مہم ختم نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے پھر سے ایرانی حجاج پر "بم" لے کر خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان ایرانی حجاج کے پاس سے "بم" تو کیا، ایک پستول بھی برآمد نہیں ہوا اور زیادہ سے زیادہ سعودی سیکورٹی فورسز نے گھریلو چاقوؤں کو پیش کیا کہ اسکی مدد سے یہ خانہ کعبہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ میں اس سلسلے میں تفصیل سے ثبوت جمع کر چکی ہوں اور الگ تھریڈ میں جلد پیش کروں گی۔
اسلامی ایرانی قانون میں دیگر مسلمان فقہ کے لوگوں کو مکمل آزادی
قبل اسکے کہ نفرت پھیلانے والے عناصر جھوٹے پروپیگنڈے کریں، بہتر ہے کہ پہلے آئین پر ایک نظر ڈال دی جائے۔ میں ابن حسن صاحب سے بحث میں الجھنا تو نہیں چاہتی، مگر یقین کریں کہ انکے چہرے پر پڑی یہ نقابیں اس وقت اٹھیں گی جب میں ان سے طالبان اور سعودیہ کے حوالے سے کاؤنٹر سوالات کروں گی کہ وہاں کے اہل تشیع پر ہونے والے مظالم بیان کروں گی۔
ایرانی آئیں:
اس سلسلے میں یہ دو کتب بہت مفید ہیں:
۱۔ "شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت اور ضرورت" از مولانا اسرار احمد۔
انہوں نے یہ کتاب ایران کے ذاتی دورے کے بعد لکھی اور ایران میں اہلسنت کی صحیح صورتحال بیان کی ہے اور جس جگہ انہیں ایرانی حکومت سے اختلافات ہیں وہ بھی کھل کر بیان کیے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ انہوں نے انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا ہے اور اختلاف رائے کوئی غلط چیز نہیں۔
باقی جو الزامات یہ نفرت پھیلانے والے عناصر پھیلاتے ہیں، اسکا بھی انہوں نے کھل کر رد کیا ہے، اور بتلایا ہے کہ ایرانی نظام اس چیز کے بہت قریب تر ہے جس سے اسلام کے ان مختلف فقہوں کے ماننے والوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو سکتا ہے۔
مولانا اسرار احمد نے پھر پاکستان میں پھر ہر سڑک پر موجود ہر فرقے کی الگ الگ مسجد پر تنقید کی ہے اور اس معاملے میں ایرانی طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ابن حسن جیسے صاحبان کو ابھی تک یہ علم نہی کہ جماعت کے امام کے پیچھے ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے نماز پڑھ سکتا ہے اور اسکے لیے ایک دوسرے کی نماز سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور مولانا مودودی سے لیکر فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد اور طاہر القادری اور مولانا اسرار احمد ہر کوئی شیعہ امام کے پیچھے بذات خود نماز پڑھ کر اسکی عملی تعلیم دے چکے ہیں اور اسی طرح ایران کے آیت اللہ خامنہ ای پاکستان میں جامعہ اشرفیہ کے دورے کے موقع پر اہلسنت امام کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں۔
بہرحال، ابن حسن صاحب کا مشن نفرت پھیلانا اور مسائل الجھانا اور اختلافات کو ابھارنا ہے۔ یہ پھر کوئی نہ کوئی بہانہ لیکر ان اختلافات کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے کہ یہ چیز انکی فطرت کا اب حصہ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا سوائے یہ کہ اللہ چاہے تو انہیں پھر بھی ہدایت دے دے۔
2۔ اور دوسری اہم کتاب جماعت اسلامی کے نائب "سید اسعد گیلانی" کی ہے جو کہ "انقلاب ایران" کے نام سے لکھی گئی ہے۔ یہ بھی بہت اہم کتاب ہے اور اس میں مولانا مودودی کے افکار اسلامی ایرانی انقلاب کے بارے میں جمع کیے گئے ہیں۔
جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو عالم اسلام کی سب سے پہلی شخصیت جس نے اس پر مبارکباد بھیجی وہ مولانا مودودی تھے۔
مولانا مودودی کو اس جرم کی پاداش میں پھر کئی مہینے حکومت پاکستان نے جیل میں رکھا۔
بہرحال آغا خمینی کے اس انقلاب کو مودودی صاحب کی پوری حمایت حاصل تھی، اور اسی موقع پر ایرانی سفارتکار جناب صادق گنجی کو پاکستان بھیجا گیا اور انہوں نے 5 سال تک جماعت اسلامی پر تحقیق کر کے اپنا پی ایچ ڈی کا پورا تھیسس جماعت پر لکھا۔ اگلے مرحلے میں جناب صادق گنجی صاحب مودودی صاحب کی کتب کا فارسی میں ترجمہ کروا رہے تھے کہ اسی دوران انتہا پسندوں نے ان کو پاکستان میں گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا۔
فیصل اور ظفری برادران،
آپ نیوٹرل ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ بہرحال عملی زندگی میں کبھی کبھار بہت سے مسائل حل کرنے ہوتے ہیں اور اسکے لیے انسان کو غیر جانبدار ہو کر "الگ" نہیں رہنا پڑتا بلکہ عملی زندگی میں عملی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں اور مسائل کے حل ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ تو اگر میں یہاں غیر جابندار نہیں ہوں بلکہ فریق بنی ہوئی ہوں تو امید ہے کہ آپ میری مجبوری کو کسی حد تک سمجھ سکتے ہوں گے۔
اسلامی ایرانی قانون میں دیگر مسلمان فقہ کے لوگوں کو مکمل آزادی
قبل اسکے کہ نفرت پھیلانے والے عناصر جھوٹے پروپیگنڈے کریں، بہتر ہے کہ پہلے آئین پر ایک نظر ڈال دی جائے۔ میں ابن حسن صاحب سے بحث میں الجھنا تو نہیں چاہتی، مگر یقین کریں کہ انکے چہرے پر پڑی یہ نقابیں اس وقت اٹھیں گی جب میں ان سے طالبان اور سعودیہ کے حوالے سے کاؤنٹر سوالات کروں گی کہ وہاں کے اہل تشیع پر ہونے والے مظالم بیان کروں گی۔
ایرانی آئیں:
آپ سب سے درخواست ہے کہ نفرت پھیلانے والے عناصر کی بجائے ان مستند علما کی کتب کا مطالعہ کریں جو کہ عملی طور پر ان مسائل سے آگاہ ہیں، اور انکا حل اسلامی تعلیمات کے مطابق نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔article 11 [unity of islam principle]
in accordance with the sacred verse of the koran "this your community is a single community, and i am your lord, so worship me" [21:92], all muslims form a single nation, and the government of the islamic republic of iran have the duty of formulating its general policies with a view to cultivating the friendship and unity of all muslim peoples, and it must constantly strive to bring about the political, economic, and cultural unity of the islamic world.
article 12 [official religion]
the official religion of iran is islam and the twelver ja'fari school, and this principle will remain eternally immutable. other islamic schools are to be accorded full respect, and their followers are free to act in accordance with their own jurisprudence in performing their religious rites. These schools enjoy official status in matters pertaining to religious education, affairs of personal status (marriage, divorce, inheritance, and wills) and related litigation in courts of law. in regions of the country where muslims following any one of these schools constitute the majority, local regulations, within the bounds of the jurisdiction of local councils, are to be in accordance with the respective school, without infringing upon the rights of the followers of other schools.
اس سلسلے میں یہ دو کتب بہت مفید ہیں:
۱۔ "شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت اور ضرورت" از مولانا اسرار احمد۔
انہوں نے یہ کتاب ایران کے ذاتی دورے کے بعد لکھی اور ایران میں اہلسنت کی صحیح صورتحال بیان کی ہے اور جس جگہ انہیں ایرانی حکومت سے اختلافات ہیں وہ بھی کھل کر بیان کیے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ انہوں نے انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا ہے اور اختلاف رائے کوئی غلط چیز نہیں۔
باقی جو الزامات یہ نفرت پھیلانے والے عناصر پھیلاتے ہیں، اسکا بھی انہوں نے کھل کر رد کیا ہے، اور بتلایا ہے کہ ایرانی نظام اس چیز کے بہت قریب تر ہے جس سے اسلام کے ان مختلف فقہوں کے ماننے والوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو سکتا ہے۔
مولانا اسرار احمد نے پھر پاکستان میں پھر ہر سڑک پر موجود ہر فرقے کی الگ الگ مسجد پر تنقید کی ہے اور اس معاملے میں ایرانی طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ابن حسن جیسے صاحبان کو ابھی تک یہ علم نہی کہ جماعت کے امام کے پیچھے ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے نماز پڑھ سکتا ہے اور اسکے لیے ایک دوسرے کی نماز سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور مولانا مودودی سے لیکر فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد اور طاہر القادری اور مولانا اسرار احمد ہر کوئی شیعہ امام کے پیچھے بذات خود نماز پڑھ کر اسکی عملی تعلیم دے چکے ہیں اور اسی طرح ایران کے آیت اللہ خامنہ ای پاکستان میں جامعہ اشرفیہ کے دورے کے موقع پر اہلسنت امام کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں۔
بہرحال، ابن حسن صاحب کا مشن نفرت پھیلانا اور مسائل الجھانا اور اختلافات کو ابھارنا ہے۔ یہ پھر کوئی نہ کوئی بہانہ لیکر ان اختلافات کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے کہ یہ چیز انکی فطرت کا اب حصہ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا سوائے یہ کہ اللہ چاہے تو انہیں پھر بھی ہدایت دے دے۔
2۔ اور دوسری اہم کتاب جماعت اسلامی کے نائب "سید اسعد گیلانی" کی ہے جو کہ "انقلاب ایران" کے نام سے لکھی گئی ہے۔ یہ بھی بہت اہم کتاب ہے اور اس میں مولانا مودودی کے افکار اسلامی ایرانی انقلاب کے بارے میں جمع کیے گئے ہیں۔
جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو عالم اسلام کی سب سے پہلی شخصیت جس نے اس پر مبارکباد بھیجی وہ مولانا مودودی تھے۔
مولانا مودودی کو اس جرم کی پاداش میں پھر کئی مہینے حکومت پاکستان نے جیل میں رکھا۔
بہرحال آغا خمینی کے اس انقلاب کو مودودی صاحب کی پوری حمایت حاصل تھی، اور اسی موقع پر ایرانی سفارتکار جناب صادق گنجی کو پاکستان بھیجا گیا اور انہوں نے 5 سال تک جماعت اسلامی پر تحقیق کر کے اپنا پی ایچ ڈی کا پورا تھیسس جماعت پر لکھا۔ اگلے مرحلے میں جناب صادق گنجی صاحب مودودی صاحب کی کتب کا فارسی میں ترجمہ کروا رہے تھے کہ اسی دوران انتہا پسندوں نے ان کو پاکستان میں گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا۔
فیصل اور ظفری برادران،
آپ نیوٹرل ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ بہرحال عملی زندگی میں کبھی کبھار بہت سے مسائل حل کرنے ہوتے ہیں اور اسکے لیے انسان کو غیر جانبدار ہو کر "الگ" نہیں رہنا پڑتا بلکہ عملی زندگی میں عملی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں اور مسائل کے حل ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ تو اگر میں یہاں غیر جابندار نہیں ہوں بلکہ فریق بنی ہوئی ہوں تو امید ہے کہ آپ میری مجبوری کو کسی حد تک سمجھ سکتے ہوں گے۔