عمراعظم
محفلین
السلام علیکم ! مندرجہ بالا بحث کو دیکھتے ہو ًیے میں اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔
ہم سب اپنے وطن پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اور کیوں نہ کریں ہم نے اس کے لیے اور اسے دشمنوں سے بچاے رکھنے کے لیے اپنے خون کے نذرا نے دیے ہیں۔ اپنے معصوم بچوں کو نیزوں اور برچھیوں پر جھولتے دیکھا ہے۔بہنوں کی عصمت پامال ہوتے دیکھیں،بھاییوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہیدہوتے دیکھا،،، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم اس ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیےوہ سب کچھ کر گزرتے جوہمارافرض تھا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ہم نے حرص و ہوس کا وہ بازار گرم کیاکہ ہم سے وقت کی ضرورت کو جاننے کی صلاحیت چھین لی گیی۔آخر کار ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرنے کی بجاے ہم نے جھوٹی اور لغو تاویلوں سے
عام لوگوں کو بے وقوف بنایااور اصلاح کی بجاًیے ایک مر تبہ پھر اسی ناپاک دلدل میں پھنستے چلے گًیے جسکے مناظر ہماری روز مرہ زندگی میں عیاں ہیں،کچھ لوگ پیسوں کی خاطراپنے بھتیجوں اور قریبی پیاروں کو بھی اغوا کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔قتل و غارت ۔بے روزگاری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ان حالات میں بھی ہم ایک مرتبہ پھران حالات کاذمہ دار بیرونی ہاتھ یا تیسری قوت کا لالی پاپ دے کرلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔اگربیرونی قوتیں ہمیں کمزورکررہی ہیں تو کیا ہم نے اسکا کویی تدارک کیا ہے۔
میں حسان خان کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتے ہوے مزید یہ عرض کرنا چاہوں گا،،،،،،
ہرلمحہ تغیر پزیردنیا میں ملکوں اور قوموں کی ترجیحات اور معیاراس کی ضروریات کے تابع بن چکے ہیں۔اب ملکوں کی قوت اور دفاع اسکی عسکری قوت نہیں بلکہ معا شی قوت ہے۔اسی قوت کے بل بوتے پر آپ کے دشمن آپ کے دوست بن سکتے ہیں۔عوام کی خوشحالی اور عسکری قوت مل کر ہی آپ کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں۔
نفرت اور الزام تراشی ملکوں، شہروں اور گلی کوچوں سے ہوتی ہویی ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہےاور ہم شتر مرغ کی طرح سر کو ریت میں چھپا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دشمن سے بچ گیے ۔
روس دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک تھالیکن وہ ایسے جال میں پھنس گیا جہاں تمام تر عسکری قوت کے با وجود اسکی معاشی حالت نے اسے شکست وریخت سے دوچار کیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ہم میں کچھ ناعاقبت اندیش مختلف مذاہب،فرقوں،ملکوں اور تہذیبوں سے نفرت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سے ہم نے حاصل یہ کیا ہے ہم خود دوسروں کے لیے قابل نفرت بن کر رہ گیے ہیں۔چاہے وہ ہمارے پڑوسی ملک ہوں یا دور کی دنیا۔۔۔۔۔
چلنا اورمسلسل چلنا شرط ہے راہ ہستی کی
تھک کر بیٹھنے والے مسافر گرد سفر ہو جاتے ہیں
بستر گل پر سونےوالے لوگوں کو معلوم نہیں
بستر گل پر سوتے سوتے دل پتھر ہو جاتے ہیں
لوگو ! اپنے پیار کی دولت لوگوں میں تقسیم کرو
نفرت جن میں بستی ہے ویران وہ گھر ہو جاتے ہیں
اللہ حافظ۔
ہم سب اپنے وطن پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اور کیوں نہ کریں ہم نے اس کے لیے اور اسے دشمنوں سے بچاے رکھنے کے لیے اپنے خون کے نذرا نے دیے ہیں۔ اپنے معصوم بچوں کو نیزوں اور برچھیوں پر جھولتے دیکھا ہے۔بہنوں کی عصمت پامال ہوتے دیکھیں،بھاییوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہیدہوتے دیکھا،،، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم اس ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیےوہ سب کچھ کر گزرتے جوہمارافرض تھا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ہم نے حرص و ہوس کا وہ بازار گرم کیاکہ ہم سے وقت کی ضرورت کو جاننے کی صلاحیت چھین لی گیی۔آخر کار ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرنے کی بجاے ہم نے جھوٹی اور لغو تاویلوں سے
عام لوگوں کو بے وقوف بنایااور اصلاح کی بجاًیے ایک مر تبہ پھر اسی ناپاک دلدل میں پھنستے چلے گًیے جسکے مناظر ہماری روز مرہ زندگی میں عیاں ہیں،کچھ لوگ پیسوں کی خاطراپنے بھتیجوں اور قریبی پیاروں کو بھی اغوا کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔قتل و غارت ۔بے روزگاری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ان حالات میں بھی ہم ایک مرتبہ پھران حالات کاذمہ دار بیرونی ہاتھ یا تیسری قوت کا لالی پاپ دے کرلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔اگربیرونی قوتیں ہمیں کمزورکررہی ہیں تو کیا ہم نے اسکا کویی تدارک کیا ہے۔
میں حسان خان کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتے ہوے مزید یہ عرض کرنا چاہوں گا،،،،،،
ہرلمحہ تغیر پزیردنیا میں ملکوں اور قوموں کی ترجیحات اور معیاراس کی ضروریات کے تابع بن چکے ہیں۔اب ملکوں کی قوت اور دفاع اسکی عسکری قوت نہیں بلکہ معا شی قوت ہے۔اسی قوت کے بل بوتے پر آپ کے دشمن آپ کے دوست بن سکتے ہیں۔عوام کی خوشحالی اور عسکری قوت مل کر ہی آپ کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں۔
نفرت اور الزام تراشی ملکوں، شہروں اور گلی کوچوں سے ہوتی ہویی ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہےاور ہم شتر مرغ کی طرح سر کو ریت میں چھپا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دشمن سے بچ گیے ۔
روس دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک تھالیکن وہ ایسے جال میں پھنس گیا جہاں تمام تر عسکری قوت کے با وجود اسکی معاشی حالت نے اسے شکست وریخت سے دوچار کیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ہم میں کچھ ناعاقبت اندیش مختلف مذاہب،فرقوں،ملکوں اور تہذیبوں سے نفرت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سے ہم نے حاصل یہ کیا ہے ہم خود دوسروں کے لیے قابل نفرت بن کر رہ گیے ہیں۔چاہے وہ ہمارے پڑوسی ملک ہوں یا دور کی دنیا۔۔۔۔۔
چلنا اورمسلسل چلنا شرط ہے راہ ہستی کی
تھک کر بیٹھنے والے مسافر گرد سفر ہو جاتے ہیں
بستر گل پر سونےوالے لوگوں کو معلوم نہیں
بستر گل پر سوتے سوتے دل پتھر ہو جاتے ہیں
لوگو ! اپنے پیار کی دولت لوگوں میں تقسیم کرو
نفرت جن میں بستی ہے ویران وہ گھر ہو جاتے ہیں
اللہ حافظ۔