ایران سے پاکستان کے سرحدی علاقے میں 12گولے فائر

عمراعظم

محفلین
السلام علیکم ! مندرجہ بالا بحث کو دیکھتے ہو ًیے میں اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔
ہم سب اپنے وطن پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اور کیوں نہ کریں ہم نے اس کے لیے اور اسے دشمنوں سے بچاے رکھنے کے لیے اپنے خون کے نذرا نے دیے ہیں۔ اپنے معصوم بچوں کو نیزوں اور برچھیوں پر جھولتے دیکھا ہے۔بہنوں کی عصمت پامال ہوتے دیکھیں،بھاییوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہیدہوتے دیکھا،،، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم اس ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیےوہ سب کچھ کر گزرتے جوہمارافرض تھا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ہم نے حرص و ہوس کا وہ بازار گرم کیاکہ ہم سے وقت کی ضرورت کو جاننے کی صلاحیت چھین لی گیی۔آخر کار ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرنے کی بجاے ہم نے جھوٹی اور لغو تاویلوں سے
عام لوگوں کو بے وقوف بنایااور اصلاح کی بجاًیے ایک مر تبہ پھر اسی ناپاک دلدل میں پھنستے چلے گًیے جسکے مناظر ہماری روز مرہ زندگی میں عیاں ہیں،کچھ لوگ پیسوں کی خاطراپنے بھتیجوں اور قریبی پیاروں کو بھی اغوا کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔قتل و غارت ۔بے روزگاری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ان حالات میں بھی ہم ایک مرتبہ پھران حالات کاذمہ دار بیرونی ہاتھ یا تیسری قوت کا لالی پاپ دے کرلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔اگربیرونی قوتیں ہمیں کمزورکررہی ہیں تو کیا ہم نے اسکا کویی تدارک کیا ہے۔
میں حسان خان کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتے ہوے مزید یہ عرض کرنا چاہوں گا،،،،،،
ہرلمحہ تغیر پزیردنیا میں ملکوں اور قوموں کی ترجیحات اور معیاراس کی ضروریات کے تابع بن چکے ہیں۔اب ملکوں کی قوت اور دفاع اسکی عسکری قوت نہیں بلکہ معا شی قوت ہے۔اسی قوت کے بل بوتے پر آپ کے دشمن آپ کے دوست بن سکتے ہیں۔عوام کی خوشحالی اور عسکری قوت مل کر ہی آپ کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں۔
نفرت اور الزام تراشی ملکوں، شہروں اور گلی کوچوں سے ہوتی ہویی ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہےاور ہم شتر مرغ کی طرح سر کو ریت میں چھپا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دشمن سے بچ گیے ۔
روس دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک تھالیکن وہ ایسے جال میں پھنس گیا جہاں تمام تر عسکری قوت کے با وجود اسکی معاشی حالت نے اسے شکست وریخت سے دوچار کیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ہم میں کچھ ناعاقبت اندیش مختلف مذاہب،فرقوں،ملکوں اور تہذیبوں سے نفرت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سے ہم نے حاصل یہ کیا ہے ہم خود دوسروں کے لیے قابل نفرت بن کر رہ گیے ہیں۔چاہے وہ ہمارے پڑوسی ملک ہوں یا دور کی دنیا۔۔۔۔۔
چلنا اورمسلسل چلنا شرط ہے راہ ہستی کی
تھک کر بیٹھنے والے مسافر گرد سفر ہو جاتے ہیں
بستر گل پر سونےوالے لوگوں کو معلوم نہیں
بستر گل پر سوتے سوتے دل پتھر ہو جاتے ہیں
لوگو ! اپنے پیار کی دولت لوگوں میں تقسیم کرو
نفرت جن میں بستی ہے ویران وہ گھر ہو جاتے ہیں
اللہ حافظ۔
 

arifkarim

معطل
سب سے پہلی میجر بات آپ کی سمجھ سے بالا تر ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟؟؟ امریکہ کے حلیف مجبوری میں بنے ہیں نا کہ خوشی سے یہ بات پاکستان کا ہر خیر خؤاہ جاتنا ہے ۔ آج کا امریکہ اور 2000 کے امریکہ میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ پاکستان اپنی استعداد اور اپنی چادر کے مطابق دشمن بنا سکتا ہے ۔ ہم لوگ 170 ملین آبادی والے ایک ترقی پزیر ملک کے باشندے حقیقت پسندانہ سوچ سے ہی فیصلہ کر سکتے ہیں جذبات ہر انسان میں ہیں پر وہ لوگ جو فیصلہ کرتے ہیں فورم ممبر یا کالم نگار نہیں انہیں آگے پیچھے کا حساب رکھنا پڑتا ہے ۔ جسے آپ ایک لائن میں بیان کر رہے ہیں ان کے لیے اس پر ہزاروں صفحے کالے پڑے تب بھی جھول باقی تھے ۔ اس پر بات کرنا فضول ہے اور کیا کہوں؟
کونسی مجبوری؟ ایسی مجبوریاں ایران اور صیہونی ریاست کو کیوں پیش نہیں آتیں؟ کیا ہم پاکستانیوں نے ٹھیکا لیا ہوا ہے امریکیوں اور مغربیوں کی غلامی کرنے کا، انکے آگے بھیک مانگنے کا؟ امریکہ چاہتا تو ایران سے بھی مدد مانگ سکتا تھا اپنی خود ساختہ دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنے کیلئے۔ پاکستان ہی کیوں؟
 

عسکری

معطل
کونسی مجبوری؟ ایسی مجبوریاں ایران اور صیہونی ریاست کو کیوں پیش نہیں آتیں؟ کیا ہم پاکستانیوں نے ٹھیکا لیا ہوا ہے امریکیوں اور مغربیوں کی غلامی کرنے کا، انکے آگے بھیک مانگنے کا؟ امریکہ چاہتا تو ایران سے بھی مدد مانگ سکتا تھا اپنی خود ساختہ دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنے کیلئے۔ پاکستان ہی کیوں؟
اب یہ ساجد بھائی سے پوچھو جنہوں نے ہمیں لگام ڈال رکھی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
گالی گلوچ، ذاتیات اور غیر اخلاقی گفتگو کی بالکل بھی اجازت نہیں۔ ایسا کوئی بھی مراسلہ فوراً حذف کر دیا جائے گا اور مراسلہ نگار کو انتباہ بھی کیا جائے گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم ! مندرجہ بالا بحث کو دیکھتے ہو ًیے میں اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔
ہم سب اپنے وطن پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اور کیوں نہ کریں ہم نے اس کے لیے اور اسے دشمنوں سے بچاے رکھنے کے لیے اپنے خون کے نذرا نے دیے ہیں۔ اپنے معصوم بچوں کو نیزوں اور برچھیوں پر جھولتے دیکھا ہے۔بہنوں کی عصمت پامال ہوتے دیکھیں،بھاییوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہیدہوتے دیکھا،،، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم اس ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیےوہ سب کچھ کر گزرتے جوہمارافرض تھا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ہم نے حرص و ہوس کا وہ بازار گرم کیاکہ ہم سے وقت کی ضرورت کو جاننے کی صلاحیت چھین لی گیی۔آخر کار ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرنے کی بجاے ہم نے جھوٹی اور لغو تاویلوں سے
عام لوگوں کو بے وقوف بنایااور اصلاح کی بجاًیے ایک مر تبہ پھر اسی ناپاک دلدل میں پھنستے چلے گًیے جسکے مناظر ہماری روز مرہ زندگی میں عیاں ہیں،کچھ لوگ پیسوں کی خاطراپنے بھتیجوں اور قریبی پیاروں کو بھی اغوا کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔قتل و غارت ۔بے روزگاری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ان حالات میں بھی ہم ایک مرتبہ پھران حالات کاذمہ دار بیرونی ہاتھ یا تیسری قوت کا لالی پاپ دے کرلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔اگربیرونی قوتیں ہمیں کمزورکررہی ہیں تو کیا ہم نے اسکا کویی تدارک کیا ہے۔
میں حسان خان کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتے ہوے مزید یہ عرض کرنا چاہوں گا،،،،،،
ہرلمحہ تغیر پزیردنیا میں ملکوں اور قوموں کی ترجیحات اور معیاراس کی ضروریات کے تابع بن چکے ہیں۔اب ملکوں کی قوت اور دفاع اسکی عسکری قوت نہیں بلکہ معا شی قوت ہے۔اسی قوت کے بل بوتے پر آپ کے دشمن آپ کے دوست بن سکتے ہیں۔عوام کی خوشحالی اور عسکری قوت مل کر ہی آپ کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں۔
نفرت اور الزام تراشی ملکوں، شہروں اور گلی کوچوں سے ہوتی ہویی ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہےاور ہم شتر مرغ کی طرح سر کو ریت میں چھپا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دشمن سے بچ گیے ۔
روس دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک تھالیکن وہ ایسے جال میں پھنس گیا جہاں تمام تر عسکری قوت کے با وجود اسکی معاشی حالت نے اسے شکست وریخت سے دوچار کیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ہم میں کچھ ناعاقبت اندیش مختلف مذاہب،فرقوں،ملکوں اور تہذیبوں سے نفرت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سے ہم نے حاصل یہ کیا ہے ہم خود دوسروں کے لیے قابل نفرت بن کر رہ گیے ہیں۔چاہے وہ ہمارے پڑوسی ملک ہوں یا دور کی دنیا۔۔۔ ۔۔
چلنا اورمسلسل چلنا شرط ہے راہ ہستی کی
تھک کر بیٹھنے والے مسافر گرد سفر ہو جاتے ہیں
بستر گل پر سونےوالے لوگوں کو معلوم نہیں
بستر گل پر سوتے سوتے دل پتھر ہو جاتے ہیں
لوگو ! اپنے پیار کی دولت لوگوں میں تقسیم کرو
نفرت جن میں بستی ہے ویران وہ گھر ہو جاتے ہیں
اللہ حافظ۔

درست کہا
 
Top