ایمرجنسی کی آمد؟

ساجداقبال

محفلین
musharraftheserpentzi3.jpg
 

ساجداقبال

محفلین
جیو والوں کی لگتا ہے پھر شامت آئی ہے۔ نشریات کی بندش کے بعد اسوقت پھر پولیس جیو کے اسلام آباد آفس کو گھیرے ہوئے ہیں۔ دی نیوز کے ایڈیٹر ابصار عالم کے مطابق ان کی اطلاعات ہیں کہ وزارت داخلہ سے 25 صحافیوں کی لسٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کو ملی ہے کہ ان افراد کا منہ بند کروانا ہے اور یہ اسی کا شاخسانہ لگتا ہے۔
 

Dilkash

محفلین
یقینا جھوٹ بول رہا ہے اور اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والے چھرے ؟؟؟؟افف

یہ بھی ملاحظہ ہو۔
Musharraf has support of US, UK

(November 3, 2007) Clearly, it stands to reason that Musharraf took care to consult Washington and Britain before announcing his move. Benazir Bhutto's abrupt departure for Dubai against the advice by her party leaders also suggests that Musharraf took her into confidence.

http://ia.rediff.com/news/2007/nov/04guest.htm
 
اسوقت اسلام آباد کچہری میں وکلاء اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ کافی شور ہے باہر اور پولیس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ فضا گو مشرف گو، چیف تیرے جانثار بشمار بے شمار کے نعروں سے گونج رہی ہے۔
 
سب سے پہلے پاکستان، کس کا

چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے تین نومبر کی شام آئینِ پاکستان معطل کرنے کے بعد اپنی تقریر میں یہ وضاحت کر کے بہت اچھا کیا کہ پاکستان ابھی اس مرحلے تک نہیں پہنچا کہ یہاں کے لوگ مغربی انداز کی سیاسی و جمہوری آزادی یا بنیادی حقوق کے متحمل ہوسکیں۔ جس منزل تک پہنچنے میں مغرب کو صدیاں لگ گئیں وہاں پاکستان ساٹھ برس کی مختصر مدت میں کیسے پہنچ سکتا ہے۔

اس جرنیلی وضاحت کے بعد اب پاکستان اپنا جمہوری سفر باآسانی حمورابی، ، رعمیسس، اشوک، خسرو پرویزو اور جولیس سیزر کے دور سے شروع کر سکتا ہے۔ جب بادشاہ کی مخالفت کرنے والے کو مملکت کا غدار سمجھ کر ہاتھی کے پاؤں تلے دے دیا جاتا تھا۔ قلعے کی فصیل سے پھنکوا دیا جاتا تھا۔ کڑھاؤ میں تلوا دیا جاتا تھا، شہر پناہ کے دروازے سے لٹکوا دیا جاتا تھا۔ کھال میں بھوسہ بھروا دیا جاتا تھا یا آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دی جاتی تھی۔

جب تک پاکستانی قوم ان تجربات کی بھٹی سے نہیں گذرے گی وہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کی قدر کیسے پہچانے گی۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ جمہوریت کے گرم گرم حلوے سے منہ جلانے کے بجائے پاکستانی قوم کو برداشت کی سان پر تیز کیا جائے۔

بی۔بی۔سی اردو پر وسعت اللہ خاں کا مکمل کالم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
 

ساجداقبال

محفلین
قربانی کا وقت - حامد میر
میں پریشان اور رنجیدہ تھا۔ ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے پولیس اسٹیشن کی عمارت سے پاکستان کا جھنڈا اتار کر مقامی طالبان اپنا سفید جھنڈا لہرا رہے تھے۔ پاکستان کا قومی پرچم اتارنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی تھے۔ اور وہ اسلحہ لہرا رہے تھے جو ان کے ہاتھ آ چکا تھا۔ پولیس اسٹیشن کے اندر موجود فرنیچر اور دیگر سامان گورنمنٹ ڈگری کالج مٹہ کی بس میں ڈال کر کہیں اور منتقل کیا جارہا تھا۔ میں نے اسے شکوے بھرے انداز میں کہا کہ آپ کو پولیس اسٹیشن کی عمارت سے پاکستان کا جھنڈا نہیں اتارنا چاہیے تھا۔ نور الاسلام کہنے لگا کہ ہماری لڑائی پاکستان سے نہیں بلکہ سے ہے جنہوں نے گن شپ ہیلی کاپٹروں سے ہمارے علاقے میں بے گناہوں پر بارود برسایا، ہمارے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہوئی۔میں پولیس اسٹیشن سے نکل کر مٹہ کے مرکزی بازار میں گھومنے لگا۔ آدھے سے زیادہ بازار بند ہو چکا تھا۔ لوگ دکانوں سے سامان نکال کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ کیا وہ موجودہ حالات سے خوش ہے؟ اس نے انتہائی بیزاری سے کہا کہ ہمارے لئے تو اسلام آباد میں ایمرجنسی نافذ کرنے والے اور سوات میں شریعت نافذ کرنے والے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کیونکہ دونوں ہمارے لئے مسائل بڑھا رہے ہیں کیونکہ دونوں بندوق کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ایک میڈیکل اسٹور کے مالک نے قریب کھڑے ایک مسلح نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندوق والے وردی میں ہوں یا وردی کے بغیر لیکن ان کے سوچنے کا انداز ایک سا ہوتا ہے ہمیں شریعت سے بہت محبت ہے لیکن شریعت بندوق سے نہیں اچھے علم اور عمل کے ذریعے نافذ کی جاسکتی ہے اس دکاندار کی جرأت مندانہ گفتگو سن کر میری پریشانی دور ہونے لگی اور مجھے احساس ہوا کہ اگر مٹہ کا ایک عام سا دکاندار بندوق برداروں سے نہیں ڈرتا تو پھر اس قوم کو بندوق برداروں کا کوئی بھی گروہ زیادہ دیر تک اپنا غلام نہیں بنا سکتا۔ مٹہ سے واپس اسلام آباد پہنچا تو ایک عجیب بے یقینی اور افراتفری کا عالم تھا۔ کہیں سے پولیس کے ہاتھوں وکیلوں کے لہولہان ہونے کی خبر مل رہی تھی، کہیں سے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی خبر آرہی تھی اور خوف و ہراس کے اس عالم میں بھی جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس رانا بھگوان داس اور جسٹس جاوید اقبال نظر بند ہونے کے باوجوداپنی بات کہے جارہے تھے۔ پھر میں نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج جسٹس خواجہ محمد شریف کو پرنم آنکھوں کے ساتھ ایک بین الاقوامی ٹیلی ویژن پر بولتے دیکھا تو مجھے مٹہ کا وہ دکاندار یاد آ گیا جو اپنے سامنے کھڑے بندوق بردار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بندوق برداروں کے طرز فکر کی مخالفت کر رہا تھا۔ پچھلے تین دن سے مجھے کئی دھمکی آمیز ای میلز اور ایس ایم ایس پیغامات ملے جن میں کہا گیا ہم جھوٹ بولنے اور افراتفری پھیلانے سے باز آ جائیں ورنہ ہمارا برا حشر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم جھوٹ بول رہے تھے اور افراتفری پھیلا رہے تھے؟ مجموعی طور پر پچھلے چند ماہ میں پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے صرف اور صرف سچ کا ساتھ دیا۔ 23/ اگست 2007ء کو میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ ”خفیہ اداروں کے لامحدود اختیارات صرف غیر جمہوری قوتوں کے مفادات کے ترجمان رہے ہیں اب جبکہ سپریم کورٹ اُن کے لیے خطرہ بن رہا ہے تو ان خفیہ اداروں کے بعض افسران ایمرجنسی اور مارشل لاء کی تجاویز لکھ لکھ کر اوپر بھیج رہے ہیں“۔ 20 ستمبر 2007ء کو ”دعا کا وقت“ کے عنوان سے خاکسار نے اس کالم میں پھر عرض کیا کہ ”دعا کیجئے کہ پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے، حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان کسی ٹکراؤ کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی پٹری سے نہ اترے کیونکہ اس مرتبہ کوئی حادثہ ہو گیا تو بڑی تباہی آئے گی۔ یہ مت سمجھئے گا کہ خاکسار آپ کو بلاوجہ خوفزدہ کر رہا ہے، متوقع سیاسی حادثے کا اندازہ لگانے کے لئے دیوار کے پار دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حادثے کا اعلان دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے۔“ اس کے بعد عیدالفطر کے دن روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے صفحہ اول پر میرے حوالے سے یہ شائع ہوا کہ حکومت نے عید کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس خبر کی وزیراعظم شوکت عزیز نے خود تردید کی۔ پی ٹی وی بار بار مجھے جھوٹا قرار دیتا رہا لیکن اب تو ایمرجنسی لگ چکی ہے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے بھی ہٹایا جاچکا ہے۔ پاکستان کے عوام خود فیصلہ کرلیں کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چند ججوں کو ان کے گھرں میں بند کر کے چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء کو جیلوں میں پھینک کر اور ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات بندکرنے سے پاکستان کی خدمت کی جارہی ہے تو یہ طرز فکر درست نہیں۔ اس طرح پاکستان کو مضبوط نہیں کمزور کیا جارہا ہے۔ قومی اداروں کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی عدلیہ اور فوج کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے لیکن اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ ادارے کمزور ہو رہے ہیں جس کا ثبوت میں نے مٹہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میرے سامنے ایک سرکاری عمارت سے پاکستان کا پرچم اتار دیا گیا اور میں کچھ نہ کر سکا۔ میری رائے میں پاکستان کے پرچم کی توہین کرنے اور پاکستان کا آئین معطل کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ وہ آئین جو عدلیہ کی خود مختاری اور میڈیا کی آزادی کا ضامن ہے اسے معطل کرنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کی اکثریت ان سے اتفاق نہیں کرتی، اسی لئے وہ ہاتھوں میں بندوقیں اور ڈنڈے اٹھا کر وکلاء اور میڈیا کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ بندوق برداروں سے خوفزدہ ہونے کا دور ختم ہو چکا، اب ہمیں اپنے پیارے وطن پاکستان کو مزید تباہی سے بچانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر پاکستانی قوم اپنی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے کسی قربانی سے گریز نہیں کرے گی۔ اب صرف دعا کا نہیں بلکہ قربانی کا وقت ہے۔ آج ہم نے استقامت اور ہمت کا مظاہرہ نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
 

ظفری

لائبریرین
حکومت نے ایمرجینسی کا نفاذ کر کے اپنی سیاسی کمزوری کو تسلیم کر لیا ہے ۔ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ مسئلوں کا حل کسی سیاسی سطح پر نکلے ۔ مسلسل سیاسی دھچکوں نے حکومت کے اوسان خطا کردیئے ۔ حکمرانوں کے جہموریت کے سب دعوے جھوٹے اور فریب ثابت ہوئے ۔ ریاستی مشنیری کو لاقانونیت برپا کرنے کے لیئے کسی حکمران نے اس طرح استعمال نہیں کیا جو کہ موجودہ حکومت نے کیا ہے ۔ عوام کی ان کو کوئی پروا نہیں ، کسی ادارے کی ان کو کوئی پروا نہیں ۔ یہاں تک کہ عدلیہ کے بھی بھرپور تذلیل کی گئی ۔ بقول سی آئی اے کے ایک افسر مائیکل شیور کے کہ " تاریخ بتائے گی کہ امریکہ کو شاید کبھی جنرل مشرف سے زیادہ امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیئے ایسے اقدامات کرنے کا شائق اتحادی ملا ہو جو کسی بھی طرح اس کے اپنے بھی مفاد میں نہیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف نے افغانستان میں امریکہ کی مدد کے لیئے جو اقدامات کیئے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی عملاً پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ جبکہ پشتون علاقوں میں فوج بھیج کر انہوں نے ملک کو خانہ جنگی کے دھانے پر کھڑا کر دیا ہے ۔ "

پھر سرکاری مشینری نے میڈیا پر پابندی لگا کر اپنی دوسری بڑی کمزوری کا بھی پردہ چاک کر دیا ہے ۔ ملک کی سیاست میں ابھی اور بھی بہت کچھ بدلے گا ۔ مشرف اور بینظیر کی سیاسی ڈیل اب صرف ایک بات کے طور پر رہ جائے گی ۔ فوج کا ہر دور میں عمل و دخل رہا ہے مگر جنرل مشرف کے دور میں یہ عمل و دخل انتہا ہر ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی حکمتِ عملیوں کے سبب ایک فوجی سے زیادہ سیاسی زیادہ نظر آئے ۔ مگر مسلسل ناکامی کے بعد انہیں یہ کہنا پڑ گیا تھا کہ وردی ان کی کھال ہے ۔ اوراب ایمرجینسی ان کی پناہ ۔ یہ بات صاف واضع تھی کہ وردی کے بغیر ان کا صدر رہنا ناممکن تھا ۔ اور عدالت کے ایک متوقع فیصلے کے ڈر سے انہوں نے ملک میں انتشار پھیلا کر اسے ایمرجینسی کا جواز بنا دیا ۔

دوسری طرف پاکستان کے سیاست دانوں نے کبھی سنجیدہ رویہ نہیں اپنایا ۔ صبرو تحمل سے کام نہیں لیا ۔ غورو فکر اور تدبر سے اختلافات کو دور نہیں کیا ۔ ہر سیاستدان اور لیڈر یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنی سوچ ہر کسی پر مسلط کرے ۔ جو کہ ناممکنات میں سے ہے ۔ قومی مفادات میں خواہشات اور سوچ کو قربان کردینا پڑتا ہے کیونکہ اسی طرح کسی قوم کی تعمیر ہوسکتی ہے ۔ اگر سیاست دان ٹکراؤ کی روش اور تصادم کے نظریات سے بچتے تو نہ قوم اس طرح خانوں میں بٹتی اور نہ ہی ملک اس طرح آمروں کے ہتھے چڑھتا۔ ملک کے سیاستدانوں کو عوام کی حالت کا صحیح ادارک نہیں تھا کہ عوام کس کیفیت سے گذر رہے ہیں ۔ اگر وہ بھی کل چیف جسٹس کی طرح ہمت کا ثبوت دیتے تو ان پر آج گل پاشی ہو رہی ہوتی ۔ یہ سب مقدر کی بات ہے اور سیاستدانوں نے اپنا مقدر اقتدار اور دھن و دولت کو بنایا ہوا ہے ۔اس لیئے وہ عوام کی پذیرائی کے ڈبے پر چڑھ نہیں سکے ۔ اب وہ اس مخصمے کا شکار ہیں کہ وہ آگے اپنا سیاسی سفر کیسے کریں ۔ ؟ وکلاء کی تحریک ( جو ابھی دوبارہ اٹھی ہے )۔ یا اپنے طور پر کریں ۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ وکلاء دوبارہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے کبھی وکلاء میں سیاسی شعور اس درجہ نہیں دیکھا گیا تھا ۔ اور وکلاء کے دوبارہ اس طرح کھڑے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کوئی بھی اس طرح کھڑا نہیں رہا ۔ سب جھک گئے ۔ عظیم سائسندان ڈاکٹر قدیر خان بھی جھک گئے ۔ اب وکلاء کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کی شمولیت کے ساتھ طالب علم اور عام لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں ۔ لہذا اب مسئلہ آئینی کم اور سیاسی زیادہ ہوگیا ہے اور یہی بات حکمرانوں‌کو کھٹک رہی ہے کہ آئنین کی دھجیاں اڑانا ان کا محبوب مشغلہ ہے مگر یہ جو سیاسی شعور عام طبقے میں اجاگر ہو رہا ہے ۔ اس کو روکنا اب بہت مشکل ہے ۔ سیاستدان وکلاء کے استقلال میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں کہ کہیں ان کی اپنی شناخت بھی ختم نہ ہوجائے ۔ ویسے اپنے دل کی بات کہوں ۔ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ چیف جسٹس بحال ہو جائیں ۔ خواہش تھی کہ وہ استعفٰی دیں ۔ کیونکہ عوام انہیں چیف جسٹس نہیں بلکہ مسیحا مانتے تھے ۔ وہ اب بھی سمجھیں تو وہ ایک سیاسی شخصیت بن کر کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ انہیں استعفی دیدینا چاہیئے اور ملک کے کروڑوں لوگوں کی خواہشات کے مطابق اپنا سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ قدرت نے انہوں یہ دوسرا موقع دیا ہے ۔ انہیں میدانِ عمل میں آجانا چاہیئے قوم ایک مسیحا کی منتظر ہے ۔شاید وہ ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں ۔
 

ساجداقبال

محفلین
ظفری آپکی بات اکثریت کے دلوں کی آواز ہے لیکن سرکاری اور کچھ ہمارے ”حقیقت پسند“ دوست اس سارے بکھیڑے کو چیف جسٹس کی سیاست کی لالچ سے تعبیر کرینگے۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے، یہی سیاست کا خلاء ہی اب تک مشرفی حکومت کے برقرار رہنے کا جواز ہے۔ اگر کوئی حقیقی سیاسی لیڈر ہوتا تو آج دس بیس ہزار لوگ احتجاج کرتے نظر آتے۔
 
سیاست کا خلاء ہی اب تک مشرفی حکومت کے برقرار رہنے کا جواز ہے۔ اگر کوئی حقیقی سیاسی لیڈر ہوتا تو آج دس بیس ہزار لوگ احتجاج کرتے نظر آتے۔
حقیقی سیاسی لیڈر کو فوج پھانسی پر لٹکادیتی ہے یا غداری کا الزام لگا کر جیل ڈال دیتی ہے۔ عوام کا احتجاج نہ کرنا فوجی پروپیگنڈے کی کامیابی اور مشینری کی مضبوطی ہے۔ ویسے بھی فوج اور عوام کو امنے سامنے انے سے سب کو نقصان ہے۔اس معاملے میں‌واحد امید کی کرن بے نظیر ہی لگ رہی ہیں۔
 

ساجد

محفلین
حقیقی سیاسی لیڈر کو فوج پھانسی پر لٹکادیتی ہے یا غداری کا الزام لگا کر جیل ڈال دیتی ہے۔ عوام کا احتجاج نہ کرنا فوجی پروپیگنڈے کی کامیابی اور مشینری کی مضبوطی ہے۔ ویسے بھی فوج اور عوام کو امنے سامنے انے سے سب کو نقصان ہے۔اس معاملے میں‌واحد امید کی کرن بے نظیر ہی لگ رہی ہیں۔
ہمت بھائی ،
ابھی تسبیح کے کتنے دانی باقی ہیں؟:)
جلدی کرو یار ان پہ بھی بے نظیر کا نام پڑھ کر فارغ کرو تا کہ آپ کسی اور موضوع پر بھی سوچ سکیں۔
 
اس طریقہ کار کو بھی اچھی طرح‌جانتا ہوں۔ جب جواب نہ ہو تو مذاق اڑانا شروع کردو۔ یہ بہت نامناسب طریقہ ہے۔
چلیں ایک اور موضوع پر ایے جو متعلق ہی ہے۔
اج فو ج نے صدر بش کے ہدایات پر جس طرح سر تسلیم خم کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ کس طرح صدر بش کی کال پر چیف اف ارمی اسٹاف نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بش کی ہر بات مانی ہے۔
پی پی پی پر تو یہ الزام ہی ہے کہ وہ امریکی اشاروں پر چل رہی ہے۔ مگر فوج جو عملا چل رہی ہے اس کی طرف سے پہلوتہی کیوں۔ جب اس پر بات ہوتی ہے تو تیوریوں‌پربل کیوں پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ فوج کی بے جا مداخلت نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور عوام کو یہ بات جان کر اس مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
 

ساجد

محفلین
اس طریقہ کار کو بھی اچھی طرح‌جانتا ہوں۔ جب جواب نہ ہو تو مذاق اڑانا شروع کردو۔ یہ بہت نامناسب طریقہ ہے۔
چلیں ایک اور موضوع پر ایے جو متعلق ہی ہے۔
اج فو ج نے صدر بش کے ہدایات پر جس طرح سر تسلیم خم کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ کس طرح صدر بش کی کال پر چیف اف ارمی اسٹاف نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بش کی ہر بات مانی ہے۔
پی پی پی پر تو یہ الزام ہی ہے کہ وہ امریکی اشاروں پر چل رہی ہے۔ مگر فوج جو عملا چل رہی ہے اس کی طرف سے پہلوتہی کیوں۔ جب اس پر بات ہوتی ہے تو تیوریوں‌پربل کیوں پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ فوج کی بے جا مداخلت نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور عوام کو یہ بات جان کر اس مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
ہمت بھائی ،
بات بدلنے یا مذاق اڑانے والا معاملہ ہرگز نہیں تھا۔ آپ شاید کچھ جذباتی ہو گئے بی بی کے نام پہ۔:)
محترم ، فوج ایک ادارے کا نام ہے جس کا ہر سپاہی اپنے چیف کی ہدایات کے تابع ہے اب اگر چیف صاحب ہی غلط ہیں تو صرف فوج( سپاہیوں ) پر الزام کیوں؟ اسی لئیے تو میں نے کل بھی لکھا تھا کہ مجھے خطرہ ہے کہ مشرف کی ہٹ دھرمی فوج میں تقسیم کے بیج نہ بو دے نہیں تو بہت خون خرابہ ہو گا۔
نہ جانے آپ نے کس غیبی آنکھ سے " تیوریوں کے بل " دیکھ لئیے۔ میں سیاست پر بحث ضرور کرتا ہوں لیکن اس کو جان کا روگ نہیں بناتا ، آپ سے بھی کہوں گاکہ جس کی چاہیں حمایت کریں یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن سیاسی بحث کو " کمپنی کی مشہوری " کا ذریعہ نہ بنائیں۔ کیوں کہ یہ ساری کمپنیاں بے کار اور لٹیری ہیں۔:)
 

حسن علوی

محفلین
آج کی بریکنگ نیوز یہ ھے کہ مشرف نے صدر بش کو ٹیلیفون پر یقین دلایا ھے کہ وہ 15 فروری سے پہلے عام انتخابات منعقد کروایئں گے اور صدرات کا حلف اٹھانے سے قبل وردی اتار دیں گے، مزید معلومات کےلیئے یہاں دیکھیئے
 
ہمت بھائی ،
محترم ، فوج ایک ادارے کا نام ہے جس کا ہر سپاہی اپنے چیف کی ہدایات کے تابع ہے اب اگر چیف صاحب ہی غلط ہیں تو صرف فوج( سپاہیوں ) پر الزام کیوں؟ اسی لئیے تو میں نے کل بھی لکھا تھا کہ مجھے خطرہ ہے کہ مشرف کی ہٹ دھرمی فوج میں تقسیم کے بیج نہ بو دے نہیں تو بہت خون خرابہ ہو گا۔
آپ سے بھی کہوں گاکہ جس کی چاہیں حمایت کریں یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن سیاسی بحث کو " کمپنی کی مشہوری " کا ذریعہ نہ بنائیں۔ کیوں کہ یہ ساری کمپنیاں بے کار اور لٹیری ہیں۔:)
چلیے کچھ بات اپ کے بھی پلے پڑی۔ یہ ہی میں‌کہہ رہا ہوں کہ فوج ایک کمپنی بن گئی ہے اور پاکستان کا ستیاناس کررہی ہے جبکہ اسے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔
کمپنی کی مشھوری اس لیے بھی کررہا تھا لوگ خوامخواہ فوج کی کوتاہیوں‌کو سیاستدانوں‌کے ذمہ ڈال دیتے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
چلیے کچھ بات اپ کے بھی پلے پڑی۔ یہ ہی میں‌کہہ رہا ہوں کہ فوج ایک کمپنی بن گئی ہے اور پاکستان کا ستیاناس کررہی ہے جبکہ اسے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔
کمپنی کی مشھوری اس لیے بھی کررہا تھا لوگ خوامخواہ فوج کی کوتاہیوں‌کو سیاستدانوں‌کے ذمہ ڈال دیتے ہیں۔
ہاں ، ہمت بھائی ،
ہمارے سیاستدان تو ایسے ہیں کہ " دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں " ۔
اب خوش ؟
 
پی پی پی پر تو یہ الزام ہی ہے کہ وہ امریکی اشاروں پر چل رہی ہے۔ مگر فوج جو عملا چل رہی ہے اس کی طرف سے پہلوتہی کیوں۔ جب اس پر بات ہوتی ہے تو تیوریوں‌پربل کیوں پڑتے ہیں۔
آج فو ج نے صدر بش کے ہدایات پر جس طرح سر تسلیم خم کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ کس طرح صدر بش کی کال پر چیف اف ارمی اسٹاف نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بش کی ہر بات مانی ہے۔

پی پی پی پر یہ الزام ہے کیا ؟

محترمہ بینظیر واشنگٹن جا کر تب تک بھیک مانگتی رہی جب تک سی آئی اے نے اس کے کشکول میں اقتدار کی بھیک ڈال نہیں دی اور اس کے بعد سے بی بی نے ملک دشمن بیانات کا جو سلسلہ شروع کیا وہ اب تک جاری و ساری ہے۔

ذرا اس بیان کی وضاحت کریں

ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے اور کمال ڈھٹائی سے اس پر بار بار قائم رہی ( شرم تو چھو کر نہیں گزری بینظیر کو (‌

اس کے بعد امریکہ کو اسامہ کے شبہ میں پاکستان پر حملہ کرنے کی اجازت دینے والا بیان۔

ہمت بھائی اگر آپ تھوڑی سی بھی آنکھیں کھول لیں تو اتنی بڑی اور واضح حقیقت ضرور نظر آ جائے آپ کو کہ اس عورت کو صرف اور صرف اقتدار چاہیے اور ہر قیمت پر۔

ایک بار بھی اس نے معطل ججوں کو بحال کرنے کی بات کی ہے اور کیوں نہیں کی یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں مجھے۔
 
Top