چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے تین نومبر کی شام آئینِ پاکستان معطل کرنے کے بعد اپنی تقریر میں یہ وضاحت کر کے بہت اچھا کیا کہ پاکستان ابھی اس مرحلے تک نہیں پہنچا کہ یہاں کے لوگ مغربی انداز کی سیاسی و جمہوری آزادی یا بنیادی حقوق کے متحمل ہوسکیں۔ جس منزل تک پہنچنے میں مغرب کو صدیاں لگ گئیں وہاں پاکستان ساٹھ برس کی مختصر مدت میں کیسے پہنچ سکتا ہے۔
اس جرنیلی وضاحت کے بعد اب پاکستان اپنا جمہوری سفر باآسانی حمورابی، ، رعمیسس، اشوک، خسرو پرویزو اور جولیس سیزر کے دور سے شروع کر سکتا ہے۔ جب بادشاہ کی مخالفت کرنے والے کو مملکت کا غدار سمجھ کر ہاتھی کے پاؤں تلے دے دیا جاتا تھا۔ قلعے کی فصیل سے پھنکوا دیا جاتا تھا۔ کڑھاؤ میں تلوا دیا جاتا تھا، شہر پناہ کے دروازے سے لٹکوا دیا جاتا تھا۔ کھال میں بھوسہ بھروا دیا جاتا تھا یا آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دی جاتی تھی۔
جب تک پاکستانی قوم ان تجربات کی بھٹی سے نہیں گذرے گی وہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کی قدر کیسے پہچانے گی۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ جمہوریت کے گرم گرم حلوے سے منہ جلانے کے بجائے پاکستانی قوم کو برداشت کی سان پر تیز کیا جائے۔
حقیقی سیاسی لیڈر کو فوج پھانسی پر لٹکادیتی ہے یا غداری کا الزام لگا کر جیل ڈال دیتی ہے۔ عوام کا احتجاج نہ کرنا فوجی پروپیگنڈے کی کامیابی اور مشینری کی مضبوطی ہے۔ ویسے بھی فوج اور عوام کو امنے سامنے انے سے سب کو نقصان ہے۔اس معاملے میںواحد امید کی کرن بے نظیر ہی لگ رہی ہیں۔سیاست کا خلاء ہی اب تک مشرفی حکومت کے برقرار رہنے کا جواز ہے۔ اگر کوئی حقیقی سیاسی لیڈر ہوتا تو آج دس بیس ہزار لوگ احتجاج کرتے نظر آتے۔
ہمت بھائی ،حقیقی سیاسی لیڈر کو فوج پھانسی پر لٹکادیتی ہے یا غداری کا الزام لگا کر جیل ڈال دیتی ہے۔ عوام کا احتجاج نہ کرنا فوجی پروپیگنڈے کی کامیابی اور مشینری کی مضبوطی ہے۔ ویسے بھی فوج اور عوام کو امنے سامنے انے سے سب کو نقصان ہے۔اس معاملے میںواحد امید کی کرن بے نظیر ہی لگ رہی ہیں۔
ہمت بھائی ،اس طریقہ کار کو بھی اچھی طرحجانتا ہوں۔ جب جواب نہ ہو تو مذاق اڑانا شروع کردو۔ یہ بہت نامناسب طریقہ ہے۔
چلیں ایک اور موضوع پر ایے جو متعلق ہی ہے۔
اج فو ج نے صدر بش کے ہدایات پر جس طرح سر تسلیم خم کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ کس طرح صدر بش کی کال پر چیف اف ارمی اسٹاف نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بش کی ہر بات مانی ہے۔
پی پی پی پر تو یہ الزام ہی ہے کہ وہ امریکی اشاروں پر چل رہی ہے۔ مگر فوج جو عملا چل رہی ہے اس کی طرف سے پہلوتہی کیوں۔ جب اس پر بات ہوتی ہے تو تیوریوںپربل کیوں پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ فوج کی بے جا مداخلت نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور عوام کو یہ بات جان کر اس مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
چلیے کچھ بات اپ کے بھی پلے پڑی۔ یہ ہی میںکہہ رہا ہوں کہ فوج ایک کمپنی بن گئی ہے اور پاکستان کا ستیاناس کررہی ہے جبکہ اسے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔ہمت بھائی ،
محترم ، فوج ایک ادارے کا نام ہے جس کا ہر سپاہی اپنے چیف کی ہدایات کے تابع ہے اب اگر چیف صاحب ہی غلط ہیں تو صرف فوج( سپاہیوں ) پر الزام کیوں؟ اسی لئیے تو میں نے کل بھی لکھا تھا کہ مجھے خطرہ ہے کہ مشرف کی ہٹ دھرمی فوج میں تقسیم کے بیج نہ بو دے نہیں تو بہت خون خرابہ ہو گا۔
آپ سے بھی کہوں گاکہ جس کی چاہیں حمایت کریں یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن سیاسی بحث کو " کمپنی کی مشہوری " کا ذریعہ نہ بنائیں۔ کیوں کہ یہ ساری کمپنیاں بے کار اور لٹیری ہیں۔
ہاں ، ہمت بھائی ،چلیے کچھ بات اپ کے بھی پلے پڑی۔ یہ ہی میںکہہ رہا ہوں کہ فوج ایک کمپنی بن گئی ہے اور پاکستان کا ستیاناس کررہی ہے جبکہ اسے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔
کمپنی کی مشھوری اس لیے بھی کررہا تھا لوگ خوامخواہ فوج کی کوتاہیوںکو سیاستدانوںکے ذمہ ڈال دیتے ہیں۔
پی پی پی پر تو یہ الزام ہی ہے کہ وہ امریکی اشاروں پر چل رہی ہے۔ مگر فوج جو عملا چل رہی ہے اس کی طرف سے پہلوتہی کیوں۔ جب اس پر بات ہوتی ہے تو تیوریوںپربل کیوں پڑتے ہیں۔
آج فو ج نے صدر بش کے ہدایات پر جس طرح سر تسلیم خم کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ کس طرح صدر بش کی کال پر چیف اف ارمی اسٹاف نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد بش کی ہر بات مانی ہے۔