میں نہیں سمجھتا کہ بینظیر کے ساتھ مختلف سلوک ہوگا کہ بینظیر کی ضرورت مشرف کو ایمرجینسی کے نفاذ سے پہلے کی تھی ۔ اب صورتحال یکسر مخلتف ہے ۔ اب مشرف کو ہر معاملہ پی سی او کے تحت ہی نمٹانا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ بینظیر اس پی سی او میں کہیں فٹ ہونگیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اب بینظیر پاکستان بھی نہ آئیں ۔
ظفری بھائی ،
میری سمجھ کے مطابق ، بے نظیر کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ابھی تک ہم سب نے دیکھا کہ رینجرز کو گرفتاریوں کے جو احکامات دئیے گئے ہیں ان میں یہ ہدایت شامل ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں و رہنماؤں اور مولانا فضل الرحمان کو گرفتار نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے کہ جنرل صاحب اپنی واپسی یا بہ الفاظ دیگر بھاگنے کا راستہ بند نہیں کرنا چاہیں گے۔ مشرف صاحب کا سورج غروب ہو جانے کے بعد مغربی طاقتیں ، جو پاکستان میں بادشاہ گر ہیں ، بے نظیر کو ہی ان کا جانشین نامزد کر چکی ہیں اور بے نظیر کی طرف سے بھی اس ایمر جنسی ( مارشل لاء ) پر گول مول مؤقف اس بات کو تقویت دیتا ہے ۔
رہی بات مولانا صاحب کی تو وہ تو ہمیشہ سے ہی گھڑے کی مچھلی ہیں اور ہر آڑے وقت میں مشرف صاحب کے کام آتے رہے ہیں اور ابھی بھی جنرل صاحب نے ان سے بہت سارے کام لینے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کے رہنماؤں کو شیشے میں اتارنے کا کام لینا ہے۔
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کی چنداں ضرورت نہ تھی ۔ یہ کام جنرل صاحب نے ، صرف اور صرف ، اپنے اقتدار کو طول بخشنے کے لئیے کیا ہے اس لئیے یہ خیال کرنا کہ اب حالات میں بہتری آئے گی درست نہ ہو گا۔ اور جن مشکلوں سے نکلنے کے لئیے جنرل صاحب نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا ہے اب ان میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا اور انہی مشکلات سے پیپلز پارٹی بھر پور فائدہ اٹھائے گی ۔ اور اب اس کے لئیے اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کا کام خود جنرل صاحب نے آسان کر دیا ہے۔ تو ایسے حالات میں جنرل صاحب کا یہ اقدام بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ بے نظیر کو گرفتار نہ کیا جائے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعوی رکھتی ہے اور اگر عمران خاں جیسے یک رکنی پارٹی کے رہنما کو گرفتار کیا جا سکتا ہے تو بے نظیر کو اس سے مستثنیٰ رکھنا چہ معنی دارد؟؟؟ اور آج بی بی سی ریڈیو پر محترمہ کا یہ بیان سن کر میں ہنسے بغیر نہ رہ سکا " حیرت ہے کہ مجھے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا" !!! ۔ خدا جانے محترمہ اس قوم کو کس حد تک الو بنانا چاہتی ہیں ایسے بیانات دے کر۔ اگر ان کو عوامی قائد ہونے کا دعوی ہے تو آئیں میدان میں۔ دس لاکھ نہیں دو لاکھ لوگ ہی اتار لیں کراچی کی سڑکوں پر ۔ لیکن آپ دیکھتے رہئیے کہ ایسا ہو گا نہیں ۔ کیوں کہ اسی میں بے نظیر کا مفاد ہے۔
جنرل صاحب نے اس مارشل لاء کے نفاذ کی جو دلیلیں پیش فرمائیں ہیں وہ بہت مضحکہ خیز اور بھونڈی ہیں۔ ایمر جنسی صرف اس وقت نافذ کی جا سکتی ہے جب ملک کو بیرونی جارحیت کی وجہ سے اپنی سالمیت کے وجود کو حقیقی خطرہ محسوس ہو۔ اور دوسری صورت میں تب کہ ملک کا کوئی علاقہ یا صوبہ خود مختاری کا اعلان کر دے اور اس شورش پر قابو پانے میں عام قوانین ناکافی ثابت ہوں۔ اور یہ بات عیاں ہے کہ دونوں ہی صورتیں موجود نہ تھیں۔
عدالتِ عُظمیٰ پر نزلہ گرا کر اس بات کا اظہار کر دیا گیا ہے کہ اربابِ اقتدار کو "انصاف" سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اگر یہ عدالتِ عُظمیٰ نظریہ ضرورت کے تحت اقتدار کی چھتری فراہم کر دے تو معزز عدالت کہلائے اور جب انصاف کرے تو اس کا بستر ہی گول کر دیا جائے۔
خود کش حملوں کو اس اقدام کا جواز بنانا تو سمجھ سے ہی باہر ہے۔ عقل اور سمجھ کا تقاضہ یہ تھا کہ اگر حکومت معاملات کو سدھارنے میں ناکام ہو چکی تھی تو آرام سے استعفی دے کر گھر چلی جاتی یا پھر قومی حکومت کے قیام کے لئیے کوشش کرتی ، لیکن یہ سب تو تب کرتے نا کہ اگر نیت صاف ہوتی یہاں تو معاملہ تھا اپنی کرسی بچانے کا۔
خدا ہماری قوم کے رہنماؤں کو ہدایت دے ۔ نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ مارکوس ، نوریگا ، صدام اور چاؤ شسکو کی روحوں نے پاکستان میں مستقل ڈیرے ڈال لئیے ہیں۔