ایم کیو ایم پنجاب میں

نبیل کی فرمائش پر میں‌ موضوع شروع کررہا ہوں:) خوش رہو نبیل۔

اس بات میں‌اختلاف موجود ہے کہ پنجاب نسلی تفرقہ میں‌مبتلا ہے۔ مگر بغور دیکھا جائے تو طبقاتی تقسیم اتنی واضح ہے کہ وہ نسلی تقسیم بھی بن گئی ہے۔ چوہدری کی اولاد چوہدری اور حکومت کی وارث جبکہ کمی کی نسل کمی اور غلام ہی رہتی ہے۔ یہی تونسل پرستی ہے۔ پنجاب میں‌یہ سانپ پوری طرح پھن پھیلاکر لوگوں‌کو ڈس رہا ہے۔ پنجاب پاکستان کا ابادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اور دراصل پاکستان کی اہم بنیاد بھی ہے۔ لامحالہ جو بھی خرابیاں پاکستان میں‌نظر اتی ہیں‌اس کی بنیاد پنجاب میں‌ خرابیوں پر ہے۔ پنجاب کی اصل خرابی طبقاتی تقسیم اور نسل پرستی ہے۔

دوسری طرف ایم کیو ایم طبقاتی تقسیم کے خلاف بات کرتی ہے۔ وہ ایک لبرل ازاد اور ترقی پسند معاشرے کی بات کرتی ہے۔ یہ درحقیقت وہ دوا ہے جو پنجاب کی بیماری دور کرسکتی ہے۔ اس صورت حال میں‌کوئی وجہ نظر نہیں‌اتی کہ ایم کیوایم پنجاب میں نامقبول ہو۔

مگر ایم کیو ایم خود ایک نسل پرست تنظیم ہے۔ وہ دوا تو تجویز کرتی ہے مگر درحقیقت خود اسی بیماری میں مبتلا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے وقت ملا تو اس موضوع پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ میں سب دوستوں سے گزارش کروں گا وہی پرانی بحث دوبارہ چھیڑنے کی بجائے صرف موضوع پر رہ کر بات کریں۔ شکریہ۔
 

فرخ

محفلین
پنجاب میں ایم کیوایم چل نہیں سکتی اور اسکی وجہ ہمت علی بھائی نے خود ہی بتا دی کہ اس جماعت کی بنیاد خود لسان پرستی اور نسل پرستی پر مبنی ہے۔
دوسری بات یہ بھی ذھن میں‌رکھنی ضروری ہے کہ یہ نسل پرستی وغیرہ کا مسئلہ تو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ خود سندھ میں جئے سندھ اور دیگر چھوٹی چھوٹی تحاریک موجود ہیں جن کی بنیاد خود نسل پرستی یا زبان کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ اور ایم کیو ایم جو پہلے ہی کافی بدنام ہے، خود اسی شاخسانے کا حصہ ہے۔
 
ایم کیو ایم اپنی موجودہ شکل میں بے شاید نسل پرست ہو اور تشدد پسند ہو۔ مگر ایم کیو ایم بہرحال پنجاب کی بیماری کی دوا رکھتی ہے۔ اگر ایم کیو ایم پنجاب کے شہروں‌میں لوگوں کو اپیل کرسکے تو شاید ایم کیو ایم کی بنیاد پنجاب میں پڑجائے۔ شھروں‌میں ایم کیو ایم کی موجودگی کی وجہ سے انتخابات میں پنجاب کے دیہی علاقوں میں‌روایتی جاگیر داروں‌پر اثر پڑسکتا ہے۔
مگر پنجاب کے شہروں‌کی ذمہ داری اس وقت نواز لیگ نے لی ہوئی ہے اور وہ کسی صورت اپنی جگہ ایم کیو ایم کو نہیں‌دے سکتی یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اور نواز لیگ میں‌نہیں‌بنتی۔
 

فرخ

محفلین
ایم کیو ایم اپنی موجودہ شکل میں بے شاید نسل پرست ہو اور تشدد پسند ہو۔ مگر ایم کیو ایم بہرحال پنجاب کی بیماری کی دوا رکھتی ہے۔ اگر ایم کیو ایم پنجاب کے شہروں‌میں لوگوں کو اپیل کرسکے تو شاید ایم کیو ایم کی بنیاد پنجاب میں پڑجائے۔ شھروں‌میں ایم کیو ایم کی موجودگی کی وجہ سے انتخابات میں پنجاب کے دیہی علاقوں میں‌روایتی جاگیر داروں‌پر اثر پڑسکتا ہے۔
مگر پنجاب کے شہروں‌کی ذمہ داری اس وقت نواز لیگ نے لی ہوئی ہے اور وہ کسی صورت اپنی جگہ ایم کیو ایم کو نہیں‌دے سکتی یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اور نواز لیگ میں‌نہیں‌بنتی۔

آپکے خیال میں کیا ایم کیو ایم کراچی میں‌نواز لیگ کو برداشت کرتی ہے کہ ان کی حکومت بن جائے؟ بلکہ نواز لیگ کے علاوہ یہ اور کس کو برداشت کرتی ہے؟
جن کی سرشت میں ہی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا کلچر عام ہو وہ مزید بیماریاں‌پیدا کرے گی، دوا نہیں‌کرسکتی۔

کراچی کے موجودہ حالات اور وہ بھی متحدہ کی حکومت کے اندر، سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنے پانی میں‌ہے۔
 
چلیے تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی برائیاں‌ صرف ردعمل کی پیداوار ہیں۔ (مہوش کی تھیوری)

اسکا مطلب ہے کہ ایم کیو ایم اپنی برائیاں‌ ختم کرسکتی ہے (مفروضہ)
اس مفروضہ کو بنیاد بنالیجیے
پھر ایم کیو ایم کی متوسط طبقے کی حکمرانی کے نظریے کو پنجاب پر بڑھادیجیے۔ اصولا پنجاب کا شہری طبقہ اس نظریے سے ضرور متاثرہونا چاہیے
اگر پنجاب کا شہری طبقہ درست ہوجائے تو ہوسکتا ہے پاکستان کی حالت بدل جاوے۔
 

فرخ

محفلین
چلیے تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی برائیاں‌ صرف ردعمل کی پیداوار ہیں۔ (مہوش کی تھیوری)

اسکا مطلب ہے کہ ایم کیو ایم اپنی برائیاں‌ ختم کرسکتی ہے (مفروضہ)
اس مفروضہ کو بنیاد بنالیجیے
پھر ایم کیو ایم کی متوسط طبقے کی حکمرانی کے نظریے کو پنجاب پر بڑھادیجیے۔ اصولا پنجاب کا شہری طبقہ اس نظریے سے ضرور متاثرہونا چاہیے
اگر پنجاب کا شہری طبقہ درست ہوجائے تو ہوسکتا ہے پاکستان کی حالت بدل جاوے۔

میں‌آپکے صرف اسی پوائینٹ سے اتفاق کرتا ہوں:
اگر پنجاب کا شہری طبقہ درست ہوجائے تو ہوسکتا ہے پاکستان کی حالت بدل جاوے۔
اور اس کام کے لئے ایم کیو ایم کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایم کیو ایم کی برائیایوں‌کا بھی رد عمل موجود ہے (لوگوں‌کی نفرت کی صورت میں) اور جو مفروضہ آپ قائم کرنا چاہ رہے ہیں، جس قسم کے لوگ ایم کیو ایم کا حصہ ہیں، انہیں دیکھیں تو یہ صرف ایک مفروضہ ہی رہیگا، بنیاد بنانا تو بہت دور کی بات ہوگی
 
کراچی میں‌بھی ایم کیو ایم کی کوئی حمایت نہیں‌تھی
بشریٰ زیدی کیس
سہراب گوٹھ اور اورنگی کے واقعات نے کراچی کے عوام میں‌ خوف پیدا کیا
اس خوف کو کیش کیا گیا۔
فرض کرلیں‌اگر کوئی پنجاب میں‌ایم کیو ایم کو مقبول کروانا چاہتا ہے تو اس کے لیے حالات بنائے گا۔ سب سے پہلے خوفزدہ کرنا حالات بنانے کا ایک قدم ہوگا
لوگ ایم کیوایم یا اس جیسی تنظیم کی طرف راغب ہونگے
پنجاب کے عوام اس وقت کس چیز کے خوف میں ہیں؟
 

فرخ

محفلین
کراچی میں‌بھی ایم کیو ایم کی کوئی حمایت نہیں‌تھی
بشریٰ زیدی کیس
سہراب گوٹھ اور اورنگی کے واقعات نے کراچی کے عوام میں‌ خوف پیدا کیا
اس خوف کو کیش کیا گیا۔
فرض کرلیں‌اگر کوئی پنجاب میں‌ایم کیو ایم کو مقبول کروانا چاہتا ہے تو اس کے لیے حالات بنائے گا۔ سب سے پہلے خوفزدہ کرنا حالات بنانے کا ایک قدم ہوگا
لوگ ایم کیوایم یا اس جیسی تنظیم کی طرف راغب ہونگے
پنجاب کے عوام اس وقت کس چیز کے خوف میں ہیں؟

برادر میں آپ کا پوائینٹ بہت اچھی طرح سمجھ چُکا ہوں۔ بلکہ دیکھا جائے تو موجودہ زرداری حکومت بھی اور پچھلی مشرف حکومت بھی انہی اقدامات پر چلتی رہی ہے کہ عوام کو مشکلات میں گرفتار رکھا جائے اور پھر انکا نجات دھندہ بننے کا ڈرامہ رچایا جائے۔

اور آپ کا پوائینٹ پنجاب کے عوام کے خوف کے بارے میں کافی حد تک درست ہے، مگر خود متحدہ بھی تو ایک دھشت گرد تنظیم کے کردار کے طور پر سامنے آئی تھی۔ یہ ابھی کی بات نہیں کر رہا، بلکہ ماضی کے کئ سالوں کے ریکارڈ کی بات کر رہاہوں اور پنجاب کے خوفزدہ عوام ان سالوں سے بھی پہلے کے ہیں۔

اور ان کے اس خوف کے نجات دھندہ پہلے ہی دوسری پارٹیوں کی شکل میں‌موجود ہیں‌جو انہیں مختلف رعایات اور پتا نہیں‌کونسی کونسی نعمتوں کے خواب دکھاتے رہتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
ایم‌کیو‌ایم کی متوسط طبقے کی نمائندگی اور شہری آبادی کے مسائل پر توجہ ایک ایسی چیز ہے جو اسے شمالی اور وسطی پنجاب کے شہری علاقوں میں بھی مقبول بنا سکتی ہے۔ مگر ایم‌کیو‌ایم نام بدلنے کے باوجود فی‌الحال ایک لسانی جماعت ہے اور کراچی حیدرآباد وغیرہ کے علاوہ پھیل نہیں سکی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے نسبتاً شہری اور ترقی‌یافتہ علاقوں میں اب نواز لیگ اپنی جگہ کافی حد تک بنوا چکی ہے۔
 

شکاری

محفلین
ایم کیو ایم آخر کس چیز کا خوف پیدا کرے گی پنجاب میں جب کہ خود اس کا نام ہی خوف کی علامت ہو؟

ایم کیو ایم کے بارے میں پنجابیوں کا نقطہ نظر

1- جب صبح گھر سے جاتے ہیں تو انہیں پچاس فیصد اُمید ہوتی ہے سارا دن کوئی لسانی جھگڑا نہیں‌ ہوگا حالات کنٹرول میں رہیں گے کسی کو زندہ نہیں جلایا جائے گا ۔ ۔ ۔
2- اگر کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو گھر سے باہر شخص کسی نہ کسی طریقے سے صحیح سلامت گھر پہنچ جائے گا۔ نہیں تو موت تو برحق ہے۔
3- اسی طرح ہر ماہ کاروباری چھٹیوں کے علاوہ تین چار چھٹیاں انہی جھگڑوں کی وجہ سے مل جاتی ہیں۔
4- کوئی بھی دنیاوی تہوار ہو یا مذہبی آپ سے اسلحے کے زور پر فطرانہ ، کھال ، یا کسی بھی مقصد کے لیے چندہ لینے والے آجاتے ہیں۔ بعض مرتبہ یہ سب کئی کئی بار مختلف تنظیموں اور پارٹیوں کو دینا پڑتا ہے۔

یہ ساری صورتحال کی وجہ کراچی میں موجود مختلف تنظیمیں سنی تحریک، امن کمیٹی اور ایم کیو ایم سمجھی جاتی ہیں اگر ان کے خلاف تھانے میں رپورٹ کرو تو وہاں کوئی شنوائی نہیں‌ ہوگی بلکہ خود ہی گلے نئی مصیبت ڈالنے والی بات ہوتی ہے۔ اگر انہی تنظیموں میں سے ایک کی شکایت دوسری کو لگادی جائے تو دونوں کی آپس میں جنگ چھڑجاتی ہے اور درمیان میں شکایت لگانے والے کا جانی و مالی نقصان ہوتا رہتا ہے۔

موجودہ حالات میں کراچی میں بسنے والے پنجاب میں اپنے رشتہ داروں سے ملتے ہیں تو وہ اس سب کو ایم کیو ایم ہی کا کیا دھرا کہتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب سے آئے ہوئے لوگ سیرو تفریح کے لیے یا کاروبار کے سلسلے میں تو جب ان کو سربازار لوٹا جاتا ہے یا وہ اپنے سامنے ان تنظیموں کو دوسروں سے چندہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایم کیو ایم کے خلاف نیگٹو سوچ ہی جاتی ہے۔

جب کہ ایسی کسی قسم کی صورتحال پنجاب میں نہیں ہے۔ نہ اسلحہ سے ڈرانے والا اور نہ مختلف بہانوں سے چندہ لینے والا۔

اگر آپ کبھی کسی پنجابی سے بات کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اکثر پنجابی فائرنگ اور عام آتش بازی میں فرق نہیں محسوس کرسکتے۔ یہاں بچے بچے کو پتہ ہوتا ہے محلے کے کونسے بندے کے پاس کونسا اسلحہ ہے اور اس میں گولیاں کونسی استعمال ہوتی ہیں۔

پھر پنجابی ایم کیو ایم کو پنجاب میں کیوں برداشت کریں گے جس سے خود اسکے شہر (کراچی) کے لوگ مطمئن نہ ہوں؟؟؟؟؟
 

ساجد

محفلین
ایم‌کیو‌ایم کی متوسط طبقے کی نمائندگی اور شہری آبادی کے مسائل پر توجہ ایک ایسی چیز ہے جو اسے شمالی اور وسطی پنجاب کے شہری علاقوں میں بھی مقبول بنا سکتی ہے۔ مگر ایم‌کیو‌ایم نام بدلنے کے باوجود فی‌الحال ایک لسانی جماعت ہے اور کراچی حیدرآباد وغیرہ کے علاوہ پھیل نہیں سکی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے نسبتاً شہری اور ترقی‌یافتہ علاقوں میں اب نواز لیگ اپنی جگہ کافی حد تک بنوا چکی ہے۔
زیک ، شمالی پنجاب میں ہی تو اس کے لئیے اپنے قدم جمانا سب سے مشکل کام ہو گا کہ وہاں تعلیم اور روزگار کی کمی نہیں ہے۔شمالی پنجاب ، صنعتی خطہ ہے اور اس کی اکثریت میاں صاحبان کے ساتھ ہے حتی کہ پی پی پی کو وہاں پورے پنجاب کی نسبت زیادہ ٹف ٹائم ملتا ہے۔
ہاں جنوبی پنجاب کے جن علاقوں میں جاگیرداری نظام اپنی وحشت کے ساتھ موجود ہے وہاں کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا اس کے لئیے قدرے آسان ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ملتان ، خانیوال اور جھنگ کے اضلاع میں بھی اس کو مدد مل سکتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں اردو بولنے والے کافی تعداد میں موجود ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
اب تو جھنگ میں شاید ہی ان کو حمایت حاصل ہو۔ کیوں کہ ختم نبوت کا مرکزی دفتر جھنگ میں ہی ہے۔
اور انشاء اللہ ان کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑے گی۔
 

شاہ حسین

محفلین
انشاءاللہ ایم کیو ایم پنجاب سمیت پورے ملک میں کامیاب ہو گی اور یہ ہی حقیقی عوامی نمائندہ جماعت ہے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک انٹرویو کے دوران مصطفی کمال کو بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے سے کال آئی اور کالر کہنے لگا کہ اُسے کراچی میں ہونے والی ترقی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور کاش کہ متحدہ اُس کے علاقے میں ہوتی تو شاید اُس کے علاقے میں بھی کچھ ترقی ہوئی ہوتی۔
اس پر مصطفی کمال نے اُس سے کہا کہ بھائَی متحدہ آپ تک پہنچ چکی ہے، کیونکہ متحدہ صرف پارٹی ہی نہیں بلکہ یہ جاگیرداروں و وڈیروں کے خلاف ایک نظریہ بھی ہے جو آج آپ تک مسلسل پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ متحدہ پارٹی آپکے علاقے میں نہیں پہنچے گی، بلکہ آپ خود اوپر اٹھیں اور اپنوں میں سے اچھے بندوں کو چُن کر کونسلر و ناظم بنائیں، اپنے بل بوتے پر ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں، اپنے میں سے لیڈر پیدا کریں جو آپ کو آپ کے حقوق دلائے۔
مجھے مصطفی کمال کی یہ بات بہت اچھی لگی۔ متحدہ کی پنجاب میں کوئی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے سے ایسے لیڈر پیدا ہوں جو ملک کو قوم کو اس کرپشن اور ناانصافی کے عفریت سے نجات دلائیں۔ ہر کوئی اپنی اصلاح کرے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
 

ساجد

محفلین
ایک انٹرویو کے دوران مصطفی کمال کو بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے سے کال آئی اور کالر کہنے لگا کہ اُسے کراچی میں ہونے والی ترقی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور کاش کہ متحدہ اُس کے علاقے میں ہوتی تو شاید اُس کے علاقے میں بھی کچھ ترقی ہوئی ہوتی۔
اس پر مصطفی کمال نے اُس سے کہا کہ بھائَی متحدہ آپ تک پہنچ چکی ہے، کیونکہ متحدہ صرف پارٹی ہی نہیں بلکہ یہ جاگیرداروں و وڈیروں کے خلاف ایک نظریہ بھی ہے جو آج آپ تک مسلسل پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ متحدہ پارٹی آپکے علاقے میں نہیں پہنچے گی، بلکہ آپ خود اوپر اٹھیں اور اپنوں میں سے اچھے بندوں کو چُن کر کونسلر و ناظم بنائیں، اپنے بل بوتے پر ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں، اپنے میں سے لیڈر پیدا کریں جو آپ کو آپ کے حقوق دلائے۔
مجھے مصطفی کمال کی یہ بات بہت اچھی لگی۔ متحدہ کی پنجاب میں کوئی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے سے ایسے لیڈر پیدا ہوں جو ملک کو قوم کو اس کرپشن اور ناانصافی کے عفریت سے نجات دلائیں۔ ہر کوئی اپنی اصلاح کرے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
::noxxx: :rollingonthefloor: :noxxx:
 
ایسے لیڈروں کی ضرورت اس وقت کراچی میں‌ہے جو اربن فیوڈل اور دھشت گرد تنظیم یعنی ایم کیوایم کو دفع کرکے کراچی سے کرپٹ اور ظالم لوگوں کو الگ کرے
 
Top