بلوچستان اسمبلی نے کراچی میں پشتونوں کو بے دردی سے قتل ‘شہر سے دخل اوران کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے سے متعلق تحریک التواء بحث کے لئے منظور کرلی جس پر کل (ہفتے کو) بحث ہوگی۔
مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر جعفر خان مندوخیل نے جمعہ کے روز اسپیکر محمد اسلم بھوتانی کی زیر صدارت ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا گنجان آباد اور تجارتی شہر ہے جہاں پچاس لاکھ سے زائد پشتون روزگار کے سلسلے میں آباد ہے جنہیں طالبان کے نام پر کراچی بالخصوص مہاجر اکثریتی علاقوں سے زبردستی بے دخل کرکے ان کے ہوٹلوں، دکانوں اور دوسرے کاروباری مراکز پر قبضے کئے جارہے ہیں جس میں کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ اور دیگر اضلاع کے افراد بھی شامل ہیں ۔انہوںنے کہا کہ یہ عمل وفاق کی واحدنیت کے خلاف اور صوبائی تعصب پھیلانے کی در پردہ سازش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک لسانی تنظیم ایم کیو ایم نے کئی مرتبہ پشتونوں کے خلاف سازشیں کی ہیں ۔1985 اور1993میں پشتونوں کا قتل عام کرکے ان کی جائیدادوں پر زبردستی کیا گیا تھا اور اب جولائی2008 سے طالبان کے نام پر پشتونوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر اس وقت طالبان موجود ہیں تو 85ء اور93ء میں کن بہانوں سے پشتونوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈھائی ہزار سے زائد خاندانوں کو مہاجر اکثریت والے علاقوں سے بے دخل کیا گیا ہے ۔ اگر واقعی طالبان موجود ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کسی تنظیم یاٹولے کا نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ اگر آج پشتونوں کو بے دخل کیا جارہا ہے تو بہت جلد بلوچوں، پنجابیوں اور سندھیوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوجائے گی ، ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال پر سندھ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔
سینئر صوبائی وزیر جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء مولانا عبدالواسع نے کہا کہ پہلے سے ہی ملک بحرانوں کا شکار ہے ملک ٹوٹنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ بلوچستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہمارے لوگ محنت مزدوری کی خاطر دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو وہاں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ تحریک التواء اہمیت کی حامل ہے اسمبلی کے اراکین اس اہم مسئلے پر بحث کریں۔ اسپیکر محمد اسلم بھوتانی نے تحریک التواء کو بحث کی منظوی کےلئے پیش کی ۔ ایوان نے تحریک التواء کی کل (ہفتہ کے روز )کے لئے بحث کی منظور ی دیدی۔
میں تو کمبل کو چھوڑتی ہوں مگر کمبل نہیں چھوڑتا۔
زین بھائی،
کیا میں آپ سے درخواست کر سکتی ہوں کہ آپ اپنے سٹینڈرڈز پر عمل کریں اور متحدہ کے مخالفین کے کسی بیان کو پیش نہ کریں کہ وہ سب جھوٹے ہیں اور انکی گواہی نہیں چلے گی [جیسا کہ پیپلز پارٹی، اے این پی، فضلا الرحمان اور متحدہ کے بیانات نواز لیگ کے خلاف قابل قبول نہیں]؟
بہرحال آپکی بات آپ تک رہی، چونکہ میرا معیار آپ سے مختلف ہے، چنانچہ اگر مجھے بلوچ رہنماوؤں کے علاوہ اگر اخبارات میں دو تین جگہ اسکی جھلک نظر آ جائے تو پھر یقینا متحدہ پر شک کیا جا سکتا ہے۔
مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر متحدہ نے وہ مظالم ڈھائے ہوتے جن کا الزام بلوچ رہنما لگا رہے ہیں اور پچاس لاکھ پشتونوں کو قتل عام شروع کر رکھا ہوتا اور ڈھائی ہزار پشتون خاندانوں کو مار کر انکے گھروں سے نکال دیا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ تو یہ ہمارا میڈیا کہ جسے متحدہ سے اتنی نفرت ہے کہ بارہ مئی کو جسے صرف چیف جسٹس کی ریلی پر فائرنگ نظر آئی اور متحدہ کی ریلی پر فائرنگ نظر نہیں آئی، اور جسے صرف متحدہ کے پاس موجود اسلحہ نظر آیا اور پیپلز پارٹی اور پشتوں علاقوں اور پارٹیوں کے ہاتھ میں اسلحہ نظر نہیں آیا، اور جسے صرف چیف جسٹس کی ریلی میں مرنے والے لوگ نظر آئے اور متحدہ کی ریلی میں مرنے والے لوگ نظر آئے ۔۔۔۔۔ تو اگر واقعی کراچی میں پشتونوں کا خون عام ہو رہا ہوتا تو یہ میڈیا بارہ مئی کے تیس چالیس لوگوں کی موت کو چھوڑ کر دن رات ان ہزاروں لاکھوں پشتونوں کے مظالم کی داستانیں جامعہ حفصہ کی طرح مظلوم بنا کر پیش کر رہا ہوتا۔
تو بھائی صاحب، کی آپ دکھا سکتے ہیں کہ کہاں ہیں اب ان تمام الزامات کے ثبوت؟ کتنے اخباروں نے اسکی رپورٹنگ کی ہے، نواز شریف نے اس ظلم و ستم کے خلاف کتنے بیانات دیے ہیں، اور کتنے وکلا نے اسکے خلاف مارچ کیا ہے؟ عمران اور قاضی نے کتنے دھرنے دیے ہیں [چلیں دھرنے دور کی بات، کتنے بیانات دیے ہیں؟؟؟] اور کتنے ٹی وی میڈیا والوں نے اس کی تصویری کوریج کی ہے؟؟؟
******************
جہاں تک میں اس معاملے کی ریسرچ کر پائی ہوں، تو اس معاملے میں ایک ہی حوالہ ایسا ملا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ کیوں بلوچستان اسمبلی میں یہ واویلا کیا جا رہا ہے۔
مصطفی کمال نے حال میں ہی کراچی میں تیسرے سگنل فری کوریڈور کا افتتاح کیا ہے۔ اُس کا بیان تھا کہ یہ سب سے مشکل اور خطرناک پراجیکٹ تھا ک
یونکہ اس کے لیے سب سے زیادہ غیر قانونی زمینوں کے قبضے واپس لینے پڑے ہیں اور شروع میں تو یہ پراجیکٹ مکمل ہوتا ناممکن ہی دکھائی دیتا تھا، مگر اللہ کے کرم سے آج ہم نے اس پراجیکٹ کو کامیابی کے قریب پہنچا دیا ہے۔ ۔۔۔۔
اگر اسی غیر قانونی زمینوں کی واپسی کو بلوچ رہنما پچاس لاکھ پشتونوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ اور ڈھائی ہزار پشتون خاندانوں کی زبردستی انکے گھروں سے بے گھر کرنا قرار دے رہے ہیں تو میرے خیال میں اس موضوع پر مجھے کچھ اور نہیں بولنا چاہیے اور بس متحدہ کے مخالفین سے صرف یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ کیوں بغیر تحقیق کیے ایسے بے بنیاد الزامات کو بھی متحدہ کے بدترین جرم و گناہ بنا کر پیش کر دیتے ہیں؟
’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’
بلوچ رہنماوؤں کا دوغلا پن
بلوچستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہمارے لوگ محنت مزدوری کی خاطر دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو وہاں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں
مجھے غریب بلوچ اور پشتوں اور حتی کہ غریب افغان مہاجرین کے بھی ملک کے کسی کونے میں جا کر محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
مگر مجھے اعتراض ہے تو ان بلوچ رہنماوؤں کے دوغلے پن پر۔
ایک طرف یہ یہ کہہ رہے ہیں تو دوسری طرف یہ نواب اکبر بگٹی جیسے لوگوں کے قتل پر اسمبلی میں مذمت کی تحریکیں پیش کر رہے ہیں۔ اور جو پنجابی کئی عشروں سے بلوچستان و سندھ میں مقیم ہیں، ان کا آئے دن پنجابی ہونے کی وجہ سے قتل عام ہوتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ ہجرت کر رہے ہیں، مگر ان غریب پنجابیوں کے قتل عام پر بلوچ اسمبلی میں کوئی مذمتی تحریک پیش نہیں ہوتی۔۔۔۔ اور جو 32 نکات ان لوگوں نے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پیش کیے ہیں اُس کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ بقیہ پاکستان سے لوگ آ کر بلوچستان میں کام نہیں کر سکتے [اور اب یہی لوگ غریب پشتون و بلوچوں کی کراچی میں جا کر کام کرنے پر یوں ٹسوے بہا رہے ہیں]۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے گوادر بندرگاہ کا کام سست ہوا ہوا ہے اور انہیں اعتراض ہے کہ بقیہ پاکستان سے لوگ آ کر یہاں ملازمتوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔
مجھے علم ہے کہ آپ کی نظر میں پھر بھی متحدہ ہی سارے فساد کی ساری اور واحد جڑ ہے اور متحدہ کے مقابلے میں آ جانے کی وجہ سے یہ دو رخے بلوچ رہنما معصوم ٹہریں گے اور واحد مجرم متحدہ ہی قرار پائے گی۔