15 مارچ
اسکے کچھ دیر کے بعد رحمان ملک کا انٹرویو پی جے میر نے لیا تھا۔
15 مارچ اتوار کے روز تھی اور اس دن عاصمہ شیرازی کا پروگرام سیکنڈ اوپینین میرے خیال میں نشر نہیں ہوتا کیا آُپ کو یقین ہے کہ یہ انٹرویو 15 مارچ کو نشر کیا گیا۔
15 مارچ
اسکے کچھ دیر کے بعد رحمان ملک کا انٹرویو پی جے میر نے لیا تھا۔
اے آر وائی کی اس پروگرام گائیڈ کے مطابق بھی سیکنڈ اوپینین پیر تا ہفتہ پیش کیا جاتا ہے فریش بھی اور ریپیٹڈ بھی تاہم اتوار کو یہ پروگرام نشر نہیں ہوتا اور چونکہ 15 مارچ اتوار کو تھی لہذا اس پروگرام کا نشر ہونا بعید از قیاس ہے کیا اس انٹر ویو کی صحیح تاریخ مل سکتی ہے؟؟؟؟؟
http://www.thearynews.com/english/schedule/schedule.asp#[/quot ]
It was 15th March and it was special coverage of long march about night according to Pak times.
OK. I will try to find out the above said interviewIt was 15th March and it was special coverage of long march about night according to Pak times.
کچھ عجلت پسندوں نے میاں شہباز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ”مکرر ارشاد“ پر مبارکبادیں دینا شروع کر دی ہیں جبکہ دوسری طرف یہ اطلاع بھی ہے کہ چند اعلیٰ سرکاری حلقے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم ہو چکے ہیں جس پر شہباز شریف کا یہ ردعمل بھی سامنے آ چکا کہ … ”عوام ایسی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں گے“۔ یہ انداز فکر درست نہیں کیونکہ بیچارے عوام تو ووٹ دے سکتے تھے جو وہ دے چکے، باقی کام خود نون لیگ نے کرنے ہیں جس میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے دور یعنی اس کی وزارت اعلیٰ سے دور کیسے رکھنا ہے۔ ہاں … یہ ہے پنجاب کی وزارت اعلیٰ جسے جیالوں کی پہنچ سے دور رکھیں جیسے دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔ پنجاب پاکستان کا فیصلہ کن صوبہ ہے اور عرصہ دراز سے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو بزور بازو اور کبھی بزور سازش اس صوبے کی قیادت سے باہر رکھا جس کے نتیجہ میں بیچاری پارٹی پنجاب میں پگھلتے پگھلتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ وہ شہر اور علاقے جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے قلعے کہلاتے تھے، ہوائی قلعے بنتے چلے گئے۔ حالیہ الیکشنز کے نتیجہ میں یہ ”معجزہ“ ہوا کہ پیپلز پارٹی مدتوں بعد پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے اور اس کے بہت سے اہم لیڈرز کا خیال ہے کہ انہیں now or never جیسی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی پنجاب میں ”ابھی نہیں تو پھرکبھی بھی نہیں“ کے مخمصے میں مبتلا ہے۔ کچھ قائدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مرکز میں چاہے حکومت مسلم لیگ ن کو دیدی جائے لیکن پنجاب میں ہر قیمت پر پارٹی کی حکومت بننی چاہئے کوئی اگر یہ معجزہ نما موقع ضائع کر دیا گیا تو اس سب سے فیصلہ کن صوبے میں پیپلز پارٹی بتدریج نہیں … تیزی کے ساتھ تانگہ پارٹی میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر پیپلز پارٹی پنجاب سے ”فارغ“ اور ”آؤٹ“ ہوتی ہے تو اس کے اثرات دیگر صوبوں حتیٰ کو سندھ تک بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر پارٹی کی پنجابی لیڈر شپ اس طرح سوچ رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی اور اعلیٰ ترین سطح کی قیادت اتنی گئی گزری ہو کہ اسے اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ، شعور اور ادراک نہ ہو۔ پنجاب پارٹی کے چند پرانے منجھے ہوئے زخمی سیاسی کھلاڑی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میاں صاحبان کے پی پی پی کے ساتھ رومانس اور فلٹریشن کی وجہ ہی صرف اتنی ہے کہ وہ ہر حال میں پنجاب پاس رکھنا چاہتے ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کے لئے دوبارہ اس صوبہ کا قبضہ واپس لینے کے امکانات نہ پیدا ہو جائیں کیونکہ جس طرف پنجاب ہو گا بالآخر اسی کا پلڑا پرائم منسٹر ہاؤس تک بھاری ہو گا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کی طرف دھکیلا جا رہا تھا تو یہی وہ واحد صوبہ تھا جہاں جیالوں نے خود سوزیاں کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کر کے شمع و پروانے والے افسانے کو حقیقتوں میں تبدیل کر دکھایا، مائیک کے سامنے کوڑے کھائے اور بدترین تشدد کے دوران بھی ”جیئے بھٹو“ کے نعرے لگائے، جیلیں بھگتیں، قلعے کاٹے، پھانسی گھاٹ آباد کئے اور بھٹو کی موت کے بعد بھی ضیاء الحق کے سامنے یہ عجیب نعرہ حق بلند کیا۔ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ ”جیوے جیوے بھٹو جیوے“ ”جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ پھر یہی وہ شہر لاہور … پنجاب کا دل تھا جس نے 86 میں بے نظیر بھٹو کی آمد پر ان کا ایسا استقبال کیا جس کی مثال نہیں ملتی، پنجاب کے دل نے اپنا دل اپنی بی بی کے قدموں میں بچھا دیا۔ پھر کیا ہوا؟ ضیاء الحق کی سفاک ترین آمریت اور پھر اس کی لیگیسی نے بے تحاشہ پیسہ، بے تحاشہ دھاندلی، بے تحاشہ تکنیک، بے تحاشہ سرکاری طاقت و حکومتی وسائل کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کو پنجاب بدر کرنا شروع کیا اور بتدریج کرتے چلے گئے جس کی معمولی ترین مثال اسلامی جمہوری اتحاد المعروف آئی جے آئی کی تشکیل ہے۔ جس کے خالق خود اپنے جرائم اور گناہوں کا اعتراف کر کے عوام سے معافی مانگ چکے ہیں۔ منافقت اور سیاسی غلاظت کی انتہا ملاحظہ ہو کہ صرف پیپلز پارٹی کو ”کارنر“ یا ”کٹ ٹو سائز“ کرنے کے لئے ضیاء الحق سکول آف تھاٹ اسلام اور جمہوریت کو استعمال کرنے سے باز نہیں آیا … کہاں ہے آج وہ اسلامی جمہوری اتحاد؟ اور اس سے پہلے کہ وہ نو ستارے اور نوسرباز جنہوں نے بھٹو کے گرد موت کا جال بنا؟ پیپلز پارٹی کے خلاف ”جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“ کا نعرہ کس نے اچھالا؟ درمیانی سطح کے جیالے لیڈر کے منہ سے جھاگ اڑ رہی تھی اور وہ مسلسل بولے جا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ باقیوں کے جذبات کیسے ہوں گے؟ بہرحال میاں شہباز شریف کو پنجاب میں دوسرا راؤنڈ کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو ان کے پہلے راؤنڈ کے ساتھ موازنہ دلچسپ ہو گا جب سگا بڑا بھائی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اوپر وزیراعظم تھا جبکہ اس بار سینئر وزیر سے لے کر دوسرے اہم وزراء پیپلز پارٹی سے ہوئے تو یہ سب دال میں کوکڑو سے کم نہیں ہو گا۔ جو کچھ بھی ہو گا … دلچسپ ہو گا فی الحال تیل اور اس کی دھار دیکھیں!
جہانزیب،نعرہ درست کر لیں ۔
جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہوش اور ہمت بھائی کو پنجاب سے کچھ زیادہ ہی " اُنس" ہے اور اسی وجہ سے ان کو دن رات پنجاب کا غم دبلا کئیے جا رہا ہے۔ کم از کم میرے لئیے تو اطمینان کی بات ہے کہ اتنی "محبت" کے جواب میں کسی پنجاب باسی نے سندھ کے لئیے "صدقے واری" جانے کا بیڑا نہیں اُٹھایا نہیں تو رہی سہی مروت کا بھی بیڑہ غرق ہو جاتا۔
اور اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ کہ بدنام پھر بھی پنجاب ہی کو کیا جاتا ہے کہ یہ دوسرون کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ حالانکہ اس دھاگے سمیت سیاست کے دیگر دھاگوں پر سرسری نظر ڈالنے اور دونوں قابلِ احترام اراکین کے مراسلات پڑھ کر یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔
پنجابی واقعی (ڈھگے) ہیں کہ ہر بات کو سر خم کئیے سن کر برداشت کر جاتے ہیں اور ان کو القابات دینے والے اپنی روباہی پر غور فرمانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
میں عام طور پہ سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی ان کے اختراع کی قدر کرنا پڑہی جاتی ہے۔
میں دست بستہ ان دونوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہواؤں میں تلواریں چلانا چھوڑ دیں۔ نفرت کی تبلیغ کوئی اچھا نتیجہ نہیں لا سکتی۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان کو احسن انداز میں حل کر سکیں اور اگر تعلیم یافتہ لوگوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے تو ہم سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
یہاں سیکنڈ اوپینین پروگرام کی ویڈیوز مل جائیں گی۔
http://pkpolitics.com/category/media/second-opinion/
http://www.urdunewspaper.org/tag/second-opinion/
14یا 15 مارچ کی کوئی ویڈیو نہیں میرے خیال سے اس دن کوئی پروگرام نہیںہوتا۔ البتہ 13 مارچ کی ویڈیو ہے ۔
زین بھائی،محترمہ !
آپ یہ ویڈیوز دیکھ لیں ۔
ہاں پروگرام کے مہمان کے نام لکھےگئے ہیں ان میں تو مجھے شہباز شریف کا نام نظر نہیں آیا ۔
پھر بھی آپ دیکھ لیجئے ۔
زونی سسٹر،ٹھیک کہا ساجد ! مجھے بہت افسوس ہو رہا ھے مہوش صاحبہ کے خیالات دیکھ کر ، یہ کوئی موقع نہیں ھے چن چن کر پنجاب پہ طعنہ زنی کرنے کا ، قابل افسوس بات ھے ، پڑھے لکھے لوگوں میں اگر یہ رویہ رہا تو ملک کا اللہ ہی حافظ ھے ۔
محفل پر شاید ہی کوئی رکن مجھ سے زیادہ نواز شریف پر تنقید کرتا ہو گا۔ساجد بھائی،
مجھے ہمت برادر کا علم نہیں اور نہ ہی میں انکے کسی فعل کی ذمہ دار ہوں۔ بلکہ میں ان کی فوج اور صوبہ پنجاب کے خلاف باتوں سے مکمل طور پر مخالف ہوں۔
اور آپ کوئی ایک جگہ ایسی دکھا دیں جہاں میں نے صوبہ پنجاب کے خلاف ایک بات بھی کی ہو۔
یہ میرے ساتھ آپ زیادتی کر رہے ہیں جب آپ نواز شریف پر کی گئی تنقید کو پنجاب کی توہین بنا رہے ہیں، حالانکہ میں پہلی پوسٹ سے یہ بات واضح طور پر لکھتی آ رہی ہوں۔
اور نواز شریف کے اس غلط باتوں ، مثلا پنجاب کے خلاف سازشیں، پنجاب پر شب خون، پنجاب کے منہ پر طمانچہ۔۔۔ اور پھر جاگ پنجابی جاگ جیسے نعروں کو تو آپ خوب خوش رنگ لباس پہنا کر دوسرے معنوں میں پیش کر دیتے ہیں، مگر میری نواز شریف پر کی تنقید کو بھی کھینچ کھانچ کر پنجاب پر لاگو کر کے مجھ پر توہین پنجاب کا کیس بنا رہے ہیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ مجھے ہمت بھائی کی لائن میں ساتھ کھڑا کر اور انکا نام لیتے ہوئے ان کے ساتھ ہی پنجاب توہین کا رگڑا نہ دیجئیے۔ ذرا ٹھنڈے مزاج سے کام لیجئے۔ شکریہ۔
اگر کہیں بھی میں نے پنجاب کے خلاف کوئی بات کی ہے تو بالیقین اسکو فورا حذف کر دوں گی اور نہ صرف حذف کر دوں گی بلکہ جن جن کا دل دکھا ہے اُن سب سب سے معافی بھی مانگوں گی۔
مگر بھائی صاحب، اگر اس کے برعکس آپ کو کہیں وہ جگہ نظر نہ آئے جہاں میں پنجاب صوبے کی توہین کر رہی ہوں، تو پھر خود اندازہ لگائیں ایسی باتیں اور ایسے الزام کو سن کر دل کو دکھ تو ہوتا ہے نا۔
اپنی یاداشت کے سہارے میں نے اسکے دو جملے بیان کیے تھے:
1۔ "پنجاب کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں"
مجھے اس جملے پر اعتراض ہے کیونکہ اس سے اگر آپ کو تعصب کی ہوا نظر نہ آئے تب بھی دوسرے کو محسوس ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف کو پنجاب کی بجائے کہنا چاہیے تھا "نواز لیگ کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔"
2۔ "پنجاب پر شب خون مارا جا رہا ہے۔"
یہاں بھی پہلے والا اعتراض ہے کہ پنجاب نہیں بلکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ نواز لیگ کے مینڈیٹ پر شب خون مارا جا رہا ہے۔
اور یہ بذات خود نواز لیگ تھی جس نے پنجاب میں ہی قائد لیگ کے مینڈیٹ پر شب خون مارا تھا، اور اگرچہ کہ زین بھائی صاحب کی بات ہے تو بالکل غلط کہ وکلاء تحریک کی مدد کرنے پر نواز کے ہر گناہ معاف اور پنجاب کارڈ کھیلنا بھی انکے لیے حلال، مگر افسوس کہ عملی طور پر میڈیا اور دیگر لوگوں کا یہی طرز عمل سامنے آیا ہے۔
**********************پاکستان واپس آنے کیلئے صدرمشرف کے ساتھ ڈیل نہیں کرونگا: نواز شریف
۔۔۔۔ نواز شریف نے اس بات کی تردید کی کہ 1988ء میں انہوں نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا۔
لنک: مکمل آرٹیکل پاک ٹریبون پر
بس کہیں سے صرف ایک اس چیز کا ثبوت مل جائے تو سارا معاملہ ابھی ختم ہو جائے یہی تو رونا ہے کہ اس کا ثبوت نہ ایم کیو ایم کے پاس ہے اور نہ ہی کسی اور کے پاس؟مگر اس آج اس وکلا تحریک میں پھر یہ نعرے لگ گئے ہیں