ایم کیو ایم کی کرایہ دارانہ سیاست

15 مارچ
اسکے کچھ دیر کے بعد رحمان ملک کا انٹرویو پی جے میر نے لیا تھا۔

15 مارچ اتوار کے روز تھی اور اس دن عاصمہ شیرازی کا پروگرام سیکنڈ اوپینین میرے خیال میں نشر نہیں ہوتا کیا آُپ کو یقین ہے کہ یہ انٹرویو 15 مارچ کو نشر کیا گیا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش بہن، میں نے اپنی پوسٹ مدون کر دی ہے۔ میرا لہجہ کچھ تلخ ہو گیا تھا۔ اس کی معذرت چاہتا ہوں۔
 
اے آر وائی کی اس پروگرام گائیڈ کے مطابق بھی سیکنڈ اوپینین پیر تا ہفتہ پیش کیا جاتا ہے فریش بھی اور ریپیٹڈ بھی تاہم اتوار کو یہ پروگرام نشر نہیں ہوتا اور چونکہ 15 مارچ اتوار کو تھی لہذا اس پروگرام کا نشر ہونا بعید از قیاس ہے کیا اس انٹر ویو کی صحیح تاریخ مل سکتی ہے؟؟؟؟؟
http://www.thearynews.com/english/schedule/schedule.asp#
 

مہوش علی

لائبریرین
اے آر وائی کی اس پروگرام گائیڈ کے مطابق بھی سیکنڈ اوپینین پیر تا ہفتہ پیش کیا جاتا ہے فریش بھی اور ریپیٹڈ بھی تاہم اتوار کو یہ پروگرام نشر نہیں ہوتا اور چونکہ 15 مارچ اتوار کو تھی لہذا اس پروگرام کا نشر ہونا بعید از قیاس ہے کیا اس انٹر ویو کی صحیح تاریخ مل سکتی ہے؟؟؟؟؟
http://www.thearynews.com/english/schedule/schedule.asp#[/quot ]


It was 15th March and it was special coverage of long march about night according to Pak times.
 

مہوش علی

لائبریرین
بی بی سی کی اسلام اور پاکستان دشمنی میں پھر آپ جنگ اخبار کی اسلام اور پاکستان دشمنی بھی شامل کر سکتے ہیں۔

headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
کچھ عجلت پسندوں نے میاں شہباز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ”مکرر ارشاد“ پر مبارکبادیں دینا شروع کر دی ہیں جبکہ دوسری طرف یہ اطلاع بھی ہے کہ چند اعلیٰ سرکاری حلقے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم ہو چکے ہیں جس پر شہباز شریف کا یہ ردعمل بھی سامنے آ چکا کہ … ”عوام ایسی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں گے“۔ یہ انداز فکر درست نہیں کیونکہ بیچارے عوام تو ووٹ دے سکتے تھے جو وہ دے چکے، باقی کام خود نون لیگ نے کرنے ہیں جس میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے دور یعنی اس کی وزارت اعلیٰ سے دور کیسے رکھنا ہے۔ ہاں … یہ ہے پنجاب کی وزارت اعلیٰ جسے جیالوں کی پہنچ سے دور رکھیں جیسے دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔ پنجاب پاکستان کا فیصلہ کن صوبہ ہے اور عرصہ دراز سے اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو بزور بازو اور کبھی بزور سازش اس صوبے کی قیادت سے باہر رکھا جس کے نتیجہ میں بیچاری پارٹی پنجاب میں پگھلتے پگھلتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ وہ شہر اور علاقے جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے قلعے کہلاتے تھے، ہوائی قلعے بنتے چلے گئے۔ حالیہ الیکشنز کے نتیجہ میں یہ ”معجزہ“ ہوا کہ پیپلز پارٹی مدتوں بعد پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے اور اس کے بہت سے اہم لیڈرز کا خیال ہے کہ انہیں now or never جیسی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی پنجاب میں ”ابھی نہیں تو پھرکبھی بھی نہیں“ کے مخمصے میں مبتلا ہے۔ کچھ قائدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مرکز میں چاہے حکومت مسلم لیگ ن کو دیدی جائے لیکن پنجاب میں ہر قیمت پر پارٹی کی حکومت بننی چاہئے کوئی اگر یہ معجزہ نما موقع ضائع کر دیا گیا تو اس سب سے فیصلہ کن صوبے میں پیپلز پارٹی بتدریج نہیں … تیزی کے ساتھ تانگہ پارٹی میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر پیپلز پارٹی پنجاب سے ”فارغ“ اور ”آؤٹ“ ہوتی ہے تو اس کے اثرات دیگر صوبوں حتیٰ کو سندھ تک بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر پارٹی کی پنجابی لیڈر شپ اس طرح سوچ رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی اور اعلیٰ ترین سطح کی قیادت اتنی گئی گزری ہو کہ اسے اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ، شعور اور ادراک نہ ہو۔ پنجاب پارٹی کے چند پرانے منجھے ہوئے زخمی سیاسی کھلاڑی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میاں صاحبان کے پی پی پی کے ساتھ رومانس اور فلٹریشن کی وجہ ہی صرف اتنی ہے کہ وہ ہر حال میں پنجاب پاس رکھنا چاہتے ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کے لئے دوبارہ اس صوبہ کا قبضہ واپس لینے کے امکانات نہ پیدا ہو جائیں کیونکہ جس طرف پنجاب ہو گا بالآخر اسی کا پلڑا پرائم منسٹر ہاؤس تک بھاری ہو گا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کی طرف دھکیلا جا رہا تھا تو یہی وہ واحد صوبہ تھا جہاں جیالوں نے خود سوزیاں کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کر کے شمع و پروانے والے افسانے کو حقیقتوں میں تبدیل کر دکھایا، مائیک کے سامنے کوڑے کھائے اور بدترین تشدد کے دوران بھی ”جیئے بھٹو“ کے نعرے لگائے، جیلیں بھگتیں، قلعے کاٹے، پھانسی گھاٹ آباد کئے اور بھٹو کی موت کے بعد بھی ضیاء الحق کے سامنے یہ عجیب نعرہ حق بلند کیا۔ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ ”جیوے جیوے بھٹو جیوے“ ”جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ پھر یہی وہ شہر لاہور … پنجاب کا دل تھا جس نے 86 میں بے نظیر بھٹو کی آمد پر ان کا ایسا استقبال کیا جس کی مثال نہیں ملتی، پنجاب کے دل نے اپنا دل اپنی بی بی کے قدموں میں بچھا دیا۔ پھر کیا ہوا؟ ضیاء الحق کی سفاک ترین آمریت اور پھر اس کی لیگیسی نے بے تحاشہ پیسہ، بے تحاشہ دھاندلی، بے تحاشہ تکنیک، بے تحاشہ سرکاری طاقت و حکومتی وسائل کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کو پنجاب بدر کرنا شروع کیا اور بتدریج کرتے چلے گئے جس کی معمولی ترین مثال اسلامی جمہوری اتحاد المعروف آئی جے آئی کی تشکیل ہے۔ جس کے خالق خود اپنے جرائم اور گناہوں کا اعتراف کر کے عوام سے معافی مانگ چکے ہیں۔ منافقت اور سیاسی غلاظت کی انتہا ملاحظہ ہو کہ صرف پیپلز پارٹی کو ”کارنر“ یا ”کٹ ٹو سائز“ کرنے کے لئے ضیاء الحق سکول آف تھاٹ اسلام اور جمہوریت کو استعمال کرنے سے باز نہیں آیا … کہاں ہے آج وہ اسلامی جمہوری اتحاد؟ اور اس سے پہلے کہ وہ نو ستارے اور نوسرباز جنہوں نے بھٹو کے گرد موت کا جال بنا؟ پیپلز پارٹی کے خلاف ”جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“ کا نعرہ کس نے اچھالا؟ درمیانی سطح کے جیالے لیڈر کے منہ سے جھاگ اڑ رہی تھی اور وہ مسلسل بولے جا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ باقیوں کے جذبات کیسے ہوں گے؟ بہرحال میاں شہباز شریف کو پنجاب میں دوسرا راؤنڈ کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو ان کے پہلے راؤنڈ کے ساتھ موازنہ دلچسپ ہو گا جب سگا بڑا بھائی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اوپر وزیراعظم تھا جبکہ اس بار سینئر وزیر سے لے کر دوسرے اہم وزراء پیپلز پارٹی سے ہوئے تو یہ سب دال میں کوکڑو سے کم نہیں ہو گا۔ جو کچھ بھی ہو گا … دلچسپ ہو گا فی الحال تیل اور اس کی دھار دیکھیں!

اس نعرے کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ ان پچھلی تاریخوں کے اردو اخبارات یونیکوڈ میں تو میسر نہیں کہ سرچ کرکے انہیں ٹریس آؤٹ کیا جا سکے، مگر اسی طرح آج کے کالم نگار اس تاریخ کو اپنے کالموں میں دہرا رہے ہیں، اور بے چارے اس جرم کرنے پر اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی جیسے الزامات کا نشانہ بن رہے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نعرہ درست کر لیں‌ ۔
جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں‌ لگ گیا داغ‌ ۔
جہانزیب،
لگتا ہے کہ مختلف جگہوں پر مختلف الفاظ میں یہ نعرہ لگا ہے۔

مکمل نعرہ کچھ یوں ہے:

جاگ پنجابی جاگ
تیری پگ نوں لگ گی اگ
تو سوتا تے غیراں جاگ دے
تیراہوندا ہے خانہ خراب
 

ساجد

محفلین
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہوش اور ہمت بھائی کو پنجاب سے کچھ زیادہ ہی " اُنس" ہے اور اسی وجہ سے ان کو دن رات پنجاب کا غم دبلا کئیے جا رہا ہے۔ کم از کم میرے لئیے تو اطمینان کی بات ہے کہ اتنی "محبت" کے جواب میں کسی پنجاب باسی نے سندھ کے لئیے "صدقے واری" جانے کا بیڑا نہیں اُٹھایا نہیں تو رہی سہی مروت کا بھی بیڑہ غرق ہو جاتا۔
اور اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ کہ بدنام پھر بھی پنجاب ہی کو کیا جاتا ہے کہ یہ دوسرون کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ حالانکہ اس دھاگے سمیت سیاست کے دیگر دھاگوں پر سرسری نظر ڈالنے اور دونوں قابلِ احترام اراکین کے مراسلات پڑھ کر یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔
پنجابی واقعی (ڈھگے) ہیں کہ ہر بات کو سر خم کئیے سن کر برداشت کر جاتے ہیں اور ان کو القابات دینے والے اپنی روباہی پر غور فرمانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
میں عام طور پہ سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی ان کے اختراع کی قدر کرنا پڑہی جاتی ہے۔
میں دست بستہ ان دونوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہواؤں میں تلواریں چلانا چھوڑ دیں۔ نفرت کی تبلیغ کوئی اچھا نتیجہ نہیں لا سکتی۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان کو احسن انداز میں حل کر سکیں اور اگر تعلیم یافتہ لوگوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے تو ہم سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہوش اور ہمت بھائی کو پنجاب سے کچھ زیادہ ہی " اُنس" ہے اور اسی وجہ سے ان کو دن رات پنجاب کا غم دبلا کئیے جا رہا ہے۔ کم از کم میرے لئیے تو اطمینان کی بات ہے کہ اتنی "محبت" کے جواب میں کسی پنجاب باسی نے سندھ کے لئیے "صدقے واری" جانے کا بیڑا نہیں اُٹھایا نہیں تو رہی سہی مروت کا بھی بیڑہ غرق ہو جاتا۔
اور اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ کہ بدنام پھر بھی پنجاب ہی کو کیا جاتا ہے کہ یہ دوسرون کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ حالانکہ اس دھاگے سمیت سیاست کے دیگر دھاگوں پر سرسری نظر ڈالنے اور دونوں قابلِ احترام اراکین کے مراسلات پڑھ کر یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔
پنجابی واقعی (ڈھگے) ہیں کہ ہر بات کو سر خم کئیے سن کر برداشت کر جاتے ہیں اور ان کو القابات دینے والے اپنی روباہی پر غور فرمانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
میں عام طور پہ سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی ان کے اختراع کی قدر کرنا پڑہی جاتی ہے۔
میں دست بستہ ان دونوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہواؤں میں تلواریں چلانا چھوڑ دیں۔ نفرت کی تبلیغ کوئی اچھا نتیجہ نہیں لا سکتی۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان کو احسن انداز میں حل کر سکیں اور اگر تعلیم یافتہ لوگوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے تو ہم سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔

ساجد بھائی،
مجھے ہمت برادر کا علم نہیں اور نہ ہی میں انکے کسی فعل کی ذمہ دار ہوں۔ بلکہ میں ان کی فوج اور صوبہ پنجاب کے خلاف باتوں سے مکمل طور پر مخالف ہوں۔

اور آپ کوئی ایک جگہ ایسی دکھا دیں جہاں میں نے صوبہ پنجاب کے خلاف ایک بات بھی کی ہو۔
یہ میرے ساتھ آپ زیادتی کر رہے ہیں جب آپ نواز شریف پر کی گئی تنقید کو پنجاب کی توہین بنا رہے ہیں، حالانکہ میں پہلی پوسٹ سے یہ بات واضح طور پر لکھتی آ رہی ہوں۔
اور نواز شریف کے اس غلط باتوں ، مثلا پنجاب کے خلاف سازشیں، پنجاب پر شب خون، پنجاب کے منہ پر طمانچہ۔۔۔ اور پھر جاگ پنجابی جاگ جیسے نعروں کو تو آپ خوب خوش رنگ لباس پہنا کر دوسرے معنوں میں پیش کر دیتے ہیں، مگر میری نواز شریف پر کی تنقید کو بھی کھینچ کھانچ کر پنجاب پر لاگو کر کے مجھ پر توہین پنجاب کا کیس بنا رہے ہیں۔

آپ سے درخواست ہے کہ مجھے ہمت بھائی کی لائن میں ساتھ کھڑا کر اور انکا نام لیتے ہوئے ان کے ساتھ ہی پنجاب توہین کا رگڑا نہ دیجئیے۔ ذرا ٹھنڈے مزاج سے کام لیجئے۔ شکریہ۔
اگر کہیں بھی میں نے پنجاب کے خلاف کوئی بات کی ہے تو بالیقین اسکو فورا حذف کر دوں گی اور نہ صرف حذف کر دوں گی بلکہ جن جن کا دل دکھا ہے اُن سب سب سے معافی بھی مانگوں گی۔
مگر بھائی صاحب، اگر اس کے برعکس آپ کو کہیں وہ جگہ نظر نہ آئے جہاں میں پنجاب صوبے کی توہین کر رہی ہوں، تو پھر خود اندازہ لگائیں ایسی باتیں اور ایسے الزام کو سن کر دل کو دکھ تو ہوتا ہے نا۔
 

زین

لائبریرین
محترمہ !
آپ یہ ویڈیوز دیکھ لیں ۔
ہاں پروگرام کے مہمان کے نام لکھےگئے ہیں ان میں تو مجھے شہباز شریف کا نام نظر نہیں آیا ۔
پھر بھی آپ دیکھ لیجئے ۔

یہاں سیکنڈ اوپینین پروگرام کی ویڈیوز مل جائیں گی۔

http://pkpolitics.com/category/media/second-opinion/

http://www.urdunewspaper.org/tag/second-opinion/

14یا 15 مارچ کی کوئی ویڈیو نہیں‌ میرے خیال سے اس دن کوئی پروگرام نہیں‌ہوتا۔ البتہ 13 مارچ کی ویڈیو ہے ۔
 

زونی

محفلین
ٹھیک کہا ساجد ! مجھے بہت افسوس ہو رہا ھے مہوش صاحبہ کے خیالات دیکھ کر ، یہ کوئی موقع نہیں ھے چن چن کر پنجاب پہ طعنہ زنی کرنے کا ، قابل افسوس بات ھے ، پڑھے لکھے لوگوں میں اگر یہ رویہ رہا تو ملک کا اللہ ہی حافظ‌ ھے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ !
آپ یہ ویڈیوز دیکھ لیں ۔
ہاں پروگرام کے مہمان کے نام لکھےگئے ہیں ان میں تو مجھے شہباز شریف کا نام نظر نہیں آیا ۔
پھر بھی آپ دیکھ لیجئے ۔
زین بھائی،
مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہ 15 مارچ کو لانگ مارچ کی سپیشل کوریج تھی جو پورے دن چلی ہے اور عاصمہ شیرازی، کاشف عباسی اور ایک اور اے آر وائی کے اینکر مسلسل وقفے وقفے سے میزبانی کر رہے تھے۔ [پی جے میر نے بھی کچھ انٹرویوز لیے تھے]۔

ٹھیک کہا ساجد ! مجھے بہت افسوس ہو رہا ھے مہوش صاحبہ کے خیالات دیکھ کر ، یہ کوئی موقع نہیں ھے چن چن کر پنجاب پہ طعنہ زنی کرنے کا ، قابل افسوس بات ھے ، پڑھے لکھے لوگوں میں اگر یہ رویہ رہا تو ملک کا اللہ ہی حافظ‌ ھے ۔
زونی سسٹر،
مجھے علم نہیں کہ آپ لوگ مجھ سے اتنے بدگمان کیوں ہیں اور میرے متعلق اتنا برا کیوں سوچ رہے ہیں۔
اول تو میں نے کہیں بھی جانے میں صوبہ پنجاب کے خلاف بات نہیں کی ہے۔ اور اگر انجانے میں کہیں ہوئی ہے تو مجھے اسکی کوئی خبر نہیں اور نہ آپ لوگوں نے اسکی طرف اشارہ کیا ہے کہ کہاں میں پنجاب کے خلاف کچھ لکھ گئی ہوں۔۔۔ اور ان سب باتوں کے باوجود اگر میری بات سے آپ کی کوئی دل شکنی ہوئی ہے تو میری طرف سے بہت معذرت۔ پنجابی کا شعر ہے جو مجھے صحیح طرح نہیں آتا کہ ڈھا دے مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے جو وی ڈھانا، پر ڈھاویں نہ ڈھاویں اک دل نہ ڈھاویں کہ دل وچ رب ہے رہیندا۔
آپ اپنے دل کو مضبوط رکھا کریں۔ گفتگو کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ فریق مخالف کی بات سننے میں کبھی کہیں سخب بات بھی بیچ میں نکل آتی ہے۔ انسان انسان ہے اور جتنا کچھ مرضی کر لے مگر جانے انجانے میں ضرور سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔
 

عسکری

معطل
اچھا مجھے مزہ اتا ہے جب کوئی ہمیں سارے الزام دے اسکا مطلب ہم بھی کچھ ہیں اس دنیا میں یار :tongue:


:۔سنا ہے جب آئی ایس آئی پر کوئی بڑا الزام لگتا ہے تو ہیڈ کوارٹر میں بڑی سکرین کے سامنے موجود آفیسرز ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔:dancing: :applause:


یہ بھی کچھ ایسا معاملہ ہے جب ہم پر بڑے بڑے الزام لگیں تو اس کا مطلب ہماری کارکردگی ہے کچھ نا کچھ۔:idontknow:
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی،
مجھے ہمت برادر کا علم نہیں اور نہ ہی میں انکے کسی فعل کی ذمہ دار ہوں۔ بلکہ میں ان کی فوج اور صوبہ پنجاب کے خلاف باتوں سے مکمل طور پر مخالف ہوں۔

اور آپ کوئی ایک جگہ ایسی دکھا دیں جہاں میں نے صوبہ پنجاب کے خلاف ایک بات بھی کی ہو۔
یہ میرے ساتھ آپ زیادتی کر رہے ہیں جب آپ نواز شریف پر کی گئی تنقید کو پنجاب کی توہین بنا رہے ہیں، حالانکہ میں پہلی پوسٹ سے یہ بات واضح طور پر لکھتی آ رہی ہوں۔
اور نواز شریف کے اس غلط باتوں ، مثلا پنجاب کے خلاف سازشیں، پنجاب پر شب خون، پنجاب کے منہ پر طمانچہ۔۔۔ اور پھر جاگ پنجابی جاگ جیسے نعروں کو تو آپ خوب خوش رنگ لباس پہنا کر دوسرے معنوں میں پیش کر دیتے ہیں، مگر میری نواز شریف پر کی تنقید کو بھی کھینچ کھانچ کر پنجاب پر لاگو کر کے مجھ پر توہین پنجاب کا کیس بنا رہے ہیں۔

آپ سے درخواست ہے کہ مجھے ہمت بھائی کی لائن میں ساتھ کھڑا کر اور انکا نام لیتے ہوئے ان کے ساتھ ہی پنجاب توہین کا رگڑا نہ دیجئیے۔ ذرا ٹھنڈے مزاج سے کام لیجئے۔ شکریہ۔
اگر کہیں بھی میں نے پنجاب کے خلاف کوئی بات کی ہے تو بالیقین اسکو فورا حذف کر دوں گی اور نہ صرف حذف کر دوں گی بلکہ جن جن کا دل دکھا ہے اُن سب سب سے معافی بھی مانگوں گی۔
مگر بھائی صاحب، اگر اس کے برعکس آپ کو کہیں وہ جگہ نظر نہ آئے جہاں میں پنجاب صوبے کی توہین کر رہی ہوں، تو پھر خود اندازہ لگائیں ایسی باتیں اور ایسے الزام کو سن کر دل کو دکھ تو ہوتا ہے نا۔
محفل پر شاید ہی کوئی رکن مجھ سے زیادہ نواز شریف پر تنقید کرتا ہو گا۔
نواز شریف پر کی جانے والی تنقید کو پنجاب پر تنقید کہنا تو میرے اس اولین اصول کے خلاف ہے کہ جب سیاست دانوں پر لکھو تو ان کے اچھے اور غلط کاموں کا بلا کم و کاست تجزیہ کرو۔
آپ چیف جسٹس کی بحالی کے موقع پر مبارک باد کے دھاگے میں بھی دیکھ سکتی ہیں کہ میرا کیا تجزیہ ہے۔ میں نے اس کی مبارک نہیں دی صرف اطمینان بخش کہا ہے۔ اور اس موقع پر بھی میں نواز شریف کی کوششوں یا پنجاب کی لیڈر شپ کی فتح کا قائل نہیں ہوں۔
مہوش ، کہنا صرف یہ ہے کہ ہماری ذاتی ہمدردی کسی بھی سیاسی رہنما کے ساتھ ہو سکتی ہے لیکن ہمیں ان کے لئیے اس قدر جذباتی نہیں ہونا چاہئیے کہ جس حد تک آپ چلی جاتی ہو۔ اور آپ جانتی ہو کہ جوش میں انسان کا ہوش قائم نہیں رہتا۔
ممکن ہے کہ میں ووٹ نواز شریف کو ہی دوں لیکن جب اس کے غلط کاموں پر انگلی اٹھائی جائے تو مجھے اس کو قبول کرنا چاہئیے ۔ یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اپنے من پسند رہنما کے خلاف ہم ایک لفظ تک سننا گوارہ نہ کریں اور معاملات کو صوبائیت کے ترازو مین تولنے بیٹھ جائیں۔
آپ کے مفصل مراسلوں میں جگہ جگہ یہ تاثر ملتا ہے کہ پنجاب کارڈ کھیلا گیا ہے اگر یہ پنجاب کارڈ تھا تو سندھ ، بلوچستان اور سرحد کے وہ عوام اور وکلا کیا پاگل تھے جو اس لانگ مارچ میں شامل ہونا چاہ رہے تھے اور دفعہ 144 ، صوبائی
سرحدوں کی بندش اور تشدد کے ذریعے ان کو لانگ مارچ مین شریک ہونے سے روکا گیا۔؟؟؟
آپ کو محفل کے قریب قریب سبھی اراکین نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسی بات مت کریں جس سے صوبائیت کو ہوا ملے لیکن آپ نے کسی کی نہیں سنی اور اب آپ پھر سے اسی بات پر بضد ہو کہ آپ نے صوبائیت کی بات نہیں کی۔
بہر حال
ایک بہن ہونے کی نسبت آپ کی عزت میرے دل میں ان سیاست دانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اور میں آپ کو ہرگز ناراض نہیں کرنا چاہتا لیکن بڑا بھائی ہونے کے ناطے آپ کو ڈانٹ تو سکتا ہوں نا!!!:)
 
میں‌ یہاں کچھ خبریں شئیر کر رہا ہوں جو ابھی تازہ تازہ ملی ہیں یہ خبریں عام ہونے سے قبل میرے فورم پر ہوتی ہیں D:

سندھ کارڈ کے حوالے سے احسن اقبال کا بیان

مسلم لیگ (ن) عدلیہ کی بحالی کی تحریک اورسندھ کے عوام اور صوبے سے گہری محبت رکھتی ہے ۔احسن اقبال

شکست خوردہ عناصر سندھ کارڈ کھیل کر صوبائی منافر ت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں

19فروری 2009ء ۔ اسلام آباد (عاصم نيازي. آن لائن )

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے کہا ہے کہ امید ہے کہ تیسری بار قوم کی امیدوں سے کھیلنے سے پرہیز کیا جائے گا.

انہوں نے کہاکہ گذشتہ ایک سال میں تیسری بار پاکستانی قوم کی امیدیں دوبارہ جاگی ہیں پہلی بار 18فروری کے انتخابات کے بعد قوم نے امیدیں باندھی تھیں لیکن اعلان مری پر عمل نہ کر کے انہیں توڑ دیا گیا دوسری بار مشرف کے استعفے کے بعد قوم میں خوشی کی لہر دوڑی لیکن ججوں کی بحالی پر عمل درآمد نہ کر کے انہیں پھر توڑ دیا گیا اور اب تیسری بار ججز کی بحالی نے قوم میں خوشی کی ایک نئی لہر بپا کی ہے جس نے قومی مفاہمت کے لیے نئے امکانات پیدا کیے ہیں امید ہے حکمران تیسری بار قوم کی امیدوں اور خوشیوں کو بکھرنے نہیں دیں گے بلکہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں جمہوری ایجنڈے پر عمل درآمد کریں گے تاکہ ملک سیاسی استحکام کی راہ پر چلتے ہوئے معاشی بحالی کے سفر پر آگے بڑھ سکے انہوں نے کہاکہ مشرف کے استعفے کے بعد معیشت میں تیزی آئی لیکن وعدوں پر عمل نہ کر کے مثبت رجحان کو کریش کرا دیا گیا ایک بار پھر ججوں کی بحالی سے سٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے لیکن اگر سازشی عناصر نے سازشیں جاری رکھیں تو ملک دوبارہ مایوسی کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے لیکن اب عوام بیدار ہو چکے ہیں اوروہ کسی کو اجازت نہیں دیں کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگائے ۔

انہوں نے کہا کہ اب کھل دل کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جانا چاہیے اورپنجاب میں 24فروری کی حکومت کو بحال کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کے مینڈیٹ کی روشنی میں اپنا کام کر سکیں ۔

انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ شکست خوردہ عناصر سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے کہ عدلیہ کی تحریک کے دوران سندھ کے خلاف نعرے لگائے گئے جھوٹ پر مبنی ہیں مسلم لیگ (ن) عدلیہ کی بحالی کی تحریک اورسندھ کے عوام اور صوبے سے گہری محبت رکھتی ہے اور کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ عوام اور صوبوں کے درمیان منافرت پھیلائے۔

انہوں نے کہا کہ ایوان صدر کو سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر دینا چاہیے تاکہ ایوان صدر کا غیر سیاسی کردار بحال ہو سکے اور ایوان صدر میں سازشیں نہ کی جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) امید کرتی ہے کہ وزیر اعظم نے میثاق جمہوریت پر عمل داری کا جو اعلان کیا ہے اس پر پورے خلوص سے عمل کیا جائے گا اور ملک کو دوبارہ سیاسی محاذ آرائی کی طرف نہیں دھکیلا جائے گا۔
اور مزید
Any decision from outgoing CJ Dogar
will be construed to be based on political pressures and malafide

Review Petition must be left to the 2nd November 2007-Ahsan Iqbal

Islamabad. Ahsan Iqbal Secretary Information PMLN said, "Restoration
of judges offers third opportunity after 18 Feb 08 to fulfill its
aspirations and hopes. Unfortunately after 18 Feb hopes dashed when
Murree declaration was not fulfilled. Musharaf's resignation again
triggered hope but non implementation of Islamabad Declaration turned
hope into despair. Now for the third time, restoration of judges
offers an opportunity to unite the nation and implement Charter of
Democracy for building national institutions, strengthening the
Parliament, making judiciary independent, and delivering good
governance based on merit and social justice. All parties must accept
each others mandate and shun politics of intrigues. It is unfortunate
that there are still some elements which are indulging in conspiracies
to subvert PMLN mandate in Punjab. Welcoming PM's announcement to file
review petition, PMLN feels that the constitution of bench must be
left to the 2 Nov 07 judiciary. Any decision from outgoing CJ Dogar
will be construed to be based on political pressures and malafide. It
is important that Aiwan e Sadr must not hold political meetings and
assume apolitical nature as it is envisaged in the constitution."

He said, "some disgruntled elements are indulging in disinformation
campaign to create hatred against Punjab in Sind by spreading rumours
that abuses were made against Sind in Long March. It is baseless and
false accusation. PMLN and lawyers movement hold Sind and people of
Sind in highest esteem. Some elements are afraid of rising popularity
of Mr. Sharif and are resorting to playing Sind Card. It is very
regretable and unfortunate."
 

زیک

مسافر
اپنی یاداشت کے سہارے میں نے اسکے دو جملے بیان کیے تھے:

1۔ "پنجاب کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں"

مجھے اس جملے پر اعتراض ہے کیونکہ اس سے اگر آپ کو تعصب کی ہوا نظر نہ آئے تب بھی دوسرے کو محسوس ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف کو پنجاب کی بجائے کہنا چاہیے تھا "نواز لیگ کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔"

2۔ "پنجاب پر شب خون مارا جا رہا ہے۔"

یہاں بھی پہلے والا اعتراض ہے کہ پنجاب نہیں بلکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ نواز لیگ کے مینڈیٹ پر شب خون مارا جا رہا ہے۔
اور یہ بذات خود نواز لیگ تھی جس نے پنجاب میں ہی قائد لیگ کے مینڈیٹ پر شب خون مارا تھا، اور اگرچہ کہ زین بھائی صاحب کی بات ہے تو بالکل غلط کہ وکلاء تحریک کی مدد کرنے پر نواز کے ہر گناہ معاف اور پنجاب کارڈ کھیلنا بھی انکے لیے حلال، مگر افسوس کہ عملی طور پر میڈیا اور دیگر لوگوں کا یہی طرز عمل سامنے آیا ہے۔

میں نہ پاکستان میں رہتا ہوں نہ ہی پاکستانی سیاست کو فالو کر رہا ہوں اور نہ کسی پارٹی کا حامی ہوں (ڈیموکریٹس کے علاوہ :grin:) مگر مجھے ان دو جملوں پر اعتراض سمجھ نہیں آیا۔ جب پنجاب کی جمہوری حکومت توڑ کر گورنر راج قائم کیا گیا تو ظاہر ہے کہ پنجاب کے لوگوں کے جمہوری حق کی تلافی ہوئ نہ کہ راجھستان کی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زیک، پلیز پلیز اب آپ نہ شروع ہوں۔
دیکھیں انسان انسان میں فرق ہے۔ اگر آپ کو ان جملوں میں کوئی بات نظر نہیں آ رہی تو میں آپ کی رائے کا احترام کرتی ہوں۔۔۔۔ مگر میں نے آپکی توجہات صرف اس مسئلے پر مبذول کروائی ہے کہ قوم کا ایک بہت بڑا دھڑا ہے جس کی رائے ان کلمات اور پھر نعروں کے متعلق آپ سے مختلف نکل رہی ہے، چنانچہ مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہو رہا ہے اور وطن عزیز میں نفرتیں پھیل رہی ہیں۔

پورا تنازعہ یہ نکلا ہے کہ دوسری پارٹیاں، جنکا ووٹ بنک پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں ہے، وہ پہلے سے ہی نواز شریف پر ان کلمات اور نعروں کی وجہ سے پنجاب کارڈ کھیلنے کا الزام ماضی سے لگاتے آ رہے ہیں۔
جاگ پنجابی جاگ
تیری پگ نوں لگ گی اگ
تو سوتا تے غیراں جاگ دے
تیراہوندا ہے خانہ خراب

کیا ماضی میں شروع ہو جانے والے اس مسئلے کے بعد لیگی لیڈران کو ہوشیار نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟ کیا انہیں علم نہیں تھا کہ اس چیز سے دیگر صوبوں کو پہلے سے شکایت ہے۔ ایک لنک مجھ سے مس ہو گیا جہاں نواز شریف پر ماضی میں یہی جاگ پنجابی جاگ کا الزام لگا ہے وہ اسکا انکار کر رہے ہیں، مگر اس آج اس وکلا تحریک میں پھر یہ نعرے لگ گئے ہیں۔ اسکے بعد مسئلہ اور نفرتیں تو پیدا ہوں گی نا؟ میں دیکھتی ہوں کہ یہ لنک مجھے مل جائے۔

او کے، مجھے لنک مل گیا:

پاکستان واپس آنے کیلئے صدرمشرف کے ساتھ ڈیل نہیں کرونگا:  نواز شریف

۔۔۔۔ نواز شریف نے اس بات کی تردید کی کہ 1988ء میں انہوں نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا۔

لنک: مکمل آرٹیکل پاک ٹریبون پر
**********************

ساجد بھائی،
میری درخواست ہے کہ برائے مہربانی میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں۔
1۔ مجھے بتلائیں کہ اگر میری رائے بھی یہ ہو [صحیح یا غلط کا تعین کیے بغیر] کہ نواز شریف یہ کلمات اور نعرے لگوا کر صوبائی عصبیت کو ہوا دے رہا ہے اور یہ بات آپ کی اور میری حدود سے نکل کر قوم کے بڑے بڑے دھروں تک پہنچ گئی ہے، تو وہ کون سے الفاظ ہو سکتے ہیں کہ جن سے یہ مذمت صرف نواز شریف تک محدود رہتی؟
میں نے تو کئی کئی مرتبہ بات بالکل صاف کرنے کی کوشش کی کہ میری طرف سے پنجاب کا بالکل کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ پنجاب پر اعتراض ہے، بلکہ 100 فیصد یہ اعتراض صرف اور صرف نواز شریف پر ہے۔

مگر اتنی صفائی کی بعد بھی زونی جیسی سسٹر آ کر کہیں کہ میں پنجاب پر مسلسل طعنہ زنی کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔ اس بات سے میرا دل دکھا ہے۔

پھر اس بات سے بھی دل دکھا ہے کہ مجھے پنجاب کے معاملے میں ہمت بھائی کے ساتھ ایک ہی لائن میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ شروع میں نے اس اعتراض کو قابل جواب ہی نہیں سمجھا کیونکہ یہ بات حقیقت سے اتنی دور ہے کہ میں سمجھی اسکا جواب دینا وقت کا ضیاع ہے۔ مگر افسوس کہ میرا تاثر غلط ثابت ہوا، اور ہم لوگ جذباتی قوم ہیں اور خامخواہ میں ایک دوسرے کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

میں کچھ اوروں کی بہت سی باتیں برداشت کی جاتی، مگر ساجد آپ، اور زونی سسٹر آپ۔۔۔۔ آپ دونوں کی اپنے متعلق یہ رائے دیکھ کر مجھے واقعی دکھ ہوا ہے۔
 
نواز شریف کل اور آج
یہ ایک تجزیہ ہے جو نواز شریف کے بارے میں عامر احمد خان نے پیش کیا ہے

سنگھ از کنگ

ستمبر دو ہزار سات میں میاں نواز شریف لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے حکمرانِ وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف علم بغاوت تھامے جب پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوئے تو شاید ہی کوئی یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ پاکستانی سیاست میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

ان کے سر پر دسمبر دو ہزار میں جنرل پرویز مشرف سے کی گئی سیاسی ڈیل کی تلوار لٹک رہی تھی۔ ان کی پارٹی آٹھ سال کی سیاسی لاوارثی سے نڈھال تھی اور ان کی سیاست کے منہ پر ایک فوجی حکمران کے ظلم سے گھبرا کر ملک چھوڑ دینے کی کالک ملی تھی۔

مشرف حکومت نے ان کے جہاز کے اسلام آباد اترنے کے چند گھنٹے بعد ہی با آسانی انہیں ایک دفعہ پھر ملک بدر کر دیا اور پورے ملک میں ان کی دوسری جلا وطنی کی مخالفت میں چند لوگ بھی گھروں سے باہر نہ نکلے۔ ایسے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ نہ صرف وہ بطور ایک فعال سیاستدان اپنا کیرئیر جاری رکھ سکیں گے بلکہ دو سال کے اندر اندر ملکی سیاست کے طاقتور ترین کھلاڑی کا روپ دھار لیں گے۔

اس وقت ان کے ہمسفروں میں درجنوں دیگر صحافیوں کی طرح بی بی سی اردو سروس کے نگرانِ وقت محمد حنیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی اس ناکام کوشش پر اپنے تجزیے کو یوں سمیٹا: 'اس سارے شور شرابے اور دھکم پیل کے درمیان نواز شریف کے چہرے پر پہلی دفعہ مکمل سکون تھا۔ اس شخص کا سکون جس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے ہوں۔

سولہ مارچ دو ہزار نو کو ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے اعلان کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو محمد حنیف کے یہ الفاظ الہامی معلوم ہوتے ہیں۔ سن دو ہزار میں سیاسی تکالیف سے منہ پھیر لینے والا نواز شریف آج ایک ایسے سیاستدان میں بدل گیا ہے جو اپنے بدترین خدشات کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھ چکا ہے، اس تلخ حقیقت سے نمٹ چکا ہے اور اب دن بدن نئی سمتوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ایسا کرنا میاں نواز شریف کے لیے کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ ان کے اپنے ماضی سے لگایا جا سکتا ہے۔

بچپن سے ہی مہنگے امپورٹڈ بلوں سے کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اپنے باپ کی انتھک محنت کے سر پر جب بلا کوشش و خواہش پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ، پھر وزیر اعلٰی اور آخر کار ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا تو اس کے لیے یہ سمجھنا ایک فطری عمل تھا کہ وہ قدرت کا لاڈلا ہے۔ وہ انوکھا لاڈلا جسے یہ یقین تھا کہ وہ کھیلن کو چاند بھی مانگے گا تو اسے ملے گا۔

اسی لیے اقتدار میں آنے کے دو ہی سال بعد وہ ایک طاقتور صدر سے بھڑ بیٹھا۔ قسمت کا لاڈلا تھا اس لیے حکومت گنوانے کے باوجود وہ صدر کو بھی لے بیٹھا اور یوں جنرل ضیاالحق کے اندھیروں کے تسلسل میں امید کی ایک نئی کرن پھوٹی۔

دوبارہ اقتدار میں آیا تو پہلے صدر، پھر چیف جسٹس اور پھر آرمی چیف کو چلتا کر دیا۔ یہ تمام اقدامات ایسے تھے جنہیں اٹھانے کی ہمت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی غیر فوجی حکمران کو نہیں ہوئی۔ تو پھر کیا عجب کہ انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے خود کو امیر المومنین اور پاکستان کو ایک مذہبی آمریت بنانے کا بھی خواب دیکھا۔

یہ درست ہے کہ قدرت نے ان کی اس خواہش کو رد کیا لیکن اس کے ساتھ ہی شاید یہ بھی قدرت کے لاڈ پیار کی ایک مثال تھی کہ وہ ایک بددماغ فوجی سربراہ کو دو گھنٹے ہوا میں لٹکائے رہنے کے باوجود بھی پاکستان سے زندہ بچ کر نکل گئے۔

اس نوعیت کی سیاسی تاریخ کے پیش نظر ظاہر ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد کسی کے لیے بھی ان کے تابناک سیاسی مستقبل کی پیشن گوئی کرنا نا ممکن تھا۔ عام توقعات یہی تھیں کہ وہ کچھ عرصہ تو صدر سے اپنے بدلے چکانے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے اور پھر اقتدار کی مار دھاڑ میں غرق ہو کر ایک محدود سیاسی دھڑے کے سربراہ کے طور پر گجرات کے چوہدریوں کی طرح زیادہ سے زیادہ لاہور کے چودھری بن بیٹھیں گے۔
لیکن میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے پہلے دن سے ہی اپنے سیاسی تدبر سے مبصرین کو حیران کر ڈالا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بینظیر بھٹو سے ایسی گاڑھی سیاسی یاری لگائی کہ دونوں دن میں چھ چھ دفعہ ایک دوسرے سے بات کرتے، ہر مشکل موڑ پر ایک دوسرے سے مشورہ کرتے اور ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے نہ تھکتے۔

اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف نے صدر پر تو کڑی تنقید جاری رکھی لیکن اپنی ذاتی انا یا خواہشات کو سیاسی عمل میں خلل ڈالنے کا موقع نہ دیا۔ انہیں صدر مشرف کے تجویز کردہ سیاسی نظام سے نفرت تھی لیکن انہوں نے بینظیر بھٹو کے کہنے پر عام انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آٹھ سال تک اقتدار سے باہر رہ چکے تھے لیکن وطن واپسی کے بعد حصول اقتدار کی بجائے انہوں نے معزول ججوں کی بحالی کو اپنا منشور بنایا۔ اس دوران جسے بھی ملے، اسے اپنی سوچ اور فکر کے ٹھہراؤ سے متاثر کیا۔ ایک ایک کر کے بہت سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ شاید وہ نواز شریف نہیں جو آٹھ سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان بچا کر چلا گیا تھا۔

قدرت بھی ایک بار پھر اپنے اس لاڈلے پر مسکرائی اور میاں نواز شریف کو ایک نئی زندگی یوں دی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء نے جیسے راتوں رات ان کے منہ سے ان کے ماضی کی کالک دھو ڈالی۔

یہ میاں نواز شریف کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ پنجاب کے عوام آصف علی زرداری کی قیادت کو رد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی جانب واپس لوٹے اور ان کی جماعت کو ماضی کی طرح ایک بھرپور مینڈیٹ دیا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس مرحلے پر کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ ان کے قدم نہ چوکتے۔ وہ عدلیہ کے مسائل بھلا کر اقتدار کی جنگ میں کود سکتے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سازی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتے تھے یا پھر اس کی حمایت کے بدلے پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی اقتدار کا ایک بڑا حصہ اینٹھ سکتے تھے۔

لیکن انہوں نہ اپنا قبلہ درست رکھا۔ صرف ججوں کی بحالی کی بات کی، پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مدد دینے میں ججوں کی بحالی کے سوا کوئی شرط نہ رکھی، نواز لیگ وزراء کو کالی پٹی باندھنے کی شرط پر صدر مشرف سے حلف لینے کی بھی اجازت دے دی۔ پھر ججوں کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اپنے وزیر اٹھائے لیکن حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وکلاء تحریک کی حمایت جاری رکھی لیکن دھرنا دینے پر اس وقت تک آمادہ نہ ہوئے جب تک آصف علی زرداری کی دروغ گوئی لا ریب فی نہ ہو گئی۔

اور پھر جب دھرنے کا وقت آیا تو پنجاب میں ان کی حکومت گر چکی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت کی بحالی کی بجائے ججوں کی بحالی کو ہی ہدف رکھا۔ وزارت داخلہ کی تمام تر کوششوں اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ہزاروں کا جلوس نکالا جس کے سیاسی جوش اور طاقت کے سامنے صدر آصف علی زرداری کی ضد پانی کی طرح بہہ گئی۔

سب سے اہم یہ کہ ججوں کی بحالی کا اعلان ہوتے ساتھ ہی لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کیا نہ کہ اپنی سیاسی طاقت کے اس شو کے بل بوتے پر اپنی حکومت کی بحالی کا مطالبہ۔ نتیجتاً وہ مفاہمتی فضا جو صدر زرداری کی مسلسل وعدہ خلافی اور پنجاب حکومت کی برطرفی کے بعد دم توڑ رہی تھی ایک بار پھر بہار دکھلانے لگی۔

کیا آج سے دو سال قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ مہنگے بلوں، رومانوی گانوں اور مرغن کھانوں کا شوقین، قدرت کا یہ لاڈلا سالہا سال تک اپنی ذات کی سیاست کرنے کے بعد پاکستان میں اصولی سیاست کی ضمانت کے طور پر ابھرے گا؟

میاں نواز شریف نے ججوں سے متعلق ایک سوال پر پچھلے سال از راہ مذاق صحافیوں سے کہا تھا کہ زبان کے معاملے میں وہ ’سکھ‘ ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کے کڑے سے کڑے ناقدین بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ بعد میں جو بھی ہو لیکن فی الوقت چار سو ایک ہی آواز ہے اور وہ یہ کہ سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/03/090316_singh_is_king_fz.shtml
 
Top