مہوش ، آپ خاصی معلومات رکھتی ہیں ۔ چونکہ الطاف حسین آپ کو سیاست میں پسند ہیں اس لئیے ذرا ہم کم علموں کو ان کے سیاست میں آنے سے پہلے طالب علمی کی زندگی اور ان کی عملی سیاست میں آنے کے بعد کے کچھ واقعات تو بتائیے۔ اور ہاں یہ بھی بتائیے کہ یہ جو لوگوں نے ان پیر صاحب کے بارے میں جی ایم سید کی شاگردی ، جناح پور ، قتل ، غنڈہ گردی ، تشدد ، ڈرل کے ذریعے مخالف لوگوں کے ہاتھ پیروں کا "علاج" ، ایک بہت بڑے فٹ بال سٹیڈیم میں پھانسی دے کر دنیا کے غموں سے چھٹکارہ دلانے کے کلینک ، بوری بند لاشیں ، تاجروں اور صنعت کاروں سے بھتہ ، بلیک میلنگ ، قربانی کی کھالوں پر سرِ راہ قبضہ جمانا ، ایدھی ایمبولینسوں پر دوستانہ فائرنگ ، گھروں پر قتل کے لَو لیٹر بھیجنا ، ماہرینِ ہڈی توڑ کے ذریعے سے لوگوں کے کس بل نکالنا ، بھارت کی محبت میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنا ، نو گو ایریاز ، راہ چلتے راہیوں سے الطاف بھائی کے حق میں نعرے لگوانا ، چریہ کا لفظ ایک مخصوص معانی میں استعمال کروانا، اور نہ جانے کیا کیا باتیں کرتے ہیں ، تو کیا ، ان میں کوئی سچائی بھی ہے یا پھر یہ سب بکواس ہے؟؟؟ شاید حاسد لوگ ان کی کامیابیوں اور کرامتوں سے جلنے کے باعث ایسا کرتے ہوں گے!!!ہے نا؟۔
اور ہاں یہ بھی یاد آیا کہ سندھ کے اندر بھی مہاجر اور سندھی کا جھگڑا کھڑا کرنے کا الزام بھی انہی بد خواہوں نے پیر صاحب پہ لگایا ہو گا۔ اب پیر صاحب تو عرصہ دراز سے تخلیہ میں ہیں البتہ ان کے شاگرد اور مؤکلین اپنا کام بڑی ایمانداری سے نبھاہ رہے ہیں۔ اسی کی ایک جھلک رات میں نے بابر غوری کی میرے مطابق پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود سے بات چیت میں دیکھی۔
عاصمہ جہانگیر ، رسول بخش پلیجو اور دیگر سیاستدان بھی بار بار کہہ رہے تھے کہ سندھ کے کلاف کوئی نعرہ نہیں لگا اگر زرداری کو ذاتی طور پر برا کہا بھی گیا ہو تو یہ سندھ کو گالی نہیں ہے لیکن موصوف تھے کہ مان کے ہی نہیں دئیے اور بضد تھے کہ ایسا ہوا جب شاہد مسعود نے ان سے پوچھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے تو موصوف پہلے تو کچھ گڑبڑائے اور پھر کہنے لگے کہ ہاں ثبوت ہے۔
پیر صاحب نے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے ڈالا کہ کارروائی نہ ہوئی تو سندھ حکومت سے کُٹی کر لیں گے اور میں ہوں کہ کل سے ان کے اس بیان سے محظوظ ہو رہا ہوں کہ بہت دنوں سے کوئی بہترین لطیفہ نہیں سنا تھا۔
جن لوگون نے جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی برات پڑھی ہو وہ جانتے ہوں گے کہ اس میں وہ اپنے ایک رشتے کے ماموں کی کہانی لکھتے ہیں کہ کس طرح سے وہ لوگوں کو نوکری دلوانے کا بہانہ کر کے اپنے گھر بلوا کر خوش ہو لیتے تھے محض یہ اپنی اس عادت کے ہاتھوں کہ میں تو یہ کام کرنے والا ہی نہیں ہوں۔ بے چارہ امیدوار کئی مہینے ان کا مہمان بن کر بھی خالی ہاتھ ہی جاتا تھا۔
اب پیر صاحب کے 48 گھنٹوں میں سے بھی قریب 24 گھنٹے گزر چکے ہیں دیکھتے ہیں اگلے 24 گھنٹوں میں وہ اپنی جلالت کا مظاہرہ کر کے قول و فعل میں مطابقت پیدا کرتے ہیں یا جوش ملیح آبادی کے مذکورہ ماموں ثابت ہوتے ہیں۔