ایک اور مسئلہ

ام اویس

محفلین
درد
سر میں پڑنے والے جوتے نے اس کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا لیکن درد کی جو لہر اس کے دل سے اٹھی تھی اس نے اسے بے حال کردیا ۔ اب تو آنکھیں بھی سوکھ چکی تھی آخر کب تک بہتی رہتیں وہ صحن میں پھسکڑا مارے بیٹھے تھی اور اس کا شوہر اس کے بازو کو پکڑ کر اندر لے جانے کے لیے گھسیٹ رہاتھا ساتھ ساتھ انتہائی بے ہودہ گالیاں بک رہا تھا ۔ یہ مارکٹائی اور گالی گلوچ اس کا برسوں کا معمول تھا اب تو پاس پڑوس کے لوگ بھی عادی ہوگئے تھے اور کوئی جھانک کر بھی نہیں دیکھتا تھا ۔ لیکن اس کے لیے آج بھی ہر گالی روح پر لگنے والے تازیانے کی طرح تھی اوراپنے ہمسفر کا اٹھتا ہاتھ اس کو ہوش وحواس سے بے گانہ کر دیتا تھا ۔
اس کا گناہ کیا تھا ؟ کیا غلطی تھی ؟ کس جرم کی سزا میں اس کے لیے گالیاں اور جوتیاں لکھ دی گئی تھیں ؟ اور آخر کب تک اسے اس جرم بے گناہی کی سزا بھگتنا تھی ؟ شاید اس وقت تک جب روح کے ساتھ اس کا جسم بھی مردہ قرار دے دیا جائے ۔
مدت ہوئی وہ اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی ۔ اس کا شوہر غصے کا بہت تیز تھا خاندان میں جہاں کسی کی لڑائی ہوتی اس کو مدد کے لیے بلا لیا جاتا ۔ اونچے لمبے قد کا اچھا بھلا خوبصورت نوجوان لڑتے ہوئے لال سرخ ہوجاتا ۔ اس کے غصے اور جھگڑے سے ڈر کر مخالف پارٹی دب جاتی اور مسئلہ حل ہوجاتا ۔
اچھی جگہ ملازمت کرتا تھا پڑھا لکھا معاشی اعتبار سے مستحکم تھا ۔ جوانی کا جوش سمجھتے ، جانتے بوجھتے ، لڑائی جھگڑے کی عادت کو نظر انداز کرتے اس کے باپ نے اپنی پھولوں جیسی نازک لڑکی اس کے حوالے کردی ۔ کچھ دن خوشی اور شوق میں گزر گئے پھر معمولی معمولی غلطی پراس کا ہاتھ اٹھنے لگا ۔ غصہ اترتا تو معافی تلافی کرنے لگتا کسی کو نہ بتانے کے وعدے لینے لگتا اور بڑی محبت والا بندہ بن جاتا ۔
اسی لڑائی جھگڑے اور پیار محبت میں وقت گزرتا گیا چار بچوں کے بعد بھی غصے میں ہاتھ اٹھالینے کی عادت نہ بدلی ۔ وہ ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتی لیکن کوئی نہ کوئی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ۔ بچوں کی غلطی کی سزا بھی ماں کو مار کی صورت برداشت کرنی پڑتی ۔ آہستہ آہستہ سارا خاندان اس راز سے واقف ہوگیا ۔ بہنیں دبے لفظوں سے سمجھاتیں ۔ ماں باپ کبھی سختی ، کبھی پیار سے کام لیتے ۔ اس پر وقتی اثر ہوتا جب غصہ آتا بے اختیار ہاتھ اٹھ جاتا ۔ رفتہ رفتہ مار کے ساتھ شک کرنا بھی اس کی عادت میں شامل ہوتا گیا ۔
باہر کیوں گئی تھی ؟ میرے بعد کون گھر آیا ؟ فلاں سے کیا بات کر رہی تھی ؟
یہاں تک کہ اپنے بھائیوں سے ملنے پر بھی شکوک کا اظہار کرتا اور مار کٹائی سے گریز نہ کرتا ۔ کئی بار اس عہد کے ساتھ میکے گئی کہ اب کبھی واپس نہ آؤں گی ۔ لیکن پھر کبھی بچوں کی وجہ سے اور کبھی ماں باپ ، بہن بھائیوں کے مجبور کرنے پر واپس اسی گھر میں اس سےمار کھانے پہنچ جاتی ۔
اچھا کماتا اور بچوں کو اچھا کھلاتا ، خاندان کے باقی معاملات میں بھی رویہ کافی بہتر تھا اسی لیے زندگی گزرتی گئی بچے بڑے ہوگئے ، تعلیم بھی دلوائی اور ان کی شادیاں بھی کر دیں ۔ ملازمت سے ریٹائر ہوا تو یہ مارکٹائی اور شک ایک لا علاج جنون بن گیا ۔ بچے سمجھاتے ، بیٹے اور بیٹیاں ماں کو پٹتا ہوا دیکھ کر بڑے ہوئے تھے ۔ لیکن نہ جانے کیوں باپ کے ہاتھ کو نہ روک سکے ۔ اور باپ کو غصے میں دیکھتے ہی ادھر ادھر نکل جاتے ۔
ہر دوسرے دن شک کے طعنے اور مار کٹائی شاید یہی اس کا مقدر تھا ۔
آخر کب تک ؟
شاید موت ہی اس کی نجات دھندہ تھی لیکن موت بھی دھلیزپر کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی ۔
 

فاخر رضا

محفلین
درد
سر میں پڑنے والے جوتے نے اس کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا لیکن درد کی جو لہر اس کے دل سے اٹھی تھی اس نے اسے بے حال کردیا ۔ اب تو آنکھیں بھی سوکھ چکی تھی آخر کب تک بہتی رہتیں وہ صحن میں پھسکڑا مارے بیٹھے تھی اور اس کا شوہر اس کے بازو کو پکڑ کر اندر لے جانے کے لیے گھسیٹ رہاتھا ساتھ ساتھ انتہائی بے ہودہ گالیاں بک رہا تھا ۔ یہ مارکٹائی اور گالی گلوچ اس کا برسوں کا معمول تھا اب تو پاس پڑوس کے لوگ بھی عادی ہوگئے تھے اور کوئی جھانک کر بھی نہیں دیکھتا تھا ۔ لیکن اس کے لیے آج بھی ہر گالی روح پر لگنے والے تازیانے کی طرح تھی اوراپنے ہمسفر کا اٹھتا ہاتھ اس کو ہوش وحواس سے بے گانہ کر دیتا تھا ۔
اس کا گناہ کیا تھا ؟ کیا غلطی تھی ؟ کس جرم کی سزا میں اس کے لیے گالیاں اور جوتیاں لکھ دی گئی تھیں ؟ اور آخر کب تک اسے اس جرم بے گناہی کی سزا بھگتنا تھی ؟ شاید اس وقت تک جب روح کے ساتھ اس کا جسم بھی مردہ قرار دے دیا جائے ۔
مدت ہوئی وہ اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی ۔ اس کا شوہر غصے کا بہت تیز تھا خاندان میں جہاں کسی کی لڑائی ہوتی اس کو مدد کے لیے بلا لیا جاتا ۔ اونچے لمبے قد کا اچھا بھلا خوبصورت نوجوان لڑتے ہوئے لال سرخ ہوجاتا ۔ اس کے غصے اور جھگڑے سے ڈر کر مخالف پارٹی دب جاتی اور مسئلہ حل ہوجاتا ۔
اچھی جگہ ملازمت کرتا تھا پڑھا لکھا معاشی اعتبار سے مستحکم تھا ۔ جوانی کا جوش سمجھتے ، جانتے بوجھتے ، لڑائی جھگڑے کی عادت کو نظر انداز کرتے اس کے باپ نے اپنی پھولوں جیسی نازک لڑکی اس کے حوالے کردی ۔ کچھ دن خوشی اور شوق میں گزر گئے پھر معمولی معمولی غلطی پراس کا ہاتھ اٹھنے لگا ۔ غصہ اترتا تو معافی تلافی کرنے لگتا کسی کو نہ بتانے کے وعدے لینے لگتا اور بڑی محبت والا بندہ بن جاتا ۔
اسی لڑائی جھگڑے اور پیار محبت میں وقت گزرتا گیا چار بچوں کے بعد بھی غصے میں ہاتھ اٹھالینے کی عادت نہ بدلی ۔ وہ ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتی لیکن کوئی نہ کوئی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ۔ بچوں کی غلطی کی سزا بھی ماں کو مار کی صورت برداشت کرنی پڑتی ۔ آہستہ آہستہ سارا خاندان اس راز سے واقف ہوگیا ۔ بہنیں دبے لفظوں سے سمجھاتیں ۔ ماں باپ کبھی سختی ، کبھی پیار سے کام لیتے ۔ اس پر وقتی اثر ہوتا جب غصہ آتا بے اختیار ہاتھ اٹھ جاتا ۔ رفتہ رفتہ مار کے ساتھ شک کرنا بھی اس کی عادت میں شامل ہوتا گیا ۔
باہر کیوں گئی تھی ؟ میرے بعد کون گھر آیا ؟ فلاں سے کیا بات کر رہی تھی ؟
یہاں تک کہ اپنے بھائیوں سے ملنے پر بھی شکوک کا اظہار کرتا اور مار کٹائی سے گریز نہ کرتا ۔ کئی بار اس عہد کے ساتھ میکے گئی کہ اب کبھی واپس نہ آؤں گی ۔ لیکن پھر کبھی بچوں کی وجہ سے اور کبھی ماں باپ ، بہن بھائیوں کے مجبور کرنے پر واپس اسی گھر میں اس سےمار کھانے پہنچ جاتی ۔
اچھا کماتا اور بچوں کو اچھا کھلاتا ، خاندان کے باقی معاملات میں بھی رویہ کافی بہتر تھا اسی لیے زندگی گزرتی گئی بچے بڑے ہوگئے ، تعلیم بھی دلوائی اور ان کی شادیاں بھی کر دیں ۔ ملازمت سے ریٹائر ہوا تو یہ مارکٹائی اور شک ایک لا علاج جنون بن گیا ۔ بچے سمجھاتے ، بیٹے اور بیٹیاں ماں کو پٹتا ہوا دیکھ کر بڑے ہوئے تھے ۔ لیکن نہ جانے کیوں باپ کے ہاتھ کو نہ روک سکے ۔ اور باپ کو غصے میں دیکھتے ہی ادھر ادھر نکل جاتے ۔
ہر دوسرے دن شک کے طعنے اور مار کٹائی شاید یہی اس کا مقدر تھا ۔
آخر کب تک ؟
شاید موت ہی اس کی نجات دھندہ تھی لیکن موت بھی دھلیزپر کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی ۔
وہ کتاب کیوں نہیں لکھتی
 

سید عمران

محفلین
درد
سر میں پڑنے والے جوتے نے اس کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا لیکن درد کی جو لہر اس کے دل سے اٹھی تھی اس نے اسے بے حال کردیا ۔ اب تو آنکھیں بھی سوکھ چکی تھی آخر کب تک بہتی رہتیں وہ صحن میں پھسکڑا مارے بیٹھے تھی اور اس کا شوہر اس کے بازو کو پکڑ کر اندر لے جانے کے لیے گھسیٹ رہاتھا ساتھ ساتھ انتہائی بے ہودہ گالیاں بک رہا تھا ۔ یہ مارکٹائی اور گالی گلوچ اس کا برسوں کا معمول تھا اب تو پاس پڑوس کے لوگ بھی عادی ہوگئے تھے اور کوئی جھانک کر بھی نہیں دیکھتا تھا ۔ لیکن اس کے لیے آج بھی ہر گالی روح پر لگنے والے تازیانے کی طرح تھی اوراپنے ہمسفر کا اٹھتا ہاتھ اس کو ہوش وحواس سے بے گانہ کر دیتا تھا ۔
اس کا گناہ کیا تھا ؟ کیا غلطی تھی ؟ کس جرم کی سزا میں اس کے لیے گالیاں اور جوتیاں لکھ دی گئی تھیں ؟ اور آخر کب تک اسے اس جرم بے گناہی کی سزا بھگتنا تھی ؟ شاید اس وقت تک جب روح کے ساتھ اس کا جسم بھی مردہ قرار دے دیا جائے ۔
مدت ہوئی وہ اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی ۔ اس کا شوہر غصے کا بہت تیز تھا خاندان میں جہاں کسی کی لڑائی ہوتی اس کو مدد کے لیے بلا لیا جاتا ۔ اونچے لمبے قد کا اچھا بھلا خوبصورت نوجوان لڑتے ہوئے لال سرخ ہوجاتا ۔ اس کے غصے اور جھگڑے سے ڈر کر مخالف پارٹی دب جاتی اور مسئلہ حل ہوجاتا ۔
اچھی جگہ ملازمت کرتا تھا پڑھا لکھا معاشی اعتبار سے مستحکم تھا ۔ جوانی کا جوش سمجھتے ، جانتے بوجھتے ، لڑائی جھگڑے کی عادت کو نظر انداز کرتے اس کے باپ نے اپنی پھولوں جیسی نازک لڑکی اس کے حوالے کردی ۔ کچھ دن خوشی اور شوق میں گزر گئے پھر معمولی معمولی غلطی پراس کا ہاتھ اٹھنے لگا ۔ غصہ اترتا تو معافی تلافی کرنے لگتا کسی کو نہ بتانے کے وعدے لینے لگتا اور بڑی محبت والا بندہ بن جاتا ۔
اسی لڑائی جھگڑے اور پیار محبت میں وقت گزرتا گیا چار بچوں کے بعد بھی غصے میں ہاتھ اٹھالینے کی عادت نہ بدلی ۔ وہ ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتی لیکن کوئی نہ کوئی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ۔ بچوں کی غلطی کی سزا بھی ماں کو مار کی صورت برداشت کرنی پڑتی ۔ آہستہ آہستہ سارا خاندان اس راز سے واقف ہوگیا ۔ بہنیں دبے لفظوں سے سمجھاتیں ۔ ماں باپ کبھی سختی ، کبھی پیار سے کام لیتے ۔ اس پر وقتی اثر ہوتا جب غصہ آتا بے اختیار ہاتھ اٹھ جاتا ۔ رفتہ رفتہ مار کے ساتھ شک کرنا بھی اس کی عادت میں شامل ہوتا گیا ۔
باہر کیوں گئی تھی ؟ میرے بعد کون گھر آیا ؟ فلاں سے کیا بات کر رہی تھی ؟
یہاں تک کہ اپنے بھائیوں سے ملنے پر بھی شکوک کا اظہار کرتا اور مار کٹائی سے گریز نہ کرتا ۔ کئی بار اس عہد کے ساتھ میکے گئی کہ اب کبھی واپس نہ آؤں گی ۔ لیکن پھر کبھی بچوں کی وجہ سے اور کبھی ماں باپ ، بہن بھائیوں کے مجبور کرنے پر واپس اسی گھر میں اس سےمار کھانے پہنچ جاتی ۔
اچھا کماتا اور بچوں کو اچھا کھلاتا ، خاندان کے باقی معاملات میں بھی رویہ کافی بہتر تھا اسی لیے زندگی گزرتی گئی بچے بڑے ہوگئے ، تعلیم بھی دلوائی اور ان کی شادیاں بھی کر دیں ۔ ملازمت سے ریٹائر ہوا تو یہ مارکٹائی اور شک ایک لا علاج جنون بن گیا ۔ بچے سمجھاتے ، بیٹے اور بیٹیاں ماں کو پٹتا ہوا دیکھ کر بڑے ہوئے تھے ۔ لیکن نہ جانے کیوں باپ کے ہاتھ کو نہ روک سکے ۔ اور باپ کو غصے میں دیکھتے ہی ادھر ادھر نکل جاتے ۔
ہر دوسرے دن شک کے طعنے اور مار کٹائی شاید یہی اس کا مقدر تھا ۔
آخر کب تک ؟
شاید موت ہی اس کی نجات دھندہ تھی لیکن موت بھی دھلیزپر کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی ۔
مردوں کے بڑھتے ہوئے ظلم سے بچنے کے لیے خواتین کو تھوڑا مارشل آرٹ بھی سیکھ لینا چاہیے...
ہاتھ نہ اٹھائیں لیکن اٹھے ہوئے ہاتھ کو روک ضرور سکیں!!!
 

ام اویس

محفلین
مردوں کے بڑھتے ہوئے ظلم سے بچنے کے لیے خواتین کو تھوڑا مارشل آرٹ بھی سیکھ لینا چاہیے...
ہاتھ نہ اٹھائیں لیکن اٹھے ہوئے ہاتھ کو روک ضرور سکیں!!!
مردوں کی تربیت ہونی چاہیے کہ وہ عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں ۔ گھر کو امن کا گہوارہ بنائیں مارشل آرٹ کا سکول نہیں
 
پھر کیا اس سے مسئلے کا حل مل گیا ؟
مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسا ہاتھ ہی توڑ دیا جائے. :cool: درجن بھر ہاتھ ٹوٹ جائیں گے تو شاید ان کو غیرت آ جائے ورنہ یہ تو صدیوں سے روز مرہ کا معمول ہے مردوں کا. کسی نہ کسی خطے میں روز یا شاید ہر وقت کوئی نہ کوئی عورت تو شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہو گی.
 
مریم افتخار جی
میرا خیال ہے تعلیم اور تربیت ہی اس مسئلے کا حل ہے ۔ جاہلوں پر قانون کا نفاذ کچھ فائدہ نہیں دیتا
میرا تو یہ خیال ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی/سکتی.

قانون کے نفاذ کی بات کون کر رہا ہے؟ گھریلو آلات تشدد جو ایک ہی سمت میں استعمال ہوتے رہے ہیں ان کو مخالف سمت دکھانی ہوگی فقط اس صورت میں جب واقعی ہم اس مسئلے کو اہم سمجھیں. ورنہ یہ مسئلہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ مذکورہ بالا خاتون کی طرح زیادہ تر خواتین اس مسئلے کے ساتھ جینے کو باقی مسائل سے بری ہونے کی فِیس سمجھتی ہیں شاید.
 
آخری تدوین:
مردوں کی تربیت ہونی چاہیے کہ وہ عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں ۔ گھر کو امن کا گہوارہ بنائیں مارشل آرٹ کا سکول نہیں
شادی سے پہلے مرد اور عورت کی تربیت ہونی چاہئے جس میں انہیں ان کے حقوق اور فرائض کے بارے میں بتایا جائے۔ پہلے سے تربیت ہونے سے دونوں کی زندگی سکون سے گزرے گی اور ان کے بچوں کی بھی۔
 
Top