نور وجدان
لائبریرین
ایک نیا سلسلہ شروع کرتے ہیں جس میں ایک ہی زمین پر مختلف شاعروں کے کلام کو پیش کرنا ہے ۔ آپ بھی اسی سلسلے میں موجود شعراء کا کلام پوسٹ کریں ۔ جب سب پوسٹ کرچکیں گے تو میں دوسری بحر پوسٹ کردوں گی اور ہم پھر اس سلسلے کو بحر در بحر قوافی اور شاعر کے ہمراہ پوسٹ کرتے رہیں ۔ اسطرح تمام شاعر حضرات کو ایک ہی مترنم بحر میں جدید اور کلاسیکی دور کے شعراء کا کلام میسر ہوگا ۔ ہم اس سلسلے میں ایک ہی بحر سے چلتے قدماء اور جدید شعراء کے کلام میں خیال ، انداز ، ترنم ، قوافی پر بحث بھی ساتھ ساتھ کرسکتے ہیں ۔ اس طرح ہمارے پاس ہر شاعر کے انداز کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی ہوجائیں گی
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
جون ایلیا
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
ہے وہ یکسر سپردگی تو بھلا
بدحواسی کہاں سے آتی ہے
وہ, ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا سپاسی کہاں سےآتی ہے
اک زندان بےدلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے
تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سےآتی ہے
دل ہے شب سوختہ سو اے امید
تو ندا سی کہاں سے آتی ہے
میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری
تو نراسی کہاں سے آتی ہے
************
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
پیر نصیرالدین نصیر
دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
ان کی خوشبو کہاں سے آتی ہے
حد اوہام سے گزر کے کھلا
خوش یقینی گماں سے آتی ہے
جرات بندگی رب جلیل
بت شکن کی اذاں سے آتی ہے
ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر
دل میں عزم,جواں سے آتی ہے
ان کی آواز میرےکانوں میں
آرہی ہے جہاں سے آتی ہے
سر کو توفیق سجدہ کرنےکی
یار کے آستاں سے آتی ہے
آدمیت وہاں نہیں ہوتی
کبر کی بو جہاں سے آتی ہے
وقت کیسا قیامتی,ہے آج
دھوپ اب سائباں سے آتی ہے
رات پڑتے ہی کچھ نہیں کھلتا
یاد جاناں کہاں سے آتی ہے
آدمی میں جمالیاتی حس
قربت مہ وشاں سے آتی ہے
دوقدم چل کے تم نہیں آتے
چاندنی آسماں سے آتی ہے
زندگی میں نصیر آسانی
ترک سودوزیاں سے آتی ہے
یاد فن کے اساتذہ کی نصیر
تیرے طرز بیاں سے آتی ہے
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
جون ایلیا
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
ہے وہ یکسر سپردگی تو بھلا
بدحواسی کہاں سے آتی ہے
وہ, ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا سپاسی کہاں سےآتی ہے
اک زندان بےدلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے
تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سےآتی ہے
دل ہے شب سوختہ سو اے امید
تو ندا سی کہاں سے آتی ہے
میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری
تو نراسی کہاں سے آتی ہے
************
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
پیر نصیرالدین نصیر
دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
ان کی خوشبو کہاں سے آتی ہے
حد اوہام سے گزر کے کھلا
خوش یقینی گماں سے آتی ہے
جرات بندگی رب جلیل
بت شکن کی اذاں سے آتی ہے
ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر
دل میں عزم,جواں سے آتی ہے
ان کی آواز میرےکانوں میں
آرہی ہے جہاں سے آتی ہے
سر کو توفیق سجدہ کرنےکی
یار کے آستاں سے آتی ہے
آدمیت وہاں نہیں ہوتی
کبر کی بو جہاں سے آتی ہے
وقت کیسا قیامتی,ہے آج
دھوپ اب سائباں سے آتی ہے
رات پڑتے ہی کچھ نہیں کھلتا
یاد جاناں کہاں سے آتی ہے
آدمی میں جمالیاتی حس
قربت مہ وشاں سے آتی ہے
دوقدم چل کے تم نہیں آتے
چاندنی آسماں سے آتی ہے
زندگی میں نصیر آسانی
ترک سودوزیاں سے آتی ہے
یاد فن کے اساتذہ کی نصیر
تیرے طرز بیاں سے آتی ہے
آخری تدوین: