محمد ریحان قریشی
محفلین
دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہادردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
یہاں کسرۂ اضافت کی ضرورت نہیں۔
اس پر اس سے قبل یہاں گفتگو ہو چکی۔
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہادردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
لیکن ہو سکتا ہے کہ میرا قیاس نادرست ہو۔ غالب کا ایک مصرع یاد آرہا ہے:دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
یہاں کسرۂ اضافت کی ضرورت نہیں۔
اس پر اس سے قبل یہاں گفتگو ہو چکی۔
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
لیکن ہو سکتا ہے کہ میرا قیاس نادرست ہو۔ غالب کا ایک مصرع یاد آرہا ہے:
گر نفسِ جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا
یہاں غالباً سر منزل، منزل کے ہی معنی رکھتا ہے۔ شاید سرشام بھی اسی قبیل کی شے ہو۔
معاف کیجیے گا. آپ کی باتیں مجھ کم فہم کی سمجھ میں کم ہی آتی ہیں. سر شام اور سر منزل کو اگر سرِ شام اور سرِ منزل لکھیں تو مصرعے ساقط الوزن ہو جائیں گے.کسرہ کا استعمال تو دونوں طرح سے ٹھیک لگتا ہے بس اس کی ضرورت، صوتیت کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے کہیں کہیں
یہ بات میں نے کہاں کی؟سر منزل اور منزل کا عروضی اعتبار سے ایک ہونا کیسے ثابت ہے؟
معاف کیجیے گا. آپ کی باتیں مجھ کم فہم کی سمجھ میں کم ہی آتی ہیں. سر شام اور سر منزل کو اگر سرِ شام اور سرِ منزل لکھیں تو مصارع ساقط الوزن ہو جائیں گے.
یہ بات میں نے کہاں کی؟
اضافت میں وزن ہر صورت تبدیل ہوتا ہے. یہ تبدیلی صرف تب غیر اہم ہوتی ہے جب کسرہ اس حرف پر ہو جو تقطیع میں کسی رکن کا آخری حرفِ متحرک ہو.اضافت میں وزن بدلا بھی جاسکتا ہے اور وزن تبدیل نہیں بھی ہوتا ہے
جی نہیں.سر شام یا سرِ شام دونوں ہی عروضی اعتبار سے بحر میں فٹ ہوسکتے ہیں ۔
کس فارمولے کے تحت؟آپ کے موجودہ لنک میں ہما صاحبہ کی رائے زیادہ مقدم ہے ۔
دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
یہاں کسرۂ اضافت کی ضرورت نہیں۔
اس پر اس سے قبل یہاں گفتگو ہو چکی۔
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
درست فرمایا آپ نے. مصرع پر تھوڑا غور کرنا چاہیے تھا.یہ بحث تب ہی ختم ہو سکتی ہے جب مذکورہ مصرع درست پڑھا جائے -
دردِ سر ' شام سے اس زلف کے سودے میں رہا-
دردِ سر کے بعد وقف کرنے سے بحث تو یہیں نمٹ گئی کہ "سرِ شام" کی اضافت یہاں مذکور ہی نہیں-
کس فارمولے کے تحت؟
آپ کی رائے کافی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے ۔ وتد مفروق والی بات آپ نے درست کہی ہے ۔ آپ نے پوچھا ہما صاحبہ کی رائے کس حوالے سے معتبر ہے تو کچھ گزارشات ہیںاضافت میں وزن ہر صورت تبدیل ہوتا ہے. یہ تبدیلی صرف تب غیر اہم ہوتی ہے جب کسرہ اس حرف پر ہو جو تقطیع میں کسی رکن کا آخری حرفِ متحرک ہو.
بلکہ جس رکن کی ساخت میں وتدِ مفروق شامل ہو، اس وتدِ مفروق کے آخری حرف کا ساکن یا متحرک ہونا ایک ہی بات ہے.
جی نہیں.
تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے
جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے
مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے
مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز
کہ اَز فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے
ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے
نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے
تری طلب کی جستجو میں جو اسیر ہوگئی
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے
تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے
میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے
۔ لیکن معجزہ مسیح اور معجزہء مسیح کے اوزان میں بہت فرق ہے۔ یہاں نور کی غزل میں استعمال غلط ہے۔
یوں تو اضافتوں کا وزن شمار نہیں ہوتا لیکن بوقت ضرورت کھینچ کر ان کا وزن بنا لیا جاتا ہے، جیسے غمِ دل اگر بحر کا تقاضا ہے کہ وزن فَعِلن ہو تو غمِ دل اس پر پورا اترتا ہے لیکن اگر بحر کا تقاضا فعولن ہو تو غمِ دل کو غمے دل سمجھ کر فعولن کا وزن پورا کیا جائے گا یہ بھی شاعر کی صوابدید یا مرضی ہے۔
میری رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ دردِ سر شام کو دردِ سرِ شام کرنے سے شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔آپ کی رائے کافی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے ۔
مجھے الف، ب تو نہ پڑھائیں۔میں نعرہ مستانہ
شاعری میں صوتیت کا دخل ہوتا ہے ، بحور اصل میں اس صوتی اتار چڑھاؤ کو دیکھ کے بنائیں گی ۔ اس لیے نعرہِ مستانہ جو ردھم پیدا کرتا ہے وہ نعرہ مستانہ پیدا نہیں کررہا ہے ۔
میں نے اس غزل میں آئنہ جمال اور معجزہ مسیح ہی باندھا تھا، جو کہ اضافت کے بنا تھا جبکہ محترم الف عین کی رائے میں اسے آئنہِ جمال ہونا چاہیے جسکا وزن تبدیل ضرور ہوتا ہے ،جبکہ محترم وارث صاحب کی رائے اس لحاظ سے کچھ مختلف پڑھی ہے
جہاں تک آتش کے شعر کا تعلق ہے۔ وہاں کسرہ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ یہ ستم جہاں سے آپ نے کاپی کیا ہے غالباً وہاں ڈھایا گیا ہے۔ اس سے بے ساختہ میرا ذہن فکِ اضافت والی گفتگو کی جانب مبذول ہو گیا اور میں نے اصل مصرع پر توجہ کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔ یہ خطا مجھ سے ضرور ہوئی ہے۔یگانہؔ کی تصنیف "غالبؔ شکن: دوآتشہ" مطبوعہ ۱۹۳۵ء پڑھتے ہوئے اتفاقاً ہی معلوم ہوا کہ کسرۂِ اضافت کی تحذیف کو اصطلاح میں فکِ اضافت کہا جاتا ہے اور کم از کم اردو میں اسے عیب گردانا جاتا ہے۔ موصوف کے خیال میں یہ "اردو میں نہایت بھدا معلوم ہوتا ہے۔" میں ان کے اس خیال سے کافی حد تک متفق ہوں۔ گو کہ اساتذہ کے ہاں نظائر اس کے ملتے ہیں مگر اولیٰ یہی ہے کہ علی زریون اور مجھ جیسے لوگ فی زمانہ اس سے اجتناب کریں۔
یگانہؔ نے تصنیفِ مذکور کے صفحہ ۴۶ پر غالبؔ کے اس شعر کے محاکمے کی ذیل میں فکِ اضافت کا ذکر کیا ہے:
بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرامقطرہ عرق دراصل قطرۂِ عرق ہے جس کا کسرۂِ اضافت غالبؔ کو ضرورتِ شعری کے تحت اڑا دینا پڑا۔
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂِ حیراں سمجھا
شاید کسی حد تک بحر پر منحصر ہےمیری رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ دردِ سر شام کو دردِ سرِ شام کرنے سے شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔
حضور میری بات صرف اسی شعر اور اسی بحر کے متعلق تھی۔شاید کسی حد تک بحر پر منحصر ہے
مثلاً
سرِ شام ہی سے بخار ہے
مُتَفاعلن مُتَفاعلن
اگر اضافت ہٹائیں گے تو بحر سے خارج ہو جائے گا۔
نہیں بلکہ آپ کا اعترافِ سہو ہی دلیل کمال ہے -البتّہ دشوار پسند طبیعتوں کا خاصہ ہے کہ انتہائی سامنے کی چیز یا آسان بات ان سے اوجھل ہوجاتی ہے-درست فرمایا آپ نے. مصرع پر تھوڑا غور کرنا چاہیے تھا.
عجیب بے وقوف آدمی ہوں میں.
شاید کسی حد تک بحر پر منحصر ہے
مثلاً
سرِ شام ہی سے بخار ہے
مُتَفاعلن مُتَفاعلن
اگر اضافت ہٹائیں گے تو بحر سے خارج ہو جائے گا۔
بس ان تفصیلات میں زیادہ نہیں پڑتا۔ جو آپ سے معلوم ہو جائے، ہو جائے۔مزے کی بات اس مثال میں بحر سے خارج نہیں ہوگا -شیخ سعدی کی مقبول نعت کا مصرع دیکھیں :
".........صلّو علیہ و آلہ "
اور مثال ڈھونڈھیں -
آپ کی رائے کافی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے ۔ وتد مفروق والی بات آپ نے درست کہی ہے ۔ آپ نے پوچھا ہما صاحبہ کی رائے کس حوالے سے معتبر ہے تو کچھ گزارشات ہیں
واصف صاحب نے فرمایا
میں نعرہ مستانہ
شاعری میں صوتیت کا دخل ہوتا ہے ، بحور اصل میں اس صوتی اتار چڑھاؤ کو دیکھ کے بنائیں گی ۔ اس لیے نعرہِ مستانہ جو ردھم پیدا کرتا ہے وہ نعرہ مستانہ پیدا نہیں کررہا ہے ۔
دوسرا اس حوالے سے محترم الف عین کی رائے مقدم ہے
میں نے اس غزل میں آئنہ جمال اور معجزہ مسیح ہی باندھا تھا، جو کہ اضافت کے بنا تھا جبکہ محترم الف عین کی رائے میں اسے آئنہِ جمال ہونا چاہیے جسکا وزن تبدیل ضرور ہوتا ہے ،جبکہ محترم وارث صاحب کی رائے اس لحاظ سے کچھ مختلف پڑھی ہے
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
آپ کی رائے اہم ہے مگر میں نے جو کہا ہے وہ محترم الف عین سے سیکھتے ہی کہا ہے
میں ہما صاحبہ کا بے لاگ تبصرہ پڑھ کے متاثر ہوئے بن نہیں رہ سکا-بڑی جی دار تنقید کی ہے جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے -اب ایسے تبصرے انٹرنیٹ پر کہاں -بقول انور شعور :
خوب ہے 'خوب تر ہے 'خوب ترین
اس طرح تجزیے نہیں ہوتے
خیر صاحب غزل کے پیش کردہ اقتباس میں انہوں نے تسلیم بھی کر لیا ہے کہ فکِ اضافت فارسی شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت مستعمل ہے -اب نہ ان کی شاعری فارسی ہے اور نہ ضرورتِ شعری( poetic license) کا ہر شاعر اہل -
کوئی نہیں جہان میں حاجت روائے دلکوئی نہیں جہا ں میں حاجت روائے دل
دل اور درد دونوں میں اک ربطِ خاص ہےدل اور درد دونوں میں اک ربطِ خاص
سمجھے گا کون کس سے کہوں ماجرائے دلسمجھے کون کس سے کہوں راز ہائے دل
آئینۂ حیات کی تکمیل کے لیےآیئنہ حیات کی تکمیل کے لیے
کہتے نہ تھے وہ سن کے برا مان جائیں گےکہتے نہ تھے سن کے وہ برا مان جائیں گے