محمد وارث

لائبریرین
قافیہ تو تبدیل ہی تھا سب میں ، اصل مقصد ایک ہی بحر کے حوالے سے گفتگو کا تھا :)
ایک زمین کے لیے بحر، قافیہ اور ردیف تینوں کی قید ضروری ہے۔ اگر ایک ہی بحر کی اکٹھی کرنی ہیں تو وہ کوئی خاص کام نہیں۔ خاص کام یہی ہے کہ ایک ہی "زمین" کی غزلیں اکھٹی کی جائیں۔
 

فہد اشرف

محفلین
فہد صاحب وہ سب علیحدہ بحریں ہوتی ہیں۔
اچھا۔ مجھے لگا تھا بحر صرف ہزج (یا اور جو دوسری رمل و کامل وغیرہ ہیں) ہوتی ہے اور محذوف، مقطوع وغیرہ اسی کی ذیلی بحریں یا کچھ ہوتی ہوں گی کیونکہ میں نے کہیں پڑھ رکھا ہے بحور کی تعداد 16 یا 17 ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک زمین کے لیے بحر، قافیہ اور ردیف تینوں کی قید ضروری ہے۔ اگر ایک ہی بحر کی اکٹھی کرنی ہیں تو وہ کوئی خاص کام نہیں۔ خاص کام یہی ہے کہ ایک ہی "زمین" کی غزلیں اکھٹی کی جائیں۔

لیکن ، ایک زمین کی غزلیں تو بہت کم کم ہی مل سکیں گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا۔ مجھے لگا تھا بحر صرف ہزج (یا اور جو دوسری رمل و کامل وغیرہ ہیں) ہوتی ہے اور محذوف، مقطوع وغیرہ اسی کی ذیلی بحریں یا کچھ ہوتی ہوں گی کیونکہ میں نے کہیں پڑھ رکھا ہے بحور کی تعداد 16 یا 17 ہے۔
آپ نے درست پڑھا تھا، اصل بحریں اتنی ہی ہیں لیکن ان میں زحافات کے تغیر سے نئی بحریں بنتی ہیں جن کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں جاتی ہے، ان سب کو بھی علیحدہ بحر ہی کہیں گے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک ہی زمین پر تین شعراء کا کلام

مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
مولانا ظفرؔ علی خان

دِل جِس سے زِندہ ھے وہ تمنّا تُمھی تو ہو
ھم جِس میں بَس رھے ہیں وہ دُنیا تُمھی تو ہو

مُجھ پُر خطا کی لاج تُمھارے ہی ہاتھ ھے
مُجھ نَنگِ دو جہاں کا وَسِیلہ تُمھی تو ہو

جو دَستگِیر ھے وہ تُمھارا ہی ہاتھ ہے
جو ڈُوبنے نہ دے وہ سَہارا تُمھی تو ہو

دُنیا میں رَحمَتِ دو جَہاں اور کون ہے
جِس کی نہیں نظِیر وہ تَنہا تُمھی تو ہُو

پُھوٹا جو سِینہء شبِ تارِ اَلَست سے
اُس نُورِ اَوّلِیں کا اُجالا تُمھی تو ہو

جَلتے ہیں جِبرائیل کے پَر جِس مَقام پر
اُس کی حَقِیقَتوں کے شَناسا تُمھی تو ہو

سَب کُچھ تُمھارے واسطے پیدا کِیا گیا
سب غایَتوں کی غایَتِ اُولٰی تُمھی تو ہو۔۔۔!
۔۔۔۔۔


مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
ادیبؔ رائے پوری

آیاتِ وَالضُّحٰی میں فَتَرضٰی تُمھی تو ہو
بَخشِش کا عاصِیوں پہ دَر وا تُمھی تو ہو

جِس نے خُدا کے پیکرِ حُسن و جَمال کو
اَپنی کُھلی نِگاہ سے دیکھا تُمھی تو ہو

جِس نے خُدا سے نِعَمتِ فِردَوس کے عِوَض
ہر اُمَّتی کی جان کو خرِیدا تُمھی تو ہو

اُمّی لَقَب ہو، صاحبِ اُمُّ الکِتاب ہو
ہے یہ کِتاب جِس کا قَصِیدَہ تُمھی تو ہو

اَوجِ کمالِ فَن ہو کہ آرائِشِ سُخَن
اِس کَج کُلاہء عِلم کا طُرّہ تُمھی تو ہو

اَقصٰی کی سَر زَمِین فَلَسطِینِیوں کا خُون
ہے جِس کے اِنتِظار میں آقا تُمھی تو ہو

لَب غیر کے لِیے نہ کُھلے جِس کے آج تک
مَدح سَرا ادیبؔ ہے جِس کا تُمھی تو پو۔۔۔!
۔۔۔۔۔

مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
مہر وجدانی

بے مثل ولاجواب ہو یکتا تمہی تو ہو
بعد از خدا، خدائی میں تنہا تمہی تو ہو

ارض وسما میں انجمن آرا تمہی تو ہو
تخلیقِ کائنات کا منشاء تمہی تو ہو

غم پائے دو جہاں کا مداوا تمہی تو ہو
نازِ خلیل وفخرِ مسیحا تمہی تو ہو

ذرّہ تا آفتاب تمہارا جمال ہے
شمع حریم حق کا اجالا تمہی تو ہو

خیرالبشر ہو رحمت کُل کائنات ہو
جاری ہے جس کے فیض کا دریا تمہی تو ہو

میں خسروانِ دہر کو ٹھوکر پہ مار دوں
میں ہوں غلام جس کا وہ آقا تمہی تو ہو

مطلوب ذوالجلال ووالا کرام کون ہے
سردار دو جہاں، شہِ والا تمہی تو ہو

تم مل گئے تو دولتِ کونین مل گئی
جانِ مراد، روحِ تمنّا تمہی تو ہو

کُل انبیاء میں میں مہرِ رسالت ہے اور کون؟
خاصانِ خاص، اشرف واعلیٰ تمہی تو ہو
..........
 
دماغ پے کافی زور پڑتا ہے اور عمررواں کا یہ حصہ شاید زور آوری کے لیے بہتر نہیں ہوتا۔۔یا شاید کرنی بھي ہوتو ہوتی نہیں ہے ۔۔۔
یہ وجہ نہیں ہے۔ مرا اس طرف کبھی رجحان ہی نہیں ہوا۔ نہ ہی سمجھنا اور یاد کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
سدرشن فاکر
قوافی : جذبات ، بات ، حالات ، ملاقات ، صدمات ، بارات ،فسادات ، نشانات ، برسات ، لمحات ، سوالات وغیرہ ۔۔

عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا
ان سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگئ وقت ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
احمد علی برقی اعظمی

غم و آلام کی بارات نے سونے نہ دیا
مستقل گردشِ حالات نے سونے نہ دیا
گھرگیا موجِ حوادث میں سفینہ میرا
ناگہاں یورشِ برسات نے سونے نہ دیا
جس سے آنا تھا اُسے ہے یہ وہی راہگذر
اُس کے قدموں کے نشانات نے سونے نہ دیا
قصرِ دل نذرِ فسادات ہوا ہے جب سے
مُجھ کو گُذرے ہوئے لمحات نے سونے نہ دیا
ہیں سوالات کئی جن کا نہیں کوئی جواب
بار بار ایسے سوالات نے سونے نہ دیا
پھر مری گُمشدہ میراث ملے گی کہ نہیں
اِنھیں فرسودہ خیالات نے سونے نہ دیا
صبحِ اُمید کب آئے گی نہیں کچھ معلوم
رات بھر مجھ کو اِسی بات نے سونے نہ دیا
دل سے ہوتے ہی نہیں محویہ یادوں کے نقوش
گرمیِ شدّتِ جذبات نے سونے نہ دیا
مجھ پہ جو گزری ہے گزرے نہ کسی پر برقیؔ
خدشۂ ترکِ ملاقات نے سونے نہ دیا
....
 

نور وجدان

لائبریرین
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
خواجہ حیدر علی اتش
قوافی : یار ، بیدار ، دیوار ، دیدار ، خار ، بیمار ، رفتار وغیرہ

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا
نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دی


رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
مصطفٰی خان شیفتہ

گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
واہ اے طالعِ خفتہ کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابیِ اغیار نے سونے نہ دیا
وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
شوقِ ہم خوبیِ دلدار نے سونے نہ دیا
یاس سے آنکھ بھی جھپکی تو توقع سے کھلی
صبح تک وعدۂ دیدار نے سونے نہ دیا
طالعِ خفتہ کی تعریف کہاں تک کیجیے
پاؤں کو بھی خلشِ خار نے سونے نہ دیا
دردِ دل سے جو کہا نیند نہ آئی؟ تو کہا
مجھ کو کب نرگسِ بیمار نے سونے نہ دیا
شبِ ہجراں نے کہا قصۂ گیسوئے دراز
شیفتہ تو بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا

رمل مثمن سالم مخبون محذوف

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
بہادر شاہ ظفر

رات بھر مجھ کو غمِ یار نے سونے نہ دیا
صبح کو خوفِ شبِ تار نے سونے نہ دیا
شمع کی طرح مجھے رات کٹی سولی پر
چین سے یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
اے دل آزار تو سویا کیا آرام سے رات
مجھے پل بھر بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
میں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہبانوں کو
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
........
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
سلیم احمد

عمر بھر کاوش اظہار نے سونے نہ دیا
حرف نا گفتہ کے آزار نے سونے نہ دیا
دشت کی وسعت بے قید میں کیا نیند آتی
گھر کی قیدِ در و دیوار نے سونے نہ دیا
تھک کے سو رہنے کو رستے میں ٹھکانے تھے بہت
ہوسِ سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
کبھی اقرار کی لذت نے جگائے رکھا
کبھی اندیشۂ انکار نے سونے نہ دیا
ہو گئی صبح بدلتے رہے پہلو شب بھر
ایک کروٹ پہ دلِ زار نے سونے نہ دیا

رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
کرار نوری
فن کی اور ذات کی پیکار نے سونے نہ دیا
دل میں جاگے ہوئے فن کار نے سونے نہ دیا
ہر طرف تپتی ہوئی دھوپ مرے ساتھ گئی
زیر سایہ کسی دیوار نے سونے نہ دیا
ایک معصوم سی صورت کو کہیں دیکھا تھا
پھر بھی چشمان گنہ گار نے سونے نہ دیا
میرے ہم سایے میں شاید ہے کوئی مجھ جیسا
ہے جو چرچا کسی بیمار نے سونے نہ دیا
کل مرے شہر میں اک ظلم کچھ ایسا بھی ہوا
رات بھر غیرت فنکار نے سونے نہ دیا
جاگتے رہنے کا آرام تو کیا ہم کو بھی
چین سے شدت افکار نے سونے نہ دیا
کل کچھ ایسی ہی سر بزم مری بات گری
کسی پہلو مرے پندار نے سونے نہ دیا
ایک دھڑکا سا لگا تھا کہ سحر دم کیا ہو
سر پہ لٹکی ہوئی تلوار نے سونے نہ دیا

رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

زین العابدین خاں عارف

رات یاد نگہ یار نے سونے نہ دیا
شادئ وعدۂ دل دار نے سونے نہ دیا
ہو گئی صبح در خانہ پہ بیٹھے بیٹھے
فتنۂ چشم فسوں کار نے سونے نہ دیا
شب وہ بے کل رہے کاکل میں پھنسا کر اس کو
شور و فریاد دل زار نے سونے نہ دیا
تھا شب ہجر میں اک خون کا دریا جاری
ایک پل دیدۂ خوں بار نے سونے نہ دیا
رات بھر خون جگر ہم نے کیا ہے عارفؔ
فکر رنگینیٔ اشعار نے سونے نہ دیا
اس تن زار پہ ایک بار گراں ہے یہ بھی
یار کے سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
اب تو کر دیویں رہا وہ مجھے شاید کہ انہیں
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
......

رمل مثمن سالم مخبون محذوف

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
علامہ خالد رومی

آج شور پس دیوار نے سونے نہ دیا
پھر ہمیں جشن کے آثار نے سونے نہ دیا
آپ کے حسن طرحدار نے سونے نہ دیا
کشش گیسوئے خمدار نے سونے نہ دیا
پھر بھڑک اٹھی ہیں چنگاریاں دل میں کیا کیا
پھر کسی آہ شرر بار نے سونے نہ دیا
رات بھر داغ دل اپنے ہی کئے ہم نے شمار
دشت میں رونق گلزار نے سونے نہ دیا
وہ تو سویا کئے آرام سے اپنے گھر میں
ہمیں ویرانی گھر بار نے سونے نہ دیا
آنکھ لگتی تو بھلا کیسے شب غم ، لگتی ؟
جب ہمیں چرخ ستمگار نے سونے نہ دیا
رات بھر دل میں رہا ماتم حسرت برپا
مرگ الفت کے عزادار نے سونے نہ دیا
آجکی رات کا رومی ! کروں کیا تم سے بیاں
پھر مرے دیدہ خونبار نے سونے نہ دیا
.......

رمل مثمن سالم مخبون محذوف

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
شہباز ندیم ضیائی

گرمی پہلوئے دلدار نے سونے نہ دیا
مجھ کو رنگینی افکار نے سونے نہ دیا
یوں ہی تکتا رہا تاروں کو سحر ہونے تک
رات بھر دیدۂ بیدار نے سونے نہ دیا
رات بھر لذت قربت سے رہا محو کلام
رات بھر مجھ کو مرے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر جاگا کئے پلکیں نہ جھپکیں ہم نے
رات بھر عشق کے آزار نے سونے نہ دیا
رات بھر دل کے دھڑکنے کی صدا آتی رہی
رات بھر سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
رات بھر یاد گزشتہ نے ستایا مجھ کو
رات بھر چشم گہر بار نے سونے نہ دیا
رات بھر کھل نہ سکا مجھ پہ کسی طور ندیمؔ
رات بھر حسن پر اسرار نے سونے نہ دیا
.....

رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
مقصود شاہ

کیسے سوتے کہ ہمیں یار نے سونے نہ دیا
زلفِ خمدار کی مہکار نے سونے نہ دیا
وہ بھی دھڑکن کی صداؤں سے ہی الجھے رہے
ہم کو بھی سانسوں کی رفتار نے سونے نہ دیا
کرتے اظہار تو شاید یہ نہ نوبت آتی
رات بھر کوششِ اظہار نے سونے نہ دیا
دو بلاؤں نے دیا نیند پہ پہرہ شب بھر
مجھے چُپ نے انہیں گفتار نے سونے نہ دیا
چین دن کا تیری یاد نے چھینا مجھ سے
رات کو اس دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
پرستشِ حال نہ چھوڑی میری اس حال میں بھی
مجھ کو میرے ہی غمخوار نے سونے نہ دیا
کھوجتے رہ گئے پائل کی صدا کان میرے
جو نہ آئی اسی جھنکار نے سونے نہ دیا
دل میں بھونچال سا یادوں نے مچائے رکھا
ایک گرتی ہوئی دیوار نے سونے نہ دیا
رات بھر ان کی , نہیں , گونجتی کانوں میں رہی
ان کے انکار کی تکرار نے سونے نہ دیا
کوئی رویا کوئی سلگا کوئی تڑپا مچلا
سب کو مقصود کے اشعار نے سونے نہ دیا


رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
خواجہ حیدر علی آتش

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا

خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا

ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا

جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا
نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا

دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا

رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا

سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا

باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا

سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا

تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا
 
آخری تدوین:
Top