محمود احمد غزنوی
محفلین
ڈاکٹر کریم فناری کا ایک نہایت دلچسپ اور فکر انگیز مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔۔۔سوچا اسکا اردو ترجمہ کیا جائے۔ اصل مضمون انگلش میں ہے۔ چنانچہ اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔۔۔۔
سعودی عرب کی صحرائی تپش میں تین سال گذارنا میرے لئے ایک بڑاروشن اور آگاہی بخش تجربہ تھا، جس نے امتِ مسلمہ کے ایک بہت چُھپے ہوئے اور پراسرار راز سے پردہ اٹھادیا۔ کعبہ مشرفہ تک رسائی حاصل کرنا اس بھید کو جاننے کی نسبت شائد زیادہ آسان ہے۔ اور وہ بھید ہے موجودہ اسلامی دنیا میں پائی جانے والی تقسیم، جو شائد مجوسیوں کے خیر اور شر والے دو خداؤں کی تقسیم کی مانند ہے۔ ایک طرف گویا اصلی اور سچا اسلام اور دوسری طرف اسکی بگڑی ہوئی اور مسخ شدہ ناپسندیدہ صورت۔ اور اس شدید قسم کی تقسیم اور فرق کو پہچان لینے سے اس بات کی بھی بخوبی سمجھ آجاتی ہے کہ مسلمان قوم کے ساتھ عصرِ حاضر میں کیا مسئلہ ہے اور اسکی یہ حالت کیوں ہے۔
سعودی عرب کو بہت فضیلتیں حاصل ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ عوامی جگہوں پر جنم لینی والی بعض قباحتوں اور برائیوں کو معاشرے سے ختم کرنے والا معاملہ ایسا ہے کہ جو بجا طور پر ہماری تعریف کا مستحق ہے (اگر چہ بہت سختی اور سفاکی سے ختم کیا گیا ہے)۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ لندن کی فلیٹ سٹریٹ (Fleet Street) سے گذر رہا تھا تو بارش نے آلیا۔ چنانچہ ہم دونوں فروری کی اس بارش سے بچنے کیلئے وہاں پر واقع چرچ (Saint Dunstan’s Church) میں داخل ہوگئے۔لیکن اندر جاتے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے ان بدہئیت، عریاں اور بدصورت خاکوں پر مشتمل اس دیوہیکل پینٹنگ پر نظر پڑی جو چرچ کی چھت پر دیوار سے لیکر ہال کے وسط تک پھیلی ہوئی تھی اور جس میں ان حواریوں کے مسخ شدہ اجسام بشمول اعضائے ستر بڑے بھیانک انداز میں پینٹ کئے گئے تھے۔ ہم باپ بیٹا جلدی سے دوبارہ باہر بارش میں واپس آنکلے اور میرے دل سے بے اختیار شاہ فہد کیلئے دعا نکلی کہ جو عصرِ حاضر میں پائی جانے والی بے راہ رویوں کو سعودی معاشرے میں سختی کے ساتھ کچلنے اور اور منظرِ عام پر آنے نہیں دیتے اور انکو دبانے میں کسی قسم کی کوئی ہجکچاہٹ یا جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
شاہ فہد مساجد کے پراجیکٹس کی سرپرستی کے سلسلے میں بھی تعریف کے مستحق ہیں جیسا کہ مسجدِ قبا، مسجدِ قبلتین اور خاص طور پر مسجدِ ذوالحلیفہ جو ایک نخلستان سے مشابہ تعمیر ہے اور مدینۃ النبی کے جنوب میں میقات کے مقام پر بنائی گئی ہےجس میں مدینے سے حج و عمرہ پر جانے والے زائرین غسل کرکے نماز پڑھ کر احرام باندھتے ہیں۔ ایک بہت خوبصورت اور باوقار عبادت کیلئے واقعی ایسی ہی عمارت ہونا چاہئیے تھی۔
لیکن اسکے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جدید سعودی معاشرہ جمالیات کے ساتھ کوئی خاص ہم آہنگی رکھتا ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے کی عمارات تو بلاشبہ ایک عمدہ تاثر پیش کرتی ہیں لیکن موجودہ صدی میں بنائے جانے والے عماراتی ڈھانچے تو تیسری دنیا میں پائے جانے والی عمارات کی طرح بے ہنگم اور جمالیات سے تہی دامن ہیں۔ اور لوگوں کے گھر بھی عجیب بچگانہ انداز کے شوخ اور بھڑکیلے رنگوں سے مزین ہیں، پیازی (Pink) رنگ کے قالین ، Ziegfield Folliesٹائپفرنیچر اور اوپر سے رنگ برنگی فلوریسنٹ ٹیوبیں اورخمدار ٹیوبوں سے بنے ہوئے فانوس، اکثر گھروں میں نظر آتے ہیں۔
میری طرح وہ لوگ ، جو اسلامی آرٹ اور اسلامی طرزِ حیات کی جمالیات کو دیکھ کر مسلمان ہوئے ہیں، انکے لئے اس قسم کا ذوق اور حسِ جمال کا انحطاط بہت عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔ عام طور پر اسکی یہ توجیہہ کی جاتی ہے کہ یہ سب انیسویں صدی میں یورپی استعماری طاقتوں کی جانب سے منڈیوں میں سستے صنعتی سامان کی بہتات اورصدیوں تک حسِ جمالیات کو تسکین پہنچانے والے مسلمان کاریگروں کے معاشی استحصال کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسلامی دستکاریوں اور فنون کے اعلیٰ نمونے جو مسلمان ملکوں میں تو نہیں البتہ یورپین اور مغربی اقوام کے گھروں، اور عجائب گھروں کی زینت ہیں، نہ صرف کاریگری اور فن کے شہکار ہیں بلکہ بنانے والوں کی روحانی خوبصورتی کے بھی بہترین عکاس ہیں۔ اور جن سے اللہ کے پیغمبر کی اس حدیث کا اظہار ہوتا ہے کہ " اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے"۔ یہ جمال اور یہ خوب سے خوب تر کا سفر دراصل خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ایک عطیہ ہے، ایک وجدانی چیز ہے۔ یہ مسلمان فنکار، کاریگر اور نقاش اپنے شاگردوں کو سات سات سال تک فن کے اسرار و رموز اور باریکیاں سمجھانے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی مذہبی اور روحانی سرگرمیوں میں بھی مشغول کئے رکھتے تھے۔ یہ خوبصورت قالین بننے والے، دید ہ زیب قندیلیں اور تام چینی پر نقش و نگار بنانے والے فنکار، عام طورپر کسی نہ کسی صوفی سلسلے سے بھی وابستہ ہوا کرتے تھے، یا پھر انکا اپنا ایک صوفی سلسلہ ہوتا تھا۔ چنانچہ دست کاری کا عمل ذکرِ الٰہی کے مترادف ہوا کرتا تھا کیونکہ کمہار کے چاک اور قالین باف کے چوکھٹے پر ہر لمحہ اللہ اور اسکے رسول کے ذکر سے مملو ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ کسی فن پارے کا وجود دراصل اس فنکار کی روحانی لطافت و نفاست اور دنیا وی شواغل سے منہ موڑ کر محض اللہ اور اسکے رسول کی محبت میں انہماک کا مظہر ہوا کرتا تھا۔ اور ان میں پائے جانے والے نقص کو فنکار کی روحانیت میں پائی جانے والی کسی نہ کسی خامی اور کمی پر محمول کیا جاتا۔
صنعتی انقلاب یہ سب بہا کر لے کیا اور ستم ظریفی ہے کہ مسلمان فنکاروں کے فن پاروں کا وجود اور روایت کا تسلسل، زیادہ تر مغربی اقوام کی قدردانی کی وجہ سے قائم ہے ۔ حالت یہ ہے کہ علاقائی دستکاریوں کے نمونے، قیمتی افغانی پارچہ جات سے لیکر آکسفام (Oxfam) میں فروخت ہونے والے سستے سے پیتل کے شمعدانوں کو اکثر وہی لوگ خریدتے ہیں اور انکی قدر کرتے ہیں، جو دنیا کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر کے نتیجے میں یہ فن پارے تشکیل پائے۔
سعودیہ والے، چونکہ منہدم کرنے، پھر دوبارہ تعمیر کرنے اور امپورٹ کرنے کیلئے درکار خاطر خواہ سرمائے کے ذخائر رکھتے ہیں، چنانچہ دوسرے مسلمان ممالک کی نسبت یہاں پر مسلم فنونِ لطیفہ اور جمالیات زیادہ زبوں حالی کا شکار ہوئے ہیں۔ مراکش کے زیادہ تر لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ اپنے پتھروں سے بنے ہوئے قدیم گھروں کو منہدم کرکے مغربی طرزِ تعمیر کی شباہت لئے ہوئے سیمنٹ کے ڈھانچے کھڑے کرسکیں، لیکن سعودیوں کو ایسی کوئی مجبوری لاحق نہیں ۔چنانچہ مکے مدینے کی تقریباؑ تمام پرانی عمارات اور جدہ کا بھی قدیم طرزِ تعمیر کا حامل کافی سے زیادہ قدیم طرزَ تعمیر کا حامل حصہ سوچے سمجھے بغیر منہدم کردیا گیا اور کنکریٹ کے بنے ہوئے بدہئیت ڈھانچے پھوڑوں کی طرح جگہ جگہ اگ آئے۔
ماضی میں خوبصورت رہے ہوئے کسی سعودی شہر کے ملبے میں کھڑے ہوکر انسان پر یہ بات بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ صاحبانِ فن کیسے زوال پذیر ہوئے۔ مغرب سے درآمد شدہ خوبصورت اور بدصورت اشیاء میں سے انتخاب کے معاملے میں سعودی لوگ شائد ہمیشہ بدصورتی کا ہی انتخاب کرتےنظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مقامی موسیقی کو مسترد کرکے مغربی موسیقی سے طف اندوز ہوتے ہوئے، موزارٹ (Mozart) کے نغمے کی بجائے مائیکل جیکسن اور اسی قبیل کی امریکی بے ہنگم موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنے گھروں سے روایتی عرب یا عثمانی فرنیچر کو باہر پھینک کر لوئس فاروک (Louis Farouk) جیسے بدھے اور بھونڈے فرنیچر پر فریفتہ ہونتے ہیں جس کو یورپ میں محض دوسرے ملکوں کو امپورٹ کرنے کیلئے بنایا جاتا ہے۔ انسان تصور کرسکتا ہے ان یورپی مزدوروں کا، جو سپین اور اٹلی میں اس قسم کے بے تکے سامان کے بوجھ سے اپنی نظریں پرے کرتے ہوئے اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہوئے انکو ان سمندری جہازوں میں لوڈ کرتے ہیں ، جو دور سمندر پار کسی عربی بندرگاہ کی طرف روانگی کیلئے تیار کھڑے ہوں۔
سعودیہ میں قیام کے دوران میری ایک شخص سے شناسائی ہوئی جو ان تمام باتوں سے کافی دل گرفتہ تھا۔ وہ ایک مڈل کلاس ست تعلق رکھنے والاامریکی نومسلم تھا جو مکہ کی ام القریٰ یونیورسٹی میں سکالر شپ پر آیا ہوا تھا۔ اگر چہ آج بہت بعید ہے کہ اسے Untitled Document کی کیو نیوز (Q-News) پر خبروں کا بلیٹن سنانے کیلئے چنا جائے۔ میں اسکی شناخت کو چھپانے کیلئے اسے جلال کے نام سے پکاروں گا۔
جلال کو اسلامک آرٹ اور صوفی شاعری کی خوبصورت نظموں اور اشعار سے محبت تھی۔ وہ اسلام کی جانب مودودی یا سید قطب کا مطالعہ کرکے راغب نہیں ہوا تھا ( کیونکہ ان دونوں کے افکار جو گویا کسی نفسیاتی کمپلیکس کے نتیجے میں ایک خاص قسم کی عدم رضامندی اور احتجاجی کیفیت کا رنگ لئے ہوئے ہیں ، کسی بھی حساس اور متمدن شخص کو بیزار کرنے کیلئے کافی ہیں)، بلکہ اسکے برعکس جلال کا اسلام کی طرف جھکاؤ ،مسلم قبائلی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ سفر کرنے اور ان میں کچھ عرصہ گذارنے سے پیدا ہوا تھا۔ یہیں اسکو اس آزاد اور قیمتی فضا سے روشناس ہونے اور اس میں سانس لینے کا موقع ملا جسے بجا طور پر ایک اسلامی ماحول کہا جاسکتا ہے۔ نہ تو اخوان المسلمون کی طرح کا ایک خفیہ مقصد لئے ہوئے بوائے سکاوٹ طرز کا اسلام، اور نہ ہی تبلیغی جماعت والوں کا احساسِ گناہ سے بوجھل اعصاب والا اسلام، بلکہ ان تمام عوارض سے پاک صاف ستھرااسلام ، کہ کئی صدیوں سے اللہ کے دوست جسکو لئے ہوئے نشاط اور انبساط سے بھرپور زندگیاں گذارتے رہے تھے۔
لیکن جلال کی قسمت میں وہابی مکتبہ فکر کا دیا ہوا گیس ماسک پہننا لکھا تھا، جس نے بالآخر اسکو اللہ کے پاک دین سے نکلنے والی حیات آفریں آکسیجن سے دور کردیا اور انسانی فکر سے جنم لینے والے گھٹن آمیز اور مہلک بخارات میں محبوس کردیا ۔ یونیورسٹی میں ہم اسے اکثر یہ نصیحت یا مشورہ دیتے کہ اسکو سوچ سمجھ کر صحبت اختیار کرنی چاہئیے اور ان لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہئیے جو اسکا دل پروردگار کی محبت سے روشناس کروائیں نہ کہ وہ لوگ جو اسے دوسروں پر نکتہ چینی اور سوئے ظن میں مشغول کرکے اسکی انا اور نفسانیت کو تقویت پہنچا ئیں۔ لیکن اسکی آزاد طبیعت نے ہماری باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اور یہیں سے اسکی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا۔
مجھے کبھی اس شخض کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا جس نے جلا ل کو وہابیت کا حلقہ بگوش بنایا، لیکن انسان ایسے کسی شخص کے کردار، اسکے مزاج، چہرے کے تاثرات اور اندازِ گفتگو کے بارے میں آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کیسے ہونگے۔ چند مہینے گذرے اور جلال, جو وہاں عربی زبان کا طالبِ علم تھا، اس بلند آوز مقرر کے سحر میں بری طرح گرفتار ہوکر رہ گیا۔ اسکی شخصیت کے خدو خال پر ایک عجیب سایہ سا پھیل گیا۔ وہ جلال جو اکثر مدینہ منورہ زیارت کی غرض سے جایا کرتا، اب بہت کم کم جانے لگا کیونکہ اسے بتایا جاتا کہ ضرورت سے زیادہ اللہ کے رسول کی طرف توجہ دینا شرک کی طرف لے جاتا ہے۔ اسکا یہ اعتماد کہ خدائے بزرگ و برتر کا جمال اسکے دوستوں اور فطرت کے مظاہر میں دکھائی دیتا ہے، ڈگمگانے لگا۔ اور اس کایا کلپ نے اسکی شخصیت کو بری طرح روند ڈالا۔ کبھی کبھی وہ کچھ دیر کیلئے اپنے فطرتی انداز میں نظر آتا تو بڑے جوش سے مسلم طرزِ تعمیر، انکے لباس، کپڑوں، قالینوں اور مسلمانوں کے شہروں کے خوبصورت جغرافیے پر بات کرتا، لیکن بات کرتے کرتے یکایک چونک جاتا اور جو پروگرامنگ اسکے دل و دماغ پر کی جارہی تھی، دوبارہ اسکے زیرِ اثر آکر طوطے کی طرح وہابی ازم کے کھوکھلے اقوال کو دہرانے لگتا۔ ایک دفعہ اسکی یہ کیفیت دیکھ کر مجھے فلم Invasion of The Body Snatchers یاد آئی۔ شائد جلال بھی اسی طرح کے کسی آسیب کے زیرِ اثر آچکا تھا۔
سعودیہ میں قیام سے پہلے، میں اس الجھن کا شکار تھا کہ روایتی اسلام کے نمائندہ علمائے کرام آخر کیوں وہابیت کی اس قدر شدید مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ میرا خیال وہابیت کے بارے میں یہی تھا کہ یہ حنبلی فقہ کے ماننے والے کچھ سرگرم قسم کے لوگوں کا گروہ ہے جو خدا کے بارے میں وارد آیات و روایات کے الفاظ کے ظاہری معنوں پر جاتے ہوئے اسکے بارے میں تجسیم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ لیکن جلال کے ارد گرد جمع پرچھائیوں نے مجھے سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا قائل کردیا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ کہیں زیادہ خطرناک اور اشتعال انگیز صورت کا حامل ہے۔ وہابیت محض چند نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے اور ایک حالت ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں میں ایک خاص طرح کی شدت کی روح پھونک دیتی ہے تابلکاری کا ایک سیاہ بادل انسان کے وجود کے گرد ہالہ بنائے رکھتا ہے اور اندیشہ تھا کہ اگر میں زیادہ دیر تک اسکی زد میں رہوں گا تو بیمار ہوجاؤں گا۔ کسی پرجوش وہابی کے ساتھ کافی بوجھل اور شاق قسم کی گفتگو کے بعد اکثر اوقات، میں اپنے آپکو نارمل کرنے کیلئے ایک لمبی چہل قدمی اور گہرے گہرے سانس لیتا اور ساتھ ساتھ سینکڑوں مرتبہ درود شریف پڑھتا تاکہ اس گفتگو کے زہریلے اثرات کو زائل کیا جاسکے۔
ایک مرتبہ یوگنڈا کے ایک شہری سے میری گفتگو ہوئی جو اپنے ملک میں اسلام کے زوال کا رونا رو رہا تھا اور بڑی تلخی کے ساتھ وہابیوں کو اسکا ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا۔ اس نے کہا کہ ان لوگوں کے آنے سے پہلے، اسلام یوگنڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا اور اس کی بڑی وجہ تھی لوگوں کی مولود کی محفلوں کے ساتھ رغبت اور اس قسم کی ثقافتی تقریبات میں ذوق و شوق کے ساتھ شرکت۔ اس نے بتایا کہ ردمRhythm اور تال کے ساتھ گیت گانا، افریقہ کی روح ہے اور انہیں اسکے ساتھ بہت لگاؤ ہے۔ لیکن جب بھرپور مالی وسائل اور آنکھوں میں تباہ کن شدت کے ساتھ یہ وہابی وہاں وارد ہوئے تو انہوں نے آہستہ آہستہ مولود کی محفلوں سے عوام کو متنفر کرنے اور روکنے کا کام شروع کردیا اور یہ نوبت آن پہنچی کہ مولود کو گناہ باور کروا کر عوام کی زندگیوں سے نکال باہر پھ ینکا گیا اور مذہب کی ایک بہت خشک اور جامد شکل کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک منظم اینٹی صوفی اور اینٹی مولود فرقے کی وجہ سے عیسائی مشنریوں کو اس علاقے میں اپنے افریقی گیتوں کے ساتھ زیادہ پزیرائی ملنا شروع ہوگئی اور عیسائیت پھیلنے لگی۔
ادھر مکہ میں جلال کی حالت دن بہ دن بد سے بد تر ہوتی گئی۔ اور ہماری جب بھی گفتگو ہوتی وہ میرے بالکل قریب ہوکر اپنے ہاتھ کی انگلی کا رخ میرے کوٹ کے کالر کی طرف کرتے ہوئے اپنا موقف زور و شور سے پیش کرتا۔ اسکی یہ حرکات و سکنات بڑی شدید قسم کی وہابیت کی علامات تھیں۔ میں جب اس سے محبت، حسن، جمال شاعری، فنونِ لطیفہ کی بات کرتا تو اسکے چہرے پر ایک بڑی عجیب تمکنت اور اپنے درست ہونے کے احساس سے لبریز ایک حقارت آمیز تاثر نمودار ہوتا، کیونکہ اب یہ سب باتیں بدعت تھیں۔ اب کنکریٹ سے بنی ہوئی ہلکے سبز رنگ کے قالین اور ملٹی کلر پتیوں والی فلوریسنٹ ٹیوبوں سے مزین مسجد اور قرونِ وسطیٰ کے عظیم فنکاروں اور کاریگروں کی بنائی ہوئی مسجد میں اسکے نزدیک کوئی فرق نہیں تھا دونوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ یونیورسٹی میں جلال کےکمرے میں جلال سمیت تین آدمی رہتے تھے، آہستہ آہستہ ہر قسم کی "علاقائی" مسلم ثقافت کی عکاس اشیاء۔۔۔، یعنی کشمیر کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے پارچہ جات، خطاطی کے طغرے، عرق ِ گلاب چھڑکنے والے ظروف اور اسکی پسندیدہ سیاہ آبنوس کے دانوں والی تسبیح،۔۔۔ان سب سے اسکا کمرہ محروم ہوتا گیا۔ اسکی زندگی سے یہ چیزیں خارج ہوگئیں اور زندگی کے جمالیاتی پہلو سے اسکی حیات چھین کر مذہب کی ایک انتہائی الٹراوائیلٹ قسم کی شعاؤں سے اسے بالکل بے جان اور بنجر کردیا گیا۔ اسکے پڑھنے کی دلچسپیاں بھی تبدیل ہوگئیں۔ رومی ، ، سنائی ،شبستری اور دیگر عارفانہ کلام والے شعراء جنکی شاعری اسے بہت پسند تھی، اب یہ سب اسکے نزدیک" صوفی" لوگ تھے اور وہابیت کی سرزمین ہر قسم کے ادبی لٹریچر کیلئے اتنی ہی بنجر اور بے آب و گیاہ تھی جتنی اسلام کے دوسرے فنونِ لطیفہ کیلئے ۔
میں نے بڑے دکھ کے ساتھ اسکی یہ کایا کلپ ہوتے دیکھی، کیونکہ دوسرے نومسلموں کی طرح مجھے بھی یہ امید تھی کہ وہ اپنی فطری ثقافتی جمالیت پسندی کو اپنے اسلامی علم کے ساتھ ملا کر واپس امریکہ میں انگریزی اور عربی کو مہارت کے ساتھ جاننے والا ، اسلام کا ایک بڑا سفیر بن کر ابھرے گا۔ لیکن افسوس، کہ اسکی قسمت اسے وہابی ریگستان کی طرف لے گئی جہاں آخرکار اس نے پیاس کی شدت سے جان دے دی۔
اسے ایک روحانی قسم کے ہارٹ اٹیک سے گذرنا پڑا اور جیسا کہ ہمیں اندازہ تھا۔، اپنی فطری روحانی طبیعت کو تبدیل کرنے کی اسکی کوشش، بالآخر دم توڑ گئی ۔ ایک شدید قسم کے روحانی بحران کے بعد ۔۔۔جس نے یقیناؑ اسے ناقابلِ برداشت اذیت پہنچائی ہوگی۔۔۔ اس نے اچانک یونیورسٹی چھوڑ دی اور سعودیہ سے واپس جاکر اسلام کو خیر آباد کہہ دیا۔ اسکی ایک چائنیز لڑکی سے ملاقات ہوئی جس سے اس نے شادی کرلی اور بدھ مت کی ایک قسم نیشریرن Nicherian بدھ ازم کو اختیار کرلیا جو بلا شک و شبہ اسکی جمالیت پسندی اور عرفانِ جمال کیلئے اسکی فطری پیاس کو سیراب کرنے کیلئے وہابی ازم کی نسبت کہیں زیادہ مددگار ثابت ہوا۔
جلال کا کیس ایک انتہائی نوعیت کا کیس تھا، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ اکلوتا کیس نہیں ہے۔ عصرِ رواں کی بے راہ رویوں کے ردعمل میں وہابیت کو بہت تیزی سے فروغ حاصل ہوا لیکن اس نے ان ہزاروں لوگوں کی روحوں کو آلودہ کردیا ہے جن کو اگر روایتی اسلام کے علمبردار علماء اور روحانی رہنمائی کرنے والے شیوخ میسر آجاتے تو شائد وہ اصلی اسلام اور اس سے حاصل ہونے والے روحانی سکون سے ضرور روشناس ہوجاتے۔ اگر چہ میں جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ اللہ کی مشئیت کے تحت ہے، لیکن میں جلال کے ارتداد پر خود کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں۔ مجھے چاہئیے تھا کہ اسے اولیاء و صالحین کے پاس لیکر جاتااور اللہ اور اسکے رسول کی حقیقی محبت سے سرشار لوگوں کے حلقہ ہائے ذکر میں لیکر جاتا جو ابھی بھی سعودیہ میں خاموشی کے ساتھ گمنامی میں پھل پھول رہے ہیں۔ شائد اسی کی برکت سے وہ اس وائرس سے بچ جاتا جو اسکی روحانی موت یعنی ارتداد کا سبب بنا۔ لیکن یہ کیس اپنی انتہائی شکل میں، دراصل امتِ مسلمہ کے موجودہ بحران کا ایک اظہار ہے۔ ہمارا اپنی روحوں میں موجود جمال کو پہچاننے سے انکار ۔۔۔وہ جمال جو روایتی مسلمان کی زندگی سے چھلکتا تھا۔۔۔ اور اس انکار پر اصرار ، ہماری روحانی زندگی میں اس جمال کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور اپنے پروردگار سے دوری کا مظہر ہے ، اور اسکی وجہ اصل روایتی اسلام کا انحطاط اور اسکی جگہ ایسے افکار و نظریات کا پھیلاؤ ہے جو اسلام کی فطری خوبصورتی کے ساتھ قطعا ہم آہنگ نہیں ہیں۔
لیکن شکر ہے کہ اب بھی امت میں اولیاء ہیں ، صالحین ہیں، صوفیہ ہیں، عظیم فنکار اور دستکار ہیں۔ معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے نے ان باتوں کیلئے ایک حفاظتی عامل کا کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں سفر کرنے کی بناء پر میں یہ بخوبی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کمیونٹی میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ روحانیت اور انسانیت کی معراج کو پہنچ سکےاور تاریخ کے اس مرحلے میں جب مغرب اپنے مذہب کے انحطاط کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، زیادہ ضروری ہے کہ اسلام کے جمال کو مسخ کرنے والے وہابی ازم کے طاعون کے مقابل، اس اسلامی ورثے کی حفاظت کی جائے تاکہ نہ صرف جدید مسلمان، بلکہ اہلِ مغرب کیلئے بھی اپنے روحانی خلاء کو پر کرنے کیلئے یہ ایک بہترین نعم البدل ثابت ہو۔
سعودی عرب کی صحرائی تپش میں تین سال گذارنا میرے لئے ایک بڑاروشن اور آگاہی بخش تجربہ تھا، جس نے امتِ مسلمہ کے ایک بہت چُھپے ہوئے اور پراسرار راز سے پردہ اٹھادیا۔ کعبہ مشرفہ تک رسائی حاصل کرنا اس بھید کو جاننے کی نسبت شائد زیادہ آسان ہے۔ اور وہ بھید ہے موجودہ اسلامی دنیا میں پائی جانے والی تقسیم، جو شائد مجوسیوں کے خیر اور شر والے دو خداؤں کی تقسیم کی مانند ہے۔ ایک طرف گویا اصلی اور سچا اسلام اور دوسری طرف اسکی بگڑی ہوئی اور مسخ شدہ ناپسندیدہ صورت۔ اور اس شدید قسم کی تقسیم اور فرق کو پہچان لینے سے اس بات کی بھی بخوبی سمجھ آجاتی ہے کہ مسلمان قوم کے ساتھ عصرِ حاضر میں کیا مسئلہ ہے اور اسکی یہ حالت کیوں ہے۔
سعودی عرب کو بہت فضیلتیں حاصل ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ عوامی جگہوں پر جنم لینی والی بعض قباحتوں اور برائیوں کو معاشرے سے ختم کرنے والا معاملہ ایسا ہے کہ جو بجا طور پر ہماری تعریف کا مستحق ہے (اگر چہ بہت سختی اور سفاکی سے ختم کیا گیا ہے)۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ لندن کی فلیٹ سٹریٹ (Fleet Street) سے گذر رہا تھا تو بارش نے آلیا۔ چنانچہ ہم دونوں فروری کی اس بارش سے بچنے کیلئے وہاں پر واقع چرچ (Saint Dunstan’s Church) میں داخل ہوگئے۔لیکن اندر جاتے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے ان بدہئیت، عریاں اور بدصورت خاکوں پر مشتمل اس دیوہیکل پینٹنگ پر نظر پڑی جو چرچ کی چھت پر دیوار سے لیکر ہال کے وسط تک پھیلی ہوئی تھی اور جس میں ان حواریوں کے مسخ شدہ اجسام بشمول اعضائے ستر بڑے بھیانک انداز میں پینٹ کئے گئے تھے۔ ہم باپ بیٹا جلدی سے دوبارہ باہر بارش میں واپس آنکلے اور میرے دل سے بے اختیار شاہ فہد کیلئے دعا نکلی کہ جو عصرِ حاضر میں پائی جانے والی بے راہ رویوں کو سعودی معاشرے میں سختی کے ساتھ کچلنے اور اور منظرِ عام پر آنے نہیں دیتے اور انکو دبانے میں کسی قسم کی کوئی ہجکچاہٹ یا جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
شاہ فہد مساجد کے پراجیکٹس کی سرپرستی کے سلسلے میں بھی تعریف کے مستحق ہیں جیسا کہ مسجدِ قبا، مسجدِ قبلتین اور خاص طور پر مسجدِ ذوالحلیفہ جو ایک نخلستان سے مشابہ تعمیر ہے اور مدینۃ النبی کے جنوب میں میقات کے مقام پر بنائی گئی ہےجس میں مدینے سے حج و عمرہ پر جانے والے زائرین غسل کرکے نماز پڑھ کر احرام باندھتے ہیں۔ ایک بہت خوبصورت اور باوقار عبادت کیلئے واقعی ایسی ہی عمارت ہونا چاہئیے تھی۔
لیکن اسکے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جدید سعودی معاشرہ جمالیات کے ساتھ کوئی خاص ہم آہنگی رکھتا ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے کی عمارات تو بلاشبہ ایک عمدہ تاثر پیش کرتی ہیں لیکن موجودہ صدی میں بنائے جانے والے عماراتی ڈھانچے تو تیسری دنیا میں پائے جانے والی عمارات کی طرح بے ہنگم اور جمالیات سے تہی دامن ہیں۔ اور لوگوں کے گھر بھی عجیب بچگانہ انداز کے شوخ اور بھڑکیلے رنگوں سے مزین ہیں، پیازی (Pink) رنگ کے قالین ، Ziegfield Folliesٹائپفرنیچر اور اوپر سے رنگ برنگی فلوریسنٹ ٹیوبیں اورخمدار ٹیوبوں سے بنے ہوئے فانوس، اکثر گھروں میں نظر آتے ہیں۔
میری طرح وہ لوگ ، جو اسلامی آرٹ اور اسلامی طرزِ حیات کی جمالیات کو دیکھ کر مسلمان ہوئے ہیں، انکے لئے اس قسم کا ذوق اور حسِ جمال کا انحطاط بہت عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔ عام طور پر اسکی یہ توجیہہ کی جاتی ہے کہ یہ سب انیسویں صدی میں یورپی استعماری طاقتوں کی جانب سے منڈیوں میں سستے صنعتی سامان کی بہتات اورصدیوں تک حسِ جمالیات کو تسکین پہنچانے والے مسلمان کاریگروں کے معاشی استحصال کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسلامی دستکاریوں اور فنون کے اعلیٰ نمونے جو مسلمان ملکوں میں تو نہیں البتہ یورپین اور مغربی اقوام کے گھروں، اور عجائب گھروں کی زینت ہیں، نہ صرف کاریگری اور فن کے شہکار ہیں بلکہ بنانے والوں کی روحانی خوبصورتی کے بھی بہترین عکاس ہیں۔ اور جن سے اللہ کے پیغمبر کی اس حدیث کا اظہار ہوتا ہے کہ " اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے"۔ یہ جمال اور یہ خوب سے خوب تر کا سفر دراصل خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ایک عطیہ ہے، ایک وجدانی چیز ہے۔ یہ مسلمان فنکار، کاریگر اور نقاش اپنے شاگردوں کو سات سات سال تک فن کے اسرار و رموز اور باریکیاں سمجھانے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی مذہبی اور روحانی سرگرمیوں میں بھی مشغول کئے رکھتے تھے۔ یہ خوبصورت قالین بننے والے، دید ہ زیب قندیلیں اور تام چینی پر نقش و نگار بنانے والے فنکار، عام طورپر کسی نہ کسی صوفی سلسلے سے بھی وابستہ ہوا کرتے تھے، یا پھر انکا اپنا ایک صوفی سلسلہ ہوتا تھا۔ چنانچہ دست کاری کا عمل ذکرِ الٰہی کے مترادف ہوا کرتا تھا کیونکہ کمہار کے چاک اور قالین باف کے چوکھٹے پر ہر لمحہ اللہ اور اسکے رسول کے ذکر سے مملو ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ کسی فن پارے کا وجود دراصل اس فنکار کی روحانی لطافت و نفاست اور دنیا وی شواغل سے منہ موڑ کر محض اللہ اور اسکے رسول کی محبت میں انہماک کا مظہر ہوا کرتا تھا۔ اور ان میں پائے جانے والے نقص کو فنکار کی روحانیت میں پائی جانے والی کسی نہ کسی خامی اور کمی پر محمول کیا جاتا۔
صنعتی انقلاب یہ سب بہا کر لے کیا اور ستم ظریفی ہے کہ مسلمان فنکاروں کے فن پاروں کا وجود اور روایت کا تسلسل، زیادہ تر مغربی اقوام کی قدردانی کی وجہ سے قائم ہے ۔ حالت یہ ہے کہ علاقائی دستکاریوں کے نمونے، قیمتی افغانی پارچہ جات سے لیکر آکسفام (Oxfam) میں فروخت ہونے والے سستے سے پیتل کے شمعدانوں کو اکثر وہی لوگ خریدتے ہیں اور انکی قدر کرتے ہیں، جو دنیا کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر کے نتیجے میں یہ فن پارے تشکیل پائے۔
سعودیہ والے، چونکہ منہدم کرنے، پھر دوبارہ تعمیر کرنے اور امپورٹ کرنے کیلئے درکار خاطر خواہ سرمائے کے ذخائر رکھتے ہیں، چنانچہ دوسرے مسلمان ممالک کی نسبت یہاں پر مسلم فنونِ لطیفہ اور جمالیات زیادہ زبوں حالی کا شکار ہوئے ہیں۔ مراکش کے زیادہ تر لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ اپنے پتھروں سے بنے ہوئے قدیم گھروں کو منہدم کرکے مغربی طرزِ تعمیر کی شباہت لئے ہوئے سیمنٹ کے ڈھانچے کھڑے کرسکیں، لیکن سعودیوں کو ایسی کوئی مجبوری لاحق نہیں ۔چنانچہ مکے مدینے کی تقریباؑ تمام پرانی عمارات اور جدہ کا بھی قدیم طرزِ تعمیر کا حامل کافی سے زیادہ قدیم طرزَ تعمیر کا حامل حصہ سوچے سمجھے بغیر منہدم کردیا گیا اور کنکریٹ کے بنے ہوئے بدہئیت ڈھانچے پھوڑوں کی طرح جگہ جگہ اگ آئے۔
ماضی میں خوبصورت رہے ہوئے کسی سعودی شہر کے ملبے میں کھڑے ہوکر انسان پر یہ بات بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ صاحبانِ فن کیسے زوال پذیر ہوئے۔ مغرب سے درآمد شدہ خوبصورت اور بدصورت اشیاء میں سے انتخاب کے معاملے میں سعودی لوگ شائد ہمیشہ بدصورتی کا ہی انتخاب کرتےنظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مقامی موسیقی کو مسترد کرکے مغربی موسیقی سے طف اندوز ہوتے ہوئے، موزارٹ (Mozart) کے نغمے کی بجائے مائیکل جیکسن اور اسی قبیل کی امریکی بے ہنگم موسیقی سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنے گھروں سے روایتی عرب یا عثمانی فرنیچر کو باہر پھینک کر لوئس فاروک (Louis Farouk) جیسے بدھے اور بھونڈے فرنیچر پر فریفتہ ہونتے ہیں جس کو یورپ میں محض دوسرے ملکوں کو امپورٹ کرنے کیلئے بنایا جاتا ہے۔ انسان تصور کرسکتا ہے ان یورپی مزدوروں کا، جو سپین اور اٹلی میں اس قسم کے بے تکے سامان کے بوجھ سے اپنی نظریں پرے کرتے ہوئے اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہوئے انکو ان سمندری جہازوں میں لوڈ کرتے ہیں ، جو دور سمندر پار کسی عربی بندرگاہ کی طرف روانگی کیلئے تیار کھڑے ہوں۔
سعودیہ میں قیام کے دوران میری ایک شخص سے شناسائی ہوئی جو ان تمام باتوں سے کافی دل گرفتہ تھا۔ وہ ایک مڈل کلاس ست تعلق رکھنے والاامریکی نومسلم تھا جو مکہ کی ام القریٰ یونیورسٹی میں سکالر شپ پر آیا ہوا تھا۔ اگر چہ آج بہت بعید ہے کہ اسے Untitled Document کی کیو نیوز (Q-News) پر خبروں کا بلیٹن سنانے کیلئے چنا جائے۔ میں اسکی شناخت کو چھپانے کیلئے اسے جلال کے نام سے پکاروں گا۔
جلال کو اسلامک آرٹ اور صوفی شاعری کی خوبصورت نظموں اور اشعار سے محبت تھی۔ وہ اسلام کی جانب مودودی یا سید قطب کا مطالعہ کرکے راغب نہیں ہوا تھا ( کیونکہ ان دونوں کے افکار جو گویا کسی نفسیاتی کمپلیکس کے نتیجے میں ایک خاص قسم کی عدم رضامندی اور احتجاجی کیفیت کا رنگ لئے ہوئے ہیں ، کسی بھی حساس اور متمدن شخص کو بیزار کرنے کیلئے کافی ہیں)، بلکہ اسکے برعکس جلال کا اسلام کی طرف جھکاؤ ،مسلم قبائلی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ سفر کرنے اور ان میں کچھ عرصہ گذارنے سے پیدا ہوا تھا۔ یہیں اسکو اس آزاد اور قیمتی فضا سے روشناس ہونے اور اس میں سانس لینے کا موقع ملا جسے بجا طور پر ایک اسلامی ماحول کہا جاسکتا ہے۔ نہ تو اخوان المسلمون کی طرح کا ایک خفیہ مقصد لئے ہوئے بوائے سکاوٹ طرز کا اسلام، اور نہ ہی تبلیغی جماعت والوں کا احساسِ گناہ سے بوجھل اعصاب والا اسلام، بلکہ ان تمام عوارض سے پاک صاف ستھرااسلام ، کہ کئی صدیوں سے اللہ کے دوست جسکو لئے ہوئے نشاط اور انبساط سے بھرپور زندگیاں گذارتے رہے تھے۔
لیکن جلال کی قسمت میں وہابی مکتبہ فکر کا دیا ہوا گیس ماسک پہننا لکھا تھا، جس نے بالآخر اسکو اللہ کے پاک دین سے نکلنے والی حیات آفریں آکسیجن سے دور کردیا اور انسانی فکر سے جنم لینے والے گھٹن آمیز اور مہلک بخارات میں محبوس کردیا ۔ یونیورسٹی میں ہم اسے اکثر یہ نصیحت یا مشورہ دیتے کہ اسکو سوچ سمجھ کر صحبت اختیار کرنی چاہئیے اور ان لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہئیے جو اسکا دل پروردگار کی محبت سے روشناس کروائیں نہ کہ وہ لوگ جو اسے دوسروں پر نکتہ چینی اور سوئے ظن میں مشغول کرکے اسکی انا اور نفسانیت کو تقویت پہنچا ئیں۔ لیکن اسکی آزاد طبیعت نے ہماری باتوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اور یہیں سے اسکی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا۔
مجھے کبھی اس شخض کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا جس نے جلا ل کو وہابیت کا حلقہ بگوش بنایا، لیکن انسان ایسے کسی شخص کے کردار، اسکے مزاج، چہرے کے تاثرات اور اندازِ گفتگو کے بارے میں آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کیسے ہونگے۔ چند مہینے گذرے اور جلال, جو وہاں عربی زبان کا طالبِ علم تھا، اس بلند آوز مقرر کے سحر میں بری طرح گرفتار ہوکر رہ گیا۔ اسکی شخصیت کے خدو خال پر ایک عجیب سایہ سا پھیل گیا۔ وہ جلال جو اکثر مدینہ منورہ زیارت کی غرض سے جایا کرتا، اب بہت کم کم جانے لگا کیونکہ اسے بتایا جاتا کہ ضرورت سے زیادہ اللہ کے رسول کی طرف توجہ دینا شرک کی طرف لے جاتا ہے۔ اسکا یہ اعتماد کہ خدائے بزرگ و برتر کا جمال اسکے دوستوں اور فطرت کے مظاہر میں دکھائی دیتا ہے، ڈگمگانے لگا۔ اور اس کایا کلپ نے اسکی شخصیت کو بری طرح روند ڈالا۔ کبھی کبھی وہ کچھ دیر کیلئے اپنے فطرتی انداز میں نظر آتا تو بڑے جوش سے مسلم طرزِ تعمیر، انکے لباس، کپڑوں، قالینوں اور مسلمانوں کے شہروں کے خوبصورت جغرافیے پر بات کرتا، لیکن بات کرتے کرتے یکایک چونک جاتا اور جو پروگرامنگ اسکے دل و دماغ پر کی جارہی تھی، دوبارہ اسکے زیرِ اثر آکر طوطے کی طرح وہابی ازم کے کھوکھلے اقوال کو دہرانے لگتا۔ ایک دفعہ اسکی یہ کیفیت دیکھ کر مجھے فلم Invasion of The Body Snatchers یاد آئی۔ شائد جلال بھی اسی طرح کے کسی آسیب کے زیرِ اثر آچکا تھا۔
سعودیہ میں قیام سے پہلے، میں اس الجھن کا شکار تھا کہ روایتی اسلام کے نمائندہ علمائے کرام آخر کیوں وہابیت کی اس قدر شدید مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ میرا خیال وہابیت کے بارے میں یہی تھا کہ یہ حنبلی فقہ کے ماننے والے کچھ سرگرم قسم کے لوگوں کا گروہ ہے جو خدا کے بارے میں وارد آیات و روایات کے الفاظ کے ظاہری معنوں پر جاتے ہوئے اسکے بارے میں تجسیم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ لیکن جلال کے ارد گرد جمع پرچھائیوں نے مجھے سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا قائل کردیا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ کہیں زیادہ خطرناک اور اشتعال انگیز صورت کا حامل ہے۔ وہابیت محض چند نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے اور ایک حالت ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں میں ایک خاص طرح کی شدت کی روح پھونک دیتی ہے تابلکاری کا ایک سیاہ بادل انسان کے وجود کے گرد ہالہ بنائے رکھتا ہے اور اندیشہ تھا کہ اگر میں زیادہ دیر تک اسکی زد میں رہوں گا تو بیمار ہوجاؤں گا۔ کسی پرجوش وہابی کے ساتھ کافی بوجھل اور شاق قسم کی گفتگو کے بعد اکثر اوقات، میں اپنے آپکو نارمل کرنے کیلئے ایک لمبی چہل قدمی اور گہرے گہرے سانس لیتا اور ساتھ ساتھ سینکڑوں مرتبہ درود شریف پڑھتا تاکہ اس گفتگو کے زہریلے اثرات کو زائل کیا جاسکے۔
ایک مرتبہ یوگنڈا کے ایک شہری سے میری گفتگو ہوئی جو اپنے ملک میں اسلام کے زوال کا رونا رو رہا تھا اور بڑی تلخی کے ساتھ وہابیوں کو اسکا ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا۔ اس نے کہا کہ ان لوگوں کے آنے سے پہلے، اسلام یوگنڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا اور اس کی بڑی وجہ تھی لوگوں کی مولود کی محفلوں کے ساتھ رغبت اور اس قسم کی ثقافتی تقریبات میں ذوق و شوق کے ساتھ شرکت۔ اس نے بتایا کہ ردمRhythm اور تال کے ساتھ گیت گانا، افریقہ کی روح ہے اور انہیں اسکے ساتھ بہت لگاؤ ہے۔ لیکن جب بھرپور مالی وسائل اور آنکھوں میں تباہ کن شدت کے ساتھ یہ وہابی وہاں وارد ہوئے تو انہوں نے آہستہ آہستہ مولود کی محفلوں سے عوام کو متنفر کرنے اور روکنے کا کام شروع کردیا اور یہ نوبت آن پہنچی کہ مولود کو گناہ باور کروا کر عوام کی زندگیوں سے نکال باہر پھ ینکا گیا اور مذہب کی ایک بہت خشک اور جامد شکل کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک منظم اینٹی صوفی اور اینٹی مولود فرقے کی وجہ سے عیسائی مشنریوں کو اس علاقے میں اپنے افریقی گیتوں کے ساتھ زیادہ پزیرائی ملنا شروع ہوگئی اور عیسائیت پھیلنے لگی۔
ادھر مکہ میں جلال کی حالت دن بہ دن بد سے بد تر ہوتی گئی۔ اور ہماری جب بھی گفتگو ہوتی وہ میرے بالکل قریب ہوکر اپنے ہاتھ کی انگلی کا رخ میرے کوٹ کے کالر کی طرف کرتے ہوئے اپنا موقف زور و شور سے پیش کرتا۔ اسکی یہ حرکات و سکنات بڑی شدید قسم کی وہابیت کی علامات تھیں۔ میں جب اس سے محبت، حسن، جمال شاعری، فنونِ لطیفہ کی بات کرتا تو اسکے چہرے پر ایک بڑی عجیب تمکنت اور اپنے درست ہونے کے احساس سے لبریز ایک حقارت آمیز تاثر نمودار ہوتا، کیونکہ اب یہ سب باتیں بدعت تھیں۔ اب کنکریٹ سے بنی ہوئی ہلکے سبز رنگ کے قالین اور ملٹی کلر پتیوں والی فلوریسنٹ ٹیوبوں سے مزین مسجد اور قرونِ وسطیٰ کے عظیم فنکاروں اور کاریگروں کی بنائی ہوئی مسجد میں اسکے نزدیک کوئی فرق نہیں تھا دونوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ یونیورسٹی میں جلال کےکمرے میں جلال سمیت تین آدمی رہتے تھے، آہستہ آہستہ ہر قسم کی "علاقائی" مسلم ثقافت کی عکاس اشیاء۔۔۔، یعنی کشمیر کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے پارچہ جات، خطاطی کے طغرے، عرق ِ گلاب چھڑکنے والے ظروف اور اسکی پسندیدہ سیاہ آبنوس کے دانوں والی تسبیح،۔۔۔ان سب سے اسکا کمرہ محروم ہوتا گیا۔ اسکی زندگی سے یہ چیزیں خارج ہوگئیں اور زندگی کے جمالیاتی پہلو سے اسکی حیات چھین کر مذہب کی ایک انتہائی الٹراوائیلٹ قسم کی شعاؤں سے اسے بالکل بے جان اور بنجر کردیا گیا۔ اسکے پڑھنے کی دلچسپیاں بھی تبدیل ہوگئیں۔ رومی ، ، سنائی ،شبستری اور دیگر عارفانہ کلام والے شعراء جنکی شاعری اسے بہت پسند تھی، اب یہ سب اسکے نزدیک" صوفی" لوگ تھے اور وہابیت کی سرزمین ہر قسم کے ادبی لٹریچر کیلئے اتنی ہی بنجر اور بے آب و گیاہ تھی جتنی اسلام کے دوسرے فنونِ لطیفہ کیلئے ۔
میں نے بڑے دکھ کے ساتھ اسکی یہ کایا کلپ ہوتے دیکھی، کیونکہ دوسرے نومسلموں کی طرح مجھے بھی یہ امید تھی کہ وہ اپنی فطری ثقافتی جمالیت پسندی کو اپنے اسلامی علم کے ساتھ ملا کر واپس امریکہ میں انگریزی اور عربی کو مہارت کے ساتھ جاننے والا ، اسلام کا ایک بڑا سفیر بن کر ابھرے گا۔ لیکن افسوس، کہ اسکی قسمت اسے وہابی ریگستان کی طرف لے گئی جہاں آخرکار اس نے پیاس کی شدت سے جان دے دی۔
اسے ایک روحانی قسم کے ہارٹ اٹیک سے گذرنا پڑا اور جیسا کہ ہمیں اندازہ تھا۔، اپنی فطری روحانی طبیعت کو تبدیل کرنے کی اسکی کوشش، بالآخر دم توڑ گئی ۔ ایک شدید قسم کے روحانی بحران کے بعد ۔۔۔جس نے یقیناؑ اسے ناقابلِ برداشت اذیت پہنچائی ہوگی۔۔۔ اس نے اچانک یونیورسٹی چھوڑ دی اور سعودیہ سے واپس جاکر اسلام کو خیر آباد کہہ دیا۔ اسکی ایک چائنیز لڑکی سے ملاقات ہوئی جس سے اس نے شادی کرلی اور بدھ مت کی ایک قسم نیشریرن Nicherian بدھ ازم کو اختیار کرلیا جو بلا شک و شبہ اسکی جمالیت پسندی اور عرفانِ جمال کیلئے اسکی فطری پیاس کو سیراب کرنے کیلئے وہابی ازم کی نسبت کہیں زیادہ مددگار ثابت ہوا۔
جلال کا کیس ایک انتہائی نوعیت کا کیس تھا، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ اکلوتا کیس نہیں ہے۔ عصرِ رواں کی بے راہ رویوں کے ردعمل میں وہابیت کو بہت تیزی سے فروغ حاصل ہوا لیکن اس نے ان ہزاروں لوگوں کی روحوں کو آلودہ کردیا ہے جن کو اگر روایتی اسلام کے علمبردار علماء اور روحانی رہنمائی کرنے والے شیوخ میسر آجاتے تو شائد وہ اصلی اسلام اور اس سے حاصل ہونے والے روحانی سکون سے ضرور روشناس ہوجاتے۔ اگر چہ میں جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ اللہ کی مشئیت کے تحت ہے، لیکن میں جلال کے ارتداد پر خود کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں۔ مجھے چاہئیے تھا کہ اسے اولیاء و صالحین کے پاس لیکر جاتااور اللہ اور اسکے رسول کی حقیقی محبت سے سرشار لوگوں کے حلقہ ہائے ذکر میں لیکر جاتا جو ابھی بھی سعودیہ میں خاموشی کے ساتھ گمنامی میں پھل پھول رہے ہیں۔ شائد اسی کی برکت سے وہ اس وائرس سے بچ جاتا جو اسکی روحانی موت یعنی ارتداد کا سبب بنا۔ لیکن یہ کیس اپنی انتہائی شکل میں، دراصل امتِ مسلمہ کے موجودہ بحران کا ایک اظہار ہے۔ ہمارا اپنی روحوں میں موجود جمال کو پہچاننے سے انکار ۔۔۔وہ جمال جو روایتی مسلمان کی زندگی سے چھلکتا تھا۔۔۔ اور اس انکار پر اصرار ، ہماری روحانی زندگی میں اس جمال کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور اپنے پروردگار سے دوری کا مظہر ہے ، اور اسکی وجہ اصل روایتی اسلام کا انحطاط اور اسکی جگہ ایسے افکار و نظریات کا پھیلاؤ ہے جو اسلام کی فطری خوبصورتی کے ساتھ قطعا ہم آہنگ نہیں ہیں۔
لیکن شکر ہے کہ اب بھی امت میں اولیاء ہیں ، صالحین ہیں، صوفیہ ہیں، عظیم فنکار اور دستکار ہیں۔ معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے نے ان باتوں کیلئے ایک حفاظتی عامل کا کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں سفر کرنے کی بناء پر میں یہ بخوبی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کمیونٹی میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ روحانیت اور انسانیت کی معراج کو پہنچ سکےاور تاریخ کے اس مرحلے میں جب مغرب اپنے مذہب کے انحطاط کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، زیادہ ضروری ہے کہ اسلام کے جمال کو مسخ کرنے والے وہابی ازم کے طاعون کے مقابل، اس اسلامی ورثے کی حفاظت کی جائے تاکہ نہ صرف جدید مسلمان، بلکہ اہلِ مغرب کیلئے بھی اپنے روحانی خلاء کو پر کرنے کیلئے یہ ایک بہترین نعم البدل ثابت ہو۔
آخری تدوین: